مقابلہ سچ ہی سچ
ہر دور حکومت میں وہ خواہ غیر سویلین ہو یا سویلین اس کے حامی اور مخالف ہر دور میں موجود رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستانیوں کے دل کی آواز ہیں۔ انھوں نے مزید الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ منڈی بہاؤالدین میں مریم نواز اپنی ناکام کارنر میٹنگ اور پارٹی کنونشن کے بعد اب جی ٹی روڈ کی ٹریفک کا سہارا لینا چاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت سے حسد کرنے والے اور بغض رکھنے والے جو احتجاج کی بات کر رہے ہیں وہ عوامی رنگ سے محروم ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے عمران خان سے متعلق مختلف بات کی ہے اور انھیں مغرور، سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے اپنی ناکامیوں سے ملک و قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کردیا ہے جنھیں عوام کا کوئی احساس نہیں اور عوام عمران حکومت سے سخت پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور جے یو آئی کے سربراہ بھی عمران خان کو ناکام قرار دے چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی حکومت کے خلاف بہت کچھ پوسٹ ہو رہا ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کو پریشان کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجودہ حکومت کے حامی کہتے ہیں کہ موجودہ برا وقت جلدگزر جائے گا۔ مہنگائی، بے روزگاری ختم ہونے سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور عوامی شکایات ختم ہوجائیں گی۔
ہر دور حکومت میں وہ خواہ غیر سویلین ہو یا سویلین اس کے حامی اور مخالف ہر دور میں موجود رہے ہیں اور وہ اپنے اپنے موقف کے تحت حکومت کی حمایت اور مخالفت کرتے ہیں اور ایک خاموش حلقہ بھی ہے جو اپنے ذاتی اور معاشی معاملات میں الجھا رہتا ہے اور کسی بھی حکومت کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتا اور خاموش رہ کر وقت گزارتا ہے اور الیکشن میں کبھی اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور کبھی نہیں دیتا اور اپنے ووٹ ضایع کرکے الیکشن کے روز اپنے گھروں میں رہنا پسند کرتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ملک میں 1977 میں جو انتخابات ہوئے تھے وہ اپوزیشن نے دھاندلی زدہ قرار دے کر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔ اس وقت ملک میں صرف سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جو پابندی کے باعث اپوزیشن کی خبریں نہیں دیتا تھا۔ اخبارات پر بھی پابندی تھی تو اس وقت ملک کے حالات کی خبریں سننے کے لیے عوام صرف بی بی سی کی خبروں پر انحصارکرتے تھے اورگھروں اور دکانوں میں رات آٹھ بجے بی بی سی ریڈیو کی خبریں دبی آواز میں بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں اور لوگ اخبارات کی خبروں کی بجائے بی بی سی کی خبروں پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں اخبارات سنسرکی وجہ سے حقائق چھپاتے تھے تو اس وقت بھی لوگ غیر ملکی ریڈیوکی خبروں کو درست اور قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے 11 سالہ دورکے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو دو حکومتیں آئیں جنھوں نے بھی جمہوریت کے نام پر میڈیا پرکنٹرول کرکے عوام کو حقائق سے آگاہ نہیں ہونے دیا جب کہ سرکاری میڈیا حکومتوں کی تعریفوں کے لیے مخصوص تھا۔ جمہوری کہلانے والی حکومتوں نے صرف اپنی من پسند خبریں عوام کو سرکاری ذرایع کے ذریعے سنوائیں اور عوام سچ کے لیے ترستے رہے۔
پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں اندرونی سنسر شپ جاری رہی مگر بعد میں نجی چینلز منظر عام پر آئے مگر وہ بھی اندرونی طور پر ملنے والی ہدایت پر عمل کے پابند تھے اور حکومت سچ برداشت نہیں کرتی تھی۔ پرویز مشرف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ق) کی بظاہر تو سویلین حکومت 5 سال رہی مگر حکومت کچھ سچ برداشت کرنے لگی۔ نجی چینلز پر ٹاک شوز اخبارات کی خبروں اورکالموں پر پرویز مشرف اور حکومت پر تنقید بڑھنے لگی مگر وردی اترنے کے بعد میڈیا کی آزادی بڑھتی رہی اور یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف نے میڈیا کو سچ بولنے کی صرف آزادی ہی نہیں دی بلکہ اپنے خلاف تنقید بھی برداشت کی جو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اپنی حکومتوں میں برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
پرویز مشرف کے جانے کے بعد زرداری حکومت نے بھی میڈیا کی آزادی برقرار ہی نہیں رکھی بلکہ بھگتی بھی اور صدر آصف زرداری نے اکثر کہا کہ حکومت پر میڈیا نے غیر ضروری اور جانبدارانہ تنقید کی۔
2013 کی نواز شریف کی حکومت کو بھی اپنی مرضی کے خلاف میڈیا کی آزادی برداشت کرنا پڑی اور نواز شریف میڈیا کے ساتھ وہ سلوک نہ کرسکے جو انھوں نے اپنی دو تہائی اکثریت کی حامل دوسری حکومت میں رکھا تھا۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ مشکل دور ہے اور 11 ماہ سے حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ مشکل دور ہے جس کے ذمے دار سابق حکمران ہیں اس لیے عوام یہ مشکل وقت کچھ عرصہ برداشت کرلیں اور اچھے دنوں کا انتظار کریں۔
موجودہ حکومت جو انصاف کے نام پر اقتدار میں آئی تھی 11 ماہ بعد بھی عوام کو سچ نہیں بتا رہی اور حکومت کے تھوک سے زیادہ رکھے گئے ترجمانوں کا کام عوام کو حقائق بتانے کے بجائے اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید رہ گیا ہے اور وہ بھی وزیر اعظم کی طرح اپوزیشن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اپوزیشن کے بڑے جلسے کارنر میٹنگ اور ناکام کنونشن نظر آتے ہیں جب کہ میڈیا کچھ اور دکھا رہا ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے ملک کی تاریخ میں یہ کارنامہ انجام دیا کہ دیگر شعبوں کی طرح میڈیا بھی اتنا متاثر ہوا کہ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ میڈیا کے سیکڑوں کارکن بیروزگار ہوئے۔ حکومتی سچ عوام سے چھپایا گیا۔ پنجاب میں سب سے زیادہ حکومتی ترجمان رکھے گئے ہیں، دو وزرائے اطلاعات تبدیل ہوئے ، حکومتی سچ پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت کم کرنے میں کامیاب رہا ۔ اب پہلے جیسا دور نہیں اور اب حقائق چھپائے نہیں جاسکتے مگر حکومتی ترجمانوں نے پالیسی ماضی جیسی ہی اختیار کر رکھی ہے اور ان کے درمیان سرکاری سچ بولنے کا مقابلہ اتنا شدید ہوگیا ہے کہ جو دن رات سن سن کر عوام سر پکڑکر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