1290 سال پرانا مزار عبداللہ شاہ غازیؒ
حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ سندھ میں آنے والے پہلے سادات بزرگ تھے، جنہوں نے یہاں اسلام کا بیج بویا اور اس کی آبیاری کی
کراچی میں قائم عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار 1290 سال قدیم ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کراچی کی قدامت کے حوالے سے اکثر وبیشتر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس شہر کو بھوجومل نامی تاجر نے 1729 میں اس وقت قائم کیا جب کھرک کی بندرگاہ ریت سے اٹ گئی۔ جس کے پیش نظر اس تاجر نے ماہی گیر خاندانوں کے ہمراہ منوڑہ کے علاقے کا رخ کیا، جو کہ اس وقت بے رحم سمندر کے درمیان ایک پیالہ نما جزیرہ کی طرح بے آباد تھا۔ بھوجومل نے وہاں ماہی گیر خاندانوں کے ساتھ سکونت اختیار کرلی۔ چونکہ اس وقت نہ کوئی پولیس تھی اور نہ ہی فوج، بحری قزاقوں کا ہر طرف زور تھا اور وہ ساحلی بستیوں اور جزیروں پر جاکر لوٹ مار کرتے تھے۔ بھوجومل کے ساتھ آنے والی ایک ضعیف خاتون نے مشورہ دیا کہ وہ اس جزیرے کے چاروں اطراف مضبوط دیواریں تعمیر کروائے تاکہ لوگ قزاقوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بھوجومل نے فوری طور پر اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے جزیرے پر بسنے والے اور بیرون ملک سے آنے والے مزدوروں کے ساتھ مل کر فصیل شہر تعمیر کی اور شہر سے باہر نکلنے کےلیے 2 دروازے بھی بنوائے، جن میں سے ایک دروازہ کھارادر اور دوسرا دروازہ میٹھادر کی جانب کھلا کرتا تھا۔
دن گزرتے رہے اور مختلف علاقوں کے لوگ اس جزیرے پر آکر نہ صرف آباد ہوتے رہے بلکہ انہوں نے اسی بستی میں مچھلی، مچھلی کی آنتوں، ہڈیوں، یہاں تک کہ سمندر سے نکلنے والے موتی کے کاروبار میں عروج حاصل کیا۔ اسی جزیرے پر انسانوں کی اسمگلنگ بھی ہوتی رہی اور جب 1839 میں انگریزوں نے قلعہ بند شہر پر قبضہ کرلیا تو ان کے نام کا سکہ چلنے لگا۔ اسی دور میں آبادی کے لحاظ سے جب مزید علاقوں کی ضرورت پڑی تو قلعے کے باہر بھی بستیاں بسائی جانے لگیں۔ 1860 میں فصیل شہر کو مسمار کردیا گیا اور شہر آگے کو پھیلتا ہوا صدر اور سولجر بازار تک جاپہنچا۔
کم و بیش کراچی کی قدامت کے حوالے سے اسی قسم کی تاریخ سنائی اور پڑھاتی جاتی ہے لیکن اس بات میں قطعی طور پر کوئی صداقت نہیں کہ 1729 سے پہلے یہ خطہ بے آباد تھا اور یہاں کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ اگر کراچی کی تعمیر کے سال کے طور پر 1729 کو مان بھی لیا جائے تو یہ 3 صدیوں سے بھی کم 289 سال بنتی ہے، جو کہ کسی طور پر شہر کی قدامت کے حوالے سے درست نہیں۔ کیو نکہ اس سے قبل بھی بے نام کراچی میں باقاعدہ طور پر آبادیاں گوٹھوں، قصبوں، جزیروں اور اس کے کناروں پر آباد تھیں، جہاں مختلف مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگ آباد تھے اور اس بات کی زندہ مثال کلفٹن کے علاقے میں ایک ٹیلے پر واقع سندھ میں آنے والے پہلے سادات بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار ہے، جو 1290 سال سے اسی جگہ آن بان اور شان کے ساتھ موجود ہے۔
اس مزار پر ابتدا میں زائرین لانچوں، گدھاگاڑیوں، اونٹ گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں میں آتے تھے، مگر کیونکہ اب ماہرین کے مطابق سمندر کم از کم 50 میل پیچھے کی جانب جاچکا ہے، لہٰذا اس مزار کو اب جدید انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ پوش علاقے کلفٹن کے درمیان واقع اس مزار پر ملک بھر سے زائرین کی بڑی تعداد جدید ٹرانسپورٹ کے ذریعے حاضری دینے کےلیے یہاں آتی ہے۔ اس مزار کی تاریخ دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کراچی صرف 3 صدیوں سے آباد علاقہ نہیں، بلکہ ہزاروں سال قدیم علاقہ ہے۔
اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل قاسم علی قاسم کا کہنا ہے کہ آج کے کراچی کے بیشتر علاقے کم و بیش 7 سے 8 ہزار سال قدیم ہیں اور اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کو ملیر میں نل گوٹھ اور گلستان جوہر کی پہاڑیوں پر کھدائی کے دوران پتھر دور کے اوزار سے لے کر نوادرات اور مدفن دریافت ہوچکے ہیں، جو کہ سرزمین سندھ کی قدامت 7 سے 8 ہزار سال قدیم بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملیر نل گوٹھ اور گلستان جوہر کی پہاڑیوں پر محکمہ آثار قدیمہ نے جو کھدائی کی تھی، اس کے نتیجے میں ملے قدیم نوادرات آج بھی کراچی یونیورسٹی جغرافیہ ڈپارٹمنٹ اور قومی عجائب گھر کراچی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے بعض ماہرین نے کراچی کے موجودہ خطے پر انسانی آبادیوں کے 6 سے 7 ہزار سال پرانے ہونے کے دعوے کے ساتھ مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کو شہر کی قدامت کی دلیل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس وقت حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کو اس ٹیلے پر دفن کیا گیا، اس وقت بھی اس کے قریبی علاقوں میں بستیاں قائم تھیں، جو کہ انتہائی پابندی کے ساتھ مزار پر حاضری دینے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ اس وقت مغرب کے بعد سمندر کی سطح بلند ہوجایا کرتی تھی، لہٰذا زائرین شام سے پہلے ہی درگاہ پر حاضری دینے اور فاتحہ خوانی کے بعد لوٹ جاتے تھے اور اس علاقے میں ماسوائے اندھیروں اور سمندر کے خوفناک شور کے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔
جہاں تک درگاہ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کی تعمیر و توسیع کا تعلق ہے، انہیں 1290 سال قبل 151 ہجری میں سمندر میں گھرے ایک ٹیلے پر ان کے ساتھیوں نے دفن کیا اور کیونکہ وہ سندھ میں آنے والے پہلے سادات بزرگ تھے، جنہوں نے اسلامی بیج بویا اور پھر اس کی آبیاری کی اور محبت، اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور اس خطے کو ایمان کی ذرخیزی سے روشناس کیا، لہٰذا ان کے ہاتھوں مسلمان ہونے والے لوگوں نے مٹی کے گاروں اور لوندوں کے ذریعے ایک مقبرہ تعمیر کیا اور ان کے مقبرے کو نمایاں رکھنے کےلیے رنگ برنگے جھنڈے لگائے، جو کہ دور سے نظر آتے تھے۔
لوگ انہیں ایک صاحب کرامت بزرگ جان کر بڑی تعداد میں حاضری دینے کےلیے آیا کرتے تھے۔ ان ہی زائرین میں بابابھٹ جزیرے پر رہنے والا ایک شخص کاسودھارا جسے قاسم بھٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اپنے خاندان کے ساتھ کشتیوں میں بیٹھ کر مزار پر حاضری دینے کےلیے آتا تھا۔ بالخصوص 20، 21 اور 22 ذی الحج کو جب ان بزرگ کا عرس مبارک ہوتا، تو نہ صرف مزار کی دیکھ بھال کیا کرتا بلکہ عرس پر اس کی جانب سے ہی لنگر کا خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ قاسم بھٹی نامی اس شخص کے حکمراں طبقے سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ (اس نے ماضی میں سابق صدر پاکستان اسکندر مرزا کی اہلیہ کو بطور تحفہ ہیروں کا نیکلس پیش کیا تھا۔ مگر اس کو اسمگلر قرار دیتے ہوئے فوج نے ایوب خان کے دور حکومت میں گرفتار کیا تھا) قاسم بھٹی نے سب سے پہلے اس مزار کو پختہ کروانے کا کام کیا اور عرصہ دراز تک اسی کا تعمیر شدہ مزار قائم رہا۔
اس کے بعد سیہون شریف کے ایک صوفی بزرگ مرشد نادر علی شاہ نے مزار کی مزید تعمیر و توسیع کا کام کیا اور عرصہ دراز تک درگاہ کے انتظامات ان کے زیرنگرانی چلتے رہے۔ اس دور میں مزار کا داخلی دروازہ اور سیڑھیاں سیدھے ہاتھ پر ہوا کرتے تھے۔ جسے ان کے بعد مزار کی تعمیر و توسیع کرنے والے ایک ٹھیکیدار مدن علی مدن نے تبدیل کیا اور پورے مزار کو نیلے رنگ کے ٹائلوں سے مزین کیا، جو کہ عرصے تک اسی حالت میں موجود رہا۔ مگر پھر محترمہ بینظیر بھٹو شہید، جو کہ بزرگان دین کی خاص عقیدت مند تھیں اور انہوں نے سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر، دولہا شاہ، بری امام سمیت مختلف اولیا کرام کے مزارات کی تعمیر و توسیع کےلیے نمایاں طور پر کام کیا، جب اپنے پہلے دور حکو مت میں درگاہ عبداللہ شاہ غازیؒ آئیں تو انہوں نے مزار کی تعمیر و توسیع کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں طے یہ پایا کہ یہ مزار ایران کے شہر مشہد میں حضرت امام علی رضا کے مزار کی طرح تعمیر کیا جائے گا اور زائرین کی سہولت کےلیے یہاں خودکار سیڑھی لگائی جائے گی۔
اس حوالے سے انہوں نے ساڑھے10 کروڑ روپے کی منظوری بھی دی اور 24 فروری 1996 کو مزار پر حاضری دے کر یہ فارمولا طے کیا کہ آدھی رقم وفاقی حکومت اور آدھی رقم صوبائی حکومت دے گی۔ مگر پی سی ون کی منظوری کے بعد ان کی حکومت ختم کردی گئی اور یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ایک بار پھر ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور آصف علی زرداری صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے محکمہ اوقاف کے ذمے داران کے رجوع کرنے پر بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کو مزار اقدس کی تعمیر و توسیع کےلیے کہا۔ جس پر انہوں نے 2012 میں درگاہ کی تعمیرات کا آغاز کیا۔ کئی سال کی محنت کے بعد مزار کو نہ صرف تعمیر کیا بلکہ اسے اتنا کشادہ بنایا گیا کہ بیک وقت ہزاروں زائرین مزار پر حاضری دے سکیں۔ معذور زائرین، جو کہ عرصہ دراز سے مزار پر حاضری دینے کی خواہش رکھتے تھے مگر مزار تک پہنچنے کےلیے 97 سیڑھیاں طے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، ان کےلیے خصوصی طور پر لفٹ بھی لگائی گئی ہے تاکہ وہ بھی عام زائرین کی طرح مزار پر جاکر فاتحہ خوانی کرسکیں۔ مزار کی تعمیر و توسیع میں اس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ کسی طور پر اس کی قدامت متاثر نہ ہو۔ لہٰذا اس کے گنبد میں کسی قسم کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی اور اب تک پرانا گنبد دور سے دکھائی دیتا ہے۔
عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر پہلے خودکش حملہ بھی ہوچکا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزار کو محفوظ بنانے کےلیے اس کی دیواریں بلٹ بروف بنائی گئی ہیں، جبکہ مشکوک افراد کی نگرانی کےلیے 70 سے زائد کیمرے نصب کئے گئے ہیں، جس سے 24 گھنٹے مزار کی نگرانی کی جاتی ہے۔ زائرین کی سہولت کےلیے دیدہ زیب مسجد کی تعمیر کے ساتھ 64 دکانیں بھی تعمیر کی گئی ہیں، تاکہ ان سے آنے والے ماہانہ کرایے سے مزار کے انتظامات کو چلایا جاسکے۔ اس وقت ان دکانوں سے محکمہ اوقاف کو سالانہ بنیادوں پر 7 کروڑ 45 لاکھ روپے، جبکہ مزار پر موجود 30 چندہ پیٹیوں سے ماہانہ 22 سے 25 لاکھ روپے کے علاوہ چپلوں کے ٹھیکے سے سالانہ 66 لاکھ 15 ہزار روپے کی آمدنی ہورہی ہے، جس سے مزار کے انتظام کو سنبھالا جارہا ہے۔
درگاہ عبداللہ شاہ غازیؒ پر محکمہ اوقاف کی جانب سے تعینات اسسٹنٹ منیجر پنو خان کا کہنا ہے کہ پہلے محکمہ اوقاف کو آمدن کم ہونے کے باعث ہر سال آنے والے عرس میں مشکلات کا سامنا تھا، مگر اب آمدنی کے مختلف ذرائع پیدا ہونے کے بعد محکمے کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں اور اسی بنیاد پر محکمہ جو کہ پہلے صرف عرس مبارک کے موقع پر زائرین کو لنگر کھلاتا تھا، اب تعمیر کئے گئے نئے سرکاری لنگر خانے میں زائرین کو عزت و احترام کے ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر لنگر کھلایا جاتا ہے، جس سے زائرین کے علاوہ قرب و جوار کی غریب بستیوں میں رہنے والے، جو کہ روٹی کے محتاج ہیں، اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