چوری کا مقدمہ ایک سال بعد درج لاہور پولیس نے افسران کو بے وقوف بنادیا
پولیس نے ایک برس تک ڈکیتی کا پرچہ نہ کاٹا اور پھر ملزم پکڑے جانے پر ایک سال بعد ایف آئی آر درج کرنا پڑگئی
پولیس نے بین الاقوامی ادارے ورلڈ کرائم انڈیکس کی رپورٹ کا سہارا لیتے ہوئے جرائم کی شرح میں کمی کا دعوی کر رکھا ہے لیکن ایک کیس نے حکام کے دعووں کو مشکوک بنادیا۔ تھانہ شادمان کی حدود میں جولائی 2018ء میں موبائل فون چوری کی واردات ہوئی لیکن پولیس نے مقدمہ ٹھیک ایک سال بعد جولائی 2019 میں درج کیا۔
28 جولائی 2018ء کو تھانہ شادمان کی حدود میں واقع ایک میڈیکل لیبارٹری میں موبائل فون چوری کی واردات ہوئی۔ متاثرہ شہری محمد افضل نے انداراج مقدمہ کے لیے پولیس کو درخواست دی۔ جس پر پولیس نے محمد افضل کو پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی سے منسلک فرنٹ ڈیسک کی کمپیوٹرائزڈ سلپ فراہم کردی۔
متاثرہ شہری نے تفتیشی ٹیم کو واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سمیت دیگر شواہد فراہم کئے اور تھانے کے متعدد چکر لگائے لیکن پولیس نے ایک سال تک واردات کا مقدمہ درج نہ کیا۔ رواں سال 20 جولائی کو محمد افضل نے موبائل مارکیٹ میں اس چور کو دیکھ کر دبوچ لیا اور ون فائیو پر پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس نے ایک سال قبل ہونے والی واردات میں ملوث ملزم کو دیکھا تو کشمکش میں پڑگئی کہ اب کارروائی کیسے کرے۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد پولیس کو مجبوراً مقدمہ درج کرنا پڑا۔
لاہور میں پولیس حکام نے تمام تھانوں میں جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم متعارف کروا رکھا ہے، جس کے مطابق کسی بھی تھانےمیں سائل کی جانب سے دائر درخواست کی تفتیش کے بعد رپورٹ جمع کروائی جاتی ہے۔ اگر شکایت کی ضابطہ فوجداری کےتحت قانونی کارروائی بنتی ہے تو مقدمے کا اندراج لازم ہوتا ہے ورنہ درخواست کو فارغ کردیا جاتا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز محمد اشفاق خان کا پولیس کی غفلت پر کہنا ہے کہ پولیس کا ایسا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ مقدمے کے اندراج میں تاخیر کیوں ہوئی، تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کریں گے۔
آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز نے ایف آئی آر کے فوری اندراج کا حکم دے رکھا ہے۔ حکام کی جانب سے مشکل میں پھنسے شہریوں کی مدد کے لیے تمام ایس ایچ اوز کو سائلین کی درخواستوں پر قانونی کارروائی کی کھلی اجازت ہے۔ اندارج مقدمہ میں تاخیری حربے استعمال کرنے والے پولیس افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے۔
پولیس نے ورلڈ کرائم انڈیکس کی حالیہ جاری شدہ رپورٹ کا سہارا لیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ صوبائی دارالحکومت لاہور کی رینکنگ میں 43 درجے بہتری آئی ہے۔ نئی لسٹ کے مطابق، دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں لاہور 174 سے 217ویں نمبر پر آگیا ہے۔ تھانہ شادمان میں پیش آنے والےاس واقعے نے پولیس کے اعداد و شمار کو شاکی کردیا ہے۔
28 جولائی 2018ء کو تھانہ شادمان کی حدود میں واقع ایک میڈیکل لیبارٹری میں موبائل فون چوری کی واردات ہوئی۔ متاثرہ شہری محمد افضل نے انداراج مقدمہ کے لیے پولیس کو درخواست دی۔ جس پر پولیس نے محمد افضل کو پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی سے منسلک فرنٹ ڈیسک کی کمپیوٹرائزڈ سلپ فراہم کردی۔
متاثرہ شہری نے تفتیشی ٹیم کو واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سمیت دیگر شواہد فراہم کئے اور تھانے کے متعدد چکر لگائے لیکن پولیس نے ایک سال تک واردات کا مقدمہ درج نہ کیا۔ رواں سال 20 جولائی کو محمد افضل نے موبائل مارکیٹ میں اس چور کو دیکھ کر دبوچ لیا اور ون فائیو پر پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس نے ایک سال قبل ہونے والی واردات میں ملوث ملزم کو دیکھا تو کشمکش میں پڑگئی کہ اب کارروائی کیسے کرے۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد پولیس کو مجبوراً مقدمہ درج کرنا پڑا۔
لاہور میں پولیس حکام نے تمام تھانوں میں جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم متعارف کروا رکھا ہے، جس کے مطابق کسی بھی تھانےمیں سائل کی جانب سے دائر درخواست کی تفتیش کے بعد رپورٹ جمع کروائی جاتی ہے۔ اگر شکایت کی ضابطہ فوجداری کےتحت قانونی کارروائی بنتی ہے تو مقدمے کا اندراج لازم ہوتا ہے ورنہ درخواست کو فارغ کردیا جاتا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز محمد اشفاق خان کا پولیس کی غفلت پر کہنا ہے کہ پولیس کا ایسا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ مقدمے کے اندراج میں تاخیر کیوں ہوئی، تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کریں گے۔
آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز نے ایف آئی آر کے فوری اندراج کا حکم دے رکھا ہے۔ حکام کی جانب سے مشکل میں پھنسے شہریوں کی مدد کے لیے تمام ایس ایچ اوز کو سائلین کی درخواستوں پر قانونی کارروائی کی کھلی اجازت ہے۔ اندارج مقدمہ میں تاخیری حربے استعمال کرنے والے پولیس افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے۔
پولیس نے ورلڈ کرائم انڈیکس کی حالیہ جاری شدہ رپورٹ کا سہارا لیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ صوبائی دارالحکومت لاہور کی رینکنگ میں 43 درجے بہتری آئی ہے۔ نئی لسٹ کے مطابق، دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں لاہور 174 سے 217ویں نمبر پر آگیا ہے۔ تھانہ شادمان میں پیش آنے والےاس واقعے نے پولیس کے اعداد و شمار کو شاکی کردیا ہے۔