پاکستانی طالبہ نے جعلی مصنوعات پہچاننے والا سافٹ ویئر تیار کرلیا

سی کیور ایپ دواؤں، سرکاری دستاویزات ، اسناد، لائسنس، بانڈز اور کرنسی نوٹوں کی جانچ کرسکتی ہے، طالبہ سندس فاطمہ


Kashif Hussain August 05, 2019
مصنوعی ذہانت پر مبنی تجزیاتی سافٹ ویئر ایپلی کیشن ڈیٹا بیس سے منسلک منفرد ایپلی کیشن کانام ’’سی کیو‘‘ رکھا گیاہے۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں جعلی مصنوعات کی بھرمار سنگین مسئلہ اختیار کرچکی ہے، جعلی مصنوعات ایک جانب صارفین کے لیے خسارے کا سودا ہیں تو دوسری جانب معیاری مصنوعات بنانے والی صنعتوں اور سرمایہ کاری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔

جعلی مصنوعات پر حکومت کو بھی کوئی ٹیکس حاصل نہیں ہوتا یوں تو پاکستان کے بازار کاسمیٹکس سے لے کر کھانے پینے کی اشیا، شیمپو ، صابن ، جوتوں سے لے کر گھڑیوں اور ہزاروں جعلی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں لیکن جعلی دواؤں کی بھی بھرمار ہے جو انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن رہی ہیں نیشنل انکوبیشن سینٹر کراچی میں اس اہم مسئلے کا موثر حل تلاش کرلیا گیا ہے۔

ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) پر مبنی تجزیاتی سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو ایک موبائل ایپلی کیشن اور ڈیٹا بیس سے منسلک ہے اس منفرد ایپلی کیشن کو SE-CURE کا نام دیا گیا ہے اس ایپلی کیشن کا بنیادی تصور کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی کرنے والی ذہین طالبہ سندس فاطمہ نے پیش کیا۔

نمائندہ ایکسپیریس سے این آئی سی میں ہونے والی ایک ملاقات اور ایپلی کیشن کے عملی مظاہرے کے موقع پر سندس فاطمہ نے بتایا کہ آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینل سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں روز مرہ ضروریات کی اشیا کی بھرما ہے لیکن جب جعلی دواؤں، انجکشن اور ڈرپس کے بارے میں خبریں آتی ہیں تو بہت پریشانی ہوتی ہے کہ ان جعلی دواؤں کا شکار خود ہمارے اہل خانہ، دوست اور عزیز و اقارب بھی بن سکتے ہیں اس تشویش ناک صورتحال اور معاشرے کے لیے جعلی مصنوعات کے خطرے کو لے کر قومی ادارہ برائے مصنوعی ذہانت (نیشنل سینٹر فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ) سے وابستگی اختیار کی جہاں این ی ڈی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کمپیوٹر سسٹم میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر خرم نے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے رہنمائی فراہم کی اور لگ بھگ ایک سال کی محنت سے اسٹارٹ اپ کی شکل میں ایک ایپلی کیشن تیار کی جسے ''سی کیور'' کا نام دیا گیا، سی کیو ر ایپ کے ذریعے نہ صرف کنزیومر پروڈکٹس بلکہ کتابوں اور اہم دستاویزات کو بھی نقل سے بچایا جاسکتا ہے جن میں تعلیمی اسناد، حکومت کے جاری کردہ لائسنس، پرائز بانڈز حتیٰ کہ کرنسی نوٹ بھی شامل ہیں۔



ایپلی کیشن سے ہر شہری آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے، سندس

سندس فاطمہ نے بتایا کہ ایپلی کیشن انتہائی آسان انداز میں کام کرتی ہے مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی سے نابلد عوام اور ہر عمر کے افراد اس ایپلی کیشن سے استفادہ کرسکیں، یہ ایپلی کیشن دراصل موبائل فون کے کیمرے سے اسکین ہونے والے مخصوص نشانات کی ڈیٹا بیس کی مدد سے شناخت کرتی ہے یہ مخصوص نشانات مصنوعات کی پیکنگ پر پرنٹ ہوتے ہیں جو عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے مشین ریڈایبل پینٹرنز پر مشتمل ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر دوائیں بنانے والی کسی فارما کمپنی کو اپنی مصنوعات کو جعل سازی سے بچانا ہے تو انھیں دواؤں کی پیکنگ پر یہ مخصوص پیٹرن پرنٹ کرنا ہوں گے۔

