گھوٹکیسیلاب کے بعد مہلک امراض میں اضافہ

حکومتی بے حسی اور عدم توجہی کے باعث متاثرین میں بے چینی۔۔۔

گھوٹکی میں سیلاب کی تباہ کاریوں کےبعد لوگ شدید مشکلات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔فوٹو : فائل

سیلابی ریلا تباہی کے ساتھ اپنے پیچھے درجنوں بیماریوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چھوڑ گیا ہے ۔

اس تباہی سے نبٹنے کے لیے حکومتی اقدامات مایوس کن ہیں ۔ وبائی امراض میں خسرہ جیسی مہلک بیماری سب سے نمایاں ہے۔ خسرہ کے باعث رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں سندھ بھر میں تین سو سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے ۔ لیکن حکومت چین کی بانسری بجاتی رہی اور وبائی امراض اموات پھیلاتے ہوئے، ملک بھر میں پھیل گئے ۔ اس بد ترین صورت حال کے باوجود ان امراض کے تدارک کے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات تا حال نمائشی نظر آتے ہیں ۔ گھوٹکی سمیت اندرون سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثر ہونے والے افراد کی نگہداشت کے لیے حکومت کی جانب سے امدادی کیمپس کا اعلان کیا گیا۔

لیکن عملی اقدامات گھوٹکی سمیت کہیں بھی نظر نہیں آئے، تاہم چند مقامات پر قائم کیے گئے نمائشی امدادی کیمپس بھی غیر فعال ہیں، جہاں عملے کی کمی اور فنڈ کی بندر بانٹ کے باعث ہزاروں مریض انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ سے کچے کے مکین اب اپنے گھروں کو جاچکے ہیں، لیکن ان میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اور وہ جلد، کھانسی، آشوب چشم، گیسٹرو اور خسرہ میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ لیکن ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی جانب سے ڈاکٹرز کی ٹیمیں متاثرہ دیہاتوں میں نہیں بھیجی گئیں۔ سیلاب سے متاثرہ کئی دیہاتوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے بھی نہیں پلائے گئے۔ جس پر دیہاتیوں نے ڈی سی گھوٹکی اور محکمہ صحت کے افسران کو بھی اطلاع دی، لیکن سیکڑوں بچے پولیو کے قطروں سے تاحال محروم ہیں۔



پولیو سمیت دیگر وبائی امراض پر قابو پانے کے لیے حکومتی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے ۔ تاہم غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے کیے گئے اقدامات قابل تعریف ہیں، جو مختصر عرصہ میں موثر کارکردگی کے باعث صورت حال پر قابو پانے میں پیش پیش رہیں۔ سول سوسائٹی ہیومن اینڈ انسٹیٹیوشن ڈیولپمنٹ پروگرام (چپ) کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نا صرف خسرہ بلکہ دیگر امراض کے پھیلنے کا امکان ہے بلکہ وبائی صورت اختیار کیے جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ ایسے میں اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے۔ گھوٹکی سمیت سندھ بھر میں سیلابی ریلا گزرنے کے باوجود کچے کے مکین تاحال حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔


پنجاب کے بعد سیلاب سب سے پہلے، سندھ میں ضلع گھوٹکی کا رخ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے گھوٹکی کے رہائشی زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ حالیہ سیلاب میں لوگوں کی سرکاری سطح پر کوئی مدد نہیں کی گئی ۔ کچے کے سیکڑوں خاندان حفاظتی بندوں پر کھلے آسمان تلے بے یارومددگار حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ سرکاری سطح پر سیلاب متاثرین کی امداد کرنے کے دعوے تو کیے گئے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ سیلاب کی وجہ سے ہزاروں ایکڑز پر تیار فصلیں تباہ ہوگئیں، لیکن ضلعی انتظامیہ نے تاحال سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ گھوٹکی کے کچے کا علاقہ 75 کلو میٹر پر مشتمل ہے، جس کے باسی اب مشکلات سے دوچار ہیں، کچے کے علاقے میں خوراک کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ فصلیں تباہ ہونے کے بعد لوگ معاشی طور پر برباد ہوگئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی گھوٹکی آمد کے بعد سیلاب متاثرین کی ہر قسم کی مدد کرنے کے اعلان کے باوجود لوگ ابھی تک دادرسی کے منتظر ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب حکم رانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والوں کی بے اعتنائی کا یہ عالم ہو تو ضلعی انتظامیہ عوام کی دادرسی کے لیے کیوں کر اقدامات کرے گی ۔ غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سیلاب متاثرہ علاقوں اور وہاں کے مکینوں کو بیماریوں سے بچاؤ اور حفاظتی تدابیر کے لیے سیمینار منعقد کئے جا رہے ہیں ، جو قابل تعریف ہیں ۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ہی اقدامات حکومتی سرپرستی اور توجہ کے ساتھ کرائے جائیں تو متاثرین کی اشک شوئی ہوسکتی ہے ۔



ایسے آگاہی سیمینار علاقائی سطح پر کرانے سے نہ صرف متاثرین کو بیماریوں سے بچاؤ میں مدد فراہم کریں گے بلکہ ان میں پھیلی ہوئی بے چینی بھی دور کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ متاثرین کی بحالی اور بیماریوں پر قابو پانے کے لیے غیرسرکاری تنظیموں کاکردار قابل تحسین ہے، جن کی ہمت افزائی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ سیلاب اور بیماریاں قدرتی آفات ہوتی ہیں، جن کو روکنا ناممکن ہے، تاہم ان پر قابو پانے کے لیے قدرت نے انسان کو تمام وسائل سے سرفراز کیا ہے جن کا مناسب استعمال کرکے ایسی ناگہانی آفات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جس کے لیے حکومتی توجہ درکار ہے، جس کی عدم موجودگی کا خمیازہ بے یارو مددگار سیلاب متاثرین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ضلع گھوٹکی میں قائم قومی او ر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے ، جو اس ضلع سے کروڑوں روپے کے مالی فوائد تو حاصل کرتی ہیں ، لیکن آفات میں گھرے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ان کے منصوبوں میں کوئی بحالی پروگرام شامل نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس قدرتی وسائل سے مالا مال ضلع کے باسی آج بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کروڑوں روپے امداد دینے کا دعویٰ کرنے والی کمپنیاں صرف بیانات تک محدود ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد طے پا گیا ہے کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق علاقہ مکینوں کا ہوگا ۔ لیکن ان تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ضلعی انتظامیہ سمیت ضلع بھر میں موجود قومی و ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سیلاب میں گھرے اور بیماریوں میں مبتلا عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ، جس کے باعث ہزاروں متاثرین آج بھی بے یارو مددگار ا ور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ متاثرین کا مطالبہ ہے کہ ان کی بحالی کے لیے نہ صرف حکومت اقدامات کرے بلکہ غیر سرکاری اور علاقائی تنظیمیں کے ساتھ ساتھ قومی ا ور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنا کردار ادا کریں۔
Load Next Story