عوام ہی کی قربانی کیوں
عمران خان کو ملک کی معاشی صورتحال اور مشکل وقت کو بنیاد بناکر عوام سے بار بار قربانی مانگنا پڑ رہی ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان اپنے رب کی خوشنودی اور سنت ابراہیمی کی پیروی میں قربانی کرتے ہیں جو سال میں ایک بارکی جاتی ہے ، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جب بھی نئی حکومت آتی ہے وہ گزشتہ حکومتوں کو معاشی خرابی کا ذمے دار قرار دے کر عوام سے قربانی مانگتی آئی ہے۔ موجودہ تبدیلی حکومت نے تو عوام سے مالی قربانی لینے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
عمران خان کو ملک کی معاشی صورتحال اور مشکل وقت کو بنیاد بناکر عوام سے بار بار قربانی مانگنا پڑ رہی ہے۔ عوام سے بار بار اور اس قدر قربانی ماضی کے کسی مبینہ کرپٹ حکمران نے بھی نہیں مانگی۔ موجودہ حکمران ایک سال قبل بڑے فخر اور مان سے وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں اپنی جو معاشی ٹیم میدان میں لائے تھے وہ آٹھ ماہ ہی میں ناکام ہوگئی اور تبدیلی حکومت آتے ہی وزیر اعظم نے عوام سے جو قربانیاں لی تھیں وہ رائیگاں گئیں۔ وزیرخزانہ اسد عمر اب آہستہ آہستہ لب کشائی پر مجبور ہو رہے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے متبادل راستہ بھی موجود تھا اور جس سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار پر وہ ڈالر پر مصنوعی کنٹرول کا الزام لگاتے ہیں اب اعتراف کر رہے ہیں کہ معاشی بدحالی کے ذمے دار اسحق ڈار ہی نہیں تھے۔
حکومت نے آتے ہی دس سال برسر اقتدار رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو معاشی تباہی کا ذمے دار قرار دیا تھا اور اب تک دیتی آرہی ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معاشی حالات کی خرابی سے اتنا ذمے دار پیپلز پارٹی کی حکومت کو اور 2008 میں برسر اقتدار والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کی مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو اتنا ذمے دار قرار نہیں دیا تھا جتنا دونوں کو ذمے دار موجودہ حکومت قرار دیتی آرہی ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے بعد ڈھائی تین ماہ کے لیے دونوں نگران حکومتوں نے بھی ماضی کی حکومتوں پر اتنے الزامات نہیں لگائے تھے جتنے موجودہ حکومت نے اپنے ایک سال میں دونوں سابقہ حکومتوں پر عائد کیے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جو سوا سال بعد بھی ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تھا تو انھوں نے معاشی تباہی کا ذمے دار تنہا (ن) لیگ کو نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی قرار دیا تھا جب کہ 1988 سے 1999 تک گیارہ سال کے عرصے میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) دو دو بار اقتدار میں ضرور آئی تھیں مگر دونوں کو پانچ پانچ سال حکومت کرنے کا موقع اس طرح نہیں دیا گیا تھا جتنا پورا عرصہ 2002 سے 2018 تک مسلم لیگ (ق)، پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو بعد میں دیا گیا۔ مقتدر قوتوں کو یہ کریڈٹ ضرور جائے گا کہ انھوں نے تین حکومتوں کی مدت پوری کرائی جب کہ اس سے قبل 18/2-B سے لیس صدر غلام اسحق خان اور صدر فاروق لغاری نے سویلین صدر ہوتے ہوئے تین سویلین حکومتیں برطرف کی تھیں۔
1988 میں بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آکر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی طرح سابق حکومتوں پر معاشی بدحالی کے الزامات لگائے تھے اور صدر مملکت غلام اسحق خان جب فروری 1989 میں میرے آبائی شہر شکارپور تعزیت کے لیے آئے تھے تو میں نے صدر مملکت سے سوال کیا تھا کہ آپ صدر بننے سے پہلے طویل عرصہ وزیر خزانہ بھی رہے کیا آپ نے نئی بے نظیر حکومت کو ملکی خزانہ خالی کرکے دیا ہے تو صدر مملکت نے جواب دیا تھا کہ پاکستان کا خزانہ مغلوں کا خزانہ تو نہیں ہے کہ جس میں رات کو ہیرے جواہرات آئیں اور صبح خالی ہوجائیں۔ اس وقت پہلی بار وزیر اعظم بننے والی بے نظیر بھٹو بھی موجودہ وزیر اعظم کی طرح معاشی بدحالی کا گلہ کرتے ہوئے ہر موقع پرکہتی تھیں کہ کیا کروں خزانہ خالی ہے۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے صدر مملکت کے ریمارکس کے بعد خزانہ خالی ہے کا راگ الاپنا ضرور بندکردیا تھا مگر موجودہ وزیر اعظم عمران خان اب بھی پی پی اور (ن) لیگ کی سابقہ حکومتوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں حالانکہ وہ نہ صرف ایک سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں وہ خود دونوں سابقہ حکومتوں سے زیادہ قرضے لے چکے ہیں اور انھیں بیرونی امداد بھی سب سے زیادہ ملی ہے مگر پھر بھی وہ عوام سے قربانی پہ قربانی طلب کر رہے ہیں اور نوبت یہ آچکی ہے کہ وہ ان کی حکومت کو قربانی دے دے کر اب مزید قربانی کی سکت نہیں رکھتے اور خود ان کی اپنی قربانی ہو نہیں سکتی۔
اب تک تو ہر حکومت نے ہی عوام سے ہی قربانی مانگی ہے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر عوام سے بڑی بڑی قربانی وصول کی تھی مگر نہ ملک سنورا نہ غیر ملکی قرضے اترے بلکہ بڑھتے بڑھتے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ قرض اتارنے کے لیے موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح قرض پر قرض اور عوام سے قربانی پہ قربانی مانگ رہی ہے۔
سابقہ حکومتوں میں غیر ملکی قرضوں سے تعمیراتی کام تو ہوتے تھے مگر موجودہ حکومت کے ایک سال میں ہوتا ہوا توکچھ بھی نظر نہیں آرہا اور صرف عوام سے قربانی طلب کی جا رہی ہے جب کہ عوام قربانیاں دے دے کر تھک گئے ہیں۔
عیدالاضحی کی قربانی غریب توکر ہی نہیں سکتے اور سرمایہ دار ایک دوسرے کے مقابلے اور دکھاوے کے لیے بڑھ چڑھ کر کرتے آرہے ہیں مگر حکومت ان سے قربانی مانگتی ہے نہ خود کوئی قربانی کرتی ہے۔ پارٹی رہنماؤں اور ذاتی دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ اب بھی ماضی کی طرح جاری ہے۔
مارچ میں جب پنجاب اسمبلی میں ارکان نے مل کر اپنی تنخواہ بڑھائی تھی تو وزیر اعظم نے برہم ہوکر گورنر پنجاب کو سمری پر دستخط سے روک دیا تھا مگر اب تنخواہیں 80 ہزار ماہانہ سے بڑھ کر ایک لاکھ 75 ہزار کرکے وصول بھی کرلی گئیں مگر وزیر اعظم خاموش ہیں اور یکم اگست کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتے وقت یہ نہ سوچا گیا کہ 12 اگست کو عیدالاضحی ہے جس کے لیے قربانی ارکان اسمبلی کو چھوڑ کر پھر عوام سے لے لی گئی ہے۔