سکھر الیکٹرک پاورکمپنی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا

سکھر اسمال ٹریڈرز نے سیپکو انتظامیہ کے ظلم و ناانصافیوں کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔

الیکٹرک پاور کمپنی کے ستائے عوام نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرلیا۔فوٹو:فائل

شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کی ذمہ دار حکومت وقت ہوتی ہے ۔

منتخب عوامی نمائندوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے بنائیں ، ان کی تکمیل کریں اور عوام کی زندگی سہل کریں ۔ پاکستان میں پانی، بجلی، گیس، سی این جی، پیٹرول کی قلت اور ہوش ربا مہنگائی سمیت دیگرمسائل گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں ۔

11مئی 2013کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے اقتدارمیں آنے والی حکومت نے عوامی توقعات پوری کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے کے وعدے کیے اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کیے تھے ۔ جن میں سرفہرست توانائی بحران کا خاتمہ ہے۔ بجلی، گیس کی چوری کو مستقل بنیادوں پر روکنے، نادہندگان کے خلاف موثر کارروائی کے لئے ایف آئی اے، نیب و دیگر اداروں کو ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اس کے نتائج بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ لیکن یہ اقدامات نمائشی اور وقتی نہیں ہونے چاہئیں اور ان کا تسلسل بر قرار رہنا چاہیے تا کہ اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں اور ان کی زندگی سہل ہو ۔

سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کا شمار ان کمپنیوں میں ہوتا ہے جو بدترین خسارے سے دوچار ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ سفارشی افسران و اہل کاروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور میرٹ کو پامال کرکے کی جانے والی تعیناتیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے اہل کار اپنے فرائض انجام دینے کی بجائے اپنا وقت ذاتی امور پر صرف کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔

مختلف سب ڈویژنوں میں تعینات افسران و اہل کاروں نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔ چھوٹی سی دکان ہو یا ایک کمرے کا مکان، ہزار یونٹس کا بل بھیجنا معمول بن چکا ہے۔ بعض علاقوں میں ایک سال سے زائد عرصے سے ٹرانسفارمر اتارنے کے باوجود صارفین کو پابندی سے ماہانہ بنیادوں پر 2سو سے 5سو اضافی یونٹس کے بلز بھیجے جارہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر بھاگ دوڑ کرکے متاثرہ صارفین سب ڈویژن آفس سے اپنے بل درست کرانے کے لئے درخواست پر دست خط کرا بھی لیں تو متعلقہ برانچ میں اسے رد کر دیا جاتا ہے ۔ صارفین کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ دل برداشتہ ہوکر ادھار لے کر بل جمع کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

حکومت بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے خسارے کو کم کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح بھی لوگوں کے مسائل حل ہوسکیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیپکو بعض افسران کے غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے خسارے میں ہے ۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، اضافی یونٹ، ڈٹیکشن شدہ بلز ارسال کرنے کا سلسلہ آج بھی عروج پر نظر آتا ہے۔

سکھر کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ خصوصاً تاجربرادری بجلی، گیس، پانی کے بلز کے علاوہ مختلف ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ، مگر موسم گرما ہو یا سرما، سیپکو انتظامیہ کی جانب سے ڈٹیکشن شدہ، اضافی یونٹ کے بلز ارسال کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ انتظامیہ وفاقی وزیر پانی و بجلی کے اقدامات کو نظر انداز کرکے صارفین کو مشکلات سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر اور آس پاس کے علاقوں میں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار ادا کرنے والے چھوٹے تاجروں کی تنظیم سکھر اسمال ٹریڈرز نے سیپکو انتظامیہ کے ظلم و ناانصافیوں کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔




ابتدائی مرحلے میں سیپکو کے اعلیٰ افسران سے ملاقات، اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے بعد مذمتی بینرز مختلف تجارتی مراکز، شاہراہوں، رہائشی علاقوں میں آویزاں کردیے ہیں ۔ جبکہ احتجاجی تحریک کے آخری مرحلے میں انہوں نے متاثرہ صارفین کی شکایات وصول کیں اس دوران 2روز میں 3سو سے زائد ایسے صارفین نے اپنی شکایات درج کرائیں ، جن پر 10لاکھ سے زائد اضافی یونٹس، 5لاکھ سے زائد ڈٹیکشن شدہ یونٹس عائد کیے گئے ہیں۔

مذکورہ گھمبیر صورتحال کے باعث گزشتہ دنوں اسمال ٹریڈرز کے صدر حاجی محمد جاوید میمن کی سربراہی میں چھوٹے تاجروں کے ایک وفد نے سیپکو چیف منور نذیر عباسی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور اس بات پر انتہائی حیرت اور افسوس کا اظہار کیا کہ صارفین کی شکایات پر مشتمل اس سے قبل جمع کرائی جانے والی تفصیلی درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس کے باعث تاجروں اور شہریوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

ا نہوں نے واضح کیا کہ اگر سیپکو چیف نے ان کی گذارشات پر توجہ نہ دی تو تاجروں اور شہریوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے میں حق بجانب ہونگے ، جس کی تمام تر ذمہ داری سیپکو چیف اور دیگر افسران پر عائد ہوگی۔اس موقع پر سیپکو چیف نے تاجر رہنماؤں کو یقین دلایا کہ صارفین کی جائز شکایات کے ازالے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

سندھ کے تیسرے بڑے شہر کے باسیوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں پر وفاقی و صوبائی اداروں میں فرائض انجام دینے والے افسران بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے آئے دن منعقدہ اجلاسوں میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ جدید دور میں بجلی کا استعمال انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے۔ لیکن سکھر کے شہری سیپکو انتظامیہ کی جانب سے بجلی کے طویل تعطل کی وجہ سے اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں انتظامیہ کی جانب سے اضافی یونٹس اور ڈٹیکشن شدہ بلز کی وجہ سے ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

یوں تو سکھر شہر کی مختلف سیاسی، سماجی تنظیموں نے ماضی کی حیسکو اور موجودہ سیپکو کے ظلم و ناانصافیوں کے خلاف مختلف ادوار میں احتجاجی تحا ریک چلائی تاہم کسی بھی تحریک کے مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے ۔ لیکن سکھر اسمال ٹریڈرز کے ذمہ داران کی وجہ سے پہلی مرتبہ صارفین اور تاجروں کو اعتماد میں لے کر مرحلہ وار شروع کردہ احتجاجی تحریک کامیابی سے جاری ہے۔

تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ کے آغاز میں صورت حال کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا تاکہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے جو ایک طویل عرصے سے مختلف عہدوں پر براجمان ہیں اور انہیں سیاسی و یونین کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جوں جوں وقت گزررہا ہے سیپکو متاثرین کی بڑی تعداد تاجر سیکریٹریٹ میں اپنی شکایات درج کراتے نظر آتی ہے۔ سرکاری اداروں کی غیر سنجیدہ، ناقص کارکردگی کی وجہ تجارتی تنظیموں کا فعال ہونا اس بات کی عکاسی ہے کہ عوام بد عنوان اور نا اہل افسرشاہی سے نالاں ہیں اور ایسی قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں جو ان کے مسائل حل کر کے ان کی زندگی کو سہل کر سکے ۔
Load Next Story