حج بیت اﷲ 2019
عازمین حج کا انتظام و انصرام کرنا یقینی اعتبار سے نہایت مشکل کام ہے
عازمین حج کی اکثریت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچ چکی ہے۔ اس سال مجموعی طور پر د و لاکھ خوش نصیب پاکستانی حج کی سعادت حاصل کریں گے۔
حج ملت اسلامیہ کا ایک ایسا رکن ہے جس کی ادائیگی کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے۔ ہر صاحب استطاعت مرد اور عورت پر زندگی میں حج ایک بار فرض ہے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ استطاعت ہو تو حج فوراً واجب ہو جاتا ہے، لیکن امام شافعی ؒکا خیال ہے کہ حج کا فریضہ آخر عمر تک موخر کیا جا سکتا ہے۔
حج کی خارجی شکل صدیوں سے ایک حد تک ویسی ہی ہے۔ داخلی اعتبار سے حج ایک کیفیت ہے۔ ایک جذبہ ہے، ایک سرشاری ہے۔ حج اﷲ کا حکم ہے اور حکم میں "نہ " کی کوئی گنجائش نہیں۔ حج ایک اجتماعی رسم کی ادائیگی بھی ہے، ایک ذاتی تجربہ بھی اور ایک روحانی منزل بھی۔ تاریخی اعتبار سے حج 9 ہجری (630 عیسوی) میں مسلمانوں پر فرض ہوا۔ حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک ہی بار 10 ہجری (631 عیسوی) میں حج کیا۔
حج کے لیے مسلمان اپنی جان، اپنا مال، اپنا وقت صرف کر کے احرام کی دو چادروں میں خود کو لپیٹ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہو جاتا ہے۔ وقوف عرفات کو حج کا رکن اعظم یعنی سب سے بڑا رکن قرار دیا گیا ہے اگر عازمین حج باقی تمام مناسک ادا کر لیں لیکن وہ نو ذوالحجہ کو کسی بھی وجہ سے میدان عرفات کی حدود میں نہ پہنچ سکیں تو ان کا حج ادا نہیں ہوتا۔
عرفات میں روشن دن میں داخل ہوتے ہیں اور غروب آفتاب کے ساتھ کْوچ کر جاتے ہیں۔ جب کہ مزدلفہ میں رات کو داخل ہوتے ہیں اور فجر کے بعد وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ میدان عرفات میں عازمین حج جب دو سفید کپڑوں کے ٹکڑوں (احرام) میں گڑ گڑا کر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں تو بعض مفسرین اس منظر کو میدان حشر میں پیش آنے والے منظر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جب لوگ کفن پہنے میدان حشر میں اعمال کا حساب دے رہے ہوں گے تو منظر کچھ اسی طرح کا ہو گا۔
عرفہ کا دن مغفرت اور گناہوں سے معافی کا دن ہے۔ یہاں شرطِ اول صرف قیام ہے۔ آپ اﷲ سے جو چاہیں مانگیں، کوئی پابندی نہیں۔ اس دن قدرت نے آپ کو مانگنے کا کھلا وقت دیا ہے۔ عرفات میں قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: کسی بھی دن شیطان اتنا چھوٹا، ذلیل اور حقیر اور پریشان نہیں ہونا جتنا عرفہ کے دن کیونکہ اس دن اﷲ تعالیٰ کی رحمت کثرت کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ بڑ ے بڑے گناہ معاف فرماتا ہے۔ یہاں دعائیں مانگی جاتی ہیں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اﷲ کریم کی تسبیح بیان کی جاتی ہے۔
میدانِ عرفات میں اتنی بڑی تعداد میں مقررہ وقت میں لوگوں کو پہنچانے اور خور و نوش کا انتظام کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ہزارہا بسیں، گاڑیاں اور لاکھوں پیدل افراد جب منیٰ سے عرفات اور پھر اْسی شام عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو انسانوں کا سمندر متحرک نظر آتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عازمین حج کی ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ اب تو ٹرانسپورٹ کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے خصوصی میٹرو ٹرین سروس بھی شروع ہو چکی ہے۔ یہ میٹرو ٹرین پہاڑی سرنگوں اور دشوار گزار راستے سے گزرتی ہوئی۔ عازمین کو منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ پہنچاتی ہے۔
مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں پندرہ مقامات ایسے ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ ان میں سات مقامات بیت اﷲ اور مطاف میں تین مقامات صفا اور مروہ میں اور پانچ جگہیں وہ ہیں جہاں ایام حج میں عازمین جاتے ہیں۔ بیت اللہ اور مطاف میں قبولیت والی جگہیں۔ بیت اﷲ شریف کے اندر، مقام ملتزم پر، حجر اسود کے پاس، میزاب کعبہ کے نیچے، مقام ابراہیم کے پیچھے، زم زم کے پاس اور طواف کے دوران۔ صفا اور مروہ کے تین مقامات میں سے دو مقامات تو صفا اور مروہ کے پہاڑیوں کے پاس اور قبولیت کی تیسری جگہ سعی کے عمل کے دوران ساتوں چکر ہیں۔ باقی پانچ مقامات میں وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور تینوں جمرات ہیں۔
بیسویں صدی میں جب سعودی عرب میں تیل دریافت نہیں ہوا تھا اور جدید ترقی کے ثمرات یہاں تک نہ پہنچے تھے تب عازمین حج بڑی صعوبتیں اٹھا کر حج کے لیے آتے تھے۔ راستے لٹیروں کی آماج گاہ تھے۔ عازمین حج یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ عرب سے بخیریت واپس لوٹ آئیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ جدہ سے مکہ کا سفر اونٹ پر تین دن اور مکہ سے مدینہ کی مسافت بارہ دن میں طے ہوتی تھی۔
اب سٹرک کے راستے جدہ سے مکہ ایک گھنٹہ سے کم اور مکہ سے مدینہ کی مسافت چند گھنٹوں میں طے پا جاتی ہے۔ ان ایام میں عمرہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ اس دور میں ارض ِمقدس کا سفر کئی ماہ میں طے ہوتا تھا۔ حج کے قدیم سفر ناموں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات تو عازمین حج کو آمد رفت میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ جاتا تھا۔
عازمین حج کا انتظام و انصرام کرنا یقینی اعتبار سے نہایت مشکل کام ہے۔ تمام تر انتظامات کے باوجود عازمین حج کو مناسک کی ادائیگی اور مکہ المکرمہ اور مدینہ النبی ﷺ میں قیام کے دوران مختلف نوعیت کی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ زائرین کو حج کی ادائیگی میں آسانی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہنا چاہیے۔