افغان فورسز کی اشتعال انگیزی

پاک افغان سرحدی علاقے قمر الدین کاریز میں بدھ کو افغان فورسز کی فائرنگ سے لیویز اہلکار سمیت 5 افراد جاں بحق ہو ئے تھے۔

افغان فورسز کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی افغان فورسزکی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں. فوٹو: فائل

بلوچستان کے ضلع ژوب کے قریب پاک افغان سرحدی علاقے قمر الدین کاریز میں بدھ کی صبح افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے لیویز اہلکار سمیت 5 افراد جاں بحق اور خاتون سمیت20 افراد زخمی ہو گئے۔ پاکستان نے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا اور افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے افغان حکومت سے واقعے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق افغان فورسز نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ جس سے گھاس اور لکڑیاں جمع کرنے والے پاکستانی دیہاتی اور ایک لیویز اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ سیکیورٹی حکام نے افغان فورسز کی جانب سے فائرنگ اور5 افراد کی ہلاکت کے واقعے کی تصدیق کر دی ہے۔ بی بی سی نے ڈی سی او ژوب کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ کے دوران کھیتوں میں کام کر رہے تھے اور اس جھڑپ میں طالبان جنگجو بھی مارے گئے ہیں۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے' اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا' بہر حال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو' افغان سیکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پاکستان حدود میں داخل ہو کر فائرنگ کریں۔

افغان فورسز کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی افغان فورسزکی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور فائرنگ کے واقعات میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی اس اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس طرح کے واقعات سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات خراب ہو سکتے ہیں' برادرانہ تعلقات کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم سرحدی حدود کی خلاف ورزی اور عوام کے قتل عام کو برداشت کریں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا یہ ردعمل دلیرانہ بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ وزیر اعظم پاکستان کو بھی افغانستان کی حکومت سے اس معاملے پر بات کرنی چاہیے۔ ملک کی سیاسی قیادت کو بھی اس حوالے سے احتجاجی آواز بلند کرنی چاہیے۔

پاک افغان سرحد کے آر پار اس وقت جو صورتحال ہے' اس کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی ایسا اشتعال انگیز اقدام نہ کیا جائے جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان محاذ آرائی پیدا ہو۔ گزشتہ روز ژوب میں پاک افغان سرحد پر جو کچھ ہوا ہے' اسے اشتعال انگیزی ہی کہا جائے گا۔ بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکت کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے' پاکستان اس وقت افغانستان کے ساتھ دوستی یا ہمسائیگی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مرتکب کئی گروہ افغانستان میں پناہ گزین ہیں لیکن کرزئی انتظامیہ ان پر گرفت کرنے میں ناکام ہے۔ شمالی و جنوبی وزیرستان سے ملحقہ سرحد ہو یا چترال' دیر اور باجوڑ سے ملحقہ سرحدی علاقے' یہاں سے پاکستان میں اکثر کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مولوی فضل اللہ گروپ ہو یا حکیم اللہ محسود گروپ' یہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان میں رابطہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر میں دہشت گردوں کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگ کے حادثے میں پاک فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی' لیفٹیننٹ کرنل توصیف احمد اور لانس نائیک عرفان ستار شہید ہو گئے تھے' اس سانحے سے قبل بھی متعدد بار مولوی فضل اللہ گروپ کے دہشت گرد مالا کنڈ ڈویژن میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہے ہیں۔


اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مولوی فضل اللہ گروپ افغانستان کے صوبہ نورستان میں پناہ گزین ہے' افغانستان میں نیٹو افواج بھی موجود ہیں اور افغان نیشنل آرمی بھی موجود ہے۔ ان فورسز کے ہوتے ہوئے افغانستان سے جتھے کی صورت میں دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ ممکن نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان فورسز اور ایساف فورسز پاکستان میں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی گزشتہ دنوں پاکستان آئے تھے اور اس کے جواب میں پاکستان نے گرفتار طالبان رہنما ملا منصور داد اللہ کو رہا کیا تھا' پاکستان اس سے قبل بھی کئی گرفتار طالبان رہنما رہا کر چکا ہے۔ اب ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ افغان حکومت بھی جوابی طور پر ایسے گروہوں کی سرکوبی کرتی جو پاکستان میں دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔ افغان سیکیورٹی فورسز اکثر اوقات پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کو اب اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔

زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر حفاظتی خار دار باڑ لگائی جائے تا کہ افغان طالبان یا افغان سیکیورٹی فورسز پاکستانی حدودمیں داخل نہ ہو سکیں۔ پاک افغان سرحد طویل اور مشکل ضرور ہے لیکن اگر ابھی سے باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا جائے تو دو تین برسوں میں اسے خاصی حد تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ افغانستان کی حکومت سرحد پار باڑ لگانے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن پاکستان کو اپنے مفادات سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ملتے ہیں' کرزئی انتظامیہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے شرپسندوں کو روکنے میں ناکام چلی آ رہی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ در اندازوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں' یہ کارروائی اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کا پاکستان میں داخلہ بند نہیں کیا جاتا۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ افغان حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان کی مشکلات کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ ژوب کے قریب جو اشتعال انگیزی ہوتی ہے' افغان حکومت کو اس کا نوٹس لیتے ہوئے' اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانی چاہیے اور اس سرحدی خلاف ورزی کے مرتکب اہل کاروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تا کہ مستقبل میں اس قسم کا واقعہ نہ ہو سکے۔
Load Next Story