قانون سراب کی مانند

اگر سماج سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے تو پھر پولیس کے ادارے کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے


Zuber Rehman September 20, 2013
[email protected]

لاہور: آج سے 2600 سال پہلے یونان کے ذہین دانشور اور فلسفی سلون آف ایتھین نے کہا تھا کہ ''قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے، جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے''۔ بات کتنی درست ہے، بھلا مچھر یا مکھی جب مکڑی کے جال میں پھنستی ہے تو مکڑی اس تاک میں ہوتی ہے کہ پھنستے ہی اس پر جھپٹ پڑے اور اپنے شکار کو کھالے، مگر اسی جال کو جب کوئی گینڈا پھاڑ کر نکلنا شروع ہی کرتا ہے تو مکڑی پہلے سے ہی بھاگنے کی راہ تلاش کرچکی ہوتی ہے۔ یہ طبقاتی استحصال تب شروع ہوا جب ریاست وجود میں آئی۔ اس لیے کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ٹھہرتا ہے۔ یہ دولت مندوں کی دولت و جائیداد کی محافظ ہے، باقی سب کچھ دکھاوا ہے۔

آج بھی فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا اور افریقہ کے جنگلوں میں لاکھوں ننگ دھڑنگ لوگ رہتے ہیں، جو مل کر شکار کرتے ہیں اور درخت سے پھل توڑ کر اپنے قبیلے کے لیے لاتے ہیں۔ ہر چند کہ قبیلے میں 100 ہی آدمی کیوں نہ ہوں ، شکار کرنے کے لیے صرف پانچ ہی لوگ کیوں نہ گئے ہوں، وہ جب شکار سے واپس لوٹتے ہیں تو شکار کو قبیلے کے تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اکثر بانٹنے والے کو ہی کم مل پاتا ہے۔ وہ غیر مہذب اور جنگلی تو ہیں لیکن ضروریات زندگی کو پورا کرنے، ایک دوسرے کی حفاظت کرنے اور ایک دوسرے کے کام آنے میں مہذب معاشروں سے کہیں زیادہ انسان دوست، رحم دل اور پیار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر آج کے اس نام نہاد مہذب معاشرے کی طرح نہیں کہ چند لوگ عیش و عشرت سے زندگی گزاریں اور باقی بھوک، پیاس، ادویات اور غذائی قلت سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں۔ اس موقع پر انقلابی شاعر اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکن ساحر لدھیانوی کے چند اشعار یاد آتے ہیں:

سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک کیوں پلے

اونچ اور نیچ بھرا یہ نظام کیوں چلے

ظلم اور لوٹ کے رواج کو بدل ڈالو

آج ہے تو اس آج کو آج ہی بدل ڈالو

اس طبقاتی نظام کو ختم کیے بغیر اس طبقاتی استحصال کا خاتمہ ناممکن ہے۔ حال ہی میں میڈیا کے ذریعے شاہ رخ جتوئی جس کو شاہ زیب کے قتل میں سزا بھی ہوئی تھی، اسے شاہ زیب کے والد اورنگ زیب اور ان کے خاندان کی جانب سے قاتل کو معاف کرنے کی خبر آتے ہی نجی سرکاری اور سوشل میڈیا، سول سوسائٹی، این جی او، صحافی، دانشوروں، انسان دوست اور سوشل ڈیموکریٹوں میں ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ریاست کے جبر تلے عوام کو کوئی بھی انصاف ملنا ممکن نہیں۔ قانون کی پاسداری اور آئین کی بالادستی کا راگ بورژوا معاشرے میں الاپا تو جاتا ہے مگر اس معاشرے میں چند لوگوں کے پاس سب کچھ ہے اور باقی سارے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ قتل کئی طرح سے ہوتے ہیں، بھوکا مارکر، سیلاب میں اور زلزلوں میں ڈوب کر اور دب کر قتل، زچگی کے دوران قتل، حادثات میں قتل، کرائے کے قاتلوں سے قتل، ذبح کرکے قتل، زہر پلا کر، پھانسی دے کر، ڈینگی سے قتل، ہیپاٹائٹس اور ایڈز میں مبتلا ہوکر قتل، گولیوں سے قتل اور پھر ایٹمی دھماکوں سے قتل۔ یہ سب قتل کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا نے بم گرا کر چند گھنٹوں میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا قتل کیا۔ انڈونیشیا میں 1962 میں جنرل سوہارتو نے شراکت المسلمین سے گٹھ جوڑ کرکے 15 لاکھ کمیونسٹوں، انقلابیوں اور عام شہریوں کا قتل کیا۔ پاک و ہند کی تقسیم میں 28 اور پاک بنگلہ کی تقسیم میں 30 لاکھ انسان قتل ہوئے، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کا قتل، 1929-30 میں عظیم معاشی انہدام کے نتیجے میں صرف امریکا میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا مرجانا، جنگ عظیم میں روس میں 2 کروڑ انسانوں کا قتل۔ 16 ویں صدی میں جرمنی میں 30 ہزار کسانوں کا قتل، روم کے بادشاہوں کا لاکھ غلاموں کا قتل، دیوار چین بنانے کے وقت ہزاروں غلاموں کو قتل کرکے ان کے خون سے دیوار چین کو مضبوط کرنے کے لیے ان انسانوں کا قتل کیا، پیرامیڈ بنانے اور تاج محل بنانے کے عمل میں ہزاروں غلاموں اور مزدوروں کا بھوک سے مرنا بھی قتل ہے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ خواتین میں سے ساڑھے چار سو مرجاتی ہیں۔ یہاں روزانہ بھوک سے 1132 بچے مرجاتے ہیں جو اپنی پہلی سالگرہ نہیں مناسکتے۔

