کیا ٹرمپ کی ثالثی سے بھارت کو فائدہ ہوگا
ٹرمپ کے رجحان سے لگتا ہے کہ وہ کسی صورت میں کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے
عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سے مودی کی پراسرار خاموشی ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا اعتراف نہیں توکیا ہے۔ ورنہ مودی کہاں چپ رہنے والا شخص ہے، اگر اس نے ایسی پیشکش نہ کی ہوتی تو وہ اس سلسلے میں خواہ گول مول ہی سہی کسی نہ کسی قسم کا انکاری بیان اب تک ضرور داغ چکا ہوتا۔
بہرحال اب ایسا لگتا ہے کہ مودی کی ٹرمپ کے ساتھ ساری چاپلوسی بے کار ہی گئی۔ وہ بار بار زبردستی ٹرمپ سے گلے مل کر یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے ٹرمپ کو شیشے میں اتار لیا ہے۔
پھر وہ ٹرمپ کی رئیل اسٹیٹ کمپنی کو رشوت کے طور پر بھارت کے کئی شہروں میں سپر لگژری فلیٹس تعمیرکرنے کی اجازت دے کر ٹرمپ کو اپنے احسانوں تلے دبا کر بھی خیال کر رہے تھے مگر ٹرمپ اپنے قومی فرائض کو پس پشت ڈالنے والے رہنما نہیں ہیں۔ لگتا ہے مودی کی ساری بھاگ دوڑ اور محنت کا لب لباب ٹرمپ کو پاکستان سے اتنا بدظن کرنا تھا کہ وہ ایران سے پہلے پاکستان پرحملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے زرخرید غلاموں حامدکرزئی اور اشرف غنی کے ذریعے بھی ٹرمپ کو پاکستان کا دشمن بنانے کی بھرپورکوششیں کررہے تھے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی تھے۔
اس وقت دراصل ٹرمپ نے نیا نیا امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا وہ مودی اور افغان قیادت کی مشترکہ سازش کو سمجھ نہیں پا رہے تھے پھر ان دنوں پاکستانی سفارت کاری بھی کمزور ترین سطح پر تھی۔ بعد میں ایسا لگتا ہے ، امریکا کے حقیقی درد رکھنے والے کسی حق شناس مشیر نے انھیں اصل صورتحال سے واقف کرایا یا پھر ٹرمپ خود کافی غوروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکا کا اصل وفادار تو پاکستان ہی ہے۔
بھارت تو شروع سے ہی امریکا سے بے وفائی کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ اس وقت صرف اپنے مفاد کے لیے امریکا کے قریب آگیا ہے۔ وہ افغانستان کے کشیدہ حالات میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے کے علاوہ وہاں امریکی فوجوں کو طالبان سے ہمیشہ لڑتا دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی جاری رکھ سکے۔
افغان جنگ سے امریکاکو نقصان اور بھارت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد لگتا ہے ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے اور افغان جنگ کے خاتمے میں پاکستان کے کلیدی کردار سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ پاکستان کو رام کرنے کے لیے اول قدم کے طور پر بھارت کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں دہشت گردی پر مامور بلوچستان لبریشن آرمی پر پابندی عائدکردی۔
اس کے بعد عمران خان کو امریکا آنے کی دعوت دے دی گئی۔ خوش قسمتی سے عمران خان کا دورہ اتنا کامیاب رہا کہ بھارتی قیادت کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور مودی تو ایسے بے عزت ہوئے ہیں کہ قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں راہول گاندھی سمیت کئی اپوزیشن لیڈر مودی سے لوک سبھا آکر ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کرانے کی درخواست کا جواب مانگ رہے ہیں مگر مودی کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ تو لوک سبھا کا رخ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ہی وہاں تین طلاقوں کا مسلمانوں کو زک پہنچانے والا متنازعہ بل بھی اس کی پارٹی پاس کراچکی ہے۔
کچھ لوگوں کا پہلے یہ کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات اپنی طرف سے کہہ دی ہوگی۔ یہی بات بھارتی اخبارات بھی بڑے وثوق سے لکھ رہے تھے مگر ٹرمپ کے ایک مشیر مسٹر ملر نے یہ بیان دے کر ان کی بولتی بند کردی ہے کہ ٹرمپ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے۔ مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی اور وہی ٹرمپ نے میڈیا کے سامنے دہرائی ہے۔
اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مودی نے ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی اور اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ کشمیریوں پر ہر طرح کا ظلم کرکے حتیٰ کہ ان کا قتل عام کرکے بھی انھیں نہیں دبا سکے ان کی تحریک آزادی اب بھی زوروشور سے جاری ہے چنانچہ اب وہ خود بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہوگا اور اس کے لیے امریکی صدر ٹرمپ بہترین آدمی ہیں کہ وہ جو بھی حل نکالیں گے اس پر پاکستان کو راضی کرلیں گے کیونکہ پاکستان کو ان کی بات کو ماننا ہی ہوگا۔
اب تو خود بھارتی تجزیہ کار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیرکا کوئی حل نکالنا ہی ہوگا۔کیونکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی سے متاثر ہوکر بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی نئی تحاریک شروع ہوچکی ہیں۔ نکسلوں، ناگاؤں اور سکھوں کی تحاریک آزادی تو بہت پہلے سے ہی جاری ہیں۔
اس وقت بھارت کو سب سے زیادہ ڈر سکھوں سے ہے کیونکہ بھارت نے انھیں کچھ نہیں دیا الٹا ان کا قتل عام کیا گیا۔ وہ امرتسرکے گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے وحشیانہ حملے اور وہاں موجود خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے قتل عام کو ابھی تک نہیں بھول سکے ہیں۔ وہ اب اپنے تقسیم کے وقت کے سکھ لیڈروں کو سکھ قوم کا دشمن قرار دے رہے ہیں کہ وہ گاندھی اور نہرو کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور سکھ قوم کا مستقبل تباہ کردیا۔
کاش کہ وہ جناح کا کہنا مان لیتے تو آج سکھ قوم اپنے آزاد وطن خالصتان میں ترقی کر رہی ہوتی۔ اس وقت سکھوں میں بھارت کے خلاف نفرت عروج پر پہنچ چکی ہے جس کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ان کا اپنے مقدس مقامات سے محروم ہونا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پاکستان جانا چاہتے ہیں مگر بھارتی حکومت انھیں پاکستان جانے سے روکتی ہے۔ مودی کی اب اصل پریشانی کی وجہ کرتارپور راہداری ہے۔
وہ اسے کھولنے کے پاکستانی فیصلے کے خلاف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ سکھوں کا پاکستان آنا جانا آسان ہوجائے کیونکہ اس طرح سکھ پاکستان کی مہربانیوں کے قائل ہوکر اس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرسکتے ہیں، سکھوں کی عالمی تنظیم پہلے ہی سال 2020 میں خالصتان پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرچکی ہے۔ بھارتی حکومت خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لیے شروع سے ہی ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہی ہے مگر وہ اس میں ناکام ہے۔
لگتا ہے سال 2020 کے بعد سکھ نئے سرے سے خالصتان کے قیام کی تحریک کو تیز کردیں گے جس کا بھارت کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اس کی فوج پہلے ہی ملک میں کئی جگہ چلنے والی علیحدگی کی تحاریک سے نبرد آزما ہے پھر جوں جوں فوجی اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں ملک میں غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے چنانچہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بھارت کرتارپور راہداری کے تعمیری کام میں سست روی برت رہا ہے جب کہ پاکستان یہ کام گرونانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات سے پہلے ہی مکمل کرلے گا۔ دراصل بھارت کے نزدیک کرتارپور راہداری سکھوں کو بھارت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو پہلے کی طرح پورا بھارتی پنجاب سکھوں کی آزادی کا گڑھ بن سکتا ہے۔
بھارتی فوج کشمیر کے حریت پسندوں سے نمٹنے میں پہلے ہی ناکام ہے۔ پھر پنجاب کی خراب صورتحال کا کشمیری بھی فائدہ اٹھائیں گے اور وہاں تحریک آزادی کامیابی کی منزل پر پہنچ سکتی ہے یوں کشمیر تو آزاد ہو ہی جائے گا ساتھ ہی پنجاب بھی بھارت کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ مستقبل کی اس بھیانک صورتحال کے خوف سے لگتا ہے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا اب مودی کی مجبوری بن گیا ہے تاہم ان کا یہ خیال کہ ٹرمپ کی ثالثی سے فیصلہ بھارت کے حق میں ہوگا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
ٹرمپ کے رجحان سے لگتا ہے کہ وہ کسی صورت میں کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل نکال کر مودی بھارت کی سالمیت کو محفوظ بناسکتے ہیں البتہ اب یہ ضرور ہے کہ وہ بھارتی آئین کی شق 35 اور 370 کو کشمیر میں آخری حربے کے طور پر آزمانے کی کوشش کریں گے مگر انھیں پتا ہے کہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور بھارت نواز سیاسی پارٹیاں بھی بھارت کا ساتھ چھوڑ کر علیحدگی پسندوں کے ساتھ جا ملیں گی اور ایسی صورتحال میں بقول محبوبہ مفتی پھر وادی میں ایک بھی شخص بھارت کا جھنڈا تھامنے والا نہیں مل سکے گا۔
