لاہور میں خانہ بدوش بچوں کے لیے سڑک کنارے واقع اسکول

ان بچوں کی باقاعدہ سرپرستی کی جائے تو یہ ملک کی ترقی وخوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، وحید عباس

ان بچوں کی باقاعدہ سرپرستی کی جائے تو یہ ملک کی ترقی وخوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، وحید عباس۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز

لاہور میں ایک ایسا ااسکول بھی ہے جس کے طلباء و طالبات شہر کی معروف شاہراہ کے کنارے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے ہیں، پاکستان ائیرفورس کا (ر) ٹیچر 5 سال سے 15 سال تک کی عمروں کے خانہ بدوش اور بے گھر طالب علموں کو صبح اور شام کے اوقات میں انگریزی اور اردو کے ساتھ دینی تعلیم بھی دیتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اور شاہراہ نظریہ پاکستان کے کنارے گندگی کے ڈھیر کے پاس چھوٹا سا ٹکڑا ہی بنیادی طور پر اسکول ہے، رنگ برنگے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں پیسنے سے شرابور بچے اور بچیاں اسی اسکول کے طالب علم ہیں۔



صبح اور شام کے اوقات میں یہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ دن بھر شہر بھر کی معروف شاہراہوں پر پھول بیچنے، گاڑیوں کو صاف کرنے سمیت مختلف طرح کی محنت ، مزدوری کرتے ہیں جبکہ بچیاں گھروں میںکام کاج کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کو پیٹ پالتی ہیں۔پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ ٹیچر وحید عباس نے جھگیوں میں رہنے والے بچوں کو یہ خواب دکھایا ہے کہ وہ صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔



ایکسپریس ٹریبون سے خصوصی بات چیت میں وحید عباس کا کہنا تھا کہ میری زندگی کا بڑا حصہ درس وتدریس میں گزرا ہے، ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد جھگیوں اور بے گھر افراد کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کا تہیہ کر رکھا ہے،میرانظریہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر تعلیم حاصل کرنا ملک کے ہر شہری کا حق ہے، میں گزشتہ کئی ماہ سے جھگیوں میں رہنے والے بچوں کو صبح اور شام کے اوقات میں پڑھا رہا ہوں، ان طلباءمیں بے پناہ ٹیلنٹ ہے،اگر ان بچوں کی باقاعدہ سرپرستی کی جائے تو یہ بھی پڑھ لکھ کر اس ملک کے مفید شہری بن کر ترقی وخوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔




وحید عباس کے مطابق میرے لئے سب سے مشکل کام ان طالب علموں کے والدین کو یہ سمجھانا تھا کہ ان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن سکتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اب پانچ سال سے لے کر پندرہ سال تک کے بچے اور بچیاں میرے پاس باقاعدگی سے پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔



ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو شدید گرمی اور حبس میں کھلے آسمان تلے پڑھنا پڑتا ہے، جوہر ٹاﺅن میں سینکٹروں کی تعداد میں جھگیاں ہیں، اگر حکومت ان جھگیوں میں رہنے والے بچے اور بچیوں کے لئے اسکول کی عمارت بنوا کر نہیں دے سکتی تو کم از کم ایسا انتظام ہی کر دے جس کی وجہ سے ان طالب علموں کے مسائل میں کمی واقع ہو۔



انہوں نے کہا کہ یہ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ اور روشن مستقبل کے معمار ہیں، ان کے ہاتھ سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے نہیں بلکہ اعلی تعلیمی اداروں میں قلم اٹھانے کے لیے ہیں ،ان جیسے بچوں کی باقاعدہ سرپرستی کر کے وزیراعظم عمران خان کے دو نہیں ایک پاکستان کے خواب کو پایا تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔

اس موقع پر اسکول میں پڑھنے والے بچے اور بچیوں نے بڑے ہو کر فوجی آفیسر، ڈاکٹر، انجنیئر، ٹیچر، بزنس مین بن کر ملک وقوم کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا عزم ظاہر کیا۔ طالب علموں اللہ رکھی،رابعہ، سونیا، فاطمہ، چاندنی، بادل، فلک شیر، فرید حسین، مصطفی اور ساجن سمیت دوسرے بچوں کا کہنا تھا کہ ان کی جھگیوں کے پاس ہی بننے والے اسکول نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں،ہم بھی اس ملک کے مفید شہری بن کر اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ابھی تو آغاز ہے منزل تب ملے گی جب یہ بچے شدید گرمی اورحبس میں کھلے آسمان تلے پڑھنے کی بجائے اسی مقام پر اسکول کی اچھی عمارت میں تعلیم حاصل کریں گے اور ان بچوں میں سے ایک استاد بند کر علم کی شمع روشن کرے گا۔
Load Next Story