کیا کیا لائے ہوں گے
یہاں اس ’’پگڑی‘‘ کا قصہ بھی دم ہلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو تھی تو سہی لیکن ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی تھی۔
ہمارے وزیراعظم امریکا کا کامیاب دورہ کرکے ''خیر'' سے لوٹ آئے ہیں۔ دانا دانشور لوگ تو اس کامیاب دورے کی کامیابیوں پر اور اس دورے کے اثرات و مضمرات و ثمرات کی وہ تفصیلات بھی پیش کر چکے ہیں جو اس کامیاب دورے سے نہ صرف ہمارے مستقبل قریب و بعید پر اس پورے خطے پر بلکہ چاند ستاروں پر بھی پڑنے والے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے گزرے ہوئے زمانے یاد آ رہے ہیں کہ جب ہمارا کوئی بزرگ شہر جاتا تھا تو ہم سارا دن اس تصور میں مگن رہتے تھے کہ وہ ہمارے لیے کیا کیا لائیں گے۔
یہ تو بچپن کی بات ہے اس کے بعد دوسرا دور وہ تھا جب ہم اپنے ان ملازم بزرگوں کے چھٹی پر آتے وقت یہی سوچتے تھے کہ ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے اور یہ تصور صرف ہمارا نہیں تھا وہ زمانے ایسے تھے کہ ''باہر'' کی ہر چیز ہمارے لیے سوغات ہوتی تھی۔ ایسے ملازم رشتہ داروں کے آنے اور جانے پر باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام ہوتا تھا۔
جب ان کے آنے کی خبر بذریعہ تار آتی تھی تو سارے رشتہ دار اور دوست واحباب اچھے کپڑے پہن کر بال وال سنوار کر ایک جلوس کی شکل میں ریلوے اسٹیشن پہنچتے جو تین کلو میٹر دور تھا اور یہ سفر پیدل طے ہوتا تھا۔ پھر جب وہ تشریف لاتے تو گاڑی رکنے سے پہلے ہی کچھ لوگ اس ڈبے پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر کوئی کوشش کرتا تھا کہ ان کے سامان میں سے کچھ تو اٹھانے کی سعادت مل جائے۔
پھر کئی دن تک ان کی دعوتیں چلتیں اور جو کچھ وہ لائے ہوتے وہ ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ مل جاتا تھا۔چھٹیاں ختم ہونے پر پہلے سے بھی بڑا جلوس ان کو اسٹیشن پہنچانے جاتا تھا اور ہر کوئی کوشش کرتا تھا کہ آیندہ کے لیے اپنی فرمائش اس کے پاس رجسٹرڈ کرا لے۔
تیسرے دور میں جب ''باہر ملکی'' لوگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو بیچارے ملازموں کو اکیلے ہی اسٹیشن جانا بھی پڑتا اور آنا بھی پڑتا اپنا سامان خود سر پر اٹھائے ہوئے ۔ کیونکہ اب لوگ ڈبل روٹی بسکٹ یا جرابیں یا بنیان وغیرہ سے گزر کر گھڑیوں، کپڑوں، سگریٹوں، سپرے اور جاپانی الیکٹرانک سامان کے پرستار ہو گئے تھے۔
مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ ہماری تو عادت ہی بن چکی ہے کہ آنے جانے والوں کے بارے میں توقعات پالتے رہتے ہیں، وہ ہمارے لیے کیا بلکہ کیا کیا لائے ہوں گے۔
اور ہمارے وزیراعظم تو ''خیر'' سے وہاں سے لوٹے ہیں جہاں سب کچھ ملتا ہے۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
بقول ہمارے ایک بزرگ کے۔ امریکا میں تو چڑیا کا دودھ بھی مل جاتا ہے بلکہ سنا ہے کہ وہاں پر انجیر کے پھول'' اور گیدڑ سنگھیاں بھی مل جاتی ہیں جن کے بارے میں بزرگ بتاتے ہیں کہ کسی بھی چیز یعنی پیسوں، زیورات اور غلے وغیرہ میں ڈال دو تو پھر وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یوں کہیے کہ۔
شفق، دھنک، مہتاب ہوائیں، بجلی تارے نغمے پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
اور جاتے ہوئے بلکہ پہنچ کر ہمارے خود دار وزیراعظم نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ہم بھیک کا کٹورا لے کر نہیں آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بھیک کا کٹورا جب وہ یہاں چھوڑ کر گئے ہیں تو میزبانوں کا فرض بنتا تھا کہ کچھ تحفے تحائف، کچھ سوغاتیں، کچھ مداراتیں ...مانا کہ یہ ٹرمپ جو ہے اس کی جتنی شکل بری ہے، اتنی ہی اس کی ''خوبو'' بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمارے لیے نہ سہی اپنی پوزیشن کا خیال تو اس نے رکھا ہی ہو گا۔ مطلب وہی کہ ۔۔ وہ ہمارے لیے نہ جانے کیا کیاکتنا کتنا لائے ہوں گے۔