بہرحال اب ایسا لگتا ہے کہ مودی کی ٹرمپ کے ساتھ ساری چاپلوسی بے کار ہی گئی۔ وہ بار بار زبردستی ٹرمپ سے گلے مل کر یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے ٹرمپ کو شیشے میں اتار لیا ہے۔
پھر وہ ٹرمپ کی رئیل اسٹیٹ کمپنی کو رشوت کے طور پر بھارت کے کئی شہروں میں سپر لگژری فلیٹس تعمیرکرنے کی اجازت دے کر ٹرمپ کو اپنے احسانوں تلے دبا کر بھی خیال کر رہے تھے مگر ٹرمپ اپنے قومی فرائض کو پس پشت ڈالنے والے رہنما نہیں ہیں۔ لگتا ہے مودی کی ساری بھاگ دوڑ اور محنت کا لب لباب ٹرمپ کو پاکستان سے اتنا بدظن کرنا تھا کہ وہ ایران سے پہلے پاکستان پرحملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے زرخرید غلاموں حامدکرزئی اور اشرف غنی کے ذریعے بھی ٹرمپ کو پاکستان کا دشمن بنانے کی بھرپورکوششیں کررہے تھے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی تھے۔
اس وقت دراصل ٹرمپ نے نیا نیا امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا وہ مودی اور افغان قیادت کی مشترکہ سازش کو سمجھ نہیں پا رہے تھے پھر ان دنوں پاکستانی سفارت کاری بھی کمزور ترین سطح پر تھی۔ بعد میں ایسا لگتا ہے ، امریکا کے حقیقی درد رکھنے والے کسی حق شناس مشیر نے انھیں اصل صورتحال سے واقف کرایا یا پھر ٹرمپ خود کافی غوروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکا کا اصل وفادار تو پاکستان ہی ہے۔
بھارت تو شروع سے ہی امریکا سے بے وفائی کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ اس وقت صرف اپنے مفاد کے لیے امریکا کے قریب آگیا ہے۔ وہ افغانستان کے کشیدہ حالات میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے کے علاوہ وہاں امریکی فوجوں کو طالبان سے ہمیشہ لڑتا دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی جاری رکھ سکے۔
افغان جنگ سے امریکاکو نقصان اور بھارت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد لگتا ہے ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے اور افغان جنگ کے خاتمے میں پاکستان کے کلیدی کردار سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ پاکستان کو رام کرنے کے لیے اول قدم کے طور پر بھارت کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں دہشت گردی پر مامور بلوچستان لبریشن آرمی پر پابندی عائدکردی۔
اس کے بعد عمران خان کو امریکا آنے کی دعوت دے دی گئی۔ خوش قسمتی سے عمران خان کا دورہ اتنا کامیاب رہا کہ بھارتی قیادت کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور مودی تو ایسے بے عزت ہوئے ہیں کہ قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں راہول گاندھی سمیت کئی اپوزیشن لیڈر مودی سے لوک سبھا آکر ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کرانے کی درخواست کا جواب مانگ رہے ہیں مگر مودی کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ تو لوک سبھا کا رخ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ہی وہاں تین طلاقوں کا مسلمانوں کو زک پہنچانے والا متنازعہ بل بھی اس کی پارٹی پاس کراچکی ہے۔
کچھ لوگوں کا پہلے یہ کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات اپنی طرف سے کہہ دی ہوگی۔ یہی بات بھارتی اخبارات بھی بڑے وثوق سے لکھ رہے تھے مگر ٹرمپ کے ایک مشیر مسٹر ملر نے یہ بیان دے کر ان کی بولتی بند کردی ہے کہ ٹرمپ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے۔ مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی اور وہی ٹرمپ نے میڈیا کے سامنے دہرائی ہے۔
اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مودی نے ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی اور اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ کشمیریوں پر ہر طرح کا ظلم کرکے حتیٰ کہ ان کا قتل عام کرکے بھی انھیں نہیں دبا سکے ان کی تحریک آزادی اب بھی زوروشور سے جاری ہے چنانچہ اب وہ خود بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہوگا اور اس کے لیے امریکی صدر ٹرمپ بہترین آدمی ہیں کہ وہ جو بھی حل نکالیں گے اس پر پاکستان کو راضی کرلیں گے کیونکہ پاکستان کو ان کی بات کو ماننا ہی ہوگا۔
اب تو خود بھارتی تجزیہ کار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیرکا کوئی حل نکالنا ہی ہوگا۔کیونکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی سے متاثر ہوکر بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی نئی تحاریک شروع ہوچکی ہیں۔ نکسلوں، ناگاؤں اور سکھوں کی تحاریک آزادی تو بہت پہلے سے ہی جاری ہیں۔
اس وقت بھارت کو سب سے زیادہ ڈر سکھوں سے ہے کیونکہ بھارت نے انھیں کچھ نہیں دیا الٹا ان کا قتل عام کیا گیا۔ وہ امرتسرکے گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے وحشیانہ حملے اور وہاں موجود خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے قتل عام کو ابھی تک نہیں بھول سکے ہیں۔ وہ اب اپنے تقسیم کے وقت کے سکھ لیڈروں کو سکھ قوم کا دشمن قرار دے رہے ہیں کہ وہ گاندھی اور نہرو کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور سکھ قوم کا مستقبل تباہ کردیا۔
کاش کہ وہ جناح کا کہنا مان لیتے تو آج سکھ قوم اپنے آزاد وطن خالصتان میں ترقی کر رہی ہوتی۔ اس وقت سکھوں میں بھارت کے خلاف نفرت عروج پر پہنچ چکی ہے جس کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ان کا اپنے مقدس مقامات سے محروم ہونا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پاکستان جانا چاہتے ہیں مگر بھارتی حکومت انھیں پاکستان جانے سے روکتی ہے۔ مودی کی اب اصل پریشانی کی وجہ کرتارپور راہداری ہے۔
وہ اسے کھولنے کے پاکستانی فیصلے کے خلاف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ سکھوں کا پاکستان آنا جانا آسان ہوجائے کیونکہ اس طرح سکھ پاکستان کی مہربانیوں کے قائل ہوکر اس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرسکتے ہیں، سکھوں کی عالمی تنظیم پہلے ہی سال 2020 میں خالصتان پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرچکی ہے۔ بھارتی حکومت خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لیے شروع سے ہی ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہی ہے مگر وہ اس میں ناکام ہے۔
لگتا ہے سال 2020 کے بعد سکھ نئے سرے سے خالصتان کے قیام کی تحریک کو تیز کردیں گے جس کا بھارت کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اس کی فوج پہلے ہی ملک میں کئی جگہ چلنے والی علیحدگی کی تحاریک سے نبرد آزما ہے پھر جوں جوں فوجی اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں ملک میں غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے چنانچہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بھارت کرتارپور راہداری کے تعمیری کام میں سست روی برت رہا ہے جب کہ پاکستان یہ کام گرونانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات سے پہلے ہی مکمل کرلے گا۔ دراصل بھارت کے نزدیک کرتارپور راہداری سکھوں کو بھارت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو پہلے کی طرح پورا بھارتی پنجاب سکھوں کی آزادی کا گڑھ بن سکتا ہے۔
بھارتی فوج کشمیر کے حریت پسندوں سے نمٹنے میں پہلے ہی ناکام ہے۔ پھر پنجاب کی خراب صورتحال کا کشمیری بھی فائدہ اٹھائیں گے اور وہاں تحریک آزادی کامیابی کی منزل پر پہنچ سکتی ہے یوں کشمیر تو آزاد ہو ہی جائے گا ساتھ ہی پنجاب بھی بھارت کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ مستقبل کی اس بھیانک صورتحال کے خوف سے لگتا ہے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا اب مودی کی مجبوری بن گیا ہے تاہم ان کا یہ خیال کہ ٹرمپ کی ثالثی سے فیصلہ بھارت کے حق میں ہوگا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
ٹرمپ کے رجحان سے لگتا ہے کہ وہ کسی صورت میں کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل نکال کر مودی بھارت کی سالمیت کو محفوظ بناسکتے ہیں البتہ اب یہ ضرور ہے کہ وہ بھارتی آئین کی شق 35 اور 370 کو کشمیر میں آخری حربے کے طور پر آزمانے کی کوشش کریں گے مگر انھیں پتا ہے کہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور بھارت نواز سیاسی پارٹیاں بھی بھارت کا ساتھ چھوڑ کر علیحدگی پسندوں کے ساتھ جا ملیں گی اور ایسی صورتحال میں بقول محبوبہ مفتی پھر وادی میں ایک بھی شخص بھارت کا جھنڈا تھامنے والا نہیں مل سکے گا۔