پاکستان اور کشمیر روشن رہے گا
پاکستان میں بسنے والی قوم کوئی عام قوم نہیں ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک کی نظریاتی قوم ہے۔
بھارت کو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر کبھی اعتراض نہیں رہا۔ پاکستانیوں کا یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کر دو پھر کسی تعلقات کی بات کرو ۔ بھارت کہتا تھا ایسے بڑے مسئلوں سے پہلے تجارتی و ثقافتی تعلقات قائم کر لیں تا کہ فضاء بڑے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے سازگار ہو سکے لیکن سب سے بڑے بلکہ واحد مسئلے کشمیر کے بارے میں بھارتی لیڈر اسی سانس میں کہتے تھے کہ یہ تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر پر تازہ حملے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت نے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف کو درست جانتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں زبردستی ضم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جارحیت کر دی ہے۔ دو قومی نظریہ جس سے آج کی نسل آگاہ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہمار ے سیاسی رہنمائوں نے قوم کو دو قومی نظریہ کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے شائد وہ خود دو قومی نظریہ پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔
بھارت کی تازہ جارحیت کے بعد یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی ہم نے اس کو خلیج بنگال سے نکالنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جہاں اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان چھین کر اسے ڈبویا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو مٹانے کی بہت کو ششیں کی گئیں، اسے اپنے اصل دو قومی نظریے سے ہٹانے کے بے شمار جتن کیے گئے لیکن اس قوم کے سینے میں ایمان کی چنگاری سلگتی رہی اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی اس قوم میں یہ چنگاری روشن رہی۔
پاکستان میں بسنے والی قوم کوئی عام قوم نہیں ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک کی نظریاتی قوم ہے۔ گزشتہ ستر برسوں سے اس کا ذہن ایک خاص مقصد کے لیے بنایا جا رہا ہے اور قومی نظریہ یعنی اسلامیت اس کے دل و دماغ سے نکالی نہیں جا سکی۔ اس کی آبیاری تاریخ اور حالات نے کی ہے ۔ ان پڑھ یا پڑھے لکھے پاکستانیوں سب کو ایک بات اچھی طرح معلوم رہی ہے کہ ایک دشمن اس کو ورثے میں ملا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں اس کو تیر و تفنگ کی ضرورت ہے وہاں اس کو مضبوط نظریاتی ذہن کی بھی ضرورت ہے، ورنہ اس کی بقاء مشکل ہو جائے گی ۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا اور اس کا روز اول کا دشمن کامیاب ہوا تو اس کے ردعمل میں یہ کہا گیا کہ نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کی گئی اور ملک کی نصف سے زائد آبادی کو اسلامی مساوات نہیں دی گئی۔
ہرچند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے، اک رقص تو ہے، بے چین سہی برباد سہی
یہ ایک نظم کا شعر ہے جو مرحوم مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریک پاکستان کے موقع پر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے ایک جلسے میں اپنی تقریر میں پڑھی تھی ۔ مجھے صرف ایک شعر یاد ہے۔ یہ اشعار اس قوم کے بارے میں تھے جو پاکستان کا مطالبہ لے کر اٹھی تھی اور ایک بگولا بن کر اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ یہ طے ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں ۔ ایک ہندو اور دوسرے مسلمان اور ان دونوں قوموں میں سوائے اس کے کہ دونوں کے افراد کی شکلیں انسانوں کی سی ہیں اور کوئی چیز مشترک نہیں ہے ۔ جب زندگی کا نظریہ اور عقیدہ ہی مختلف ہو تو پھر مشابہت کس بات میں۔ انسان اور حیوان کے درمیان فرق اسی دماغ کی سوچ اور کسی نظریے کا ہی تو ہے۔
نظریہ انسان کو انسان بناتا ہے اور مسلمانوں کا نظریہ جس انسان کی تعمیر کرتا ہے کسی انسان کا جو تشخص بناتا ہے وہ کسی ہندو کا ہر گز نہیں ہوتا ۔ یہ موسیقی کی کسی تان کا مل جانا یا کسی فلمی تماشہ گر کا کسی دوسرے ملک میں پسند کیا جانا اگر قدر مشترک ہے تو ایسی قدر مشترک کی بات کرنے والے مکار یا پرلے درجے کے احمق ہیں ۔ یہ مشابہت دنیا کی کسی قوم میں کسی دوسری قوم کے ساتھ نہیں ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی قومیں دوست نہیں دشمن قومیں ہیں اور وہ دونوں اس کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ کوئی باغیرت پاکستانی مشرقی پاکستان اور فوجوں کی قید و بند نہیں بھول سکتا ۔ ہماری ہزار سال کی نہیں بارہ سو سال کی تاریخ جنگ و جدل اور منافرت کی تاریخ ہے ۔ بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی دنیا کے دبائو کے باجود جو غاصبانہ قبضہ کیا ہے وہ اس نفرت کا ظہار ہے جو بھارتی ہندوئوں کو مسلمانوں سے ہے وہ کوئی ایسا موقع جانے نہیں دینا چاہتے جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچے اور پاکستان کی سبکی ہو۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ ہزاروں سال تک ہم نے ہندوئوں پر حکومت کر کے ان کو دبائے رکھا پھر انگریز کی حکومت میں دونوں قوموں کا مقابلہ جاری رہا اور آزادی کے بعد اب تک مقابلہ جاری ہے۔
کوئی مورخ کوئی دانشور ، کوئی بھارت پرست سیاستدان اس تاریخ میں دوستی کا ایک ورق بھی نکال کر دکھا دے۔ ایسی عمر بھر اور تاریخ بھر کی دشمنی مناسب ہے یا نا مناسب یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخ دوستی سے خالی اور دشمنی سے بھری ہوئی ہے اس دشمنی کی آگ سے دو قومی نظریہ اور پاکستان نے جنم لیا جو بھارت کی نظروں میں کھٹکتا ہے نظریے کی یہی آگ جب تک روشن رہے گی پاکستان اور کشمیر روشن رہے گا ۔