وہ 14 لوگ

پاکستان کے قیام سے اب تک نچلے اور متوسط طبقے کی بہتری کے لیے مختلف حکومتیں خاطرخواہ اقدامات نہ کرسکیں۔

پاکستان کے عام لوگ ، کسان، مزدور، تاجر، دکاندار، دفتری ملازم ، گھریلو ملازمین ، ڈرائیور، چوکیدار، طلبا وطالبات بیروزگار نوجوان اور عمر رسیدہ بزرگ یعنی نچلے اور درمیانے طبقے کو خوشحال بنانا اور انھیں تحفظ فراہم کرنا ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان ترقی و خوشحالی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

دنیا میں ملکوں کی ترقی کا آزمودہ نسخہ اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی طریقہ لاگو ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان پر کبھی اچھے اور کبھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اگر پاکستان کا مقتدر طبقہ اور سول قیادت بہتر حکمت عملی اختیارکریں تو وہ اس سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

پاکستان کے قیام سے اب تک نچلے اور متوسط طبقے کی بہتری کے لیے مختلف حکومتیں خاطرخواہ اقدامات نہ کرسکیں۔ اشرافیہ کی بالادستی بڑھتی رہی اور غربت میں بھی اضافہ ہوتا رہا جس میں تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی کردار اور اثر رہا۔ پیداوار میں اضافہ ہوا، معیشت دباؤکا شکار رہی، اخراجات اور درآمدات پر قابو پانے کے بجائے قرضوں سے کام چلانے کی پالیسی سے مسائل مزید بڑھ گئے اور ملک کی خود مختاری بھی متاثر ہوئی۔

ملک میں ابتدائی دنوں سے حکمرانی کی رسہ کشی رہی۔ جمہوری نظام کو فروغ نہ مل سکا۔ آئین تبدیل ہوتا رہا ۔ غیر سول اور سول حکومتیں بھی عام آدمی کی خوشحالی کے لیے موثر جذبے سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ جمہوریت کے جو بھی ادوار تھے اس میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی یہی موضوع زیادہ تر زیر بحث رہتے ہیں۔

ذرایع ابلاغ کی فروعی معاملات پر زیادہ توجہ تھی۔ خطے میں امن کے لیے مختلف ادوار میں جو پالیسیاں تھیں پاکستان پر اس کے اچھے اثرات نہیں تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بد ترین بدنظمی، افراتفری اور انتشار کا شکار ہوگئے۔ بدعنوانی کا زہر پورے نظام میں داخل ہوگیا۔ اعلیٰ سرکاری ملازمین سے لے کر نچلی سطح تک خرابی پیدا ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک بڑے بحران میں ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

ہر ادارے میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سرکاری ادارے اصلاحات کے بغیر بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتے ہیں۔ قومی ہم آہنگی، یکجہتی اور بھرپور قومی جذبے کے ذریعے ہی ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اب بھی ملک سیاسی محاذ آرائی سے نہیں نکل سکا ہے، سلسلہ اب بھی جاری ہے ،گزشتہ دنوں اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی سے اپوزیشن کی جماعتوں کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے اور اس وقت بحث یہ ہے کہ وہ 14 لوگ کون تھے جو تحریک پیش کرتے وقت ساتھ تھے اور خفیہ رائے شماری کے وقت تحریک کی حمایت سے دستبردار ہوگئے۔

اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے پورے معاملے میں حکمت عملی کی خامی تھی یا اپوزیشن کسی جال میں پھنس گئی یعنی تحریک پیش کرائی گئی اور ناکام کرا دی گئی یہ تبصرہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت نے اس عدم اعتماد میں درپردہ کچھ فوائد حاصل کیے ہیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جو 5 ووٹ مسترد ہوئے اس میں سے 4 ووٹوں میں دونوں امیدواروں پر مہر لگائی گئی تھی، اس طرح یہ واضح ہے کہ 4 کا معاملہ بقیہ 10 کے علاوہ ہے۔


غالب امکان ہے کہ 4 کا معاملہ طے ہوا ہے۔ مسترد شدہ ووٹوں میں سے ایک ووٹ پر درمیان میں مہر لگی تھی۔ بقیہ 9 ووٹ تحریک کی مخالفت میں گئے اس طرح رجحان کچھ اس طرح تھا چار ووٹ ایک انداز سے نو ووٹ ایک اور انداز سے ایک کو غلطی بھی کہا جاسکتا ہے یا پھر یہ بھی کوئی علیحدہ انداز تھا۔ سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ شکست کے بعد کوئی واضح حکمت عملی نہ تھی انھیں ذرایع ابلاغ سے اس وقت تک دور رہنا تھا جب تک وہ سب آپس میں اجلاس کر کے میڈیا کے سامنے جانے کی حکمت عملی نہ طے کرتے۔

