مذاق تھا بھئی
ہم لوگوں کی فطرت تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ہنسنے کی باتوں کا برا مان جاتے ہیں، جبکہ رونے کی باتوں پر ہنسنا شروع کردیتے ہیں
دکھوں کی باتیں تو بہت کرلیں، آج سوچا کچھ ہنسی کی باتیں بھی کرلی جائیں۔ ہم لوگوں کی فطرت ویسے بھی کچھ تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ہنسنے کی باتوں کا برا مان جاتے ہیں، جبکہ رونے کی باتوں پر ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔ آج ہر منفی بات کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔
ہمارے وزیر خزانہ اس بات پر بہت زور دے کر چیلنج کرتے رہے ہیں کہ حکومت نے تیل اور گھی پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ لیکن تیل اور گھی کی قیمتوں میں تقریباً چالیس سے پچاس روپے فی کلو کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہر شخص صرف گھی اور تیل مہنگا ہونے کی شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے مثبت پہلو کو کوئی دیکھ ہی نہیں پارہا۔ کل تک جو شخص پانچ کلو گھی کھا کر اپنی صحت برباد کررہا تھا، حکومت کے اس مثبت اقدام سے اس کی قوت خرید اسے صرف تین کلو گھی ہی خریدنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس کی صحت کو گھی کھانے کے منفی اثرات سے بچانے کےلئے حکومت اس سے بہتر اور کیا قدم اٹھا سکتی تھی۔ آج سے پانچ سال کے بعد ہر شخص کی صحت جتنی بہتر ہوجائے گی اس کا عوام ابھی اندازہ بھی نہیں کرسکتی۔
آج دل کی جتنی بیماریاں گھی اور تیل کا زیادہ استمعال کرنے سے پیدا ہورہی تھیں، اس کا تدارک ہوسکے گا۔ دل کی بیماریوں کے خاتمے کی اس سے بہتر اور سستی کیا کوئی اور ترکیب ہوسکتی تھی؟
ذرا بتائیے، آج پٹرول کی قیمت جس مقام پر پہنچ چکی ہے، اس کا اتنا اچھا اثر مردوں کی زندگی پر پڑا ہے جو صرف مرد ہی جان سکتے ہیں۔ پٹرول کا خرچ تو ویسے بھی ہمارے انفرادی بجٹ کا ایک بڑا حصہ بن چکا ہے۔ اس ہوشربا قیمت پر گاڑی میں بلاضرورت پٹرول ڈلوانا اچھے خاصے دل گردے کا کام بن گیا ہے۔ آج گھر کی خواتین بھی کہیں جانے کی فرمائش سے پہلے ایک آدھ بار سوچنے لگی ہیں کہ کہیں بلاضرورت گھومنے پھرنے کے چکر میں ایک آدھ سوٹ کی قربانی نہ دینی پڑجائے۔
اب اس بات کا کریڈٹ بھی تو حکومت کو ملنا چاہئے۔ کیونکہ مرد حضرات ہی جانتے ہیں کہ اگر گھومنے پھرنے لے کر جانا ہو تو بات صرف گھومنے پھرنے تک ہی محدود نہیں رہتی ہے، کچھ کھلانا پلانا بھی پڑتا ہے، ٹائم الگ دینا پڑتا ہے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت بڑھا کر کم از کم مردوں کو تو سکون کے چند لمحات میسر کردئیے ہیں۔ کیا یہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی نہیں ہے؟
اپوزیشن کے لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی اس حد تک پہنچا دی ہے کہ عوام کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ کس قدر غلط سوچ رکھتی ہے ہماری اپوزیشن۔ کیا وہ اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کہ حکومت عوام کو رزق کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہتی ہے۔ کس قدر رزق ہمارے عوام ضائع کررہے تھے۔ اکثر و بیشتر گھرانوں میں رات کا بچا ہوا کھانا صبح ماسیوں کو دے دیا جاتا تھا۔ کوئی باسی کھانا، کھانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اب اگر اتنا مہنگا کھانا بنایا جائے گا تو ماسیوں کو کھانا دینے سے پہلے خواتین ایک بار سوچیں گی تو ضرور۔ اگر باسی کھانا کھانے کی عادت ہماری قوم کو پڑ گئی تو کتنے فوائد قوم کو حاصل ہوں گے۔ یہ سوچا ہے کسی نے؟
سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہماری قوم میں انکساری پیدا ہوگی۔ غرور اور تکبر سے نجات ملے گی۔ روکھی سوکھی کھانے سے ہماری قوم معرفت کی کتنی منزلیں طے کرلے گی۔ کچھ اندازہ ہے اس اپوزیشن کو؟
ہر شخص اس بات کا رونا روتا نظر آتا ہے کہ آج کل کی مہنگائی میں کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔ آخر آپ نے بچا کر کرنا ہی کیا تھاَ وہ معرفانہ قول تو ہر ایک نے سن رکھا ہوگا کہ جو کھا لیا وہ اپنا ہے، جو پہن لیا وہ اپنا ہے، باقی سب کچھ تو وارثوں کا ہے۔ آج کل وارث پہلے ہی اتنے نالائق نکل رہے ہیں کہ ان کےلئے کچھ بچا کر چھوڑ جانے کا دل ہی نہیں کرتا۔ لہٰذا حکومت چاہتی ہے کہ آپ جو کچھ کمائیں اپنے کھانے پہننے پر ہی خرچ کریں۔ نالائقوں کےلئے کچھ نہ چھوڑیں۔ اس طرح نالائقوں کو اپنی زندگی خود بنانے کا خیال آسکتا ہے۔ ہماری اگلی نسل کی بہتری کےلئے اس سے بہتر کوئی منصوبہ اگر کسی اور کے پاس ہو تو بتائے۔
لوگ کہتے ہیں حکومت نے سیمنٹ کی قیمتیں بڑھا کر غریب تو کیا، امیر کےلئے بھی مکان کا حصول ناممکن بنادیا ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کا دل کرتا ہے۔ ہماری حکومت اپنی قوم کو اقبال کا شاہین بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا یہ قوم بھول گئی ہے کہ اقبال نے اپنی قوم سے کیا کہا تھا؟
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال کا شاہین کسی قصر میں نہیں، پہاڑوں کی چٹانوں پر رہتا ہے۔ اگر اپوزیشن کو کسی پہاڑی سلسلے کا پتا معلوم نہ ہو تو اس میں حکومت کا کیا قصور۔
ایک صاحب کی حادثے میں ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔ لوگ ان کے پاس تعزیت کےلیے آنے لگے۔ ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ بہت افسوس ہوا آپ کی ایک ٹانگ کٹ گئی۔ ان صاحب نے تعزیت کرنے والوں سے کہا کہ آپ لوگ غم کیوں کررہے ہیں؟ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اب میرا جوتوں کا خرچ آدھا ہوگیا ہے۔ اب مجھے صرف ایک پیر کا جوتا خریدنا پڑے گا۔ پاکستانی قوم بھی کیا یہی طرز عمل اختیار نہیں کرسکتی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمارے وزیر خزانہ اس بات پر بہت زور دے کر چیلنج کرتے رہے ہیں کہ حکومت نے تیل اور گھی پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ لیکن تیل اور گھی کی قیمتوں میں تقریباً چالیس سے پچاس روپے فی کلو کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہر شخص صرف گھی اور تیل مہنگا ہونے کی شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے مثبت پہلو کو کوئی دیکھ ہی نہیں پارہا۔ کل تک جو شخص پانچ کلو گھی کھا کر اپنی صحت برباد کررہا تھا، حکومت کے اس مثبت اقدام سے اس کی قوت خرید اسے صرف تین کلو گھی ہی خریدنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس کی صحت کو گھی کھانے کے منفی اثرات سے بچانے کےلئے حکومت اس سے بہتر اور کیا قدم اٹھا سکتی تھی۔ آج سے پانچ سال کے بعد ہر شخص کی صحت جتنی بہتر ہوجائے گی اس کا عوام ابھی اندازہ بھی نہیں کرسکتی۔
آج دل کی جتنی بیماریاں گھی اور تیل کا زیادہ استمعال کرنے سے پیدا ہورہی تھیں، اس کا تدارک ہوسکے گا۔ دل کی بیماریوں کے خاتمے کی اس سے بہتر اور سستی کیا کوئی اور ترکیب ہوسکتی تھی؟
ذرا بتائیے، آج پٹرول کی قیمت جس مقام پر پہنچ چکی ہے، اس کا اتنا اچھا اثر مردوں کی زندگی پر پڑا ہے جو صرف مرد ہی جان سکتے ہیں۔ پٹرول کا خرچ تو ویسے بھی ہمارے انفرادی بجٹ کا ایک بڑا حصہ بن چکا ہے۔ اس ہوشربا قیمت پر گاڑی میں بلاضرورت پٹرول ڈلوانا اچھے خاصے دل گردے کا کام بن گیا ہے۔ آج گھر کی خواتین بھی کہیں جانے کی فرمائش سے پہلے ایک آدھ بار سوچنے لگی ہیں کہ کہیں بلاضرورت گھومنے پھرنے کے چکر میں ایک آدھ سوٹ کی قربانی نہ دینی پڑجائے۔
