احتساب ہو مگر شفاف
ہماری تجویز ہے آئینی ، قانونی احتسابی ، عدالتی معاملات میں کسی طرح سیاسی فائدہ نہ دیا جائے۔
عمران خان نے 22 سال اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کی، اس میں انھیں اس بات پرکامیابی ملی کہ وہ پاکستان میں گڈگورننس اورکرپشن کی گندکو صاف کردیں گے ۔ وہ اپنی تقریر میں یہ بھی کہتے تھے وہ اس ملک کے عوام سے اربوں روپے ٹیکس وصول کریں گے ۔جب وہ اقتدار میں آئے تو عوام نئے پاکستان کی تعبیرکے منتظر رہے۔
شروع میں حکومت کی ساری توجہ بڑے بڑے سیاستدانوں سے لوٹا ہوا مال وصول کرنے پر مرکوز ہوئی ۔اس کے لیے نیب پر ذمے داری ڈالی گئی۔ جب کوئی سیاسی جماعت کی سفارش سے افسر بنتا ہے وہ اس سیاسی لیڈرکا وفادار ہوتا ہے اسے ان سیاسی لیڈروں سے صرف ملازمت اور اختیار کی سہولت ملتی ہے بلکہ انھیں معاملات چلانے میں بھاری رقم بھی ملتی رہتی ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کا طرز زندگی ان کی آمدنی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
ایسے لوگ زیادہ تر ان سیاستدانوں کے وفادار ہوتے ہیں جو اب تمام اہم اداروں میں ملیں گے، چاہے وہ پولیس کا محکمہ ہو یاخفیہ ایجنسی ایف ائی اے کا ہو یا انکم ٹیکس کا، ریوینوکاہو، یا بلدیاتی ادارے ان تمام محکموں میں ان کے کارندے ہیں جو سیاستدان گزشتہ 30سال سے حکمرانی کر رہے ہیں ۔میری اس بات کی تائید سندھ میں صاف نظر آئے گی، تمام اداروں میں سب جگہ انھیں کے وفادار ملیں گے جن کی مدد سے ملک کی دولت لوٹی گئی۔
سابقہ چیف جسٹس میاں نثار نے اپنے تمام تر اختیارات کو بروے کار لاتے ہوئے سوموٹو ایکشن کے ذریعے بعض اداروں کے بڑے بڑے افسران کو بے نقاب کیا، انھی کے اقدامات کیوجہ سے یہ لوگ آج احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ، لیکن جو سیاسی پارٹی کے سر براہان ہیں وہ ابھی تک صحیح معنوں میں گرفت میں نہیں آئے ۔ یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اس قانون کے جال سے نکلنے کے لیے نیا راستہ تلاش کرلیتے ہیں ۔ یہ عوام کی خوش قسمتی ہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین سابق جسٹس جاوید اقبال بڑی ایمانداری سے بغیر کسی دباؤاور طمع ولالچ کے اپنے ادارے کو چلا رہے ہیں۔
میں نے کئی کالمز میں لکھا کہ وزیر اعظم پاکستان جو ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں انھیں چاہیے کہ نیب کے ادارے کو وسیع بھی کریں اور انھیں قانونی ماہرین بھی دیں، ان کے پاس مقدمہ لڑنے والے قابل وکیل ہوں اور جو مقدمہ وہ وکیل جیتے اس مقدمہ میں لوٹی ہوئی جو رقم واپس ہو اس کا دس فی صد حصہ نیب کے ادارے کو دیا جائے تاکہ وہ بطور بونس اپنے عملہ کو دے سکیں اور کم سے کم تنخواہ والابھی ایمانداری اور جانفشانی سے کام کرے اسے کسی لالچ میں نہ آنا پڑے۔
موجودہ حکومت کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ کرپشن کرنے والوں کا خود احتساب کرے بلکہ اصل ذمے داری یہ ہے اپنے تفشیشی اداروں کے ذریعے یا جے آئی ٹی کے ذریعے کرپٹ لوگوں کی لوٹی ہوئی آمدنی اثاثے اور بے نامی جائیداد بے نامی اکاؤنٹ کا باقاعدہ ایسا ثبوت تلاش کرے جو نا قابل تردید ہو پھر ان تمام ثبوتوں کو انصاف کرنے والے اداروں کے پاس پیش کرے یہ ثبوت خفیہ انداز میں تلاش کیے جائیں تاکہ جب احتساب کا ادارہ متعلقہ شخص کو بلائے اور یہ ثبوت دکھائے اور وہ اسے گرفتار کیا جائے اور اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے توکسی سیاستداں یا ابن سیاستداں یا دختر سیاستداں کو اسوقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت نہ مل جائیں اور نیب کو چاہیے دس مقدمے بنانے کے بجائے کم سے کم کسی ایک مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچا کر عوام الناس میں اپنے ادارے کی CREDIBILITY قائم کی جائے۔
اس طرح ہی ان طاقتور سیاستدانوں کو احتساب کے شکنجے میں لایا جاسکتا ہے جوگرفتارہو، اسے کسی صورت میں PRODUCTIONآرڈر نہ دیا جائے ویسے بھی یہ اسپیکر اسمبلی کا صوابدیدی اختیار ہے ہاں جب اسمبلی کے اجلاس میں کاؤنٹنگ یا ووٹنگ کا مرحلہ ہوتو اسے پروڈکشن آرڈر دیا جائے یہ پاکستان ہے جہاں کے سیاستدانوں نے اس قسم کی سہولت اپنے مفاد کے لیے بنائی ہے۔ ایک صوبے کا اسپیکر جب احتساب کی زد میں آیا، لاکھوں نہیں اربوں کی دولت سامنے آئی تو اس نے سب سے پہلے اپنے اختیارات میں اپنی پوری فیملی کو ملک سے باہر بھیج دیا اور اب وہ خود اکیلے ہیں اور خود ہی اپنا اجلاس اسمبلی بھی بلاتے اور اپنا پروڈکشن آرڈر بھی خود جاری کرتے ہیں ۔ دوسری طرف APCکے جو چیئرمین ہیں اپوزیشن کے لیڈر وہ جب پروڈکشن آرڈر پر آتے ہیں تو وہ ملزم ہیں ۔
ہماری تجویز ہے آئینی ، قانونی احتسابی ، عدالتی معاملات میں کسی طرح سیاسی فائدہ نہ دیا جائے۔اس معاملہ پر سب سے پہلے صدر مملکت اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کوئی اصول وضع کرلیں تا کہ کوئی ملزم خواہ سابقہ وزیر اعظم ہو یا صدر ، وزیر ہو یا مشیر اسے کسی طور ایسی رعایت نہ دی جائے جس سے وہ فائدہ اٹھا کر مقدمات کو طول نہ دے سکے اور نہ ہی اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکے چاہے اس کے لیے ہمارے خفیہ اداروں سے مدد لینی پڑے لیکن اس بات کا خیال ہرادارے نے کرنا ہے کہ کسی کے ساتھ معمولی سی بھی نا انصافی نہ ہوکسی کو زبردستی مجرم نہ بنایا جائے۔ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے ان پر جو الزامات کے ثبوت ہیں جو عدالت میں پیش کیے جا چکے ہوں ان کو میڈیا پر دکھایا جائے تا کہ عوام الناس حقیقتوں کو جان سکیں انھیں یقین آئے ہاں ان الزامات کے ثبوت میں انھیں ملزم قرار دینا درست ہوگا۔ فیصلہ عدلیہ کرے۔