ایک مختصر سے اجلاس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس سے مزید منفی اثرات پیدا ہوئے۔ اس کے لیے طویل غور و فکر درکار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف نوعیت کے بیانات سامنے آئے۔ اپوزیشن کو یہ اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ 14 لوگوں کو تلاش کرینگے اور ان کے خلاف کارروائی کرینگے۔ اب یہ سوال ہر وقت اپوزیشن کا پیچھا کرتا رہے گا کہ وہ 14 لوگ کون تھے۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں حالات کی تبدیلی کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لیے واضح طریقہ کار سے محروم ہیں۔ ان کے پاس سیاسی معاشی اور خارجہ امور سے متعلق تحقیق کا معقول نظام نہیں ہے۔ آج بھی اپوزیشن تمام تر ناکامیوں کے باوجود کوئی واضح اور متبادل منصوبہ عوام کے سامنے پیش کر دے تو وہ ایک موثر اپوزیشن بن سکتی ہے۔ سب سے پہلے انھیں نیا اور مستقل اتحاد بنانا چاہیے۔ انھیں واضح مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے بعد درمیانی مدت کے انتخابات چاہتے ہیں۔ اس کے لیے موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کیا جائے۔

مطالبہ تسلیم نہ ہونے کی صورت میں صرف عدم اعتماد کی تحریک ہی وہ راستہ ہے جس سے وہ نئے انتخابات کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ نئے اتحاد میں انھیں نئے وزیر اعظم کا نام سامنے لانا ہوگا۔ یہاں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو 2023 میں وزیر اعظم کے امیدوار بننا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ کے لیے شہباز شریف کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے جو لوگ منتخب ہوکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں وہ اسمبلیوں کی تحلیل کے لیے تیار نہیں ہونگے اور بڑی اکثریت اس سے اختلاف کریگی۔ دوسرا راستہ سڑکوں پر احتجاج کا ہے۔ اس سے کسی بڑی کامیابی کی توقع رکھنا حقائق کے خلاف ہوگا۔ تحریک انصاف نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج سے حکومت تبدیل نہیں کی تھی۔

پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں نظریاتی، تنظیمی اور جمہوری سطح پر کمزور ہیں۔ انھیں خود کو بہتر کرنا ہوگا۔ اپوزیشن اور حکومت کو بھی کسی نہ کسی سطح پر ملک کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے قریب آنا ہوگا۔ بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اور رسہ کشی کے باوجود بنگلہ دیش نے بہبود آبادی کا کام کیا۔ آج بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ ہے جب کہ پاکستان کی 22 کروڑ ہے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اس کی آبادی پاکستان سے زیادہ تھی برآمدات میں بنگلہ دیش نے بھرپور اقدامات کیے جس سے اس کی معیشت بہتر ہوئی۔ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ تمام اداروں میں اصلاحات کرے، پیداوار میں اضافہ کرے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنیوالے اقدامات پر بھرپور توجہ دے۔

خطے میں امن کی ایسی پالیسی وضع کرے جس سے پاکستان پر منفی اثر نہ ہو۔ پاکستان کے عوام کو پانی، بجلی اور گیس کی مناسب فراہمی ہو۔ ہر بچے کو اسکول میں تعلیم مہیا ہو، ہر شخص کو طبی سہولیات مہیا ہوں، خوراک سستی ہو، غریب آدمی پر اس کا بوجھ نہ ہو، غریبوں کے پاس بنیادی ضروریات ہوں، رہائش ہو، صاف ستھرا ماحول میسر ہو۔ اگر ملک کے تمام طبقات اور سیاسی جماعتوں اور عوام نے مل کر بنیادی مسائل کو حل نہ کیا تو دنیا میں ترقی کی جو رفتار ہے اس میں ہم بہت پیچھے رہ جائینگے۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سینیٹ میں نیا چیئرمین لانے میں اپوزیشن کو ناکامی سے نئی راہ تلاش کرنی چاہیے ورنہ ہر وقت یہ سوال سامنے ہوگا کہ وہ 14 لوگ کون تھے۔ کہیں ان کی تعداد بڑھ نہ جائے۔
Load Next Story