ایک کھرا پاکستانی
آپ کے نام کے دوسرے حصے حیدر سے واضح ہے کہ وہ علی مرتضیٰؓ جیسی ہستی پر دل و جان سے فدا ہیں۔
آج ہم ایک عاشق پاکستان کا ذکرکر رہے ہیں جس کی پوری زندگی پاکستان اور نظریہ پاکستان کی پاسبانی میں گزری۔ آپ کے نام کے پہلے حصے آزاد سے ظاہر ہے کہ وہ ایک آزاد انسان ہیں، جوکرتے ہیں آزادی سے کرتے ہیں جو کہتے ہیں بلاخوف وخطر کہتے ہیں۔
آپ کے نام کے دوسرے حصے حیدر سے واضح ہے کہ وہ علی مرتضیٰؓ جیسی ہستی پر دل و جان سے فدا ہیں اور اس ذات گرامی کی نسبت اور برکت سے جری اور بہادر واقع ہوئے ہیں نہ کبھی کسی زبردست کے آگے جھکے اور نہ کبھی اپنے وقار، شعار اور افکار کا سودا کیا۔ آزاد بن حیدرکا عشق بھی عجیب ہے لوگ تو خوبصورت صورتوں اور چیزوں کے عشق میں گرفتار ہو کر پوری زندگیاں بتا دیتے ہیں مگر اس شخص کا عشق اس سرزمین سے ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔وہ اس عشق میں بچپن سے گرفتار ہیں۔
اس راہ میں کیا کیا نہ مصائب جھیلے، جیلیں کاٹیں، دشمنیاں بھگتیں اور نقصان در نقصان اٹھایا مگر پائے استقلال میں ذرا لغزش نہ آئی۔آپکی کامیاب و کامران زندگی جہد پیہم سے عبارت ہے۔اب پیرانہ سالی میں بھی آپ ہردم خدمت خلق اور استحکام پاکستان کے لیے متحرک نظر آتے ہیں۔ ناچیزکی آپ سے قربت بہت دیر سے قائم ہوئی جس پر ملال رہے گا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ میری کالم نگاری کے مداح ہیں۔
حال ہی میں خاکسار نے ایک کالم بعنوان ''پاکستان میں صدارتی نظام کیوں نہیں؟'' لکھا تھا۔ آپ نے اس کالم کو سراہا جب کہ کچھ نے اسے بے وقت کی راگنی قرار دیا تھا،آپ نے ایک ای میل کرکے میری ہمت افزائی فرمائی۔ پاکستان میں صدارتی نظام کو نہ جانے کیوں آمرانہ نظام سمجھا جاتا ہے۔ شاید لوگوں کے دلوں میں صدارتی نظام کے خلاف اس لیے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ہر آمر نے صدارتی نظام نافذکیا مگر یہ کسی طرح بھی جمہوری نظام نہیں تھا۔آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری صدارتی نظام نافذ ہے، خود امریکا میں بھی یہی نظام رائج ہے۔گوکہ دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمانی نظام بھی رائج ہے مگر یہ خامیوں سے پر ہے۔
اس نظام میں وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے منتخب ارکان چنتے ہیں جب کہ صدارتی نظام میں صدرکو عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں چنانچہ وہ عوام کو براہ راست جواب دہ بھی ہوتا ہے۔پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے مملکت کے کاموں میں رخنہ پڑتا ہے اور حکومتیں ٹوٹتی رہتی ہیں جب کہ صدارتی نظام میں اپوزیشن ایک دائرہ کار میں رہ کر اپنا کام کرتی ہے اس سے صدر کو دل جمعی کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آزاد بن حیدر نے یہ تاریخی انکشاف کیا ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں صدارتی نظام رائج کرنے کے حامی تھے۔
