تبدیلی کا تاج
قوم نے خود ساختہ بت جو برسوں سے مسند اقتدار پر برا جمان تھے انھیں توڑکر آپ کو ووٹ ڈالے۔
نہ جانے پاکستانی سیاست کس نہج پر آچکی ہے، الزام در الزام کی سیاست عروج پر ہے۔اپوزیشن اور حکومت کے درمیان شدید تناؤکی کیفیت ہے۔ اپوزیشن حکومتی کارکردگی پر تنقیدکر رہی ہے جب کہ حکومتی وزراء ہر خرابی کا ملبہ اپوزیشن جماعتوں اور ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ قوم ان کے اس منفی پروپیگنڈے سے بے زار ہوچکی ہے۔
ڈینگی وائرس، شوگر، ہارٹ پرابلم،ہیپا ٹائٹس، جوڑوں کے درد ، پوشیدہ امراض اور اعصابی کمزوری ، ناقابل اشاعت سیاسی بیانات، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ،کرپشن، دہشت گردی، ذہنی پسماندگی کے شکار، علما کے سیاسی فتوے، اپنے اور پرائے لوگوں کے دیے ہوئے دکھ ، معاشی بد حالی، بے روزگاری، لاقانونیت اور ذہنی بے چینیوں کے باوجود زندہ رہ جانے والی اس عظیم عوام اور باہمت قوم کو میری طرف سے سلام۔
اب سوشل میڈیا نے اظہار رائے کا جوطریقہ اپنایا ہے وہ بہت اچھا ہے، سیاست دان سوشل میڈیا سے بہت نالاں ہیں کیونکہ جوکچھ اس میڈیا پر آرہا ہے وہ انھیں بے نقاب کر رہا ہے۔ پہلے یہ قوم کو اندھیرے میں رکھتے تھے، لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔
کراچی سے لے کر خیبر تک ہماری فوج نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیوکا جوکام کیا ہے، قوم اس سے بہت متاثر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت بھی فوج کرے، شہروں کی مشکلات بھی فوج دیکھے، قومی سلامتی واستحکام کی سرگرمیوں کو بھی فوج فروغ دے تو پھر یہ سویلین حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ صرف خوش نما وعدؤں اور سیاسی بیان بازی پر حکومت چاروں صوبوں میں چلائی جا رہی ہے، جن کی ذمے داری حرمت قلم کی ہے وہ بھی خاموش ہیں پھر ہمارے کچھ سیاستدان کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں نا منظور۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ اس خود ساختہ مہنگائی سے بے زار ہوگئے ہیں۔عمران خان بحیثیت وزیر اعظم بہت کامیاب نظر آتے ہیں مگر انھیں اور ان کی کابینہ کو مہنگائی کم کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ روٹی 10 روپے کی یا 15 روپے کی یہ اب قوم کا مسئلہ نہیں ہے وہ قواعد وضوابط کی منتظر ہے اپوزیشن کو تو چھوڑیں وہ تو 25 سال سے مسائل کا ایک ڈھانچہ اٹھائے سیاست کرتی رہی جوکسی المیے سے کم نہیں۔
قوم نے خود ساختہ بت جو برسوں سے مسند اقتدار پر برا جمان تھے انھیں توڑکر آپ کو ووٹ ڈالے۔ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کوکوسنے دینا چھوڑیں اور دانشورانہ بصیرت سے خود کو قوم کے لیے وقف کریں۔ اپوزیشن تو ایک سال سے آپ کی مخالفت برائے مخالفت کررہی ہے مگر قوم نے ایک تبدیلی کے لیے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ خدارا ! قوم پر توجہ دیں۔
خود ساختہ مہنگائی نے قوم کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ڈالرکی آڑ میں کاروباری کمیونٹی نے مملکت خداداد میں ایک عجیب کیفیت پیدا کردی ہے، ہم ٹھہرے مفلس اور نادار صحافی ضروریات زندگی کے لیے بازاروں میں بھی دھکے کھاتے ہیں۔ جون 2018 میں شلجم 40 روپے اب 150 روپے، پیاز 20 روپے اب 50 روپے، بھنڈی 80 روپے اب 160 روپے، آلو20 روپے اب 40 روپے، گاجر 40 روپے اب 120 روپے، بینگن 30 روپے اب 80 روپے، توری 50 روپے اب 120 روپے، ہرا دھنیا 5 روپے اب 15 روپے،گوبھی 50 روپے اب 130 روپے، بکرے کا گوشت 700 روپے اب 1000 روپے، اب کوئی بھی ماہر معیشت یہ ثابت کردے کہ اس کا ڈالر سے کیا واسطہ ہے۔ ڈالرکی آڑ میں خود ساختہ مہنگائی کردی گئی ہے۔