یہ پیٹرنز ''سی کیور'' کمپنی فراہم کرے گی عام صارف کو اپنے اسمارٹ فون میں سی کیور ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی ہوگی جس کے ذریعے پیکنگ کو اسکین کرنے پر چند سیکنڈز میں ہی ایپلی کیشن اس پیکنگ کے اصلی یا نقلی ہونے کی تصدیق کردے گی یہ حفاظتی فیچر استعمال کرنے والی کمپنیاں مشین ریڈایبل پیٹرنز اپنے لوگو اور برانڈ نیم کی شکل میں بھی پیکنگ کی کلر اسکیم کے مطابق پرنٹ کرسکتی ہیں یعنی پیکیجنگ کے مطابق کسٹمائزڈ پیٹرن یا شناختی نشان بھی پرنٹ کیے جاسکتے ہیں مصنوعات کے معیار کو اجاگر کرنے کے لیے پیک پر الگ سے کوئی عبارت یا نشان بھی پرنٹ کیا جاسکتا ہے جس میں صارف کو آگاہ کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ نشان کے ہمراہ پیکٹ کو اسکین کرکے اصل اور نقل کی تصدیق کریں۔

عموماً جعل سازی کے لیے اصل مصنوعات کی ہو بہو پیکنگ استعمال کی جاتی ہے جس کے لیے اصل مصنوعات کی پیکنگ کو اسکین کرکے نقلی پیکیجنگ تیار کی جاتی ہے ایسی صورت میں خصوصی فیچرز میں شامل پیٹرن ایپلی کیشن کے لیے ریڈ ایبل نہیں رہیں گے یعنی اپیلی کیشن صرف ایسے شناختی نشانات کو ہی اسکین کرے گی جس میں مشین ریڈایبل پیٹرنز نمایاں اور قابل شناخت ہوں۔

جرمنی میں سی کیورکا مختلف حالات میں جائزہ لینے پر90فیصددرست نتائج سامنے آئے

پاکستانی ذہین طلبہ کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے جس میں جرمنی کے ریسرچ سینٹر فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس (ڈی ایف کے آئی) کی معانت حاصل ہے ، ایپلی کیشن ڈیولپ کرنے والی ٹیم نے گزشتہ سال کے اختتام پر 2 ماہ تک ڈی ایف کے آئی کے ساتھ مل کر ایپلی کیشن کے تجزیے الگورتھم ، مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے نتائج کو مزید موثر بنانے پر کام کیا اس دوران جرمنی میں ہی اس ایپلی کیشں کا مختلف قسم کے حالات Scenarios میں جائزہ لیا گیا جن میں مختلف اقسام کی ڈیوائسز ، پیکیجنگ، ماحول اور روشنی کو ایک ہزار بار پرکھا گیا جس میں90 فیصد درست نتائج حاصل ہوئے۔

سندس کے مطابق ایپلی کیشن پر تحقیق اور ترقیاتی کام (ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) جاری ہے اور اسے پاکستان کے ماحول میں صارف کے رجحانات کے مطابق ڈھالا جارہا ہے پہلے یہ ایپلی کیشن صرف آئی او ایس پر تھی اب اس کا اینڈ رائڈ ورجن تیار کیا جارہا ہے۔