2012 میں سڑکوں پر حادثات میں 5000 انسانوں کا قتل ہوا۔ صرف کراچی میں 2012 میں ٹارگٹ کلنگ میں 6000 انسانوں کا قتل ہوا۔ 2012 میں ہی بلدیہ ٹاؤن کراچی میں گارمنٹ فیکٹری کے تقریباً 300 مزدوروں کا جھلس کر مارا جانا بھی قتل ہے۔ ہم مزدوروں اور کسانوں کو کون پوچھتا ہے؟ جس روز ٹی وی چینلز پر قائداعظم کی برسی مناتے ہوئے دکھایا گیا اور ٹوئن ٹاور میں مرنے والوں کی برسی کی تقریبات دکھائی گئیں اسی روز، اسی 11 ستمبر کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں آگ میں جھلس کر تقریباً 300 مرنے والے مزدوروں کی برسی کسی چینل کو یاد نہ آئی۔ مزدوروں، کسانوں، غریبوں اور عام شہریوں کے لیے یہ بات سمجھنا کہ انصاف اس طبقاتی معاشرے میں عام لوگوں کو مل ہی نہیں سکتا ہے بہت آسان ہے، اس لیے بھی کہ وہ روزمرہ ایسی بے شمار ناانصافیوں میں لمحہ بہ لمحہ گزر رہے ہیں۔ یہ متوسط طبقہ، سول سوسائٹی، این جی اوز اور پیٹی بورژوا دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتا اور اگر آتا بھی ہے تو دیر سے۔ اس لیے کہ وہ ریاست، قانون اور آئین سے بے شمار توقعات لگائے رکھتے ہیں۔

جب توقعات لے کر میدان میں یعنی، ٹی وی ٹاک، سوشل میڈیا یا کبھی کبھی سمندر کنارے جانے کے بجائے اپنی گاڑیوں کے اسٹیئرنگ پریس کلب کی جانب گھمالیتے ہیں، مظاہرہ بھی کرلیتے ہیں، پھر جب توقعات ہر معاملات پر پوری نہیں اترتیں تو وہ دھڑام سے زمین پر آگرتے ہیں اور مایوس ہوجاتے ہیں جب کہ مزدور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو انقلاب کے ذریعے بدلے بغیر مسائل کا کوئی حل نہیں۔ معروف انقلابی دانشور باکونین(Baconin) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''حکمران طبقے اور ان کے گماشتے دانشوروں کے بقول عدالتیں معاشرے میں انصاف قائم کرنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں۔'' یہ دعویٰ حقائق کے ہر طرح سے برعکس ہے۔ معاشرے میں انصاف قائم ہوجائے تو پھر لڑائی جھگڑے ہی ختم ہو جائیں۔

اسی طرح پولیس کے ادارے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ جرائم کے خاتمے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سماج سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے تو پھر پولیس کے ادارے کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ پولیس جرائم کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اس کے استحصالی نظام کے تحفظ کے لیے قائم ہے۔ اس لیے ایسے ہزاروں شاہ زیب پاکستان اور اس دنیا میں روزانہ بھوک، افلاس، گولیوں، حادثات، قحط اور بے علاجی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی نسل انسانی کے معاشرے کی تشکیل میں مضمر ہے۔ آئیے! ایسا پرامن، خوشحال، پرلطف اور باانصاف امداد باہمی کے معاشرے کے قیام کی جدوجہد کو تیز تر کریں۔ اس کے سوا کوئی اور متبادل راستہ نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں