عیدالاضحی اور قربانی
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔(مشکوٰۃ)
جب رسولِ کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؐ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے خوشی کے دو تہوار مناتے ہیں، صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں ؟ آپؐ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر کا دن، دوسرا عیدالاضحی کا۔''
عیدالاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا، مفہوم: ''جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔'' (ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ایسی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے اور یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے۔ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے دن) دس ذوالحجہ کو کوئی بھی نیک عمل (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن بندہ اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ نبیوں کا خواب سچا ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا! ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کیجیے آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ سے لے کر چلے اور منیٰ میں جاکر ذبح کرنے کی نیّت سے ایک چھری ساتھ لی۔
جب منیٰ میں داخل ہونے لگے تو شیطان بہکانے لگا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پتا چلا تو شیطان کو اللہ اکبر کہہ کر سات کنکریاں ماریں، جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا، دونوں باپ بیٹا آگے بڑھے تو زمین نے شیطان کو چھوڑ دیا، کچھ دور جاکر شیطان پھر بہکانے لگا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر اسے ''اللہ اکبر'' کہہ کر سات کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین مین دھنس گیا، یہ دونوں آگے بڑھے تو پھر زمین نے اس کو چھوڑ دیا، وہ پھر آکر ورغلانے لگا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر اسے ''اللہ اکبر'' کہہ کر سات کنکریاں ماریں پھر وہ زمین میں دھنس گیا اور اس کے بعد آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔
ابھی ذبح کرنے نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بہ جائے قربانی کے لیے بھیجا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہ السلام کا یہ جذبۂ قربانی اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک ان کے اس عمل اور جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔ چناںچہ حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور پوری امت مسلمہ دنیا بھر میں اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ قربانی کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم ، مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے۔ صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زاید سامان پڑا ہو اور سب کو جمع کرکے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
قربانی کا مقصد گوشت کھانا، کھلانا، دکھلاوا یا ریاکاری نہیں بل کہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک جانور قربان کرنا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی نیت اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے، بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔'' (سورۃ الحج)
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یادگار ہے، جو سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا اور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو بھی قربان کر دے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسی جذبۂ ابراہیمی اور اپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عیدالاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا، مفہوم: ''جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔'' (ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ایسی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے اور یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے۔ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے دن) دس ذوالحجہ کو کوئی بھی نیک عمل (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن بندہ اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ نبیوں کا خواب سچا ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا! ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کیجیے آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ سے لے کر چلے اور منیٰ میں جاکر ذبح کرنے کی نیّت سے ایک چھری ساتھ لی۔
جب منیٰ میں داخل ہونے لگے تو شیطان بہکانے لگا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پتا چلا تو شیطان کو اللہ اکبر کہہ کر سات کنکریاں ماریں، جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا، دونوں باپ بیٹا آگے بڑھے تو زمین نے شیطان کو چھوڑ دیا، کچھ دور جاکر شیطان پھر بہکانے لگا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر اسے ''اللہ اکبر'' کہہ کر سات کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین مین دھنس گیا، یہ دونوں آگے بڑھے تو پھر زمین نے اس کو چھوڑ دیا، وہ پھر آکر ورغلانے لگا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر اسے ''اللہ اکبر'' کہہ کر سات کنکریاں ماریں پھر وہ زمین میں دھنس گیا اور اس کے بعد آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔
ابھی ذبح کرنے نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بہ جائے قربانی کے لیے بھیجا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہ السلام کا یہ جذبۂ قربانی اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک ان کے اس عمل اور جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔ چناںچہ حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور پوری امت مسلمہ دنیا بھر میں اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ قربانی کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم ، مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے۔ صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زاید سامان پڑا ہو اور سب کو جمع کرکے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
قربانی کا مقصد گوشت کھانا، کھلانا، دکھلاوا یا ریاکاری نہیں بل کہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک جانور قربان کرنا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی نیت اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے، بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔'' (سورۃ الحج)
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یادگار ہے، جو سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا اور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو بھی قربان کر دے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسی جذبۂ ابراہیمی اور اپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)