سی کیو ر کی تکنیک سیریلائزیشن سے فول پروف ہے

سندس فاطمہ نے بتایا کہ اس وقت بہت سی ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو جعل سازی سے بچانے اور صارفین تک اصلی مصنوعات پہنچانے کے لیے سیریلائزیشن کی تکنیک استعمال کرتی ہیں جس کے تحت پیکٹ پر ایک سیریل نمبر درج کردیا جاتا ہے صارف اس سیریل نمبر کو کمپنی کے مقرر کردہ نمبر پر ایس ایم ایس کرتا ہے جس کے جواب میں پراڈکٹ اصلی ہونے کی صورت میں تصدیق کا پیغام موصول ہوتا ہے اس تکنیک میں اگر ایک ہی سیریل نمبر تمام پراڈکٹس کے پیک پر درج کردیا جائے تو سسٹم اس نمبر کی تصدیق کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جعلی پراڈکٹ پر پرنٹ ہوتا ہے۔

سیریلائزیشن ایک مہنگا طریقہ ہے جس کے لیے کمپنیوں کو ہارڈرویئر درکار ہوتا ہے، سی کیور کا آرٹی فیشل انٹیلی جنس تکنیک پر مشتمل سیکیورٹی فیچر سیریلائزیشن کے طریقے سے سستا اور فول پروف ہے۔

ایپلی کیشن کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنائے گی،بائیریافیزان

نیشنل سینٹر فار آر ٹی فیشل انٹیلی جنس کی بزنس ڈیولپمنٹ منیجر بائیریا فیزان کے مطابق یہ ایپلی کیشن پاکستان میں قانونی کاروبار کرنے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مشہور مصنوعات کی نقل تیار کی جاتی ہیں جس سے ان کمپنیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری مشکل ہوجاتی ہے اس ایپلی کیشن سے ملک میں غیرقانونی طریقے سے درآمد کی جانے والی اشیا کی بھی شناخت ہوسکے گی ایسی بہت سی مصنوعات ہیں جو پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کرتی ہیں جو میڈ ان پاکستان ہوتی ہیں لیکن ان کی ہو بہو پیکنگ کی انٹرنیشنل برانڈز بھی غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں درآمد کرلی جاتی ہیں سی کیور ایپ اسمگل شدہ یا غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں فروخت کی جانے والی اشیا کے تدارک کا بھی ذریعہ بنے گی جس سے قومی خزانے کو فائدہ ہوگا۔

انھوں نے بتایا کہ ایپلی کیشن سسکرائب ماڈل پر مینوفیکچررز کو خدمات فراہم کرے گی جو پراڈکٹ کے لحاظ سے ہوگی ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کیا گیا ڈیٹا کا تجزیہ ویلیو ایڈڈ سروس ہوگی جس کی بنیاد پر کمپنیاں اپنی کاروباری حکمت عملی مرتب کرکے فروخت اور منافع میں اضافہ کرسکیں گی۔

ایپلی کیشن ڈیٹا پرکمپنیاں خریداری کے رجحان سے آگاہ ہوسکیں گی

نیشنل سینٹر فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی بزنس ڈیولپمنٹ منیجر بائیریا فیزان کا کہنا ہے کہ SE-CURE کی مصنوعی ذہانت اور ایپ کو استعمال کرنے کے ڈیٹا کا تجزیہ پاکستان کی مارکیٹ کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے یہ ایپلی کیشن تیارکنندگان (مینوفیکچررز) کو ان کی ڈسٹری بیشن اور سپلائی چین کی خامیوں کی نشاندہی کرے گی ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ ملک کے کس حصے میں پراڈکٹ کی کتنی طلب ہے اور وہاں جعلی مصنوعات کا تناسب کتنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سی کیور کو اب تجارتی پیمانے پر متعارف کرانے کی تیاریاں جاری ہیں اور مختلف صنعتوں کو اس کی افادیت سے آگاہ کیا جارہا ہے جس میں فارما سیوٹیکلز، ایف ایم سی جیز، لبری کینٹس، کاسمیٹکس اور پرسنل کیئر جیسے شعبے سرفہرست ہیں اس ایپلی کیشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر کمپنیاں اپنے خریداروں کی خریداری کے رجحان سے بھی آگاہی حاصل کرسکیں گے جس کے نتیجے میں اپنی مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ حکمت عملی کو زیادہ نتیجہ خیز بناسکیں گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں