دو قومی نظریہ اور کشمیر

برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی اور بھارت کے ٹکڑے بھی کشمیریوں کے لہو کا قصاص ادا نہیں کرسکتے


زوہیب اختر August 06, 2019
بھارت یہ اقدام کرکے اپنی ہی موت کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

BEIRUT: شاعروں، ادیبوں، مصنفین، تاریخ دانوں، مذہبی حلقوں اور بڑے بڑے دانشوروں سے لے کر عسکری اداروں تک، بارڈر کے اس پار بھی اور اس پار بھی 70 سال یہ بحث جاری رہی کہ آیا دو قومی نظریہ ہمیں سب دے گیا یا ہم سے سب لے گیا۔

ہم جو دو قومی نظریے کے ضامن تھے، لیکن تاریخ نے دیکھا کہ ہم نے ہی یہ بحث سب سے پہلے چھیڑی۔ اس نظریے کو پامال کرنے کی شروعات کی اور اسے رسوا کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ معاملہ عبدالکلام آزاد سے شروع ہوا اور قائداعظم کی کلین شیو چمڑی پر ملاؤں کی داڑھیوں کا طنز و مزاح اسے جلا بخشتا چلا گیا۔

جس قائد کے وسیلے ہمارے کانوں میں اذانیں گونجنے لگیں، ہمیں چہروں کو پرنور داڑھیوں کے زیور سے آراستہ رکھنے کی آزادی ملی، ہمیں نمازیں ادا کرنے اور عبادات کی آزادی ملی، اسلام کے ٹھیکیداروں نے سب سے پہلے اسی قائد کو خرافاتی ذہن کا مالک اور اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے اس کے نظریے کی پامالی کا سامان مہیا کیا۔

پھر ادیبوں کا وہ ٹولہ، جن کی خودغرضی نے انہیں ہندوستان کی گلیوں، محلوں، شہروں اور معشوقوں کی محبت سے نکل کر ایک آزاد ریاست کے تصور اور آنے والی نسلوں پر اس کے اثرات کے بارے میں سوچنے کی کبھی اجازت ہی نہیں دی، تاعمر قائد کے نظریے کو تار تار کرتے رہے۔

ایک طبقہ وہ بھی ہے جن کے خرافاتی قلم ہی ناشکری اور شکایات کی بدولت چلتے اور بِکتے ہیں۔ یہ شکر کرنا جانتے ہی نہیں اور ہر مثبت پہلو میں بھی شکوک و شبہات اور شکایات تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے تو اس نظریے کو منفی بحث کی بھینٹ چڑھانے سے بہتر کوئی عبادت ہو ہی نہیں سکتی تھی، اپنے منفی و فرسودہ خیالات کی تسکین کے لیے۔ سو یہ طبقہ بھی خوب عبادت گزار رہا۔

پھر ہماری قسمت میں ایسے دانشمند سیاستدان بھی آئے جن کے نزدیک دونوں قوموں میں آلو گوشت کھانا ہی انہیں ایک قوم بنا دیتا ہے اور ایسی لبرل سیاسی جماعتوں نے بھی اس ملک پر حکومت کی ہے جو اس نظریے کو ''نان ایشو'' سمجھتے ہیں۔

مختصر یہ کہ ہم جو دو قومی نظریے کے ضامن تھے، ہمارے ہاں کسی بھی طبقے نے اس نظرے کو پامال کرنے میں کسر نہ چھوڑی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ آج کی تیسری نسل میں نصف شرح ان ہی جدت پسندوں یا لکیر کے فقیر علماء کے مداحوں کی پائی جاتی ہے، جنہیں آج پاکستان کی بنیاد رکھنے والے دو قومی نظریے نام کے کسی نظریے کا یا تو علم ہی نہیں یا انہیں اس نظریے کے وجود سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔

اللہ سمیع و بصیر ہے۔ وہ سب دیکھنے والا ہے۔ بے شک اس کی چال ہماری چال سے بہترین ہوتی ہے۔ دو قومی نظریے کی بصیرت بھی اللہ ہی کی عنایت تھی اور اس نظریے کی حفاظت بھی اس نے خود کی۔

جب دو قومی نظریے کے ضامن اسے پامال کرنے کی ٹھان رہے تھے تب اللہ دشمن کے ہاتھوں ہی اس نظریے کی بنیادیں مزید مظبوط کروا رہا تھا۔ جب جناح پر فتوے لگائے جارہے تھے تب گاندھی کے قتل کے منصوبے بھی بنائے جارہے تھے۔ جب ہمارے سیاستدان اس نظریے سے منہ پھیر رہے تھے تب ہندوستان میں گوڈسے کے نظریے کو تقویت بھی مل رہی تھی۔

جب دنیا دو قومی نظریے کی منکر ہونے کے در پر آچکی، تب اللہ نے ہندوستان پر مودی کو مسلط کرکے ہمیں اس نظریے کی یاددہانی کروائی اور آج جب دنیا عین اس مقام پر کھڑی ہے جہاں اس نظریے کے حق اور باطل ہونے کا فیصلہ سنائے جانے کا وقت آن پہنچا تو کشمیر پر مودی حکومت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اور کشمیر کی آزادانہ حیثیت کا خاتمہ کرکے بھارت نے خود قائداعظم کی بصیرت پر مہر ثبت کردی۔

بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے اقدام نے ایک طرف تو اس نظریے کے حامیوں کے اصولوں کو مزید قطعت بخشی ہے اور دوسری طرف بھارت اور برصغیر کے ان مسلمانوں کی آنکھیں کھول دی ہیں جو جناح کو لیڈر نہیں تصور کرتے۔

بھارت یہ اقدام کرکے اپنی ہی موت کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ یہ ٹکڑے مقبوضہ کشمیر کے نہیں بھارت کے ہونے جارہے ہیں۔ کشمیریوں نے جتنا لہو بہایا ہے، اس کی قیمت اب صرف کشمیر کی آزادی ہونی بھی نہیں چاہیے، بلکہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی اور بھارت کے ٹکڑے بھی اس لہو کا قصاص نہیں ادا کرسکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں