قاتل سے محبت کی نفسیاتی بیماری

طالبان سے مذاکرات کے لیے بیتاب ہونے والے وہی طبقے ہیں جنہوں نے ضیاء الحق کے دور میں خوشحالی کا منہ دیکھا


Latif Chaudhry September 20, 2013
[email protected]

پاکستان میں دہشت گردی ایسے سیلاب کی شکل اختیار کر گئی ہے جس میں ہر چیز ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم مافیازکے خلاف آپریشن جاری ہے جب کہ فاٹا میں پاک فوج سے برسرپیکار طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے القاعدہ کے مشتبہ لوگ گرفتار ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں طالبان فوجی جوانوں کو شہید کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہی ہے۔ یہ اس پاکستان کا نقشہ ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اورجس کے جہادی جذبے سے سرشار سیاستدان سوویت یونین کو شکست دینے کا نعرہ لگاتے ہیں' حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن فرماتے ہیں کہ جب تک فوج حملے بند نہیں کرتی' طالبان کیسے سیز فائر کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ پہلے سیز فائر ہو تو پھر طالبان سے مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

میں نے تو آج تک یہی سنا ہے کہ سیز فائر دو متحارب افواج کے درمیان ہوتا ہے۔ اپنے ہی ملک میں تباہی پھیلانے والے باغیوں کے ساتھ کیسا سیز فائز اور کونسے مذاکرات۔ محترم سیّد منور حسن اور عمران خان کی باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ طالبان کو باقاعدہ ایک فوج کی صورت میں دیکھتے ہیں اور پاکستانی فوج کے بجائے ان کے وکیل ہیں۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ کیا بھارت کی کسی مین اسٹریم سیاسی جماعت کا قائد یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ بھارتی حکومت آندھرا پردیشں میں باغی نکسل باڑیوں کے ساتھ پہلے سیز فائر کرے اور پھر ان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ بھارتی قیادت نے تو آج تک حریت کانفرنس سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے' بھارتی حکومت کا موقف واضح ہے کہ حریت کانفرنس پہلے بھارتی آئین کو تسلیم کرے' پھر مذاکرات کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں 50 ہزار بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں شہید کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کھلے بندوں کیا جا رہا ہے۔ قاتلوں سے محبت کی یہ نفسیاتی بیماری دنیا کی کسی اور قوم میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

پاکستان میں دائیں بازو کے ایک مخصوص حلقے کے قلم کار اور سیاستدان افغانستان میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر کو امیر المومنین کے درجے پر فائز کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان کی بیعت پاکستان کے مسلمانوں پر بھی فرض ہے' وہ اس کا اظہار بلا خوف و خطر کرتے ہیں۔ انھیں حکومت کچھ کہتی ہے نہ انھیں معاشرے کا خوف ہے' وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے متعدد طبقے ان کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ بڑی جرأت سے پاکستان کے مفادات کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، انھیں گرفت کا کوئی خوف نہیں ہے۔

جب کوئی ملک زوال کا شکار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے آئین اور رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ جب حکومت کی رٹ چیلنج ہونا شروع ہوتی ہے تو پھر ریاستی اداروں کے زوال کا آغاز ہوتاہے۔ سرکاری اہل کار سہم جاتے ہیں' جج حضرات خوف کے مارے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات سننے سے انکار کر دیتے ہیں' ریاستی ادارے اپاہج ہو جائیں تو پھر باغی گروپوں کی رٹ قائم ہونا شروع ہوتی ہے، وہ اپنے مخالفوں کو چوراہوں میں لٹا کر ذبح کرتے ہیں، ان کی لاشیں کھمبوں کے ساتھ لٹکاتے ہیں اور پھر قوم ان کے سامنے بے بس ہو کر سرنڈر کر دیتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت یہی منظرنامہ ابھر رہا ہے۔ طالبان یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ادھر جاوید ابراہیم پراچہ ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہیں اور برملا طالبان کی حمایت کرتے ہیں' مولانا فضل الرحمٰن' عمران خان اور منور حسن طالبان کی وکالت کرتے ہیں اور عوام کو کنفیوژن میں ڈالتے ہیں لیکن ریاست خاموش ہے۔ ادھر وفاق میں برسر اقتدار حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ خود انتہا پسندوں سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے اور اس نے عوام کو یہ تک نہیں بتایا کہ انتہا پسندوں یا عسکریت پسندوں سے اس کی مراد کیا ہے؟ وہ مذاکرات کس تنظیم یا گروپ سے کر رہی ہے؟ آل پارٹیز کانفرنس کو ہوئے خاصے دن ہو چکے ہیں لیکن اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی کوئی صورت سامنے نہیں آ رہی' یہ سب وہ مظاہر ہیں جو ریاستی اداروں اور سیاستدانوں میں ابہام کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

دنیا میں جو ملک خانہ جنگی یا انتشار کا شکار ہوئے' اس کی وجہ وہاں ریاستی اداروں اور سیاستدانوں اور اشرافیہ کے درمیان ابہام کا پیدا ہونا ہے' وہ اپنے ہاں پیدا ہونے والے فتنوں کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور بالآخر خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ صومالیہ، الجزائر اور شام میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور مصر بھی اسی دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کی ساری سیاسی جماعتیں اور قلمکار یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف 13 برس پرانا مسئلہ ہے جب جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی جنگ کو پاکستان کا راستہ دکھایا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی یہی فرماتے ہیں لیکن وہ اس دور کو بھول جاتے ہیں جب اس ملک میں دہشت گردوں کی پنیری کاشت کی گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں افغانستان میںکمیونزم کے خلاف جو لڑائی لڑی گئی کیا وہ پاکستان کے عوام کی جنگ تھی؟ چیچنیا سے لے کر مراکش تک کے جہادیوں کو قبائلی علاقوں میں آباد کرایا گیا، کیا یہ پاکستان کے عوام کے مفاد میں کیا گیا؟ کیا ایسا کرنے سے پہلے قبائلی عوام سے مینڈیٹ لیا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ضیاء الحق دور میں دہشت گردی کے بیج کاشت کرنے والے آج بھی معتبر ہیںاور پورے ملک کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے بیتاب ہونے والے وہی طبقے ہیں جنہوں نے ضیاء الحق کے دور میں خوشحالی کا منہ دیکھا اور حکمران اشرافیہ کا حصہ بنے' اس دور کے ریٹائرڈ جرنیل آج بھی پھنے خان تجزیہ نگار بنے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے اس انجام سے بے خبر ہیں جس کا جلد شکار ہونے والے ہیں' عالمی ادب میں بہت سی ایسے فِکشن لکھے گئے اور فلمیں بنائی گئیں جن میں دکھایا کہ کسی سائنسدان نے ایک نئی مخلوق تشکیل دی اور پھر وہ خود اسی کے ہاتھوں مارا گیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے لیکن اس کے لیے بیماری کی درست تشخیص اور پھر اس کا موثر علاج شرط ہے۔ ورنہ انجام دیوار پر لکھا ہے۔ خدا پاکستان کو قائم و دائم رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں