امریکا اور روس محاذ آرائی کی حقیقت
روسی انتظامیہ نے میڈیٹیرین میں اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کرنا شروع کر دیا ہے
امریکی کانگریس کی جانب سے شام پر امریکی حملے کو رد کیے جانے سے پہلے ہی امریکا کی کمر ٹوٹ چکی تھی، دراصل اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے زیادہ دقت کی ضرورت نہیں ہے، امریکی صدر بارک اوباما نے غالباً دو ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ امریکا شام پر حملہ ضرور کرے گا لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس معاملے کو امریکی کانگریس پر چھوڑ دیا تھا، جس کے بعد اسرائیل اور دیگر ریاستوں کے حکمرانوں سمیت متعدد افراد کی خوشیاں خاک میں مل گئی تھیں، کیونکہ تاثر یہ مل رہا تھا کہ شاید امریکی کانگریس شام پر امریکی ممکنہ حملے کی مخالفت کرے گی تاہم یہ تاثر بھی موجود تھا کہ امریکی صدر جو کہ ہٹ دھرمی کی اعلیٰ ترین مثال ہیں ان کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ امریکی کانگریس کے فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیں۔ بہرحال ساری کی ساری شیطانی تدبیریں دھری رہ گئیں اور امریکا سمیت بعض مسلم حکمرانوں اور اسرائیلی حکمرانوں کے خواب عین اس وقت چکنا چور ہوئے جب میڈیٹیرین میں امریکی میزائلوں کا جواب روسی ریڈاروں نے دیا اور یہ واقعہ کانگریس کے اجلاس سے دو روز قبل ہی وقوع پذیر ہو چکا تھا۔
اعلیٰ ترین سفارتی ذرایع یہ کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے شام کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ اس وقت شروع ہوئی اور ختم بھی ہوگئی جب میڈیٹیرین میں دو بلاسٹک میزائل شام کی طرف داغے گئے، جس کے بارے میں اسرائیلی انتظامیہ نے پہلے تو انکار کردیا لیکن روسی انتظامیہ نے ان دونوں میزائلوں کی تصدیق کردی، جس کے بعد اسرائیلی انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ دونوں بیلسٹک میزائل امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران داغے گئے تھے لیکن ان میزائلوں کا شامی بحران اور امریکا کی جانب سے شام پر ممکنہ حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذرایع کے مطابق شام کی طرف داغے جانے والے دونوں بیلسٹک میزائل اسپین میں قائم نیٹو کی ایک بیس سے امریکی افواج نے فائر کیے تھے جن کو روسی دفاعی نظام نے جانچ لیا اور ان دو میزائلوں میں سے ایک کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا گیا جب کہ دوسرے میزائل کو سمندر کی طرف موڑ دیا گیا۔
ذرایع کے مطابق روس کی وزارت دفاع نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ دو میزائل مشرق وسطیٰ کی طرف داغے گئے ہیں جن کو روسی دفاعی نظام نے جانچ کر ایک کو تباہ اور دوسرے کا رخ سمندر کی طرف موڑ دیا ہے، اسی طرح روس کی اعلیٰ فوجی قیادت اور ایجنسیز نے امریکی فوجی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے انھیں بتایا کہ امریکا کی طرف سے شام کی طرف دو بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں تاہم شام پر حملے کا مطلب ہے کہ ماسکو پر حملہ، لہٰذا امریکی افواج سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔ روس کی اعلیٰ فوجی قیادت نے امریکی اعلیٰ فوجی قیادت کو بتایا کہ ہم نے امریکا کے دونوں میزائلوں کو روک لیا ہے اور ان کا حملہ ناکام بنا دیا ہے۔
یہ وہ اہم ترین موقع تھا کہ جس نے امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی کنفیوژن میں مزید اضافہ کر دیا، دراصل یہ امریکا اور روس کے مابین غیر اعلانیہ جنگ کے مترادف تھا جس کے باعث امریکی صدر کو شدید تشویش لاحق ہوئی اور امریکی انتظامیہ اس بات سے بھی باور ہوگئے کہ روس شام کے حوالے سے شروع ہونے والی امریکی جنگ میں امریکا کے خلاف آخری وقت تک لڑنے کے لیے عملی طور پر تیار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے شام کے حوالے سے روس کی جانب سے بنایا جانے والا فارمولا فوری طور پر قبول کر لیا ہے لیکن امریکی صدر کی ہمیشہ سے گیدڑوں والی عادت رہی ہے کہ گیدڑ بھپکی ضرور دینی ہوتی ہے جوکہ انھوں نے روس کی جانب سے پیش کیے جانے منصوبے کو قبول کرنے کے بعد بھی دے ہی ڈالی۔ دراصل تو امریکا کی شکست واضح اور بڑی صاف نظر آرہی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن نے اپنے چہرے کو صاف رکھنے کے لیے دونوں میزائلوں کی ذمے داری اسرائیل کو لینے پر مجبور کیا اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل ان دو میزائلوں کی ذمے داری قبول کر لے تاکہ امریکا عالمی برادری کے سامنے سرخرو رہے، تاہم اسرائیل اپنے پہلے بیان میں اس بات کو رد کر چکا تھا لیکن دوسرے بیان میں اسرائیلی انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دونوں میزائل امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران فائر کیے گئے تھے۔
دوسری طرف روسی انتظامیہ نے میڈیٹیرین میں اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ امریکا کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے، اسی اثناء میں G-20 کانفرنس کا آغاز بھی قریب تھا، تاہم روس ہر حوالے سے آمادہ تھا کہ امریکا کی کسی بھی جارحیت کے خلاف بھرپور جواب دیا جائے گا اور شام پر حملہ روس پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
بہرحال G-20 سربراہی کانفرنس میں روس اور ایران کی مشترکہ حکمت عملی کے باعث امریکا کو ایران اور روس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور روس کی جانب سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے عنوان سے پیش کیا جانے والا منصوبہ قبول کرنا پڑا، جسے ماہرین سیاسیات امریکا کی بدترین شکست سے تشبیہ دے رہے ہیں اور اس جنگ کے آغاز اور اختتام کو ان دو بیلسٹک میزائلوں کے آغاز اور خاتمے کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ امریکی اور روسی محاذ آرائی کی حققیت کو واضح کرتا ہے۔
ذرایع کے مطابق امریکی اور روسی محاذ آرائی کے بعد برطانوی دارالعوا م کو بھی شام پر حملے کو مسترد کرنا پڑا ہے اور اسی طرح یورپ کا موقف بھی واضح طور پر سامنے آیا ہے جو کہ جرمنی کے چانسلر اینجل مارکل کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی اور روسی محاذ آرائی کی حقیقت دو بیلسٹک میزائلوں سے شروع ہوئی اور بالآخر امریکا کی شکست کے ساتھ امریکی ناپاک عزائم کا خاتمہ ہوا ہے، تاہم شام کے افق سے خطرات کے بادل ڈھلے نہیں ہیں کیونکہ تاحال شام میں امریکی ایماء اور مدد سے پلنے والے دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات سے دریغ نہیں کرتے۔