آپ نے اپنے ایک رسالے ''میثاق مدینہ'' جو جناح تربیتی کورس بک نمبر 5 کے سلسلے میں جاری کیا گیا تھا میں قائد اعظم کے دس جولائی 1947 کو لکھے گئے ایک قلمی نوٹ کا ذکر کیا ہے اور اس کا عکس بھی شایع کیا ہے۔ یہ نوٹ صدارتی طرز حکومت کو پاکستان کے آئین میں ترجیح دینے کے لیے لکھا گیا تھا۔ نوٹ میں قائد اعظم نے لکھا تھا ''پارلیمانی نظام کسی حد تک صرف برطانیہ میں رائج ہوچکا ہے۔کوئی بھی ریاست عوام کو بہتر زندگی کے مواقعے فراہم کرکے قائم رہ سکتی ہے۔ جیساکہ ارسطو نے کہا تھا کہ ریاست نہ صرف زندگی کے لیے بلکہ اچھی زندگی کے لیے قائم ہوسکتی ہے چنانچہ صدارتی نظام ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔''
آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان میں قائد اعظم کا تجویزکردہ صدارتی نظام ہی رائج ہونا چاہیے تھا مگر ہمارے سیاست دانوں نے پارلیمانی نظام کے ذریعے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قائد کا تجویز کردہ جمہوری صدارتی نظام اگر شروع سے ہی پاکستان میں نافذ ہوتا تو شاید یہاں جمہوریت کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا اور ملک میں آمریت کی دخل اندازی کی بھی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی۔
آزاد بن حیدر نے تحریک پاکستان، قائد اعظم اور دیگر قائدین پاکستان کے بارے میں جتنی تحقیق کی ہے شاید کسی اور نے نہ کی ہو۔ وہ بچپن سے ہی مسلم لیگی ہیں اور کسی بھی مرحلے پر مسلم لیگ سے جدا نہیں ہوئے۔ آپ شہر اقبال سیالکوٹ میں 1932 میں پیدا ہوئے۔ جب آپ نو برس کے تھے بچہ مسلم لیگ میں شامل ہوچکے تھے۔ 1944 میں جب قائد اعظم سیالکوٹ تشریف لائے آپ نے اس موقع پر پاکستان کا چھوٹا سا پرچم پکڑ کر بچوں کے ساتھ قائد اعظم کا استقبال کیا تھا۔
تین سال بعد قیام پاکستان کا اعلان ہوگیا اس وقت آپکی عمر 15 سال تھی اور نویں کلاس کے طالبعلم تھے۔ اس وقت ہندوستان سے بڑی تعداد میں مہاجرین کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ آپکو کراچی جاکر وہاں کے مہاجر کیمپ میں مہاجروں کی خدمت کرنے کی ہدایت کی گئی۔ آپ 17-16 اگست کی رات کراچی آگئے اور بحیثیت رضاکار اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں، آپ اور دیگر رضاکاروں کے قیام کا بندوبست مولوی مسافر خانہ واقع بندر روڈ پرکیا گیا تھا۔ اسی رات جب خبر ملی کہ 18 اگست کو قائد اعظم عید الفطر کی نماز ادا کرنے مرکزی عیدگاہ بندر روڈ تشریف لا رہے ہیں تمام رضاکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قیام پاکستان کی خوشی کے بعد یہ انھیں دوسری خوشی ملی تھی۔ قائد اعظم پہلی صف میں تھے اور آپ و دیگر رضاکار آخری صف میں موجود تھے۔ آپ قائد اعظم کے ساتھ نماز ادا کرنے کی سعادت کو اپنی زندگی کا عظیم سرمایہ خیال کرتے ہیں۔ آپ اب 88 برس کے ہوچکے ہیں مگر اب بھی چاک و چوبند ہیں اور کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے قومی سیاست میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر آمرانہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی ہے اور بحالی جمہوریت کی ہر تحریک میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی کاغذات نامزدگی آپ نے حسن اے شیخ اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آپکو مارشل لا کے تحت ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ دراصل آپ نے ان کے خلاف ایک پٹیشن داخل کی تھی جس میں آپ کا موقف تھا کہ ایک سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ، نفاذ اردو تحریک اورکراچی صوبہ بناؤ تحریک چلائی اور بہاریوں کی واپسی کے لیے ایسا شدید احتجاج کیا کہ جیل جانا پڑا۔