زرداری حکومت میں بھی پٹرول 110 روپے بکتا رہا ہے، اب یہ کہنا کہ پٹرول مہنگا ہوگیا ہے، الزام لگانے والی بات ہے۔ جس طرح گورنمنٹ اداروں میں مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکن کام کررہے ہیں، اسی طرح مختلف اشیا کے ہول سیلرز بھی کام کر رہے ہیں۔
خان صاحب آپ کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربے کو آزمایا جا رہا ہے اور بد نامی حکومت کی ہو رہی ہے اگر آپ نے (عمران خان) اس پر توجہ نہیں دی تو اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی اور یہی چیز اپوزیشن کو اس حد تک کامیاب کرے گی کہ پھر آپ اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکیں گے اور دسمبر 2019 تک آپ کے لیے اور آپ کی کابینہ کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی اور یہ خوشی کا سفر قوم کے لیے کہیں عارضی ثابت نہ ہوجائے کیونکہ آئے دن سوشل میڈیا پر عوام آپ کی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہارکرتے نظر آتے ہیں۔
خان صاحب! آپ اپوزیشن کو چھوڑ دیں اور اپنے وزرا کو کام کی طرف راغب کریں آپ اور آپ کے وزرا اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں قوم کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں، انھوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دے کر آپ کے سر پر تبدیلی کا تاج رکھ دیا ۔آپ پہلی فرصت میں کراچی سے لے کر خیبر تک پرائس کنٹرول کرنے والے کو ضابطہ اخلاق کا سبق دیجیے۔
یہ کس بات پرسرکاری مراعات اور تنخواہیں لے کر نوکریاں کر رہے ہیں اس عوامی تشویش کی لہرکو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ خان صاحب آپ اور آپ کے وزرا اس قوم کو مصائب اور آزمائشوں سے نکالیں۔ ایک صحافی اپنے قارئین کا بھی جواب دہ ہوتا ہے آپ نظریہ ضرورت کے تحت حکومت مت کیجیے کہ جنھوں نے ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت حکومت کی انھوں نے پاکستان اور قوم کو پیچھے دھکیل دیا۔
قوم کو اس جملے کی گہرائی میں جانے سے روکیں۔اس قوم کو آبرومندانہ راستہ دکھائیں ( میری اس بات کو تنقیدکے زمرے میں نہ لیں) بلکہ اپنے وزرا کو اجلاس میں بتا دیں کہ اپوزیشن پر تنقید اورطنز کے تیر برسانے کی دکانیں اب بندکردیں، نیب جانے یا اعلیٰ عدالتیں۔ اپوزیشن تو رائی کا پہاڑ بنا رہی ہے اور قوم کو جگانے کی کوششیں کر رہی ہے کہ تمہارے قدموں کی لرزش نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے۔
اپوزیشن تو اپنے غم کو بطور غم لے رہی ہے اور اگر آپ نے اور آپ کے وزرا نے مہنگائی پر توجہ نہیں دی تو اس غم کے لیے اپوزیشن کو عوام کے کندھے کی ضرورت پڑسکتی ہے اور ایسا نہ ہوکہ یہ معصوم قوم اپنا کندھا دے بیٹھے،آپ سیاسی گیدڑ بھبکیوں پر مٹی ڈالیں۔ یہ سب میل ملاپ سیاسی وفاداریاں ہیں،آپ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قناعت کے درس سے قوم کا پیٹ نہیں بھرے گا۔اس سے پہلے کہ قدم لڑکھڑانے لگیں آپ اپنی صلاحیت سے بساط پلٹ دیں رونقیں بام عروج پر تو جب ہوں گی جب آپ کے وزرا اپوزیشن کی جان چھوڑیں اور اس قوم کی جان کو مہنگائی کے عذاب سے نکالیں جو سو فیصد خود ساختہ ہے۔ آپ صدق دل سے اور آپ کے وزرا صرف اور صرف اپنے حلقوں اور پرائس کنٹرول پر پوری توجہ دیں،کیونکہ جو ہارے ہوئے لوگ تھے وہ آپ کو ہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ڈینگی وائرس، شوگر، ہارٹ پرابلم،ہیپا ٹائٹس، جوڑوں کے درد ، پوشیدہ امراض اور اعصابی کمزوری ، ناقابل اشاعت سیاسی بیانات، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ،کرپشن، دہشت گردی، ذہنی پسماندگی کے شکار، علما کے سیاسی فتوے، اپنے اور پرائے لوگوں کے دیے ہوئے دکھ ، معاشی بد حالی، بے روزگاری، لاقانونیت اور ذہنی بے چینیوں کے باوجود زندہ رہ جانے والی اس عظیم عوام اور باہمت قوم کو میری طرف سے سلام۔
اب سوشل میڈیا نے اظہار رائے کا جوطریقہ اپنایا ہے وہ بہت اچھا ہے، سیاست دان سوشل میڈیا سے بہت نالاں ہیں کیونکہ جوکچھ اس میڈیا پر آرہا ہے وہ انھیں بے نقاب کر رہا ہے۔ پہلے یہ قوم کو اندھیرے میں رکھتے تھے، لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔
کراچی سے لے کر خیبر تک ہماری فوج نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیوکا جوکام کیا ہے، قوم اس سے بہت متاثر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت بھی فوج کرے، شہروں کی مشکلات بھی فوج دیکھے، قومی سلامتی واستحکام کی سرگرمیوں کو بھی فوج فروغ دے تو پھر یہ سویلین حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ صرف خوش نما وعدؤں اور سیاسی بیان بازی پر حکومت چاروں صوبوں میں چلائی جا رہی ہے، جن کی ذمے داری حرمت قلم کی ہے وہ بھی خاموش ہیں پھر ہمارے کچھ سیاستدان کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں نا منظور۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ اس خود ساختہ مہنگائی سے بے زار ہوگئے ہیں۔عمران خان بحیثیت وزیر اعظم بہت کامیاب نظر آتے ہیں مگر انھیں اور ان کی کابینہ کو مہنگائی کم کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ روٹی 10 روپے کی یا 15 روپے کی یہ اب قوم کا مسئلہ نہیں ہے وہ قواعد وضوابط کی منتظر ہے اپوزیشن کو تو چھوڑیں وہ تو 25 سال سے مسائل کا ایک ڈھانچہ اٹھائے سیاست کرتی رہی جوکسی المیے سے کم نہیں۔
قوم نے خود ساختہ بت جو برسوں سے مسند اقتدار پر برا جمان تھے انھیں توڑکر آپ کو ووٹ ڈالے۔ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کوکوسنے دینا چھوڑیں اور دانشورانہ بصیرت سے خود کو قوم کے لیے وقف کریں۔ اپوزیشن تو ایک سال سے آپ کی مخالفت برائے مخالفت کررہی ہے مگر قوم نے ایک تبدیلی کے لیے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ خدارا ! قوم پر توجہ دیں۔
خود ساختہ مہنگائی نے قوم کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ڈالرکی آڑ میں کاروباری کمیونٹی نے مملکت خداداد میں ایک عجیب کیفیت پیدا کردی ہے، ہم ٹھہرے مفلس اور نادار صحافی ضروریات زندگی کے لیے بازاروں میں بھی دھکے کھاتے ہیں۔ جون 2018 میں شلجم 40 روپے اب 150 روپے، پیاز 20 روپے اب 50 روپے، بھنڈی 80 روپے اب 160 روپے، آلو20 روپے اب 40 روپے، گاجر 40 روپے اب 120 روپے، بینگن 30 روپے اب 80 روپے، توری 50 روپے اب 120 روپے، ہرا دھنیا 5 روپے اب 15 روپے،گوبھی 50 روپے اب 130 روپے، بکرے کا گوشت 700 روپے اب 1000 روپے، اب کوئی بھی ماہر معیشت یہ ثابت کردے کہ اس کا ڈالر سے کیا واسطہ ہے۔ ڈالرکی آڑ میں خود ساختہ مہنگائی کردی گئی ہے۔