اب اس بات کا کریڈٹ بھی تو حکومت کو ملنا چاہئے۔ کیونکہ مرد حضرات ہی جانتے ہیں کہ اگر گھومنے پھرنے لے کر جانا ہو تو بات صرف گھومنے پھرنے تک ہی محدود نہیں رہتی ہے، کچھ کھلانا پلانا بھی پڑتا ہے، ٹائم الگ دینا پڑتا ہے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت بڑھا کر کم از کم مردوں کو تو سکون کے چند لمحات میسر کردئیے ہیں۔ کیا یہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی نہیں ہے؟
اپوزیشن کے لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی اس حد تک پہنچا دی ہے کہ عوام کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ کس قدر غلط سوچ رکھتی ہے ہماری اپوزیشن۔ کیا وہ اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کہ حکومت عوام کو رزق کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہتی ہے۔ کس قدر رزق ہمارے عوام ضائع کررہے تھے۔ اکثر و بیشتر گھرانوں میں رات کا بچا ہوا کھانا صبح ماسیوں کو دے دیا جاتا تھا۔ کوئی باسی کھانا، کھانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اب اگر اتنا مہنگا کھانا بنایا جائے گا تو ماسیوں کو کھانا دینے سے پہلے خواتین ایک بار سوچیں گی تو ضرور۔ اگر باسی کھانا کھانے کی عادت ہماری قوم کو پڑ گئی تو کتنے فوائد قوم کو حاصل ہوں گے۔ یہ سوچا ہے کسی نے؟
سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہماری قوم میں انکساری پیدا ہوگی۔ غرور اور تکبر سے نجات ملے گی۔ روکھی سوکھی کھانے سے ہماری قوم معرفت کی کتنی منزلیں طے کرلے گی۔ کچھ اندازہ ہے اس اپوزیشن کو؟
ہر شخص اس بات کا رونا روتا نظر آتا ہے کہ آج کل کی مہنگائی میں کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔ آخر آپ نے بچا کر کرنا ہی کیا تھاَ وہ معرفانہ قول تو ہر ایک نے سن رکھا ہوگا کہ جو کھا لیا وہ اپنا ہے، جو پہن لیا وہ اپنا ہے، باقی سب کچھ تو وارثوں کا ہے۔ آج کل وارث پہلے ہی اتنے نالائق نکل رہے ہیں کہ ان کےلئے کچھ بچا کر چھوڑ جانے کا دل ہی نہیں کرتا۔ لہٰذا حکومت چاہتی ہے کہ آپ جو کچھ کمائیں اپنے کھانے پہننے پر ہی خرچ کریں۔ نالائقوں کےلئے کچھ نہ چھوڑیں۔ اس طرح نالائقوں کو اپنی زندگی خود بنانے کا خیال آسکتا ہے۔ ہماری اگلی نسل کی بہتری کےلئے اس سے بہتر کوئی منصوبہ اگر کسی اور کے پاس ہو تو بتائے۔
لوگ کہتے ہیں حکومت نے سیمنٹ کی قیمتیں بڑھا کر غریب تو کیا، امیر کےلئے بھی مکان کا حصول ناممکن بنادیا ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کا دل کرتا ہے۔ ہماری حکومت اپنی قوم کو اقبال کا شاہین بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا یہ قوم بھول گئی ہے کہ اقبال نے اپنی قوم سے کیا کہا تھا؟
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال کا شاہین کسی قصر میں نہیں، پہاڑوں کی چٹانوں پر رہتا ہے۔ اگر اپوزیشن کو کسی پہاڑی سلسلے کا پتا معلوم نہ ہو تو اس میں حکومت کا کیا قصور۔
ایک صاحب کی حادثے میں ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔ لوگ ان کے پاس تعزیت کےلیے آنے لگے۔ ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ بہت افسوس ہوا آپ کی ایک ٹانگ کٹ گئی۔ ان صاحب نے تعزیت کرنے والوں سے کہا کہ آپ لوگ غم کیوں کررہے ہیں؟ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اب میرا جوتوں کا خرچ آدھا ہوگیا ہے۔ اب مجھے صرف ایک پیر کا جوتا خریدنا پڑے گا۔ پاکستانی قوم بھی کیا یہی طرز عمل اختیار نہیں کرسکتی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