RAWALPINDI/
ISLAMABAD:
غزل
ہجر پیہم ہے، بے کلی ہے رات
دِن گزرتے ہی پھر وہی ہے رات
کتنا چپ چاپ ہوگیا ہے دن
کتنی کثرت سے بولتی ہے رات
روشنی میری رائگاں ٹھہری
میرے جلتے ہی بجھ گئی ہے رات
دل کی گٹھڑی، شعور، بندِ قبا
کتنی گِرہوں کو کھولتی ہے رات
بار بار آب مانگتی ہے آنکھ
جانے کیا بیج بو گئی ہے رات
جسم کو روندتا ہے دن ساگر
روح کے زخم چھیلتی ہے رات
( شیراز ساگر۔ سوہدرہ ٹاؤن، وزیرآباد)
۔۔۔
غزل
میرے زخموں کا مداوا نہیں ہونے والا
کچھ بھی ہو جائے ازالہ نہیں ہونے والا
گھرکے آنگن میں جلا رکھی ہیں یادیں اس کی
آج کی شب تو اندھیرا نہیں ہونے والا
اب کے آنا تو کوئی فیصلہ کر کے آنا
اس دفعہ کوئی تماشا نہیں ہونے والا
اپنا گھر بار گنوا کے ہوا معلوم مجھے
عشق بازی میں منافع نہیں ہونے والا
زندگی بھر کی ریاضت سے یہی جانا ہے
وہ کسی حال میں میرا نہیں ہونے والا
میں تو کہتا ہوں ابھی سو لیا جائے نجمی
اس شبِ غم کا سویرا نہیں ہونے والا
(رمضان نجمی۔ بھکر)
۔۔۔
''سازشی سیلاب''
سازشی سیلاب تُو بے رحم کیسے ہوگیا
پانیوں کے شور میں لہریں بھی ہیں، ماتم کناں
اک طرف بستے، کھلونے
اک طرف ٹوٹے مکان
سینت کے رکھا تھا جو بھی داج ارمانوں کے ساتھ
وہ بھی سارا بہہ گیا گندم کے سب دانوں کے ساتھ
روشنی کی ریشمی پائل بھٹک کے رہ گئی
شاخچوں پہ خواب کی چنری اٹک کے رہ گئی
طاق میں جلتے دیے سب پانیوں میں بہ گئے
زندگی کی بے بسی کی ہر کہانی کہہ گئے
(کوثر ثمرین۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اداسی اور مایوسی بھری اک شام آئے گی
مری تصویر رکھ لینا تمہارے کام آئے گی
مرے والد سے میری بات کرنے جا رہی ہے وہ
اگرچہ خوب صورت ہے مگر ناکام آئے گی
یہ لڑکی دیکھنے میں سیدھی سادی بھولی بھالی ہے
یہ لڑکی ایک دن کالج سے گھر بدنام آئے گی
تمہارے واسطے گاؤں کے دروازے کھلے چھوڑے
ہمیں معلوم ہے تو شہر سے ناکام آئے گی
ہمارے گاؤں میں اک بد چلن راون کا ڈیرہ ہے
ہمارے گاؤں ہو کر قید سیتا رام آئے گی
لڑکپن وقت کی دیوی کی پائل بن گیا ہے اور
جوانی اب کے زیرِ گردشِ ایام آئے گی
انا کی جنگ ایسے موڑ پر لے جاؤں گا توصیف
جہاں پر جیت میرے، ہار تیرے نام آئے گی
(توصیف یوسف اشعر۔ وزیر آباد)
۔۔۔۔
غزل
جانبِ منزل چلے ہوتے اگر عزموں کے ساتھ
تو کٹھن رستے بھی طے ہوتے انہی قدموں کے ساتھ
منزلوں کی کھوج میں جو بارہا پڑتے رہے
اب بھی لپٹے ہیں وہی چھالے میرے تلووں کے ساتھ
ہاتھ اپنے روک لو، اے وقت کے شیشہ گرو
روشنی کردار کی موجود ہے چہروں کے ساتھ
ایک دل تھا وہ بھی ہم نے دے دیا سوغات میں
اضطرابِ شوق میں جب ہو لیے جلووں کے ساتھ
اب ضرورت ہے گلستانِ وطن کو خون کی
رابطہ ہے اب سَروں کا اس لیے تیغوں کے ساتھ
لاج رکھنا ساقیا تشنہ لبوںکی آج بھی
ظرف خالی اب نہ جائیں اجنبی رندوں کے ساتھ
جن کے چہروں سے نمایاں ہو غرور و تمکنت
تم نہ جاکر بیٹھنا عارفؔ کبھی ایسوں کے ساتھ
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
کیا سمجھتے ہو کہ بِن آپ کے مر جائیں گے
ہجر کے دن ہیں، مری جان گزر جائیں گے
کچھ بھی معلوم نہیں تم کو ہمارے بارے
تم سمجھتے ہو ڈراؤ گے تو ڈر جائیں گے
موسمِ گل میں تو دو چار کنول کھلنے دو
ورنہ تالاب کسی زہر سے بھر جائیں گے
ختم یہ جنگ خدا جانے کہاں پر ہوگی
نہیں معلوم ابھی کتنوں کی سَر جائیں گے
اِس میں بھی عشق کی رسوائی کا اندیشہ ہے
دشت سے شہر میں جو خاک بہ سر جائیں گے
کس لیے روئیں بھلا روزِ خزاں کے غم میں
پھول کھل جائیں گے تو زخم بھی بھر جائیں گے
(عائشہ شیخ عاشی۔ بہاولپور)
۔۔۔
غزل
آگ اور خون میں نہایا ہے
شعر پہ تب نکھار آیا ہے
بے وفائی کا کیا گلہ تم سے
دن یہ تقدیر نے دکھایا ہے
اس نے لُوٹا ہے کارواں دل کا