ایک پرانا قصہ یاد آ رہا ہے کہ ریڈیو پاکستان پشاور میں اس وقت کچھ کاپیسٹ یعنی نقل نویس بھی ہوا کرتے تھے جو ایک گیراج نما کمرے میں بیٹھ کر مسودات کی نقلیں تیار کرتے تھے، ان میں سے ایک مشہور شاعر ''فدا مطہر'' بھی تھے جن کے گیت اس وقت کے تمام گائیک گاتے تھے اور گرامو فون کمپنیوں کے کالے ریکارڈوں میں ثبت ہو کر مشہور عوام ہو جاتے تھے۔ بڑے اچھے شاعر تھے لیکن طبیعت کے سادہ اور صاف آدمی تھے جب کہ ساتھ میں ایک اور کاتب ''صوفی جانس'' بھی چالو اور لطیفہ باز تھے۔ صوفی جانس مشہور شاعر سمندر خان سمندر کے بھائی تھے اور طرح طرح کے لطیفے اور پھبتیاں کسنے میں ماہر ۔ اور اس کے لطیفوں اور پھبتیوں کا نشانہ اکثر استاد فدا مطہر ہوتے تھے۔ استاد کے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی بے وضو قسم کا فرضی لطیفہ اس کا معمول تھا جس کے جواب میں استاد اپنی عینک کے اوپر سے دیکھ کر صرف ایک ہی فقرہ بولتے۔ یہ کیا حرامی ہے۔
اس نے ایک دن استاد کے بارے میں ایک لطیفہ والی سوات کے تعلق سے گھڑا۔ ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کا معمول تھا کہ 5 جون کو سوات میں ایک مشاعرہ ہوتا تھا جس میں مخصوص قسم کے شعراء حصہ لے کر والی صاحب کی مدح سرائیاں کرتے تھے اور صبح ہر شاعر کو بیس تیس روپے مل جاتے تھے۔
جب ریاست ضم ہوئی تو مشاعرہ بھی کینسل ہو گیا اور صوفی جانس کو استاد فدا مطہر پر ایک اور پھبتی چسپاں کرنے کا موقع مل گیا۔ بولا، سنو سنو۔ تم کو پتہ ہے استاد نے مشاعرہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا کمال دکھا دیا۔ پھر بولا، استاد اس مرتبہ بھی مشاعرہ کینسل ہونے کے باوجود سیدو شریف پہنچ گئے تو مہمان خانے میں ٹھہرائے گئے۔ صبح اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھنے گئے جہاں والی سوات کے جد امجد سوات بابا جی کا مزار بھی ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد استاد اٹھے اور بابا جی کے مزار پر گر کر پچھاڑیں کھانے لگے اور صاحب مزار کو غائبانہ مخاطب کر کے روتے روتے کہنے لگے۔ نہیں مانتا میں تمہاری بزرگی کو، نہیں مانتا تمہارے اندر کچھ طاقت ہوتی تو آج تمہاری اولاد کو یہ دن دیکھنا پڑتا۔ آخر تم نے کوئی کرامت کیوں نہیں دکھائی۔
یہ تو استاد کو معلوم تھا کہ یہاں مہمانوں کی نگرانی ہوتی ہے اور ان ہر حرکت کی خبر والی صاحب کو دی جاتی ہے۔ ریاست نہیں رہی تھی لیکن حکمران تو بہر حال تھے، سابق ہی سہی۔ چنانچہ استاد کی اس حرکت کی خبر بھی والی صاحب کو دے دی گئی۔ یہاں پر صوفی جانس نے وقفہ دے کر کلائی مکس پیش کیا ۔ اور استاد مشاعرہ نہ ہوتے ہوئے اس مرتبہ بھی ''لدے پھندے'' آئے۔
مانا کہ ٹرمپ اور امریکا، کی وہ محبتیں اورعقیدتیں ہمارے ساتھ نہیں رہیں اور اس مرتبہ کوئی مشاعرہ بھی نہ تھا لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے لائق و فائق اور باصلاحیت وزیراعظم ''لدے پھندے'' نہ سہی ۔ لیکن خالی ہاتھ تو نہیں آئے ہوں۔ نہ جانے ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے۔
یہاں اس ''پگڑی'' کا قصہ بھی دم ہلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو تھی تو سہی لیکن ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی تھی اور ہم ہر کسی تو کیا کچھ ''کسی'' میں بھی نہیں ہے، اس لیے ہمیں دکھائی نہ بھی دے پھر بھی۔ وہ نہ جانے ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے۔ لیکن اس کا پتہ دھیرے دھیرے۔ بطور خاص ہم جیسوں کو لگے گا باقی جو دانا دانشور ہیں، ان کو تو ان کے لوٹ آنے بلکہ جانے سے بھی پہلے پتہ تھا۔ کہ وہ کیا کیا کچھ ہمارے لیے لائیں گے یا لانے والے ہیں۔ ویسے یہ بھی کچھ خوشی کی بات نہیں ہے کہ سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تو نہیں تھا لیکن تھوڑا سا کمزور ہو گیا تھا۔
