یہ ننھی پریاں
سنبل اور اس جیسی ننھی پریوں پہ بیتی دل دہلا دینے والی داستانیں ان معاشروں میں جنم لیتی ہیں
RAWALPINDI:
قلم کے ساتھ دوستی کا رشتہ بہت عجیب ہے، کبھی خالی صفحوں پر الفاظ بکھیرنے سے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے اور کبھی جوں جوں الفاظ بکھرتے جاتے ہیں دل کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے اور آج قلم ہاتھ میں تھامے دل اس قدر افسردہ ہے کہ لفظ یوں لگتا ہے کہ کہیں کھو سے گئے ہیں۔ آج مجھے اپنے آپ کو اس مہذب اور اسلامی معاشرے کا شہری کہتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے جہاں انسانوں کے روپ میں حیوانیت اور درندگی کا راج نظر آتا ہے، جہاں سنبل اور اس جیسی نجانے کتنی ننھی پریاں شیطانیت کی ہوس کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور ہم سب بے بس اور لاچار نظروں سے صرف ملامت کرتے ہیں۔
میڈیا پہ کچھ دن ان کا اور ان کے خاندان کا چرچا ہوتاہے اور پھر بھلا دیا جاتا ہے لیکن مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور ان واقعات کے سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ لاہور میں حالیہ پانچ سالہ سنبل کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے نے جہاں ہر صاحب دل و عقل کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں پر بہت سے سوالیہ نشان بھی کھڑے کردیے ہیں۔ فرشتوں جیسی معصومیت لیے یہ ننھی کلیاں کس ناکردہ جرم کی پاداش میں روند دی گئیں؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔
یہ صرف ایک سنبل کا واقعہ نہیں بلکہ لیاری کی آٹھ سالہ، فیصل آباد کی دس سالہ بچی اور پھر لاہور کے علاقے سندر میں اور قصور میں ہونے والے اسی طرح کے پے در پے واقعات ہمارے معاشرے میں پھیلتی اخلاقی بے راہ روی، حیوانیت، درندگی اور سفاکیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ نجانے کتنی اور ننھی پریاں جن پہ بیتے کرب کی داستانیں ہمیں معلوم نہیں لیکبن ہم آپ جیسے مہذب معاشرے کے باعزت شہری کہلانے والوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ضرور ہیں۔ یہ بچیاں جو آج شیطانیت کے بھینٹ چڑھ کے اپنا بچپن کھو بیٹھی ہیں ان کا قصور کیا ہے؟ کیا آج ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر اس قدر مفلوج ہوگیا ہے کہ انسانیت اور حیوانیت میں تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں؟ ابن آدم کی ہوس کا شکار یہ ننھی پریاں جو شاید خود پر بیت جانے والی قیامت سے بھی نا آشنا ہیں، آج ان کو کس گناہ کی اس قدر بڑی سزا ملی ہے کہ دنیا سے، لوگوں سے، رشتوں سے اعتبار ہی ختم ہوگیا ہے۔
ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے والی ننھی پری سنبل کے ساتھ جو ظلم ہوا، میڈیا کو اس حوالے سے ذمے دارانہ رویے کا مزید مظاہرہ کرنا ہوگا ،اس لیے کہ اس معاملے کے کئی پہلو انتہائی حساس ہیں اور جرم کی نوعیت خاصی درد انگیز ہے۔ غیر انسانی اور شرم ناک واقعات کی رپورٹنگ میں حد درجہ احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اس ظلم کے خلاف لکھتے ہوئے یا ذرایع ابلاغ میں اس پر بحث کے دوران شائستگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔سوچنا چاہیے کہ مجرموں نے تو ایک کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کی، ادھر ہمارے میڈیا کے بعض حضرات نے پورے خاندان کے سر سے ہی چادر کھینچ لی۔ بچے نہ دیکھیں کا ٹیگ لگا کر نہ صرف بار بار سی سی ٹی وی فوٹیجز چلائی گئیں بلکہ ان کے پیچھے اینکر حضرات کے سنسنی خیز جملے ناروا تھے۔
