’’75برس ‘‘
رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ مجھ سمیت ہم سب کو خیر کے فروغ کی توفیق
سب سے پہلے تو رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ان 75 برسوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آنے دیا جب اُس کی رحمت کا سایا میرے ساتھ نہ ہو اور جتنے چھوٹے بڑے امتحان اس عرصے میں درپیش رہے مجھے اُن کا سامنا کرنے ا ور رستہ نکالنے کی توفیق دی۔
یہ استطاعت بھی عطا فرمائی کہ میں مختلف موضوعات اور اصناف پر ستر (70) کے قریب ایسی کتابیں بھی لکھ سکا جنہوں نے قارئین کی بھر پور توجہ حاصل کی اور پھر اُن سب ''بندوں'' کا شکریہ جنہوں نے اس سفر میں میری اعانت کی اور بُرے وقتوں میں نہ صرف مجھے حوصلہ دیا کہ میرے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر کھڑے بھی ہوئے، ان میں سے زیادہ تر لوگ مجھ سے پہلے اس سفر پر جا چکے ہیں جس کی ٹکٹ ہر ابنِ آدم کو پیدائش کے ساتھ ہی مل جاتی ہے۔ میں جو ہوں اور جہاں کھڑا ہوں اس میں اُن کی محبتوں کا دخل ایسا ہے کہ جس کا اعتراف نہ کرنا انتہائی کم ظرفی کی بات ہو گی۔
جیسا کہ میں اپنی مختلف تحریروں اور انٹرویوز کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ میرا تعلق ایک غریبی کی حد تک سفید پوش اور دستکار گھرانے سے ہے جس کی سماجی اور تعلیمی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ میرے دادا حاجی قطب الدین 1930 کے لگ بھگ اپنے چھ بیٹوں سمیت سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوئے اور فلیمنگ روڈ لاہور (جو اب آقا بیدار بخت روڈ کہلاتی ہے) پر ایک ایسی کٹڑی میں رہائش پذیر ہوئے جس میں ہمارے ساتھ والا گھر مشہور ماہر تعلیم اور اپنے دور کی ایک مستند علمی و ادبی شخصیت آقا بیدار بخت کا تھا۔
اب یہ حسن اتفاق تھا یا تقدیر کا سوچا سمجھا فیصلہ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ عین ممکن تھا اگر مجھے آقا بیدار بخت مرحوم کی شفقت اور رہنمائی اور اُن کے گھر پر موجود کتابوں تک رسائی نہ ملتی اور مجھے بچپن ہی سے مطالعے کی عادت نہ پڑ جاتی تو آج میں بھی اپنے دیگر کزنز کی طرح ایک گزارے لائق بزنس مین تو ہوتا مگر میری ا ور کوئی پہچان نہ ہوتی۔
دوسرا کرم رب کریم نے میرے والد مرحوم محمد اسلام کی شکل میں کیا کہ انھوں نے نہ صرف اپنے باقی بھائیوں کے برعکس میری تعلیم پر توجہ دی بلکہ کبھی مجھ پر اپنے فیصلے مسلّط کرنے کی کوشش بھی نہیں کی اور ہمیشہ اپنے محدود وسائل کے باوصف میری حوصلہ افزائی کی ۔1975 میں جب میری شادی میری چچا زاد فردوس نسیم سے ہوئی تو اُس وقت اُن کے معاشی حالات اور رہن سہن ہم سے بہت بہتر تھا لیکن آفرین ہے اس خاتون پر کہ وہ اس حوالے سے کبھی حرفِ شکائت لب پر نہیں لائی اور معاشی اعتبار سے میری جدوجہد کے ابتدائی برسوں میں بڑے صبر ، استقامت اور خوشدلی سے میرا ساتھ دیا اور یہی وصف اپنے تینوں بچوں کو بھی منتقل کیا کہ اللہ کے فضل سے ہر طرح کی خوشحالی کے باوجود وہ محبت ، ایمانداری اور رشتوں کے احترام پر یقین رکھنے والے باعمل انسانوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ کہانی میں نے آپ سے اس لیے بھی شیئر کی ہے کہ ایک تو اس کا ''موقع'' بھی بنتا ہے اور دوسرے اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ ''مثبت روّیئے'' کس طرح زندگی کی مشکلات کو کم اور اس کے ماحول کو بہتر اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ آج ہم اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے ہر سہولت دینے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اُن کے اخلاقی، جمالیاتی اور ذہنی روّیوں کی تعمیر اور نگہداشت کے حوالے سے وہ ذمے داری شائد ٹھیک سے ادا نہیں کر پاتے جو ہمارے غریب اور اَن پڑھ والدین نے بہت خوش اسلوبی سے ادا کی تھی۔
زندگی کے اس موڑ پر جب طے کردہ سفر زیادہ اور آیندہ کی منزلیں قریب تر ہیں جب میں اپنی ذاتی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے آسودگی کے مقابلے میں پچھتاوے اور کامیابیوں کے سامنے حسرتیں تعداد اور شدّت میں بہت کم نظر آتی ہیں اور اس کے لیے میرا دل شکر اور شکریوں سے معمور ہے مگر جب میں اپنے ماحول اور اس دوران میں مجموعی انسانی صورتِ حال پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ احساس بہت پریشان کرتا ہے کہ شائد ہم زندگی کی سطح کو بہتر بنانے کے ضمن میں اپنے حصے کا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے سکے۔