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
یہ تو بچپن کی بات ہے اس کے بعد دوسرا دور وہ تھا جب ہم اپنے ان ملازم بزرگوں کے چھٹی پر آتے وقت یہی سوچتے تھے کہ ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے اور یہ تصور صرف ہمارا نہیں تھا وہ زمانے ایسے تھے کہ ''باہر'' کی ہر چیز ہمارے لیے سوغات ہوتی تھی۔ ایسے ملازم رشتہ داروں کے آنے اور جانے پر باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام ہوتا تھا۔
جب ان کے آنے کی خبر بذریعہ تار آتی تھی تو سارے رشتہ دار اور دوست واحباب اچھے کپڑے پہن کر بال وال سنوار کر ایک جلوس کی شکل میں ریلوے اسٹیشن پہنچتے جو تین کلو میٹر دور تھا اور یہ سفر پیدل طے ہوتا تھا۔ پھر جب وہ تشریف لاتے تو گاڑی رکنے سے پہلے ہی کچھ لوگ اس ڈبے پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر کوئی کوشش کرتا تھا کہ ان کے سامان میں سے کچھ تو اٹھانے کی سعادت مل جائے۔
پھر کئی دن تک ان کی دعوتیں چلتیں اور جو کچھ وہ لائے ہوتے وہ ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ مل جاتا تھا۔چھٹیاں ختم ہونے پر پہلے سے بھی بڑا جلوس ان کو اسٹیشن پہنچانے جاتا تھا اور ہر کوئی کوشش کرتا تھا کہ آیندہ کے لیے اپنی فرمائش اس کے پاس رجسٹرڈ کرا لے۔
تیسرے دور میں جب ''باہر ملکی'' لوگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو بیچارے ملازموں کو اکیلے ہی اسٹیشن جانا بھی پڑتا اور آنا بھی پڑتا اپنا سامان خود سر پر اٹھائے ہوئے ۔ کیونکہ اب لوگ ڈبل روٹی بسکٹ یا جرابیں یا بنیان وغیرہ سے گزر کر گھڑیوں، کپڑوں، سگریٹوں، سپرے اور جاپانی الیکٹرانک سامان کے پرستار ہو گئے تھے۔
مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ ہماری تو عادت ہی بن چکی ہے کہ آنے جانے والوں کے بارے میں توقعات پالتے رہتے ہیں، وہ ہمارے لیے کیا بلکہ کیا کیا لائے ہوں گے۔
اور ہمارے وزیراعظم تو ''خیر'' سے وہاں سے لوٹے ہیں جہاں سب کچھ ملتا ہے۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
بقول ہمارے ایک بزرگ کے۔ امریکا میں تو چڑیا کا دودھ بھی مل جاتا ہے بلکہ سنا ہے کہ وہاں پر انجیر کے پھول'' اور گیدڑ سنگھیاں بھی مل جاتی ہیں جن کے بارے میں بزرگ بتاتے ہیں کہ کسی بھی چیز یعنی پیسوں، زیورات اور غلے وغیرہ میں ڈال دو تو پھر وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یوں کہیے کہ۔
شفق، دھنک، مہتاب ہوائیں، بجلی تارے نغمے پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
اور جاتے ہوئے بلکہ پہنچ کر ہمارے خود دار وزیراعظم نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ہم بھیک کا کٹورا لے کر نہیں آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بھیک کا کٹورا جب وہ یہاں چھوڑ کر گئے ہیں تو میزبانوں کا فرض بنتا تھا کہ کچھ تحفے تحائف، کچھ سوغاتیں، کچھ مداراتیں ...مانا کہ یہ ٹرمپ جو ہے اس کی جتنی شکل بری ہے، اتنی ہی اس کی ''خوبو'' بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمارے لیے نہ سہی اپنی پوزیشن کا خیال تو اس نے رکھا ہی ہو گا۔ مطلب وہی کہ ۔۔ وہ ہمارے لیے نہ جانے کیا کیاکتنا کتنا لائے ہوں گے۔
