پاکستان میں خواجہ سرا بنیادی حقوق سے محروم
حکومت پاکستان کو خواجہ سراؤں کیلیے قانونی سازی کرنا ہوگی تاکہ معاشرے کا یہ کمزور طبقہ قومی دھارے میں شامل ہو سکے۔
خواجہ سراؤں کی تضحیک کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔
نواز حکومت نے 2018 میں ہونے والے حالیہ انتخاب سے قبل خواجہ سراؤں پر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں مسودہ پیش کیا تھا، پہلی بار خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کرکے ان کو شمار کرنے کے لئے الگ خانہ بنایا گیا، واضح رہے پاکستان میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے فیصلہ دیا تھا۔ جس میں انہیں باعزت روز گار مہیا کرنے کے لئے، نوکریوں میں کوٹہ مختص کیا اور انہیں ووٹ کا حق دیا، خواجہ سراؤں کے حقوق کے پیش نظر اسمبلی میں بل تو متعدد بار پیش کیے جا چکے ہیں لیکن ان پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی، دریں اثنا نواز حکومت نے خواجہ سراؤں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے قانون پاس کردیا تھا۔
یاد رہے گزشتہ ایام میں خیبر پختو انخواہ کے خواجہ سراؤں نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پشاور ہائی کورٹ میں معروف قانون دان گل رحمان ایڈوکیٹ کی وساطت سے ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کے ووٹ کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے اور آنے والے انتخابات میں امیدواروں کی نامزدگی کے فارم میں مرد و خواتین کے خانوں کی طرح خواجہ سراؤں کیلئے الگ سے خانہ شامل کیا جائے، مبادہ جیسے مردم شماری میں ان کو الگ پہچان دے کر شمار کیا گیا تھا، یہ بھی استدعا کی گئی کہ پولنگ اسٹیشن پر ان کے لئے الگ جگہ اور مخصوص عملہ تعینات کیا جائے۔
اسی تناظر میں گزشتہ ہونے والے انتخابات میں خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے کا حق تو دے دیا گیا مگر ان کے تحفظات جوں کے توں ہی ہیں، اس پر نیشنل کوارڈینیٹرآل پاکستان ٹرانسجینڈر نایاب علی کا بات کرتے ہوئے کہنا کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کل آبادی کا 0.0006 فیصد ہے، مگران کے حقوق کی فراہمی میں کوتاہی سمجھ سے بالاتر ہے۔ تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا ہمیں تعجب اس امر پر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ان کا کوئی شماریاتی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
نایاب علی نے کہا الیکشن کے نامزدگی فارم میں ان کے لئے کوئی خانہ نہیں رکھا گیا تھا، فارم میں صرف خواتین و حضرات کے لئے خانہ رکھا گیا جوعیاں کرتا ہے کہ یکسرہماری کمیونٹی کو نظرانداز کیا گیا۔ انہوں نے کہا الیکشن کے دوران انہیں کسی قسم کی سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، کیونکہ سکیورٹی کے علاوہ ان کے لئے انتخابی مہم چلا نا آسان نہیں تھا، انہوں نے بتایا الیکشن کمیشن نے انہیں نجی طور پر دو گارڈز رکھنے کی اجازت دی تھی مگر معاشی حالات بہتر نا ہونے کے سبب وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ہمارے لئے کوئی مخصوص نشست مختص نہیں کی گئی، جس پرہم اپنے امیدوار میدان میں لا سکتے۔
الیکشن کمیشن نے الیکشن فیس جان بوجھ کر بڑھائی تاکہ کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والا الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے، ان کا کہنا تھا اس سے قبل صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو دو ہزار روپے جبکہ قومی اسمبلی کے امیدوار کو چار ہزار روپے فیس ادا کرنا پڑتی تھی، لیکن اب کی بار 20 ہزار صوبائی جبکہ 30 ہزار قومی اسمبلی کے لئے جمع کروانا پڑی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا 13 خواجہ سراؤں نے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے کا غذات نامزدگی جمع کروائے تھے جن میں سے 8 خواجہ سرا فیس نا ہونے کی وجہ سے الیکشن سے دستبردار ہوگئے تھے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے ذرائع کا بتانا ہے کہ خواجہ سراؤں کے لئے مخصوص نشستیں دینا اور اس پر قانون سازی کرنا مقننہ کا کام ہے۔ ہم تو وہ کام کر سکتے ہیں جو قانون سازی کر کے ہمیں پارلیمنٹ دیتا ہے۔ خواجہ سراؤں کے تحفظات پر الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دنوں میں لڑائی جھگڑے کے معمولی واقعات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ ان واقعات کا ہونا علاقے پر منحصر کرتا ہے اور اس پر عمل در آمد کروانا سکیورٹی اداروں کا کام ہے۔ دریں اثنا خواجہ سرا کمیونٹی کے کل امیدوار 13 تھے جن میں سے پانچ نےعام الیکشن میں حصہ لیا، نایاب علی نے این اے 142 اوکاڑا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سےانتخاب میں حصہ لیا۔ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے راؤ حسن سکندر جبکہ (ن) لیگ کے پلیٹ فارم سے ریاض الحق جج تھے۔ واضح رہے راؤ حسن سکندر سابق وفاقی وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال کے بیٹے تھے۔ این اے 53 اسلام آباد سے ندیم کشش نے آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں تھیں۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے تیسرے امیدوار ریشم زاہد نے این اے 69 گجرات سے انتخاب میں حصہ لیا،ان کے مدمقابل چودھری پرویز الہی تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر پی پی 26 جہلم سے لبنیٰ لال وارد تھیں۔ جب کہ پی کے 31 سے ماریہ عالمگیر الیکشن لڑ رہیں تھیں۔
دوسری جانب الیکشن پر کام کرنی والا ادارہ FAFEN نے پورے ملک سے 125 خواجہ سرا OBSERVER کے طور پر ہائر کئے تھے جن کا تعلق مختلف تنظیموں کے ساتھ تھا۔ جن میں بلوچستان انٹر سیکس اینڈ ٹرانسجینڈر الائنس، جینڈر انٹریکٹو الائنس جس کا تعلق کراچی سے تھا جبکہ لاہور سے خواجہ سرا سوسائٹی شامل تھیں۔ ساری دنیا میں اس جنس کو حقوق دئیے گئے ہیں، علاوہ ازیں مملکت خداداد میں بھی اب ان کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں با عزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے حکومت اقدام اٹھا رہی ہے، لیکن محض ان اقدامات سے کچھ بدلنے والا نہیں جب تک ان کی تربیت نا کی جائے۔ حکومت سروے کروائے کہ اس وقت خواجہ سراؤں کو تعلیم دینے کے لئے کتنے ادارے کام کر رہے ہیں، اس بات کو پرکھا جائے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر یہ مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس بات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئیے کہ جمہوری ملک میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ہر کلاس کے لوگوں کو برابر نمائندگی کس طرح دینی ہے۔
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنی والی ماریہ عالمگیر کا کہنا تھا کہ مجھے انتخابی مہم نہیں کرنی دی گئی، تشہیر کے لئے پینا فلیکس نہیں لگانا دیا گیا، ان کا مزید کہنا تھا میرے مد مقابل ٹوٹل 17 امیدوار تھے جن میں 10 امیدواروں سے زیادہ ووٹ میں نے حاصل کئے، اپنی تعلیمی قابلیت کے متعلق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا میں نے ہزارہ یونیورسٹی سے ٹوورزم میں ڈپلومہ لے رکھا ہے، اور میں ہزارہ یونیورسٹی کی ٹوپر ہوں اپنے بیچ کی۔
دوسری جانب بھارتی ریاست مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے جوتیا نامی خواجہ سرا محنت کے بل بوتے پر سول کورٹ کا جج مقرر ہوا۔ جوتیا نے 2009 میں گھر چھوڑا کر اترپردپش کے علاقے میں سکونت اختیار کرلی، وہ دن کے اوقات میں پڑھنے کے لئے کالج جاتی اور معاشی ذبوں حالی سے بچنے کے لئے رات کو مختلف تقریبات میں رقص کر کے اپنا روپیہ پیسہ کماتی، اس نے مسلسل جدوجہد کی جاری رکھی اور ایک دن کامیابی ٹھہری۔
مسلمان ملک انڈونیشیا کے صوبے آچے میں اسلامی قوانین نافذ ہے، گزشتہ دونوں انڈونیشیا کے صوبے آچے میں پولیس نے درجنوں خواجہ سراؤں کو مختلف بیوٹی پارلروں پر چھاپے مار حراست میں لیا، ان خواجہ سراؤں کو کچھ دن پولیس کی تحویل میں رکھا گیا اور انہیں پانچ روزتک تربیت بھی دی گئی، اس کام کو سر انجام دینے کے لئے مقامی علمائے کرام کی خدمات لیں گئیں، انہوں نے مردوں کی طرح بولنا، چلنا سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کی۔ دریں اثنا پولیس کا کہنا تھا کہ ہم ان کی ذہنیت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بہتر انسان بن سکیں، واضح رہے انڈونیشیا میں ان کے حقوق کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں باعزت روزگار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
اسی طرز کو اپناتے ہوئے حکومت پاکستان کو بھی قانونی سازی کرنا ہوگی تاکہ معاشرے کا یہ کمزور طبقہ قومی دھارے میں شامل ہو سکے، حکومت کو چاہئیے کہ ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے لئے روزی روٹی کا بند و بست کر سکیں اور جو خواجہ سرا پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان کو ملازمت تو مل جاتی ہے مگر بیمار معاشرے کے گھٹیا لوگ دفاتر میں انہیں تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں، اس پر ارباب اختیار کو سختی سے نوٹس لینا چاہئیے تاکہ ان میں مایوسی پروان نا چڑھے۔