دوسروں کی کی ہوئی ایجادات اور بنائی طرح طرح کی اشیاء اور سہولتوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ ہم ایک صارف اور پسماندہ معاشرہ ہیں بلکہ اخلاقی، کردار، روّیوں اور انسان دوستی کے حوالے سے بھی ہمارا ریکارڈ بہت زیادہ اچھا اور قابلِ اطمینان نہیں ہے، بلاشبہ دنیا کے پاس ہمیں دینے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہمیں اُس سے اجتماعی دانش کا وہ سبق لینا بھی چاہیے جس کے لیے ہمیں صاف اور واضح ہدایت بھی کی گئی ہے مگر اپنے تمام تر زوال اور ہمہ گیر پستی کے باوجود اب بھی ہمارے پاس اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھنے اور اس کا زندہ حصہ دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، مسئلہ صرف ان دونوں کے درمیان پُل تعمیر کرنے کا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس تعمیر اور ملاپ کے کام میں ہم سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ جتنا وقت میرے پاس باقی بچا ہے اُس میں اس عمل کو تیز اور متحرک کرنے کی کوئی ایسی صورت نکل سکے جس کو میں خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ سکوں اور اگر ایسا تقدیر میں نہیں تو کم از کم میری کوشش میں کوئی کمی نہ آئے۔
رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ مجھ سمیت ہم سب کو خیر کے فروغ کی توفیق اور ہمت دے اور اُن سب زندہ اور جا چکے لوگوں پر اپنا فضل ارزانی کرے جنہوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر اور کسی بھی طرح سے میرے لیے کچھ اچھا سوچا یا کیا اور اُن سب لوگوں کو معاف فرمائے جنہوں نے کسی بھی وجہ سے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آخر میں یہ کہ مجھے میرے ہی اُس شعر کے حصار سے باہر نکلنے اور اس سے آگے جانے کی توفیق دے کہ اُس کے دربار میں تو کوئی چیز بھی مشکل یا نا ممکن نہیں۔
اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات، مجھے بولنے تو دے
یہ استطاعت بھی عطا فرمائی کہ میں مختلف موضوعات اور اصناف پر ستر (70) کے قریب ایسی کتابیں بھی لکھ سکا جنہوں نے قارئین کی بھر پور توجہ حاصل کی اور پھر اُن سب ''بندوں'' کا شکریہ جنہوں نے اس سفر میں میری اعانت کی اور بُرے وقتوں میں نہ صرف مجھے حوصلہ دیا کہ میرے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر کھڑے بھی ہوئے، ان میں سے زیادہ تر لوگ مجھ سے پہلے اس سفر پر جا چکے ہیں جس کی ٹکٹ ہر ابنِ آدم کو پیدائش کے ساتھ ہی مل جاتی ہے۔ میں جو ہوں اور جہاں کھڑا ہوں اس میں اُن کی محبتوں کا دخل ایسا ہے کہ جس کا اعتراف نہ کرنا انتہائی کم ظرفی کی بات ہو گی۔
جیسا کہ میں اپنی مختلف تحریروں اور انٹرویوز کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ میرا تعلق ایک غریبی کی حد تک سفید پوش اور دستکار گھرانے سے ہے جس کی سماجی اور تعلیمی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ میرے دادا حاجی قطب الدین 1930 کے لگ بھگ اپنے چھ بیٹوں سمیت سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوئے اور فلیمنگ روڈ لاہور (جو اب آقا بیدار بخت روڈ کہلاتی ہے) پر ایک ایسی کٹڑی میں رہائش پذیر ہوئے جس میں ہمارے ساتھ والا گھر مشہور ماہر تعلیم اور اپنے دور کی ایک مستند علمی و ادبی شخصیت آقا بیدار بخت کا تھا۔
اب یہ حسن اتفاق تھا یا تقدیر کا سوچا سمجھا فیصلہ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ عین ممکن تھا اگر مجھے آقا بیدار بخت مرحوم کی شفقت اور رہنمائی اور اُن کے گھر پر موجود کتابوں تک رسائی نہ ملتی اور مجھے بچپن ہی سے مطالعے کی عادت نہ پڑ جاتی تو آج میں بھی اپنے دیگر کزنز کی طرح ایک گزارے لائق بزنس مین تو ہوتا مگر میری ا ور کوئی پہچان نہ ہوتی۔
دوسرا کرم رب کریم نے میرے والد مرحوم محمد اسلام کی شکل میں کیا کہ انھوں نے نہ صرف اپنے باقی بھائیوں کے برعکس میری تعلیم پر توجہ دی بلکہ کبھی مجھ پر اپنے فیصلے مسلّط کرنے کی کوشش بھی نہیں کی اور ہمیشہ اپنے محدود وسائل کے باوصف میری حوصلہ افزائی کی ۔1975 میں جب میری شادی میری چچا زاد فردوس نسیم سے ہوئی تو اُس وقت اُن کے معاشی حالات اور رہن سہن ہم سے بہت بہتر تھا لیکن آفرین ہے اس خاتون پر کہ وہ اس حوالے سے کبھی حرفِ شکائت لب پر نہیں لائی اور معاشی اعتبار سے میری جدوجہد کے ابتدائی برسوں میں بڑے صبر ، استقامت اور خوشدلی سے میرا ساتھ دیا اور یہی وصف اپنے تینوں بچوں کو بھی منتقل کیا کہ اللہ کے فضل سے ہر طرح کی خوشحالی کے باوجود وہ محبت ، ایمانداری اور رشتوں کے احترام پر یقین رکھنے والے باعمل انسانوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ کہانی میں نے آپ سے اس لیے بھی شیئر کی ہے کہ ایک تو اس کا ''موقع'' بھی بنتا ہے اور دوسرے اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ ''مثبت روّیئے'' کس طرح زندگی کی مشکلات کو کم اور اس کے ماحول کو بہتر اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ آج ہم اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے ہر سہولت دینے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اُن کے اخلاقی، جمالیاتی اور ذہنی روّیوں کی تعمیر اور نگہداشت کے حوالے سے وہ ذمے داری شائد ٹھیک سے ادا نہیں کر پاتے جو ہمارے غریب اور اَن پڑھ والدین نے بہت خوش اسلوبی سے ادا کی تھی۔
زندگی کے اس موڑ پر جب طے کردہ سفر زیادہ اور آیندہ کی منزلیں قریب تر ہیں جب میں اپنی ذاتی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے آسودگی کے مقابلے میں پچھتاوے اور کامیابیوں کے سامنے حسرتیں تعداد اور شدّت میں بہت کم نظر آتی ہیں اور اس کے لیے میرا دل شکر اور شکریوں سے معمور ہے مگر جب میں اپنے ماحول اور اس دوران میں مجموعی انسانی صورتِ حال پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ احساس بہت پریشان کرتا ہے کہ شائد ہم زندگی کی سطح کو بہتر بنانے کے ضمن میں اپنے حصے کا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے سکے۔
دوسروں کی کی ہوئی ایجادات اور بنائی طرح طرح کی اشیاء اور سہولتوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ ہم ایک صارف اور پسماندہ معاشرہ ہیں بلکہ اخلاقی، کردار، روّیوں اور انسان دوستی کے حوالے سے بھی ہمارا ریکارڈ بہت زیادہ اچھا اور قابلِ اطمینان نہیں ہے، بلاشبہ دنیا کے پاس ہمیں دینے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہمیں اُس سے اجتماعی دانش کا وہ سبق لینا بھی چاہیے جس کے لیے ہمیں صاف اور واضح ہدایت بھی کی گئی ہے مگر اپنے تمام تر زوال اور ہمہ گیر پستی کے باوجود اب بھی ہمارے پاس اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھنے اور اس کا زندہ حصہ دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، مسئلہ صرف ان دونوں کے درمیان پُل تعمیر کرنے کا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس تعمیر اور ملاپ کے کام میں ہم سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ جتنا وقت میرے پاس باقی بچا ہے اُس میں اس عمل کو تیز اور متحرک کرنے کی کوئی ایسی صورت نکل سکے جس کو میں خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ سکوں اور اگر ایسا تقدیر میں نہیں تو کم از کم میری کوشش میں کوئی کمی نہ آئے۔
رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ مجھ سمیت ہم سب کو خیر کے فروغ کی توفیق اور ہمت دے اور اُن سب زندہ اور جا چکے لوگوں پر اپنا فضل ارزانی کرے جنہوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر اور کسی بھی طرح سے میرے لیے کچھ اچھا سوچا یا کیا اور اُن سب لوگوں کو معاف فرمائے جنہوں نے کسی بھی وجہ سے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آخر میں یہ کہ مجھے میرے ہی اُس شعر کے حصار سے باہر نکلنے اور اس سے آگے جانے کی توفیق دے کہ اُس کے دربار میں تو کوئی چیز بھی مشکل یا نا ممکن نہیں۔
اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات، مجھے بولنے تو دے