اداکار لہری کی دل نواز باتیں۔۔۔

ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاکستان نے مزاح کی دنیا میں بے تحاشا کامیڈین پیدا کیے ہیں۔

ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاکستان نے مزاح کی دنیا میں بے تحاشا کامیڈین پیدا کیے ہیں جس میں اداکار لہری کا نام ایک منفرد اسٹائل کے حوالے سے سرفہرست آتا ہے۔ ویسے تو ہر کامیڈین نے اپنے اپنے انداز سے دیکھنے والوں کو ہنسایا ہے، کسی نے اپنی باڈی، چہرے اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے اپنا مقام بنایا، مگر لہری ایک ایسا کامیڈین تھا جس نے لفظوں کی ادائیگی سے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیں اور اس انداز کو سب ہی نے بڑا پسند کیا کیونکہ مہذب اور سنجیدہ کامیڈی کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔

لہری کا اصلی نام سفیراﷲ تھا، ایک لمبی علالت کے بعد 13 ستمبر 2012ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے مگر اپنے پیشے، اپنے چاہنے والوں کے لیے اپنا فن چھوڑ گئے، جس سے ان کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم لوگ اپنے پیارے فنکاروں کی جدائی کو بڑی جلدی بھول جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پی ٹی وی کے معروف پروڈیوسر سے ملاقات میں پوچھا کہ فلاں آرٹسٹ اچھا ہے، وہ آج کل ڈراموں میں نظر نہیں آ رہا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ بھائی شوبز کی دنیا ایسی ہی ہے کہ جو سامنے نظر آ گیا یا پھر جس نے ہم سے مسلسل رابطہ کیا وہی ہمیں آسان لگتا ہے۔ ایک دن ٹی وی کی خبریں سنتے یہ معلوم ہوا کہ اداکار لہری جو فلمی شوٹنگ کے لیے دوسرے ملک گئے ہوئے تھے، پر فالج کا اٹیک ہوا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر انھیں وہیں چھوڑ کر چلے آئے ۔ یہ سن کر مرحوم معین اختر جو لہری سے بڑے متاثر تھے اور ان کے مداح بھی تھے انھوں نے ادھر ادھر سے پیسے اکٹھے کیے اور وہاں جا کر لہری کو پاکستان لے آئے اور ان کا علاج کروایا۔

میں خود بھی لہری کا بڑا مداح رہا ہوں۔ اس وقت میں لاڑکانہ میں تھا۔ جب کچھ عرصہ گزرا تو میرا دل ان سے ملنے کو بے چین ہو گیا اور ڈھونڈتے پوچھتے ان کے پاس پہنچ گیا۔ لہری اس وقت گلستان جوہر میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے تھے۔ میں نے ایک چٹ لکھ کر انھیں بھجوائی جس میں یہ لکھا تھا کہ میں لاڑکانہ سے آیا ہوں۔ یہ سن کر وہ باہر نکل آئے اور مجھے گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ بہرحال انٹرویو کے لیے پہلے تو تیار نہیں تھے مگر پھر ایک غیر رسمی گفتگو میں ان سے کچھ باتیں ہوئیں، انھیں میں اپنے اس کالم میں قلم بند کر رہا ہوں۔

لہری کا الٹا ہاتھ فالج کی وجہ سے کام نہیں کر رہا تھا اور ٹانگ میں بھی اس کا اثر نظر آ رہا تھا، انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی جسے دیکھ کر پہلی نظر میں انھیں پہچاننا مشکل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں وہ بڑے مایوس ہو گئے تھے اور وہ ہر بات کو دل پر لے لیتے تھے، ان کے لیے خوشی اور غم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا، وہ فلمی ساتھیوں کے رویے سے بہت ناخوش تھے کیونکہ بیمار ہونے کے بعد ان سے ملنے تک نہیں آئے۔ وہ ہمیشہ طارق عزیز، محمد علی، ندیم، مصطفیٰ قریشی اور سید نور کے بارے میں کہتے تھے کہ انھوں نے مالی مدد بھی کی، ان کے پاس ملنے بھی آتے تھے اور فون بھی کیا کرتے تھے۔ اب وہ تھوڑی تھوڑی باتوں پر غصہ کرنے لگے تھے۔ وہ بولتے وقت رنجیدہ ہو جاتے تھے اور ان کی سانس پھول جاتی تھی۔


