’’حکومت طالبان مذاکرات پر میڈیا بھی گومگو کا شکار ہے‘‘
سیاست دانوں نے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کردی لیکن جنگجوؤں کے بڑھتے مطالبات اس عمل کو اذیت ناک بنارہے ہیں۔
KARACHI:
بین الاقوامی میڈیانے اس امرپر تجسس کا اظہارکیاہے کہ کیا پاکستان طالبان سے مذاکرات اور امن کے قیام میں کامیاب ہوجائے گا۔
نوازشریف کی بلائی ہوئی اے پی سی کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیاکا کہناہے کہ سیاست دانوں نے تو طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کردی لیکن مسلسل حملے اور جنگجوؤں کے بڑھتے مطالبات اس عمل کو طویل تراور اذیت ناک بنارہے ہیں۔ طالبان نے اس حوالے سے سخت شرائط عائد کردیںجن میںان کے تمام ارکان کی رہائی اور قبائلی علاقوںسے فوج کا مکمل انخلا شامل ہے۔ اسی اثنامیں شدت پسندوںنے حملے کرکے ایک جنرل سمیت 7فوجی اور پولیس اہلکاروں کوہلاک کردیا۔ طالبان ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا کہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور ہم اس وقت تک حالت جنگ میں رہیں گے جب تک حکومت پاکستان جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتی۔
ان حملوں کے بعد آرمی چیف جنرل کیانی نے کہاکہ سیاسی عمل کے ذریعے امن کو ایک موقع دینے کی بات سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ ہم سے اپنی شرائط منوالے گایا ہم پرتھوپ دے گا۔ پاکستانی میڈیا بھی اس بات پرگومگو کاشکارہے کہ یہ مذاکرات کامیاب بھی ہوںگے یا نہیں۔ انھیں یہ تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کہ حکومت اورافواج کے پاکستان کی سالمیت اورآئین کی حفاظت کے عزم اورطالبان کی نفاذشریعت کی خواہش انھیںکسی مفاہمت تک پہنچاسکے گی، دیگر مسائل کی توبات ہی کیا۔ اہداف ومقاصدکا یہی فرق ان میں خلیج کا سبب ہے جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خیبر پختونخواکے سابق وزیراطلاعات میاںا فتخار حسین کے مطابق طالبان کے بعض گروہ جو مذاکرات نہیںچاہتے، ان کایہ خیال ہے کہ حکومت کے خلاف جہادجاری رکھناچاہیے کیونکہ یہ امریکااور بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے طالبان جوبھارت مخالف ہیںاور روایتی طورپر فوج سے قربت رکھتے ہیں، مذاکرات کے حق میں ہیں۔ میاںافتخار کے مطابق جنرل پر حملہ دراصل مذاکرات سبوتاژکرنے کی سازش ہے۔ ایک سینئر طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے ملا فضل اللہ کا گروپ ہے۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہناہے کہ اس سلسلے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ مذاکرات کیسے ہوںگے، کہاں ہوں گے، اگر کسی معاہدے تک پہنچے تو اس پرعمل کیسے ہوگا، کیا قیدی واقعی رہا کردیے جائیںگے۔ مزیدبرآںمذاکرات کے لیے فوج کی مفاہمت غیرمعینہ مدت تک کے لیے نہیں۔ جنرل کیانی نومبرمیں ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کا جانشین اور اس کے نظریات و ترجیحات ابھی اندھیرے میں ہیں۔
بین الاقوامی میڈیانے اس امرپر تجسس کا اظہارکیاہے کہ کیا پاکستان طالبان سے مذاکرات اور امن کے قیام میں کامیاب ہوجائے گا۔
نوازشریف کی بلائی ہوئی اے پی سی کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیاکا کہناہے کہ سیاست دانوں نے تو طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کردی لیکن مسلسل حملے اور جنگجوؤں کے بڑھتے مطالبات اس عمل کو طویل تراور اذیت ناک بنارہے ہیں۔ طالبان نے اس حوالے سے سخت شرائط عائد کردیںجن میںان کے تمام ارکان کی رہائی اور قبائلی علاقوںسے فوج کا مکمل انخلا شامل ہے۔ اسی اثنامیں شدت پسندوںنے حملے کرکے ایک جنرل سمیت 7فوجی اور پولیس اہلکاروں کوہلاک کردیا۔ طالبان ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا کہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور ہم اس وقت تک حالت جنگ میں رہیں گے جب تک حکومت پاکستان جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتی۔
ان حملوں کے بعد آرمی چیف جنرل کیانی نے کہاکہ سیاسی عمل کے ذریعے امن کو ایک موقع دینے کی بات سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ ہم سے اپنی شرائط منوالے گایا ہم پرتھوپ دے گا۔ پاکستانی میڈیا بھی اس بات پرگومگو کاشکارہے کہ یہ مذاکرات کامیاب بھی ہوںگے یا نہیں۔ انھیں یہ تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کہ حکومت اورافواج کے پاکستان کی سالمیت اورآئین کی حفاظت کے عزم اورطالبان کی نفاذشریعت کی خواہش انھیںکسی مفاہمت تک پہنچاسکے گی، دیگر مسائل کی توبات ہی کیا۔ اہداف ومقاصدکا یہی فرق ان میں خلیج کا سبب ہے جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خیبر پختونخواکے سابق وزیراطلاعات میاںا فتخار حسین کے مطابق طالبان کے بعض گروہ جو مذاکرات نہیںچاہتے، ان کایہ خیال ہے کہ حکومت کے خلاف جہادجاری رکھناچاہیے کیونکہ یہ امریکااور بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے طالبان جوبھارت مخالف ہیںاور روایتی طورپر فوج سے قربت رکھتے ہیں، مذاکرات کے حق میں ہیں۔ میاںافتخار کے مطابق جنرل پر حملہ دراصل مذاکرات سبوتاژکرنے کی سازش ہے۔ ایک سینئر طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے ملا فضل اللہ کا گروپ ہے۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہناہے کہ اس سلسلے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ مذاکرات کیسے ہوںگے، کہاں ہوں گے، اگر کسی معاہدے تک پہنچے تو اس پرعمل کیسے ہوگا، کیا قیدی واقعی رہا کردیے جائیںگے۔ مزیدبرآںمذاکرات کے لیے فوج کی مفاہمت غیرمعینہ مدت تک کے لیے نہیں۔ جنرل کیانی نومبرمیں ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کا جانشین اور اس کے نظریات و ترجیحات ابھی اندھیرے میں ہیں۔