پہلے اکھاڑا بچالو
عوام دیکھ رہے ہیں 9 ستمبر 2013 کے دن مشترکہ اعلامیے پر دستخط کرنے والے کیا کر رہے ہیں
سیاست دانوں، فوجی سربراہوں، حکومتی سربراہوں کا چھ گھنٹے طویل اجلاس ہوچکا، مشترکہ اعلامیہ بھی سامنے آچکا، اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا۔ ملک کو درپیش تین بڑے مسئلوں کو اولیت دیتے ہوئے کام کا آغاز ہوا، مسئلہ نمبر 1 طالبان سے مذاکرات، مسئلہ نمبر 2 کراچی کے حالات، مسئلہ نمبر 3 صوبہ بلوچستان۔
مسئلہ نمبر 1 طالبان سے مذاکرات کی مد میں مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بالخصوص حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے مکمل تعاون کا اظہار بھی کیا۔ حکومت نے خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ طالبان کو رہا کیا، ادھر جواباً طالبان نے بھی واپڈا کے قیدی ملازمین کو رہا کردیا۔ پوری قوم مطمئن تھی کہ اب طالبان اور حکومتی مذاکرات بذریعہ مذکورہ بالا تینوں مذہبی شخصیات کامیاب ہوجائیں گے اور خودکش بم دھماکوں کا سلسلہ ختم ہوجائے گا، مگر ایسا کچھ شروع بھی نہ ہوسکا اور طالبان نے میجر جنرل ثناء اﷲ نیازی، لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کو شہید کردیا، اور وقوعے کے چند گھنٹوں بعد اس سانحے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے طالبان ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے حکومت سے مذاکرات کے لیے اپنی شرائط کا بھی اعلان کردیا ہے۔ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ ''حکومت مذاکرات سے پہلے اپنے بااختیار اور مخلص ہونے کا ثبوت فراہم کرے''۔ طالبان کے مطابق حکومت قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلائے اور ان کے تمام قید طالبان ساتھیوں کو رہا کرے۔
ان حالات میں طالبان حکومت مذاکرات کیسے ہوں گے اور مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کیا کریں گے، اﷲ ہی جانے۔
طالبان قبائلی علاقوں، صوبہ خیبر پختونخوا سے پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کا کراچی شہر عرصہ ہوا بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔ بلوچستان بھی قابو میں نہیں آرہا۔ اتنے نازک ترین حالات میں کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ اعلامیہ جاری کیا تھا۔
کراچی میں پہلے چار دن جاری رہنے والے آپریشن کے بعد بھتہ گیری اور بھتہ پرچیاں بند ہوگئیں! سب نے کہا جی بڑی خبر ہے مگر کیا یہ سلسلہ مستقل ختم ہوگیا ہے۔ جی نہیں، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ معرکہ کراچی ابھی ختم کہاں ہوا، دہشت گرد ابھی موجود ہیں،ان کے نیٹ ورک کام کررہے ہیں، کوئی فوج پر حملے کی بات کرتا ہے ، شاکی ہے کہ اس سے گفتگو کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔خود اس کی رعونت اور قتل وغارت کا کوئی انت نہیں۔ درست ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی کمی آگئی۔مگر دہشت گرد ٹیکنیکل اور سٹرٹجیکل انداز میں سرگرم عمل ہیں۔متوازی طاقت کے گھمنڈ میں اپنے ہم وطنوں کے خون کو رزق خاک کررہے ہیں۔کیسا ظلم اور کیسی چیرہ دستی ہے۔اپنا ایجنڈا ملک پر مسلط کرنے کو بے تاب ہیں، حکومت اور ریاست سے تصادم پر کمر بستہ ہیں ۔لہٰذا ان سے ٹکرانے کے لیے رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن جاری رہنا چاہیے۔