بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی صوبائی اسمبلی کا اجلاس ملتوی
دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تنقید کاسلسلہ بڑھ گیا ہے جس کے ساتھ ہی ان سینیٹرز کی تلاش کا مطالبہ بھی سامنے آرہاہے۔
اگرچہ چیئرمین سینٹ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد اسلام آباد میں ناکام ہوئی ہے تاہم اس کے اثرات خیبرپختونخوا میں بھی پوری طرح محسوس کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس وجہ سے حکومت و اپوزیشن کے مابین تلخی خیبرپختونخوا میں بھی بڑھی ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تنقید کا سلسلہ بڑھ گیا ہے جس کے ساتھ ہی ان سینیٹرز کی تلاش کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے جو اپنی پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ کر چیئرمین سینٹ کے ساتھ جا ملے، چونکہ سوشل میڈیا پر چودہ سینیٹرز کی جو فہرست سامنے آرہی ہے۔
ان میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بعض سینیٹرز کے نام بھی شامل ہیں اس لیے اس حوالے سے بھی مطالبہ زوروں پر ہے کہ ان سینیٹرز کے حوالے سے تحقیقات کرتے ہوئے نہ صرف اصل حقائق سامنے لائے جائیں بلکہ ان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے یہ معاملہ منطقی انجام تک بھی پہنچایا جائے، شاید اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی کا ملتوی شدہ اجلاس جو 5 اگست سے منعقد ہونا تھا،کا انعقاد کیے بغیر ہی اسے غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے تاکہ مزید تلخیاں پیدا نہ ہوں۔
چونکہ دغا دینے والے سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے ا س لیے ان سینیٹرز کی تلاش کرنا بھی اپوزیشن جماعتوں اور ان کے قائدین کا ہی کام ہے جس کے حوالے سے انہوں نے کام شروع بھی کر دیا ہے تاہم اس سے ہٹ کر خیبرپختونخوا کے حوالے سے اہم ایشو قبائلی اضلاع سے منتخب ارکان کا ہے جن میں سے دو نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جبکہ دیگر چار آزاد ارکان کے بارے میں صورت حال واضح نہیں تھی کہ وہ کیا کرینگے؟
خیبرایجنسی سے منتخب شاہ جی گل آفریدی فیملی کے دونوں سپوتوں سے صوبائی وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے بھی ملاقات کی تھی اور ان کی ملاقات جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ بھی ہوئی تاہم انہوں نے دونوں آپشنز سے ہٹ کر تیسرا آپشن اختیار کرتے ہوئے چھکا مارا ہے کیونکہ کسی کے وہم وگماں میں بھی نہ تھا کہ شاہ جی گل فیملی کے یہ دونوں ارکان اپنے ساتھ مہمند ایجنسی سے آزاد حیثیت میں منتخب رکن کو شامل کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے لیکن انہوں نے ایسا کردکھایا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک عام سی شمولیت ہے تاہم اس شمولیت کی بدولت ایک جانب تو بلوچستان عوامی پارٹی کو خیبرپختونخوا میں داخل ہونے کا موقع مل گیا ہے اور وہ پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی میں منظر عام پر آئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی تین ارکان کی شمولیت بڑی ہوشیاری سے کی گئی ہے کیونکہ مذکورہ تین ارکان کی بی اے پی میں شمولیت سے انھیں قبائلی اضلاع کے لیے مخصوص خواتین کی چار میں سے ایک نشست بھی مل جائے گی، قبائلی اضلاع کے لیے چار خواتین اور ایک اقلیتی مخصوص نشستوں میں سے ایک اقلیتی کے ساتھ تین خواتین کی نشستیں پاکستان تحریک انصاف جبکہ ایک خاتون نشست جے یوآئی کو ملنے کا امکان تھا تاہم اب چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کے پی اسمبلی میں تین ارکان کے ساتھ انٹری دی ہے تو اس وجہ سے خواتین کی ایک نشست بی اے پی کو مل جائے گی جس کا نقصان فوری طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہوا ہے جبکہ دوسری جانب بی اے پی کے چاروں ارکان پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت کی صورت ان کے ساتھ ہم رکاب بھی رہیں گے۔
اگر یہ ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہوتے تو ان کی حیثیت الگ ہوتی اور اب الگ ہے تاہم پی ٹی آئی اگر بلوچستان کے معاملات اور وہاں کے وزیراعلیٰ جام کمال کو کنٹرول میں رکھنے اور ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر رکھنے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اسے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بی اے پی کے ارکان کا بھی خیال رکھنا پڑے گا، بھلے ان چاروں ارکان میں سے کسی کو صوبائی کابینہ میں شامل نہ کیاجائے تاہم ممکنہ طور پر ان میں سے کسی ایک کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنایاجائے گا تاکہ پی ٹی آئی اور بی اے پی کے درمیان تعلقات اچھے رہیں،بلوچستان عوامی پارٹی کی آمد سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں فوری طور پر پارلیمانی پارٹیوں کی تعداد بڑھ کر7ہوگئی ہے جن میں سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی بڑھ کر تین ہوگئی ہیں جو پہلے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق)کی صورت میں دو پارلیمانی پارٹیوں کے طور پر موجود تھیں، اگرچہ اپوزیشن کی جانب بھی جماعت اسلامی الگ سے اپنی پارلیمانی پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کر چکی ہے تاہم اس ضمن میں کچھ مسائل ضرورموجود ہیں۔
چونکہ جماعت اسلامی کے دوارکان عنایت اللہ خان اور حمیرا خاتون، دونوں جماعت اسلامی سے ہونے کے باوجود ایم ایم اے کا حصہ ہیں کیونکہ عنایت اللہ خان نے بھی عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا اور ساتھ ہی حمیراخاتون کی نامزدگی بھی ایم ایم اے ہی کی جانب سے کی گئی تھی اس لیے ان دونوں ارکان کے لیے ایم ایم اے سے راہیں الگ کرتے ہوئے قبائلی ضلع باجوڑ سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب رکن سجاداحمدخان کو شامل کرتے ہوئے الگ پارلیمانی پارٹی تشکیل دینا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہاہے کیونکہ اس راہ میں کئی رکاوٹیں بھی بہرکیف موجود ہیں اور کے پی اسمبلی میں ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر اکرم خان درانی بھی اتنی آسانی کے ساتھ عنایت اللہ خان کوالگ راہ اختیار کرتے ہوئے نئی پارلیمانی پارٹی تشکیل کرنے نہیں دیں گے اس لیے سردست بی اے پی کی آمد کے بعد خیبرپختونخوا میں پارلیمانی پارٹیوں کی تعداد 7 ہی بنتی ہے البتہ اس نئی پارلیمانی پارٹی کی آمد اور اس کے چار ارکان کی وجہ سے کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی تعداد101تک پہنچ جائے گی۔
مذکورہ ارکان میں پاکستان تحریک انصاف کے قبائلی اضلاع سے کامیاب اور شامل ہونے والے آزاد ارکان اور مخصوص نشستیں ملنے کے بعد ان کے ارکان کی تعداد97 تک پہنچ جائے گی جبکہ اتحادیوں کی شمولیت سے پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سینچری پوری کر لے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن ارکان بھی آزاد ارکان کے توسط سے چالیس سے زائد ہو جائیں گے جس کی بدولت وہ نئی اضافہ شدہ اسمبلی میں بھی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرانے یا پھر ایوان میں کورم پورا کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے، یقینی طور پر نئے ارکان کی آمد سے اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد میں ردوبدل ضرور ہوا ہے تاہم اس صورت حال سے پاکستان تحریک انصاف و اتحادیوں کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے تاہم اتحادیوں کو ساتھ چلانے کے لیے پی ٹی آئی کو اب کچھ سمجھوتے بھی کرنے پڑیں گے کیونکہ اتحادیوں پر مشتمل حکومتیں سمجھوتوں کے بغیر نہیں چل پاتیں اور اس سے اتحادیوں کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں جیسا گزشتہ دور میں خیبرپختونخوا میں ہوتا رہا۔
اور جہاں ایک جانب سیاسی طور پر میدان گرم ہے اور حکومت واپوزیشن اپنے طور پر صورت حال سے ڈیل کر رہی ہیں اور ان حالات میں اپوزیشن کے لیے معاملات زیادہ سخت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کے معاملے میں اپنوں کی وجہ سے شکست کھائی ہے اس لیے ایسے میں بھلے وہ جے یوآئی ہو یا دیگر اپوزیشن پارٹیاں ان کے لیے حکومت مخالف تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی نئی صف بندی ضرور کرنی ہوگی، وہیں ان ہی حالات میں خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی کو تبدیل کردیا ہے، عبدالطیف یوسفزئی گزشتہ پرویزخٹک دور سے صوبہ میں ایڈوکیٹ جنرل تھے جنھیں موجودہ حکومت نے بھی اقتدار میں آتے ہی دوبارہ ان کے عہدہ پر تعینات کردیا تاہم ان کی تبدیلی کچھ اس انداز میں کی گئی کہ وہ عدالت میں حکومتی کیسوں کی پیروی میں مصروف تھے کہ انھیں تبدیل کرتے ہوئے شمائل بٹ ایڈوکیٹ کو اے جی تعینات کردیا گیا،عبدالطیف یوسفزئی کا تبادلہ ترقیاتی فنڈز کی بندش سمیت دیگر بعض اہم کیسوں میں حکم امتناعی جاری ہونے کی وجہ سے ہوا یا پھر اے جی آفس میں بھرتیوں کے معاملے پر؟ تاہم معاملہ اہم ہے اور تبدیلی کا انداز بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے۔
ان میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بعض سینیٹرز کے نام بھی شامل ہیں اس لیے اس حوالے سے بھی مطالبہ زوروں پر ہے کہ ان سینیٹرز کے حوالے سے تحقیقات کرتے ہوئے نہ صرف اصل حقائق سامنے لائے جائیں بلکہ ان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے یہ معاملہ منطقی انجام تک بھی پہنچایا جائے، شاید اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی کا ملتوی شدہ اجلاس جو 5 اگست سے منعقد ہونا تھا،کا انعقاد کیے بغیر ہی اسے غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے تاکہ مزید تلخیاں پیدا نہ ہوں۔
چونکہ دغا دینے والے سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے ا س لیے ان سینیٹرز کی تلاش کرنا بھی اپوزیشن جماعتوں اور ان کے قائدین کا ہی کام ہے جس کے حوالے سے انہوں نے کام شروع بھی کر دیا ہے تاہم اس سے ہٹ کر خیبرپختونخوا کے حوالے سے اہم ایشو قبائلی اضلاع سے منتخب ارکان کا ہے جن میں سے دو نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جبکہ دیگر چار آزاد ارکان کے بارے میں صورت حال واضح نہیں تھی کہ وہ کیا کرینگے؟
خیبرایجنسی سے منتخب شاہ جی گل آفریدی فیملی کے دونوں سپوتوں سے صوبائی وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے بھی ملاقات کی تھی اور ان کی ملاقات جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ بھی ہوئی تاہم انہوں نے دونوں آپشنز سے ہٹ کر تیسرا آپشن اختیار کرتے ہوئے چھکا مارا ہے کیونکہ کسی کے وہم وگماں میں بھی نہ تھا کہ شاہ جی گل فیملی کے یہ دونوں ارکان اپنے ساتھ مہمند ایجنسی سے آزاد حیثیت میں منتخب رکن کو شامل کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے لیکن انہوں نے ایسا کردکھایا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک عام سی شمولیت ہے تاہم اس شمولیت کی بدولت ایک جانب تو بلوچستان عوامی پارٹی کو خیبرپختونخوا میں داخل ہونے کا موقع مل گیا ہے اور وہ پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی میں منظر عام پر آئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی تین ارکان کی شمولیت بڑی ہوشیاری سے کی گئی ہے کیونکہ مذکورہ تین ارکان کی بی اے پی میں شمولیت سے انھیں قبائلی اضلاع کے لیے مخصوص خواتین کی چار میں سے ایک نشست بھی مل جائے گی، قبائلی اضلاع کے لیے چار خواتین اور ایک اقلیتی مخصوص نشستوں میں سے ایک اقلیتی کے ساتھ تین خواتین کی نشستیں پاکستان تحریک انصاف جبکہ ایک خاتون نشست جے یوآئی کو ملنے کا امکان تھا تاہم اب چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کے پی اسمبلی میں تین ارکان کے ساتھ انٹری دی ہے تو اس وجہ سے خواتین کی ایک نشست بی اے پی کو مل جائے گی جس کا نقصان فوری طور پر پاکستان تحریک انصاف کو ہوا ہے جبکہ دوسری جانب بی اے پی کے چاروں ارکان پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت کی صورت ان کے ساتھ ہم رکاب بھی رہیں گے۔
اگر یہ ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہوتے تو ان کی حیثیت الگ ہوتی اور اب الگ ہے تاہم پی ٹی آئی اگر بلوچستان کے معاملات اور وہاں کے وزیراعلیٰ جام کمال کو کنٹرول میں رکھنے اور ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر رکھنے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اسے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بی اے پی کے ارکان کا بھی خیال رکھنا پڑے گا، بھلے ان چاروں ارکان میں سے کسی کو صوبائی کابینہ میں شامل نہ کیاجائے تاہم ممکنہ طور پر ان میں سے کسی ایک کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنایاجائے گا تاکہ پی ٹی آئی اور بی اے پی کے درمیان تعلقات اچھے رہیں،بلوچستان عوامی پارٹی کی آمد سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں فوری طور پر پارلیمانی پارٹیوں کی تعداد بڑھ کر7ہوگئی ہے جن میں سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی بڑھ کر تین ہوگئی ہیں جو پہلے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق)کی صورت میں دو پارلیمانی پارٹیوں کے طور پر موجود تھیں، اگرچہ اپوزیشن کی جانب بھی جماعت اسلامی الگ سے اپنی پارلیمانی پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کر چکی ہے تاہم اس ضمن میں کچھ مسائل ضرورموجود ہیں۔
