حقیقت کا سامنا کریں
قسمت اور حالات پر کڑھنے کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں
لگی بندھی زندگی میں وہ وقت جس پر صرف آپ کا حق ہوتا ہے، گھر داری، شوہر، بچوں اور سسرالیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان سب کو اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی پَل دے دینے کے بعد بھی یہ یقینی نہیں کہ آپ ان سب کا دل جیت سکیں یا وہ مقام بنا سکیں جو بہو ہونے کے ناتے آپ کا حق ہے، تب آپ کو ایک کمی کا احساس ستاتا ہے۔
اگر مسلسل سوچ اور کشمکش جاری رہے تو اس کا آپ کی ذہنی صحت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت افسردگی اور یاسیت وہ کیفیت ہے جس میں آپ کے لیے خوش رہنا ناممکن بن جاتا ہے۔
یہی وہ عرصہ ہے جب آپ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوسکتی ہیں جن پر فوری توجہ نہ دی جائے تو ذہنی عارضہ اور جسمانی روگ لاحق ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے ہی ماحول میں ایک اجنبی بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس لیے بالکل الگ ماحول اور شادی شدہ زندگی مشکل ہے تو اس کے مختلف پہلو اور دل آزار لمحوں کو سوچ سوچ کر اسے مزید مشکل مت بنائیں۔ یوں تو شادی کے بعد ہمارے سماج میں عورت کو نئے لوگوں اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے اور اپنا تعلق ان کے ساتھ مضبوط بنانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کچھ معاملات نہایت حساس اور تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں۔
اس میں شوہر یا ساس کی جانب سے بدسلوکی اور برا رویہ یا پھر اولاد نہ ہونا یا بیٹا نہ ہونا خاص طور پر ایک عورت کے لیے نہایت اذیت ناک اور تکلیف دہ بات بن سکتی ہے۔ اگر قدرت نے آپ کو بیٹا نہیں دیا تو اس کمی کو سَر پر سوار مت رکھیے۔ آپ بیٹی کی ماں ہیں تو سوچیے کہ زندگی سے مایوس ہوکر، غم گین رہ کر اپنی اولاد کو خوشی دے سکیں گی؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی ہر وقت کی منفی سوچیں آپ کی بیٹیوں پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں؟
مایوس ہونے کے بجائے شکر ادا کریں۔ آپ سوچیں کہ اگر قدرت نے آپ کو ایک بیٹی سے بھی نہ نوازا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ سوچ آپ کے اندر ایک نئی طاقت، ایک نئی امنگ پیدا کرے گی۔ آپ خود میں تبدیلی محسوس کریں تو ان ننھی سی بیٹیوں کی طرف متوجہ ہوں جو آپ کی ایک نظرِ التفات کی منتظر ہیں۔ کیوں کہ صرف جنم دینا ہی نہیں بلکہ اچھی پرورش، تحفظ کا احساس اور سب سے بڑھ کر محبت پانا بھی ان کا حق ہے۔ تو اتنی بڑی ذمہ داری سَر پر ہوتے ہوئے آپ کسی قسم کی کوتاہی کا تصور بھی کیسے کرسکتی ہیں؟
آپ کیوں اپنی کم زوری یا محرومی کا اثر اپنی بیٹیوں پر ڈالنا چاہتی ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کوئی بھی عورت خود اپنی ہی خوشیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آپ اپنی مایوسی اور محرومی کا اظہار کرکے دوسروں کو اس حوالے سے ہر جائز و ناجائز بات کرنے اور غیر ضروری مشورے دینے کا موقع دیتی ہیں۔ اس کے بعد تکلیف اور مسلسل تکلیف آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔ اگر بیٹا نہ ملے تو کیا اپنی ساری زندگی مریضانہ انداز اور خود ترسی میں گزار دیں؟
اگر آپ ہی خود کو بیٹا نہ پیدا کرنے پر 'مجرم' مان لیں گی تو کیا آپ کے اردگرد موجود کم عقل، حاسد، کج فہم اور موقع پرست اس کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ کیا اس طرح آپ ان کو طعنہ زنی اور لفظوں سے دل چیر کر رکھ دینے کی اجازت نہیں دے رہیں؟
منفی خیالات سے آپ خود کو زندگی کے میدان میں ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح پیش تو کررہی ہیں، لیکن اپنے آنگن میں موجود ننھی پریوں کا بھی سوچیے۔ اس طرح آپ ان کو کیا سبق دے رہی ہیں۔ کل اگر ان میں سے بھی کسی کی گود میں بیٹا نہ اترا تو کیا وہ بھی خود کو مجرم تصور کر کے تمام خوشیوں اور رشتوں سے دور ہو جائیں؟
ہر قصے، کہانی کو سچ اور اصل زندگی مت جانیے۔ لوگوں کی باتوں سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں کہ آپ ذہنی مریض ہی بن جائیں۔ اگر آپ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے افسردگی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر کسی ذہنی امراض کے وارڈ میں پڑی ہوں تو آپ کی بچیوں کی پرورش کی ذمہ داری کون نبھائے گا، گھریلو معاملات کیسے چلیں گے۔ کیا شوہر دفتر، کاروبار اور دیگر کاموں کے ساتھ آپ کا خیال رکھ سکے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے آپ کی بچیوں کی دیکھ بھال بھی کرنا ہو گی۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ گھر کے ایک کونے میں پڑی ہوں، آپ کے بچے بھی آپ سے دور رہنا چاہتے ہوں اور آپ کی اس غیر ضروری سوچ اور ذہنی تناؤ سے گھریلو نظام تباہ ہو جائے؟
آپ ہی کو طے کرنا ہے کہ اپنی زندگی کیسے گزارنا چاہتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ خود اپنی زندگی کو آسان بنائیں گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ کوئی اپنی خدمات تھالی میں سجا کر آپ کو پیش کرے، اور نہ ہی ہر وقت، ہر موقع پر کوئی آپ کی دل جوئی کے لیے موجود ہو گا۔ کبھی کبھار ہمیں دوسروں سے زیادہ خود کو سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ ایسے کسی دوراہے پر کھڑی ہیں تو آپ اپنے لیے سوچیں۔ مانا کہ لوگوں کی باتیں، رویوں اور جلی کٹی نظر انداز کرنا آسان نہیں، اور نہ ہی آپ ایسی باتوں کو ہنس کر ہوا میں اڑا سکتے ہیں، مگر اسے معمول کی زندگی پر اثر انداز بھی نہ ہونے دیں۔ اپنے دماغ کو پریشر ککر مت بننے دیں جس میں ہر وقت دوسروں کا رویہ، سلوک، آپ کے حوالے سے ادا کیے گئے ان کے الفاظ، ان کی سوچ پکتی رہے۔
دوسروں کے بعد آپ کا اپنی ذات اور معاملات سے متعلق منفی سوچ رکھنا، غیرضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا بھی آپ کو تباہ کر سکتا ہے۔ اپنے آپ کو اس سے بچائیںاور مثبت احساس پیدا کریں۔ امید کی، روشنی کی ننھی کرنوں کو تلاش کریں، مسرت اور ترنگ کا کھوج لگائیں اور اسے اپنے اندر اترنے دیں کہ یہ آپ کے وجود، آپ کے آشیانے اور متعلقین کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
اگر مسلسل سوچ اور کشمکش جاری رہے تو اس کا آپ کی ذہنی صحت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت افسردگی اور یاسیت وہ کیفیت ہے جس میں آپ کے لیے خوش رہنا ناممکن بن جاتا ہے۔
یہی وہ عرصہ ہے جب آپ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوسکتی ہیں جن پر فوری توجہ نہ دی جائے تو ذہنی عارضہ اور جسمانی روگ لاحق ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے ہی ماحول میں ایک اجنبی بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس لیے بالکل الگ ماحول اور شادی شدہ زندگی مشکل ہے تو اس کے مختلف پہلو اور دل آزار لمحوں کو سوچ سوچ کر اسے مزید مشکل مت بنائیں۔ یوں تو شادی کے بعد ہمارے سماج میں عورت کو نئے لوگوں اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے اور اپنا تعلق ان کے ساتھ مضبوط بنانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کچھ معاملات نہایت حساس اور تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں۔
اس میں شوہر یا ساس کی جانب سے بدسلوکی اور برا رویہ یا پھر اولاد نہ ہونا یا بیٹا نہ ہونا خاص طور پر ایک عورت کے لیے نہایت اذیت ناک اور تکلیف دہ بات بن سکتی ہے۔ اگر قدرت نے آپ کو بیٹا نہیں دیا تو اس کمی کو سَر پر سوار مت رکھیے۔ آپ بیٹی کی ماں ہیں تو سوچیے کہ زندگی سے مایوس ہوکر، غم گین رہ کر اپنی اولاد کو خوشی دے سکیں گی؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی ہر وقت کی منفی سوچیں آپ کی بیٹیوں پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں؟
مایوس ہونے کے بجائے شکر ادا کریں۔ آپ سوچیں کہ اگر قدرت نے آپ کو ایک بیٹی سے بھی نہ نوازا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ سوچ آپ کے اندر ایک نئی طاقت، ایک نئی امنگ پیدا کرے گی۔ آپ خود میں تبدیلی محسوس کریں تو ان ننھی سی بیٹیوں کی طرف متوجہ ہوں جو آپ کی ایک نظرِ التفات کی منتظر ہیں۔ کیوں کہ صرف جنم دینا ہی نہیں بلکہ اچھی پرورش، تحفظ کا احساس اور سب سے بڑھ کر محبت پانا بھی ان کا حق ہے۔ تو اتنی بڑی ذمہ داری سَر پر ہوتے ہوئے آپ کسی قسم کی کوتاہی کا تصور بھی کیسے کرسکتی ہیں؟
آپ کیوں اپنی کم زوری یا محرومی کا اثر اپنی بیٹیوں پر ڈالنا چاہتی ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کوئی بھی عورت خود اپنی ہی خوشیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آپ اپنی مایوسی اور محرومی کا اظہار کرکے دوسروں کو اس حوالے سے ہر جائز و ناجائز بات کرنے اور غیر ضروری مشورے دینے کا موقع دیتی ہیں۔ اس کے بعد تکلیف اور مسلسل تکلیف آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔ اگر بیٹا نہ ملے تو کیا اپنی ساری زندگی مریضانہ انداز اور خود ترسی میں گزار دیں؟
اگر آپ ہی خود کو بیٹا نہ پیدا کرنے پر 'مجرم' مان لیں گی تو کیا آپ کے اردگرد موجود کم عقل، حاسد، کج فہم اور موقع پرست اس کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ کیا اس طرح آپ ان کو طعنہ زنی اور لفظوں سے دل چیر کر رکھ دینے کی اجازت نہیں دے رہیں؟
منفی خیالات سے آپ خود کو زندگی کے میدان میں ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح پیش تو کررہی ہیں، لیکن اپنے آنگن میں موجود ننھی پریوں کا بھی سوچیے۔ اس طرح آپ ان کو کیا سبق دے رہی ہیں۔ کل اگر ان میں سے بھی کسی کی گود میں بیٹا نہ اترا تو کیا وہ بھی خود کو مجرم تصور کر کے تمام خوشیوں اور رشتوں سے دور ہو جائیں؟
ہر قصے، کہانی کو سچ اور اصل زندگی مت جانیے۔ لوگوں کی باتوں سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں کہ آپ ذہنی مریض ہی بن جائیں۔ اگر آپ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے افسردگی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر کسی ذہنی امراض کے وارڈ میں پڑی ہوں تو آپ کی بچیوں کی پرورش کی ذمہ داری کون نبھائے گا، گھریلو معاملات کیسے چلیں گے۔ کیا شوہر دفتر، کاروبار اور دیگر کاموں کے ساتھ آپ کا خیال رکھ سکے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے آپ کی بچیوں کی دیکھ بھال بھی کرنا ہو گی۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ گھر کے ایک کونے میں پڑی ہوں، آپ کے بچے بھی آپ سے دور رہنا چاہتے ہوں اور آپ کی اس غیر ضروری سوچ اور ذہنی تناؤ سے گھریلو نظام تباہ ہو جائے؟
آپ ہی کو طے کرنا ہے کہ اپنی زندگی کیسے گزارنا چاہتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ خود اپنی زندگی کو آسان بنائیں گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ کوئی اپنی خدمات تھالی میں سجا کر آپ کو پیش کرے، اور نہ ہی ہر وقت، ہر موقع پر کوئی آپ کی دل جوئی کے لیے موجود ہو گا۔ کبھی کبھار ہمیں دوسروں سے زیادہ خود کو سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ ایسے کسی دوراہے پر کھڑی ہیں تو آپ اپنے لیے سوچیں۔ مانا کہ لوگوں کی باتیں، رویوں اور جلی کٹی نظر انداز کرنا آسان نہیں، اور نہ ہی آپ ایسی باتوں کو ہنس کر ہوا میں اڑا سکتے ہیں، مگر اسے معمول کی زندگی پر اثر انداز بھی نہ ہونے دیں۔ اپنے دماغ کو پریشر ککر مت بننے دیں جس میں ہر وقت دوسروں کا رویہ، سلوک، آپ کے حوالے سے ادا کیے گئے ان کے الفاظ، ان کی سوچ پکتی رہے۔
دوسروں کے بعد آپ کا اپنی ذات اور معاملات سے متعلق منفی سوچ رکھنا، غیرضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا بھی آپ کو تباہ کر سکتا ہے۔ اپنے آپ کو اس سے بچائیںاور مثبت احساس پیدا کریں۔ امید کی، روشنی کی ننھی کرنوں کو تلاش کریں، مسرت اور ترنگ کا کھوج لگائیں اور اسے اپنے اندر اترنے دیں کہ یہ آپ کے وجود، آپ کے آشیانے اور متعلقین کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