فوج کو الرٹ رہنا ہوگا۔آپریشن پر بہت شور ہوگا ،احتجاجی مظاہرے ہوں گے مگر کسی ٹارگٹ کلر اور بھتہ خورکو چھوڑنا نہیں ۔یہ جمہوریت، معیشت اور ملکی سالمیت کے دشمن ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا بجا کہ بہت سے دہشت گرد ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں، جو موجود ہیں وہ روپوش ہیں، باقیوں کو رینجرز اور پولیس پکڑ رہی ہے، مگر یقین جانیے کراچی میں اب بھی کلنگ ہی نیوز ہے، آج کتنے مرے؟؟ بینک لٹ رہے ہیں اور بھتہ بھی چل رہا ہے۔ ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ 9 ستمبر 2013 کے دن مشترکہ اعلامیے پر دستخط کے مطابق پوری توجہ طے شدہ امور پر قائم رکھیں، کیونکہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ پہلے اکھاڑا بچالیں، زور آزمائیاں ہوتی رہیں گی۔ سیاسی دنگل سجتے رہیں گے۔ رستم پاکستان، رستم پنجاب، رستم سندھ، رستم بلوچستان، رستم کراچی، رستم لاہور، رستم پشاور، رستم کوئٹہ بنتے رہیں گے۔ مزید صوبوں کی جہاں تک بات ہے وہ بھی تب ہی بن پائیں گے جب اکھاڑا قائم رہے گا۔ پہلے اکھاڑا بچالو۔ پھر جو چاہے کرتے رہنا، مزید ضلعے بعد میں بنا لینا اور بھی جو چاہے کرلینا، اگر اکھاڑا ہی نہ رہا تو کہاں صوبے بناؤگے! ضلعے بناؤگے؟
دیکھ رہے ہو! ملک میں یہ کیا ہورہا ہے۔ اس موڑ پر میجر جنرل، لیفٹیننٹ کرنل اور لانس نائیک کا قتل! یہ لاہور میں معصوم بچی کا سانحہ اور مجرم کا اب تک نہ پکڑے جانا۔ بیرونی اور اندرونی سازشوں میں ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ بہت سے معاملات جو برسوں پہلے سے چل رہے تھے انھیں جان بوجھ کر ''ان حالات'' میں ہوا دی جارہی ہے تاکہ انتشار پھیل سکے۔ عام آدمی کو برسوں پرانی ہونے والی ٹارگٹ کلنگ سے کوئی سروکار نہیں، عام آدمی تو خود مر رہا ہے، اس کے بچے مر رہے ہیں، عام آدمی ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہا ہے۔ عام آدمی پاگل ہوچکے ہیں، بلکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی ہوش و حواس کھوچکے ہیں۔ حال یہ ہے کہ روزانہ لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کے کام دھندے پر نکلتے ہیں، واپسی کا کچھ پتا نہیں۔
عوام دیکھ رہے ہیں 9 ستمبر 2013 کے دن مشترکہ اعلامیے پر دستخط کرنے والے کیا کر رہے ہیں، بیان جاری ہو رہے ہیں، جواب الجواب بیان جاری ہیں۔ ٹی وی ٹاک پروگراموں میں وہی چونچیں لڑائی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے مقابلے جاری ہیں۔ خواتین رہنماؤں کو آگے رکھا جارہا ہے۔ وہ خوب بولتی ہیں۔ میں کیا کہوں، کیا لکھوں، جالب کی زبان میں ہی مدعا بیان کرسکتا ہوں:
رہبرو! تم خدا سے کچھ تو ڈرو
باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو
مگر کوئی خدا سے نہیں ڈر رہا، کسی کو باقی ماندہ وطن کی فکر نہیں ہے۔ اور ''اکھاڑا'' اپنی پرانی تباہی، بربادی پر آنسو بہا رہا ہے۔ اکھاڑے کی مٹی سخت پتھر بن چکی ہے۔ کوئی زور آور اکھاڑے کی ''گوڈی'' کو نہیں آرہا۔ اکھاڑے کی نرم مٹی ترس رہی ہے کہ زور آور آئیں اور مجھے ایک دوسرے کے جسموں پر ڈالیں، کشتیاں ہوں، پھر سے بادام چاروں مغز، خشخاش کے رگڑے لگیں، سردائیوںکے دور چلیں، مگر اگر اکھاڑا نہ رہا تو کشتیاں کہاں ہوں گی؟ یہی نئے صوبوں، نئے ضلعوں کی کشتیاں۔
اوہ زور آورو! پہلے اکھاڑا بچالو!