شہرت کے بارے میں بیماری کے بعد ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دھوکا ہے، جھوٹ ہے اور ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ وہ سراب جیسی چمکیلی چیز ہے جس کے پیچھے ہم لوگ بھاگتے رہتے ہیں اور جب وہ مل جاتی ہے تو نقلی ہوتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک وقت تھا کہ اسے ہر آنے والی دوسری یا تیسری فلم میں کاسٹ کیا جاتا تھا اور اب کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ پھر بھی پی ٹی وی کے پروڈیوسرز اور اس کے فنکار اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے جس میں سرفہرست معین اختر تھے۔ ان کی مالی مدد کے لیے اسٹیج ڈرامہ لہری ان ٹربل بنایا گیا جس میں جب وہ نمودار ہوئے تو لوگوں نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور دیر تک تالیاں بجاتے رہے مگر طبیعت کی خرابی اور کمزوری کی وجہ سے وہ اس کام کو جاری نہ رکھ سکے۔

لہری نے کہا کہ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی چیزیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ وہ کہنے لگے بھائی! جب ہم فنکاروں میں سے کوئی بیمار ہوتا تھا تو ہم بھی نہیں جاتے تھے تو وہ میرے پاس نہیں آئے تو مجھے بھی گلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شوبز کی دنیا میں بے حسی بڑی ہے، جب تک فنکار عروج پر ہوتا ہے سارے لوگ چڑھتے سورج کی طرح اس کی پوجا کرتے ہیں اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں اور جیسے ہی اس کی مقبولیت کم ہوئی اس سے کوئی ملنے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ شہرت ایک سراب ہے جس کی کوئی عمر نہیں ہے، یہ چار دن کی چاندنی ہے اس لیے اس کے پیچھے بھاگنا نہیں چاہیے اور سچے رشتوں کو گنوانا نہیں چاہیے۔ انھیں افسوس تھا کہ وہ اپنی دنیا میں اتنا گم ہو گیا کہ اپنی اولاد کو ٹائم نہیں دیا مگر انھیں شاباش ہے کہ اس کے باوجود وہ اس کی خدمت اور عزت کرتے رہے ہیں۔

لہری نے نماز کو اپنی زندگی کا اہم رکن بنا لیا تھا۔ وہ تہجد بھی باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک دن وہ سو رہے تھے کہ انھیں خیال آیا کہ سفیر تم نے تو یہ سوچا ہی نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ سے دوستی کی ہے، پھر لہری نے اپنی زندگی کو ایک نیا رخ دیا جو دینی اور آخرت کے زاد راہ کا تھا۔ ان کا لگاؤ صرف رب سے تھا اور انھوں نے دنیا کی باتوں کو بھلا نا شروع کیا۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ اب وہ رب سے رو کر معافی مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے دنیا میں بڑے دکھ دیکھے ہیں وہ بہت روئے ہیں، اس لیے یااﷲ! اب مجھ سے قیامت میں حساب نہ کرنا۔

لہری نے بتایا تھا کہ وہ جب فلم آگ کا دریا کی ریکارڈنگ کے لیے سندھ کے ایک گاؤں میں پہنچے تو وہاں پر انھیں سندھی اسٹائل کا لباس پہننا پڑا اور اس میں سندھی کے لفظ بھی استعمال کرنے تھے تو انھوں نے اداکار ساتھی سے مدد لی مگر جب لوکیشن پر پہنچے تو اس نے اپنی ایک اسٹائل بالکل الگ بنایا جو بے حد کامیاب رہا، اس میں سے ایک یہ ڈائیلاگ تھا کہ ''ارے مجھے اندھا بولنا مگر کانڑا نہ کہنا'' ان کی پسند میں وہ ڈائیلاگ اچھے لگتے تھے جس میں زیر زبر کا استعمال زیادہ ہو۔ فلم دل لگی میں بھی انھوں نے بڑے اچھے اور مضبوط ڈائیلاگ بولے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک فلم روڈ ٹو سوات تھی جس میں انھوں نے ایک نوجوان اوباش اور کھلنڈرے نوجوان کا رول ادا کیا تھا اور ان کے ساتھ فنکارہ تھیں عالیہ، جو ناک سے بول رہی تھیں اور ان دونوں کی جوڑی بڑی مشہور ہوئی تھی۔

لہری فلموں میں آنے سے پہلے اسٹیج ڈراموں میں کام کرتے تھے۔ انھوں نے 1955ء میں فلم انوکھی سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا اور تقریباً 300 سے زائد فلموں میں کام کیا اور 13 نگار ایوارڈ حاصل کر چکے تھے مگر فالج کے حملے کے بعد وہ گھر تک محدود ہو گئے اور آخری دن اپنے رب کی عبادت کرنے میں گزارے۔ سندھ کے گورنر عشرت العباد نے ان کی کافی مالی مدد کی۔ ان کے انتقال کے بعد پاکستان سے سنجیدہ اور اسٹائلش کامیڈی کا باب تقریباً بند ہو گیا ہے۔ لہری کو یاد رکھنے کے لیے ہر سال ان کی برسی کے موقع پر کچھ پروگرام ضرور منعقد ہونے چاہئیں۔
Load Next Story