1956 میں مسلم ایجوکیشن سوسائٹی قائم کی جسکے تحت کراچی کے متوسط اور غریب علاقوں میں کئی پرائمری اور سیکنڈری اسکول قائم کیے۔ ان کے اخراجات اپنی وکالت کی کمائی اور چند مخیر دوستوں کے ساتھ مل کر پورا کرتے رہے۔ آپ نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں،کئی ماہنامے جاری کیے اور کئی روزنامے اپنی ادارت میں نکالے۔ آپکو آپکی قومی، علمی اور سماجی خدمات پر بیشمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ آپ کراچی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر ہیں جہاں وہ اکثر تاریخ پاکستان پر لیکچر دے کر طلبا کے دلوں میں پاکستان کی محبت جگاتے رہتے ہیں۔
آپ کی معرکۃالآرا تصانیف میں ''علامہ اقبال، یہودیت اور جمہوریت''، فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونی القادریؒ'' اور ''تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائد اعظم تک'' بیحد مقبول ہوئیں اور ان پر اعزازات سے نوازے گئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپکی پوری زندگی تعمیری قومی ہنگامہ خیزی میں گزری۔ اس وقت آپ جناح مسلم لیگ کے ذریعے وطن عزیز میں محبت اخوت اور قومی جذبہ ابھارنے کے ساتھ ساتھ استحکام پاکستان کے لیے مصروف عمل ہیں۔ آپ کی اگر پوری متحرک زندگی کا جائزہ لیا جائے تو حیرانی ہوتی ہے کہ ایک انسان اتنے سارے بوجھ بیک وقت کیسے اٹھا سکتا ہے یہ دراصل ان کی بزرگان دین سے عقیدت کا ثمر ہے۔ آپ جیسا بیباک اور بے داغ انسان پاکستانیوں کے لیے اس مایوس کن ماحول میں امید کی ایک کرن اور وطن عزیز کے لازوال ہونے کی دلیل ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپکو عمر خضر عطا کرے تاکہ قوم کی تادیر صحیح سمت میں رہنمائی ہوتی رہے۔
آپ کے نام کے دوسرے حصے حیدر سے واضح ہے کہ وہ علی مرتضیٰؓ جیسی ہستی پر دل و جان سے فدا ہیں اور اس ذات گرامی کی نسبت اور برکت سے جری اور بہادر واقع ہوئے ہیں نہ کبھی کسی زبردست کے آگے جھکے اور نہ کبھی اپنے وقار، شعار اور افکار کا سودا کیا۔ آزاد بن حیدرکا عشق بھی عجیب ہے لوگ تو خوبصورت صورتوں اور چیزوں کے عشق میں گرفتار ہو کر پوری زندگیاں بتا دیتے ہیں مگر اس شخص کا عشق اس سرزمین سے ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔وہ اس عشق میں بچپن سے گرفتار ہیں۔
اس راہ میں کیا کیا نہ مصائب جھیلے، جیلیں کاٹیں، دشمنیاں بھگتیں اور نقصان در نقصان اٹھایا مگر پائے استقلال میں ذرا لغزش نہ آئی۔آپکی کامیاب و کامران زندگی جہد پیہم سے عبارت ہے۔اب پیرانہ سالی میں بھی آپ ہردم خدمت خلق اور استحکام پاکستان کے لیے متحرک نظر آتے ہیں۔ ناچیزکی آپ سے قربت بہت دیر سے قائم ہوئی جس پر ملال رہے گا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ میری کالم نگاری کے مداح ہیں۔
حال ہی میں خاکسار نے ایک کالم بعنوان ''پاکستان میں صدارتی نظام کیوں نہیں؟'' لکھا تھا۔ آپ نے اس کالم کو سراہا جب کہ کچھ نے اسے بے وقت کی راگنی قرار دیا تھا،آپ نے ایک ای میل کرکے میری ہمت افزائی فرمائی۔ پاکستان میں صدارتی نظام کو نہ جانے کیوں آمرانہ نظام سمجھا جاتا ہے۔ شاید لوگوں کے دلوں میں صدارتی نظام کے خلاف اس لیے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ہر آمر نے صدارتی نظام نافذکیا مگر یہ کسی طرح بھی جمہوری نظام نہیں تھا۔آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری صدارتی نظام نافذ ہے، خود امریکا میں بھی یہی نظام رائج ہے۔گوکہ دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمانی نظام بھی رائج ہے مگر یہ خامیوں سے پر ہے۔
اس نظام میں وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے منتخب ارکان چنتے ہیں جب کہ صدارتی نظام میں صدرکو عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں چنانچہ وہ عوام کو براہ راست جواب دہ بھی ہوتا ہے۔پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے مملکت کے کاموں میں رخنہ پڑتا ہے اور حکومتیں ٹوٹتی رہتی ہیں جب کہ صدارتی نظام میں اپوزیشن ایک دائرہ کار میں رہ کر اپنا کام کرتی ہے اس سے صدر کو دل جمعی کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آزاد بن حیدر نے یہ تاریخی انکشاف کیا ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں صدارتی نظام رائج کرنے کے حامی تھے۔
آپ نے اپنے ایک رسالے ''میثاق مدینہ'' جو جناح تربیتی کورس بک نمبر 5 کے سلسلے میں جاری کیا گیا تھا میں قائد اعظم کے دس جولائی 1947 کو لکھے گئے ایک قلمی نوٹ کا ذکر کیا ہے اور اس کا عکس بھی شایع کیا ہے۔ یہ نوٹ صدارتی طرز حکومت کو پاکستان کے آئین میں ترجیح دینے کے لیے لکھا گیا تھا۔ نوٹ میں قائد اعظم نے لکھا تھا ''پارلیمانی نظام کسی حد تک صرف برطانیہ میں رائج ہوچکا ہے۔کوئی بھی ریاست عوام کو بہتر زندگی کے مواقعے فراہم کرکے قائم رہ سکتی ہے۔ جیساکہ ارسطو نے کہا تھا کہ ریاست نہ صرف زندگی کے لیے بلکہ اچھی زندگی کے لیے قائم ہوسکتی ہے چنانچہ صدارتی نظام ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔''
آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان میں قائد اعظم کا تجویزکردہ صدارتی نظام ہی رائج ہونا چاہیے تھا مگر ہمارے سیاست دانوں نے پارلیمانی نظام کے ذریعے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قائد کا تجویز کردہ جمہوری صدارتی نظام اگر شروع سے ہی پاکستان میں نافذ ہوتا تو شاید یہاں جمہوریت کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا اور ملک میں آمریت کی دخل اندازی کی بھی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی۔
آزاد بن حیدر نے تحریک پاکستان، قائد اعظم اور دیگر قائدین پاکستان کے بارے میں جتنی تحقیق کی ہے شاید کسی اور نے نہ کی ہو۔ وہ بچپن سے ہی مسلم لیگی ہیں اور کسی بھی مرحلے پر مسلم لیگ سے جدا نہیں ہوئے۔ آپ شہر اقبال سیالکوٹ میں 1932 میں پیدا ہوئے۔ جب آپ نو برس کے تھے بچہ مسلم لیگ میں شامل ہوچکے تھے۔ 1944 میں جب قائد اعظم سیالکوٹ تشریف لائے آپ نے اس موقع پر پاکستان کا چھوٹا سا پرچم پکڑ کر بچوں کے ساتھ قائد اعظم کا استقبال کیا تھا۔