چونکہ جماعت اسلامی کے دوارکان عنایت اللہ خان اور حمیرا خاتون، دونوں جماعت اسلامی سے ہونے کے باوجود ایم ایم اے کا حصہ ہیں کیونکہ عنایت اللہ خان نے بھی عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا اور ساتھ ہی حمیراخاتون کی نامزدگی بھی ایم ایم اے ہی کی جانب سے کی گئی تھی اس لیے ان دونوں ارکان کے لیے ایم ایم اے سے راہیں الگ کرتے ہوئے قبائلی ضلع باجوڑ سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب رکن سجاداحمدخان کو شامل کرتے ہوئے الگ پارلیمانی پارٹی تشکیل دینا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہاہے کیونکہ اس راہ میں کئی رکاوٹیں بھی بہرکیف موجود ہیں اور کے پی اسمبلی میں ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر اکرم خان درانی بھی اتنی آسانی کے ساتھ عنایت اللہ خان کوالگ راہ اختیار کرتے ہوئے نئی پارلیمانی پارٹی تشکیل کرنے نہیں دیں گے اس لیے سردست بی اے پی کی آمد کے بعد خیبرپختونخوا میں پارلیمانی پارٹیوں کی تعداد 7 ہی بنتی ہے البتہ اس نئی پارلیمانی پارٹی کی آمد اور اس کے چار ارکان کی وجہ سے کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی تعداد101تک پہنچ جائے گی۔
مذکورہ ارکان میں پاکستان تحریک انصاف کے قبائلی اضلاع سے کامیاب اور شامل ہونے والے آزاد ارکان اور مخصوص نشستیں ملنے کے بعد ان کے ارکان کی تعداد97 تک پہنچ جائے گی جبکہ اتحادیوں کی شمولیت سے پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سینچری پوری کر لے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن ارکان بھی آزاد ارکان کے توسط سے چالیس سے زائد ہو جائیں گے جس کی بدولت وہ نئی اضافہ شدہ اسمبلی میں بھی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرانے یا پھر ایوان میں کورم پورا کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے، یقینی طور پر نئے ارکان کی آمد سے اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد میں ردوبدل ضرور ہوا ہے تاہم اس صورت حال سے پاکستان تحریک انصاف و اتحادیوں کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے تاہم اتحادیوں کو ساتھ چلانے کے لیے پی ٹی آئی کو اب کچھ سمجھوتے بھی کرنے پڑیں گے کیونکہ اتحادیوں پر مشتمل حکومتیں سمجھوتوں کے بغیر نہیں چل پاتیں اور اس سے اتحادیوں کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں جیسا گزشتہ دور میں خیبرپختونخوا میں ہوتا رہا۔
اور جہاں ایک جانب سیاسی طور پر میدان گرم ہے اور حکومت واپوزیشن اپنے طور پر صورت حال سے ڈیل کر رہی ہیں اور ان حالات میں اپوزیشن کے لیے معاملات زیادہ سخت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کے معاملے میں اپنوں کی وجہ سے شکست کھائی ہے اس لیے ایسے میں بھلے وہ جے یوآئی ہو یا دیگر اپوزیشن پارٹیاں ان کے لیے حکومت مخالف تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی نئی صف بندی ضرور کرنی ہوگی، وہیں ان ہی حالات میں خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی کو تبدیل کردیا ہے، عبدالطیف یوسفزئی گزشتہ پرویزخٹک دور سے صوبہ میں ایڈوکیٹ جنرل تھے جنھیں موجودہ حکومت نے بھی اقتدار میں آتے ہی دوبارہ ان کے عہدہ پر تعینات کردیا تاہم ان کی تبدیلی کچھ اس انداز میں کی گئی کہ وہ عدالت میں حکومتی کیسوں کی پیروی میں مصروف تھے کہ انھیں تبدیل کرتے ہوئے شمائل بٹ ایڈوکیٹ کو اے جی تعینات کردیا گیا،عبدالطیف یوسفزئی کا تبادلہ ترقیاتی فنڈز کی بندش سمیت دیگر بعض اہم کیسوں میں حکم امتناعی جاری ہونے کی وجہ سے ہوا یا پھر اے جی آفس میں بھرتیوں کے معاملے پر؟ تاہم معاملہ اہم ہے اور تبدیلی کا انداز بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے۔