کیا اس کے بعد وہ بچی دوبارہ اس معاشرے کے سامنے سر اٹھا کے جی سکے گی؟ اور اس کے ماں باپ دنیا کی چبھتی نظروں کا سامنا کر سکیں گے؟ اور افسوس تو مجھے ان مسیحائوں پر بھی ہے جو کیمروں کے سامنے اس بچی کی جسمانی حالت اس طرح سے بتا رہے تھے جیسے میڈیکل ٹیم کی میٹنگ میں گفتگو کررہے ہیں۔عدلیہ کی ہدایت ہے کہ اس قسم کے مقدمات میں متاثرہ بچی کا نام نہیں آنا چاہیے۔ غم کی اس گھڑی میں سنبل کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اہل قلم اور میڈیا کو غم زدہ خاندان کی تالیف قلب کے اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔یہ واقعہ پورے سماجی اور اخلاقی نظام اقدار کے سقوط کی نشاندہی کرتا ہے،ہمیں اپنے سماجی ، روحانی ،فکری ، تعلیمی،اور معاشی زندگی کی ان دیواروں کو گرنے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ جرم کی نشاندہی اور جرم کی تشہیر کے درمیان نازک سا رشتہ ہوتا ہے اسے باریک بینی کے ساتھ پیش نظر رکھنا ہوگا اور رپورٹرز اور ٹی وی اینکرز کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سنبل اور اس جیسی ننھی پریوں پہ بیتی دل دہلا دینے والی داستانیں ان معاشروں میں جنم لیتی ہیں جہاں کوئی قانون، کوئی انسانیت نام کی چیز نہ ہو لیکن ہمارے جیسا ملک جسے اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا، میں ایسی داستانوں کا جنم لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کی ایک اور بڑی وجہ نہ صرف اپنے دین سے دوری ہے بلکہ اسلام کے مطابق مجرموں کو سزائیں نہ دینا بھی ہے، جہاں مجرم ڈھٹائی سے جرم کرنے کے بعد دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی قانون ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے ایسے اسلامی قوانین سامنے لے کر آئیں جن میں مجرموں کے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ آج اگر سنبل کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے تو یقین کریں نجانے کتنی اور ننھی پریوں کا نہ صرف مستقبل، بلکہ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھی محفوظ ہوجائیں گی۔تاہم اس مسئلہ پر جذباتی ماحول گرمانے کی بجائے پورے سماجی اور اخلاقی نظام اور معمولات زندگی میں در آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکیزگی کا فقدان ہے ، آوارگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،ایسے میں غیر اخلاقی تفریحی سرگرمیوں کو نکیل دیتے ہوئے ہمیں اپنی نئی نسل کو شرافت، سنجیدگی شائستگی اور نیکی کے کاموں کی طرف مائل کرنے کی فضا ہموار کرنی چاہیے ۔ پھر سنبل جیسے واقعات نہیں ہوں گے۔
قلم کے ساتھ دوستی کا رشتہ بہت عجیب ہے، کبھی خالی صفحوں پر الفاظ بکھیرنے سے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے اور کبھی جوں جوں الفاظ بکھرتے جاتے ہیں دل کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے اور آج قلم ہاتھ میں تھامے دل اس قدر افسردہ ہے کہ لفظ یوں لگتا ہے کہ کہیں کھو سے گئے ہیں۔ آج مجھے اپنے آپ کو اس مہذب اور اسلامی معاشرے کا شہری کہتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے جہاں انسانوں کے روپ میں حیوانیت اور درندگی کا راج نظر آتا ہے، جہاں سنبل اور اس جیسی نجانے کتنی ننھی پریاں شیطانیت کی ہوس کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور ہم سب بے بس اور لاچار نظروں سے صرف ملامت کرتے ہیں۔
میڈیا پہ کچھ دن ان کا اور ان کے خاندان کا چرچا ہوتاہے اور پھر بھلا دیا جاتا ہے لیکن مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور ان واقعات کے سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ لاہور میں حالیہ پانچ سالہ سنبل کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے نے جہاں ہر صاحب دل و عقل کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں پر بہت سے سوالیہ نشان بھی کھڑے کردیے ہیں۔ فرشتوں جیسی معصومیت لیے یہ ننھی کلیاں کس ناکردہ جرم کی پاداش میں روند دی گئیں؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔
یہ صرف ایک سنبل کا واقعہ نہیں بلکہ لیاری کی آٹھ سالہ، فیصل آباد کی دس سالہ بچی اور پھر لاہور کے علاقے سندر میں اور قصور میں ہونے والے اسی طرح کے پے در پے واقعات ہمارے معاشرے میں پھیلتی اخلاقی بے راہ روی، حیوانیت، درندگی اور سفاکیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ نجانے کتنی اور ننھی پریاں جن پہ بیتے کرب کی داستانیں ہمیں معلوم نہیں لیکبن ہم آپ جیسے مہذب معاشرے کے باعزت شہری کہلانے والوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ضرور ہیں۔ یہ بچیاں جو آج شیطانیت کے بھینٹ چڑھ کے اپنا بچپن کھو بیٹھی ہیں ان کا قصور کیا ہے؟ کیا آج ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر اس قدر مفلوج ہوگیا ہے کہ انسانیت اور حیوانیت میں تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں؟ ابن آدم کی ہوس کا شکار یہ ننھی پریاں جو شاید خود پر بیت جانے والی قیامت سے بھی نا آشنا ہیں، آج ان کو کس گناہ کی اس قدر بڑی سزا ملی ہے کہ دنیا سے، لوگوں سے، رشتوں سے اعتبار ہی ختم ہوگیا ہے۔
ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے والی ننھی پری سنبل کے ساتھ جو ظلم ہوا، میڈیا کو اس حوالے سے ذمے دارانہ رویے کا مزید مظاہرہ کرنا ہوگا ،اس لیے کہ اس معاملے کے کئی پہلو انتہائی حساس ہیں اور جرم کی نوعیت خاصی درد انگیز ہے۔ غیر انسانی اور شرم ناک واقعات کی رپورٹنگ میں حد درجہ احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اس ظلم کے خلاف لکھتے ہوئے یا ذرایع ابلاغ میں اس پر بحث کے دوران شائستگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔سوچنا چاہیے کہ مجرموں نے تو ایک کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کی، ادھر ہمارے میڈیا کے بعض حضرات نے پورے خاندان کے سر سے ہی چادر کھینچ لی۔ بچے نہ دیکھیں کا ٹیگ لگا کر نہ صرف بار بار سی سی ٹی وی فوٹیجز چلائی گئیں بلکہ ان کے پیچھے اینکر حضرات کے سنسنی خیز جملے ناروا تھے۔
کیا اس کے بعد وہ بچی دوبارہ اس معاشرے کے سامنے سر اٹھا کے جی سکے گی؟ اور اس کے ماں باپ دنیا کی چبھتی نظروں کا سامنا کر سکیں گے؟ اور افسوس تو مجھے ان مسیحائوں پر بھی ہے جو کیمروں کے سامنے اس بچی کی جسمانی حالت اس طرح سے بتا رہے تھے جیسے میڈیکل ٹیم کی میٹنگ میں گفتگو کررہے ہیں۔عدلیہ کی ہدایت ہے کہ اس قسم کے مقدمات میں متاثرہ بچی کا نام نہیں آنا چاہیے۔ غم کی اس گھڑی میں سنبل کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اہل قلم اور میڈیا کو غم زدہ خاندان کی تالیف قلب کے اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔یہ واقعہ پورے سماجی اور اخلاقی نظام اقدار کے سقوط کی نشاندہی کرتا ہے،ہمیں اپنے سماجی ، روحانی ،فکری ، تعلیمی،اور معاشی زندگی کی ان دیواروں کو گرنے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ جرم کی نشاندہی اور جرم کی تشہیر کے درمیان نازک سا رشتہ ہوتا ہے اسے باریک بینی کے ساتھ پیش نظر رکھنا ہوگا اور رپورٹرز اور ٹی وی اینکرز کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سنبل اور اس جیسی ننھی پریوں پہ بیتی دل دہلا دینے والی داستانیں ان معاشروں میں جنم لیتی ہیں جہاں کوئی قانون، کوئی انسانیت نام کی چیز نہ ہو لیکن ہمارے جیسا ملک جسے اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا، میں ایسی داستانوں کا جنم لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کی ایک اور بڑی وجہ نہ صرف اپنے دین سے دوری ہے بلکہ اسلام کے مطابق مجرموں کو سزائیں نہ دینا بھی ہے، جہاں مجرم ڈھٹائی سے جرم کرنے کے بعد دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی قانون ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے ایسے اسلامی قوانین سامنے لے کر آئیں جن میں مجرموں کے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ آج اگر سنبل کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے تو یقین کریں نجانے کتنی اور ننھی پریوں کا نہ صرف مستقبل، بلکہ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھی محفوظ ہوجائیں گی۔تاہم اس مسئلہ پر جذباتی ماحول گرمانے کی بجائے پورے سماجی اور اخلاقی نظام اور معمولات زندگی میں در آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکیزگی کا فقدان ہے ، آوارگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،ایسے میں غیر اخلاقی تفریحی سرگرمیوں کو نکیل دیتے ہوئے ہمیں اپنی نئی نسل کو شرافت، سنجیدگی شائستگی اور نیکی کے کاموں کی طرف مائل کرنے کی فضا ہموار کرنی چاہیے ۔ پھر سنبل جیسے واقعات نہیں ہوں گے۔