ایک پرانا قصہ یاد آ رہا ہے کہ ریڈیو پاکستان پشاور میں اس وقت کچھ کاپیسٹ یعنی نقل نویس بھی ہوا کرتے تھے جو ایک گیراج نما کمرے میں بیٹھ کر مسودات کی نقلیں تیار کرتے تھے، ان میں سے ایک مشہور شاعر ''فدا مطہر'' بھی تھے جن کے گیت اس وقت کے تمام گائیک گاتے تھے اور گرامو فون کمپنیوں کے کالے ریکارڈوں میں ثبت ہو کر مشہور عوام ہو جاتے تھے۔ بڑے اچھے شاعر تھے لیکن طبیعت کے سادہ اور صاف آدمی تھے جب کہ ساتھ میں ایک اور کاتب ''صوفی جانس'' بھی چالو اور لطیفہ باز تھے۔ صوفی جانس مشہور شاعر سمندر خان سمندر کے بھائی تھے اور طرح طرح کے لطیفے اور پھبتیاں کسنے میں ماہر ۔ اور اس کے لطیفوں اور پھبتیوں کا نشانہ اکثر استاد فدا مطہر ہوتے تھے۔ استاد کے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی بے وضو قسم کا فرضی لطیفہ اس کا معمول تھا جس کے جواب میں استاد اپنی عینک کے اوپر سے دیکھ کر صرف ایک ہی فقرہ بولتے۔ یہ کیا حرامی ہے۔
اس نے ایک دن استاد کے بارے میں ایک لطیفہ والی سوات کے تعلق سے گھڑا۔ ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کا معمول تھا کہ 5 جون کو سوات میں ایک مشاعرہ ہوتا تھا جس میں مخصوص قسم کے شعراء حصہ لے کر والی صاحب کی مدح سرائیاں کرتے تھے اور صبح ہر شاعر کو بیس تیس روپے مل جاتے تھے۔
جب ریاست ضم ہوئی تو مشاعرہ بھی کینسل ہو گیا اور صوفی جانس کو استاد فدا مطہر پر ایک اور پھبتی چسپاں کرنے کا موقع مل گیا۔ بولا، سنو سنو۔ تم کو پتہ ہے استاد نے مشاعرہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا کمال دکھا دیا۔ پھر بولا، استاد اس مرتبہ بھی مشاعرہ کینسل ہونے کے باوجود سیدو شریف پہنچ گئے تو مہمان خانے میں ٹھہرائے گئے۔ صبح اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھنے گئے جہاں والی سوات کے جد امجد سوات بابا جی کا مزار بھی ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد استاد اٹھے اور بابا جی کے مزار پر گر کر پچھاڑیں کھانے لگے اور صاحب مزار کو غائبانہ مخاطب کر کے روتے روتے کہنے لگے۔ نہیں مانتا میں تمہاری بزرگی کو، نہیں مانتا تمہارے اندر کچھ طاقت ہوتی تو آج تمہاری اولاد کو یہ دن دیکھنا پڑتا۔ آخر تم نے کوئی کرامت کیوں نہیں دکھائی۔
یہ تو استاد کو معلوم تھا کہ یہاں مہمانوں کی نگرانی ہوتی ہے اور ان ہر حرکت کی خبر والی صاحب کو دی جاتی ہے۔ ریاست نہیں رہی تھی لیکن حکمران تو بہر حال تھے، سابق ہی سہی۔ چنانچہ استاد کی اس حرکت کی خبر بھی والی صاحب کو دے دی گئی۔ یہاں پر صوفی جانس نے وقفہ دے کر کلائی مکس پیش کیا ۔ اور استاد مشاعرہ نہ ہوتے ہوئے اس مرتبہ بھی ''لدے پھندے'' آئے۔
مانا کہ ٹرمپ اور امریکا، کی وہ محبتیں اورعقیدتیں ہمارے ساتھ نہیں رہیں اور اس مرتبہ کوئی مشاعرہ بھی نہ تھا لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے لائق و فائق اور باصلاحیت وزیراعظم ''لدے پھندے'' نہ سہی ۔ لیکن خالی ہاتھ تو نہیں آئے ہوں۔ نہ جانے ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے۔
یہاں اس ''پگڑی'' کا قصہ بھی دم ہلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو تھی تو سہی لیکن ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتی تھی اور ہم ہر کسی تو کیا کچھ ''کسی'' میں بھی نہیں ہے، اس لیے ہمیں دکھائی نہ بھی دے پھر بھی۔ وہ نہ جانے ہمارے لیے کیا کیا لائے ہوں گے۔ لیکن اس کا پتہ دھیرے دھیرے۔ بطور خاص ہم جیسوں کو لگے گا باقی جو دانا دانشور ہیں، ان کو تو ان کے لوٹ آنے بلکہ جانے سے بھی پہلے پتہ تھا۔ کہ وہ کیا کیا کچھ ہمارے لیے لائیں گے یا لانے والے ہیں۔ ویسے یہ بھی کچھ خوشی کی بات نہیں ہے کہ سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تو نہیں تھا لیکن تھوڑا سا کمزور ہو گیا تھا۔
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا