بلوچستان کابینہ کی تشکیل نہ ہو سکی…

11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں حکومت سازی بھی دیگر صوبوں کی نسبت تاخیر سے ہوئی


مجاہد حسین September 20, 2013

کسی بھی حکومت کے لیے ابتدائی 100 دن اس کی کارکردگی کے حوالے سے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف عوامی رائے ہموار ہوتی ہے اور دوسری جانب انتظامی امور چلانے کے لیے ڈھانچہ بھی تیار ہوجاتا ہے جس پر وہ اپنی مدت اقدار کو پروان چڑھاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے سب سے بڑے اور شورش زدہ صوبے بلوچستان میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں 11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی حکومت ابھی تک اپنی کابینہ تشکیل نہیں دے سکی ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو تین ماہ میں کابینہ کی عدم تشکیل کی وجہ سے نہ صرف شدید تنقید کا سامنا ہے بلکہ صوبے میں انتظامی معاملات میں بھی بے شمار مسائل درپیش ہیں۔

11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں حکومت سازی بھی دیگر صوبوں کی نسبت تاخیر سے ہوئی۔ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے معاملات تعطل کا شکار رہے۔ (ن) لیگ کی اکثریت ہونا بھی ایک مسئلہ تھا لیکن میاں نواز شریف نے صوبے کی صورت حال کے پیش نظر نیشنل پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیا جس پر دیگر جماعتوں نے بھی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے حمایت کا اعلان کیا اور بالآخر بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آیا جس میں (ن) لیگ، پشتونخوا عوامی ملی پارٹی اور نیشنل پارٹی بنیادی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ صوبے میں بجٹ کی تیاری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تین رکنی کابینہ تشکیل دی گئی جس نے مالی سال 2013-14 کا بجٹ پیش کیا۔ گمان غالب تھا کہ صوبائی بجٹ پیش کیے جانے کے بعد مکمل طور پر کابینہ تشکیل دینے کا عمل مکمل کرلیا جائے گا لیکن مسائل بڑھنے لگے۔

مخلوط صوبائی حکومت میں شامل ہر جماعت وزارتوں کی دوڑ میں نکل کھڑی ہوئی۔ اس سلسلے میں وہ اپنے قبائلی اثر و رسوخ کو وزارت کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور عوامی سطح پر بھی اس کے لیے ماحول بنا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اس وزارتوں کی دوڑ کی بھیڑ چال سے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ پریشان کن حالات سے دوچار ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے تمام جماعتوں سے بات چیت کی لیکن نتائج لاحاصل رہے ہیں۔ کابینہ کی عدم تشکیل میں (ن) لیگ کا موقف ہے کہ وہ صوبے میں واضح اکثریت رکھتی ہے اور اس کے صوبائی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ چونکہ انھوں نے وزیراعلیٰ اور گورنر بلوچستان کا عہدہ چھوڑا ہے لہٰذا وزارتوں پر سب سے زیادہ حق ان کا ہے۔ دوسری جانب دیگر قوم پرست اور حامی جماعتیں اپنی نمایندگی کے لیے وزارتوں کا حصول چاہتی ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی مشکلات کے حوالے سے بارہا وفاقی حکومت سے بات کرنا چاہی لیکن ان معاملات میں پیش رفت نہ ہوسکی۔

بہرحال مسلسل کوششوں کے بعدوفاقی حکومت نے وزیراعلیٰ بلوچستان اور پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی مشاورت سے صوبائی کابینہ کی تشکیل کے لیے ایک فارمولا مرتب کیا جس میں چھ وزرا (ن) لیگ کے، چار نیشنل پارٹی کے، چار پشتونخواہ میپ کے ہوں گے اور اسی طرح دو، دو مشیر مسلم لیگ (ن) اور پشتونخواہ عوامی ملی پارٹی کے اور ایک مشیر نیشنل پارٹی سے ہوگا۔ بہر صورت اس پر بلوچستان حکومت میں شامل اراکین نے رضامندی ظاہر کی اور بظاہر دکھائی دینے لگا کہ شاید کابینہ کی تشکیل میں حائل رکاوٹیں ختم ہوگئی ہیں لیکن ایک صورت حال نے جنم لیا جس کے باعث مسائل میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ جب (ن) لیگ بلوچستان نے (ن) لیگ میں شامل آزاد اراکین کے لیے اپنے سمیت وزارتوں کا مطالبہ کر ڈالا جب کہ پشتونخواہ عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی اس سے قبل (ق) لیگ جوکہ حکومت کی اتحادی جماعت ہے اسے بھی وزارتوں کے حق سے مسترد کرچکی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی رہنما ثناء اﷲ زہری نے ایک موقع پر اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ وہ خود وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے امیدوار تھے لیکن مرکزی قیادت کی وجہ سے خاموش رہے۔ کہا جا رہا ہے کہ (ق) لیگ اور دیگر آزاد اراکین اس لیے حکومت میں آئے ہیں تاکہ انھیں وزارتیں دی جائیں۔

عبدالمالک بلوچ نے وزیراعظم سے ایک بار پھر ملاقات کرکے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بلوچستان میں (ن) لیگ کی قیادت کو صوبائی کابینہ کی عدم تشکیل کی وجہ بتاتے ہوئے صوبائی مسلم لیگ کے متعلق شکایات کے انبار لگا ڈالے۔ عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبائی مسلم لیگ ن کی جانب سے جن اراکین کے لیے وزارتوں کی حمایت کرتے ہیں ان میں اکثر وہی اراکین ہیں جو سابق حکومت کا حصہ رہے ہیں اور ان پر بدعنوانی کے بے شمار الزامات ہیں۔ اگر انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا تو نہ صرف حکومت کی کارکردگی متاثر ہوگی بلکہ عوامی سطح پر حکومت کی ساکھ پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگی رہنما کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ براہ راست وزیراعلیٰ سے ملاقات نہیں کر رہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے میں حجت نہیں کریں گے۔

وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ بااختیار وزیراعلیٰ نہیں اور اس حد تک درست بھی ہے کیونکہ جب بھی بلوچستان میں سیاسی صورت حال میں متزلزل کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ خود فیصلہ نہیں کرتے اور وزیراعظم کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بار بار یقین دہانیاںتو کرائی جا رہی ہیں مگر بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہو رہے حالانکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سب سے اہم ترجیح بلوچستان کو دیتی ہے لیکن پھر بھی صوبے میں غیر مستحکم اور بے یقینی کی فضا قائم ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اس عدم استحکام کی وجہ سے معاشی طور پر بھی صوبہ پستی کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کے اثرات انسانی معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ:

لگا کر بھول جانے سے پودے سوکھ جاتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں