حیدرآباد سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہےصابر قائمخانی
شہریوں کو پانی جیسی نعمت سے محروم کرنا نا انصافی ہے، اعلیٰ حکام نوٹس لیں
حق پرست ایم پی اے انجینئر صابر حسین قائم خانی نے واسا کے فراہمی و نکاسی آب کے کنکشن کاٹنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے حیدرآباد کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک قرار دیا ہے۔
ایکسپریس اخبار سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فنڈز میں کٹوتی کر کے واسا کو پہلے ہی تباہ کر دیا گیا جہاں ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کا فنڈ نہیں جبکہ واسا کی سبسڈی بھی بند کر دی گئی ، حکومت سندھ بھر میں ٹی ایم ایز کے فراہمی و نکاسی آب کے بلوںکی ادائیگی کر رہی ہے ۔
تاہم دو تین سال سے اس معاملے میں نہایت جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واسا حیدرآباد کی پہلے سبسڈی ختم کی گئی۔
اب اس کے واجبات بھی حکومت سندھ ادا نہیں کر رہی تاکہ حیدرآباد کے شہری پینے کے پانی سے بھی محروم ہو جائیں۔ انھوں نے کہاکہ اداروں کی جنگ میں عوام کے ساتھ مسلسل ظلم کیا جا رہا ہے۔
ہر تین ماہ بعد حیدرآباد کے عوام کے ساتھ بلیک میلنگ کی جاتی ہے اور پیسے نہ ملنے پر حیسکو، واسا اور سندھ حکومت کے بجائے حیدرآباد کے عوام کو سزا دیتا ہے جبکہ عوام، واسا اور حیسکو دونوں کو بجلی کے بل دیتے ہیں لیکن بل دینے کے بعد بھی پانی بند کرنا شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے جس کا سپریم کورٹ، صدر ، وزیر اعظم اور وزیر اعلی سندھ کو نوٹس لینا چاہیے۔
ایکسپریس اخبار سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فنڈز میں کٹوتی کر کے واسا کو پہلے ہی تباہ کر دیا گیا جہاں ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کا فنڈ نہیں جبکہ واسا کی سبسڈی بھی بند کر دی گئی ، حکومت سندھ بھر میں ٹی ایم ایز کے فراہمی و نکاسی آب کے بلوںکی ادائیگی کر رہی ہے ۔
تاہم دو تین سال سے اس معاملے میں نہایت جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واسا حیدرآباد کی پہلے سبسڈی ختم کی گئی۔
اب اس کے واجبات بھی حکومت سندھ ادا نہیں کر رہی تاکہ حیدرآباد کے شہری پینے کے پانی سے بھی محروم ہو جائیں۔ انھوں نے کہاکہ اداروں کی جنگ میں عوام کے ساتھ مسلسل ظلم کیا جا رہا ہے۔
ہر تین ماہ بعد حیدرآباد کے عوام کے ساتھ بلیک میلنگ کی جاتی ہے اور پیسے نہ ملنے پر حیسکو، واسا اور سندھ حکومت کے بجائے حیدرآباد کے عوام کو سزا دیتا ہے جبکہ عوام، واسا اور حیسکو دونوں کو بجلی کے بل دیتے ہیں لیکن بل دینے کے بعد بھی پانی بند کرنا شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے جس کا سپریم کورٹ، صدر ، وزیر اعظم اور وزیر اعلی سندھ کو نوٹس لینا چاہیے۔