تین سال بعد قیام پاکستان کا اعلان ہوگیا اس وقت آپکی عمر 15 سال تھی اور نویں کلاس کے طالبعلم تھے۔ اس وقت ہندوستان سے بڑی تعداد میں مہاجرین کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ آپکو کراچی جاکر وہاں کے مہاجر کیمپ میں مہاجروں کی خدمت کرنے کی ہدایت کی گئی۔ آپ 17-16 اگست کی رات کراچی آگئے اور بحیثیت رضاکار اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں، آپ اور دیگر رضاکاروں کے قیام کا بندوبست مولوی مسافر خانہ واقع بندر روڈ پرکیا گیا تھا۔ اسی رات جب خبر ملی کہ 18 اگست کو قائد اعظم عید الفطر کی نماز ادا کرنے مرکزی عیدگاہ بندر روڈ تشریف لا رہے ہیں تمام رضاکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قیام پاکستان کی خوشی کے بعد یہ انھیں دوسری خوشی ملی تھی۔ قائد اعظم پہلی صف میں تھے اور آپ و دیگر رضاکار آخری صف میں موجود تھے۔ آپ قائد اعظم کے ساتھ نماز ادا کرنے کی سعادت کو اپنی زندگی کا عظیم سرمایہ خیال کرتے ہیں۔ آپ اب 88 برس کے ہوچکے ہیں مگر اب بھی چاک و چوبند ہیں اور کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے قومی سیاست میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر آمرانہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی ہے اور بحالی جمہوریت کی ہر تحریک میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی کاغذات نامزدگی آپ نے حسن اے شیخ اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آپکو مارشل لا کے تحت ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ دراصل آپ نے ان کے خلاف ایک پٹیشن داخل کی تھی جس میں آپ کا موقف تھا کہ ایک سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ، نفاذ اردو تحریک اورکراچی صوبہ بناؤ تحریک چلائی اور بہاریوں کی واپسی کے لیے ایسا شدید احتجاج کیا کہ جیل جانا پڑا۔
1956 میں مسلم ایجوکیشن سوسائٹی قائم کی جسکے تحت کراچی کے متوسط اور غریب علاقوں میں کئی پرائمری اور سیکنڈری اسکول قائم کیے۔ ان کے اخراجات اپنی وکالت کی کمائی اور چند مخیر دوستوں کے ساتھ مل کر پورا کرتے رہے۔ آپ نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں،کئی ماہنامے جاری کیے اور کئی روزنامے اپنی ادارت میں نکالے۔ آپکو آپکی قومی، علمی اور سماجی خدمات پر بیشمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ آپ کراچی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر ہیں جہاں وہ اکثر تاریخ پاکستان پر لیکچر دے کر طلبا کے دلوں میں پاکستان کی محبت جگاتے رہتے ہیں۔
آپ کی معرکۃالآرا تصانیف میں ''علامہ اقبال، یہودیت اور جمہوریت''، فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونی القادریؒ'' اور ''تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائد اعظم تک'' بیحد مقبول ہوئیں اور ان پر اعزازات سے نوازے گئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپکی پوری زندگی تعمیری قومی ہنگامہ خیزی میں گزری۔ اس وقت آپ جناح مسلم لیگ کے ذریعے وطن عزیز میں محبت اخوت اور قومی جذبہ ابھارنے کے ساتھ ساتھ استحکام پاکستان کے لیے مصروف عمل ہیں۔ آپ کی اگر پوری متحرک زندگی کا جائزہ لیا جائے تو حیرانی ہوتی ہے کہ ایک انسان اتنے سارے بوجھ بیک وقت کیسے اٹھا سکتا ہے یہ دراصل ان کی بزرگان دین سے عقیدت کا ثمر ہے۔ آپ جیسا بیباک اور بے داغ انسان پاکستانیوں کے لیے اس مایوس کن ماحول میں امید کی ایک کرن اور وطن عزیز کے لازوال ہونے کی دلیل ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپکو عمر خضر عطا کرے تاکہ قوم کی تادیر صحیح سمت میں رہنمائی ہوتی رہے۔