زرداری حکومت میں بھی پٹرول 110 روپے بکتا رہا ہے، اب یہ کہنا کہ پٹرول مہنگا ہوگیا ہے، الزام لگانے والی بات ہے۔ جس طرح گورنمنٹ اداروں میں مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکن کام کررہے ہیں، اسی طرح مختلف اشیا کے ہول سیلرز بھی کام کر رہے ہیں۔
خان صاحب آپ کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربے کو آزمایا جا رہا ہے اور بد نامی حکومت کی ہو رہی ہے اگر آپ نے (عمران خان) اس پر توجہ نہیں دی تو اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی اور یہی چیز اپوزیشن کو اس حد تک کامیاب کرے گی کہ پھر آپ اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکیں گے اور دسمبر 2019 تک آپ کے لیے اور آپ کی کابینہ کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی اور یہ خوشی کا سفر قوم کے لیے کہیں عارضی ثابت نہ ہوجائے کیونکہ آئے دن سوشل میڈیا پر عوام آپ کی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہارکرتے نظر آتے ہیں۔
خان صاحب! آپ اپوزیشن کو چھوڑ دیں اور اپنے وزرا کو کام کی طرف راغب کریں آپ اور آپ کے وزرا اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں قوم کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں، انھوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دے کر آپ کے سر پر تبدیلی کا تاج رکھ دیا ۔آپ پہلی فرصت میں کراچی سے لے کر خیبر تک پرائس کنٹرول کرنے والے کو ضابطہ اخلاق کا سبق دیجیے۔
یہ کس بات پرسرکاری مراعات اور تنخواہیں لے کر نوکریاں کر رہے ہیں اس عوامی تشویش کی لہرکو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ خان صاحب آپ اور آپ کے وزرا اس قوم کو مصائب اور آزمائشوں سے نکالیں۔ ایک صحافی اپنے قارئین کا بھی جواب دہ ہوتا ہے آپ نظریہ ضرورت کے تحت حکومت مت کیجیے کہ جنھوں نے ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت حکومت کی انھوں نے پاکستان اور قوم کو پیچھے دھکیل دیا۔
قوم کو اس جملے کی گہرائی میں جانے سے روکیں۔اس قوم کو آبرومندانہ راستہ دکھائیں ( میری اس بات کو تنقیدکے زمرے میں نہ لیں) بلکہ اپنے وزرا کو اجلاس میں بتا دیں کہ اپوزیشن پر تنقید اورطنز کے تیر برسانے کی دکانیں اب بندکردیں، نیب جانے یا اعلیٰ عدالتیں۔ اپوزیشن تو رائی کا پہاڑ بنا رہی ہے اور قوم کو جگانے کی کوششیں کر رہی ہے کہ تمہارے قدموں کی لرزش نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے۔
اپوزیشن تو اپنے غم کو بطور غم لے رہی ہے اور اگر آپ نے اور آپ کے وزرا نے مہنگائی پر توجہ نہیں دی تو اس غم کے لیے اپوزیشن کو عوام کے کندھے کی ضرورت پڑسکتی ہے اور ایسا نہ ہوکہ یہ معصوم قوم اپنا کندھا دے بیٹھے،آپ سیاسی گیدڑ بھبکیوں پر مٹی ڈالیں۔ یہ سب میل ملاپ سیاسی وفاداریاں ہیں،آپ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قناعت کے درس سے قوم کا پیٹ نہیں بھرے گا۔اس سے پہلے کہ قدم لڑکھڑانے لگیں آپ اپنی صلاحیت سے بساط پلٹ دیں رونقیں بام عروج پر تو جب ہوں گی جب آپ کے وزرا اپوزیشن کی جان چھوڑیں اور اس قوم کی جان کو مہنگائی کے عذاب سے نکالیں جو سو فیصد خود ساختہ ہے۔ آپ صدق دل سے اور آپ کے وزرا صرف اور صرف اپنے حلقوں اور پرائس کنٹرول پر پوری توجہ دیں،کیونکہ جو ہارے ہوئے لوگ تھے وہ آپ کو ہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