ہم نے راہ بَر جسے بنایا ہے
ہم پہ ٹوٹا ہے صبر دنیا کا
جانے کس کس کا دل دکھایا ہے
پتھروں کے شہر میں یادش جی
ہم نے شیشے کا گھر بنایا ہے
(یادش منصور۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
تمہارے سائے میں جتنے بھی لوگ پل رہے ہیں
سنا ہے ان کے تمام رستے سفل رہے ہیں
ہم ایسے لوگوں کا عشق کرنا نہیں مناسب
ہماری محنت سے گھر کے خرچے جو چل رہے ہیں
سنا ہے اس کی دعائے بد کا اثر ہوا ہے
میرے بدن کے کئی کنارے پگھل رہے ہیں
ہم اپنی منزل کو چار سو یوں تلاشتے ہیں
ہر ایک گاڑی کے بعد گاڑی بدل رہے ہیں
تمام گلشن ہماری باتوں میں آگیا ہے
یہ پھول سارے ہماری رنگت میں ڈھل رہے ہیں
ہماری شہرت ہمارے اپنوں سے منسلک ہے
ہمارے اپنے ہماری شہرت سے جل رہے ہیں
(سید کمیل عابدی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
دیے درد یاروں نے دلدار بن کے
جفا کر گئے وفادار بن کے
ہر اک شام، شامِ غریباں ہے اپنی
کریں بین تارے عزادار بن کے
جو خواہش نہ کرتے اُسے پا ہی لیتے
گنوایا ہے اُس کو طلب گار بن کے
ہوا زعم لاحق، ابلیس ٹھہرا
رہا جو فرشتوں میں سردار بن کے
چلو یار سلمان اُس دیس جائیں
جہاں لوگ رہتے ہوں غم خوار بن کے
(سلمان احمد۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
فرقِ انصاف گر ہو زنگ آلود
پھر غریبوں پہ ہے عذاب میاں
موت کے سرد ہاتھ کرنے لگے
میری نبضوں کا اب حساب میاں
ذہن و دل ہو چلے ہیں سن میرے
ہے تھکن اور اضطراب میاں
غم ڈھلے تشنگی کے پیکر میں
اور خوشیاں ہوئیں سراب میاں
بارشیں اس قدر ہوئیں عباس
میرا گاؤں ہے زیرِآب میاں
(عباس چوباروی۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
اپنی قسمت کے جو ستارے ہیں
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
ایسے گزرے کہ پھر نہیں لوٹے
سنگ تیرے جو دن گزارے ہیں
ان کو سوچوں تو جاں نکلتی ہے
کیسے کہہ دوں کہ جاں سے پیارے ہیں
عین ممکن ہے ہجر بہتر ہو
یہ بھی قدرت کے ہی اشارے ہیں
تم ہمارے نہ ہو سکے لیکن
ہم تمہارے تھے ہم تمہارے ہیں
(کاظم علی۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
محبتوں میں تجارت نہیں ہوا کرتی
کہ یار سے تو رقابت نہیں ہوا کرتی
لہو پلا کے تعلق نبھانا پڑتا ہے
یہ سہل اتنی رفاقت نہیں ہوا کرتی
کسی کسی کو محبت کا روگ لگتا ہے
ہر ایک سے ہی حماقت نہیں ہوا کرتی
انا غرور و تکبر ہے تیرے لہجے میں
میاں جی ایسے عبادت نہیں ہوا کرتی
یہ قید اب تو جنم بھر مرا مقدر ہے
کہ عشق میں تو ضمانت نہیں ہوا کرتی
بغاوتوں کے بہت وار سہنے پڑتے ہیں
سبھی سے تو یہ قیادت نہیں ہوا کرتی
انیف چھوڑ اجڑنے کے اپنے قصوں کو
کہ رات ساری عیادت نہیں ہوا کرتی
(انیف انفاس۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
مجھے پتا ہے ذہین ہو تم
بہت زیادہ حسین ہو تم
مجھے پری وش کی کیا ضرورت
مِرے لیے مہ جبین ہو تم
بتا رہا ہے تمھارا لہجہ
جفا نگر کی مکین ہو تم
تمھارے بِن ناتمام ہوں مَیں
مِرا مکمّل یقین ہو تم
تمھاری رنگت بتا رہی ہے
گلاب کی جانشین ہو تم
عجب تعلّق ہے میرا تم سے
میں آسماں ہوں، زمین ہو تم
(اسامہ زاہروی۔ ڈسکہ، سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
انکار مجھ سے ہے، کبھی اقرار مجھ سے ہے
سارے جہاں میں جرأتِ گفتار مجھ سے ہے
کس کس کی دشمنی کا، مظالم کا دوں جواب
سارا زمانہ برسرِ پیکار مجھ سے ہے
گھر گھر میں چل رہی ہے خبر میرے ہار کی
گویا تمام شہر میں اخبار مجھ سے ہے
کافی ہے یہ ثبوت میرے حق بیان کا
باطل جہاں میں غصہ و بیزار مجھ سے ہے
شاعر ہوں میں عقیل مجھے ناز کیوں نہ ہو
سوئی ہوئی تھی قوم، جو بیدار مجھ سے ہے
(عقیل نواز۔ اسکردو، بلتستان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]