جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ایک زریں اُصول
آج ہماری نئی حکومت نے قوم کو ایک بار پھر قرضوں اور امداد کے دلدل میں ڈالتے ہوئے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔
KARACHI:
اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ہم نے ایک سبق اچھی طرح نہ صرف پڑھ اور سمجھ لیا ہے بلکہ اپنے ذہن کے نہا خانوں میں محفوظ اور حفظ بھی کر لیا ہے کہ ہم جیسی قوموں کی زندگی میں ملکی مفادات کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے، ہماری اولین ترجیح صرف اور صرف اپنے آقا کی خوشنودی ہونا چاہیے لیکن پریکٹیکل لائف میں اِن کا استعمال اب متروک ہو چکا ہے۔
اِن سنہری الفاظ کی جگہ اب جھوٹ ، مکرو منافقت اور مصلحت کوشی نے لے لی ہے اور ہم مظلوموں اور بیکسوں کی بجائے ظالموں اور غاصبوں کے ہم نوالہ اور ہم رکاب بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں ہمیں کوئی ایک ملک بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جسکے حکمراں حق و باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ دیتے۔
34 ممالک پر مبنی اسلامی افواج کا اتحاد کسی اسلامی ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے صرف اور صرف امریکی مفادات کا محافظ اور نگہبان بنا ہوا ہے۔ وہ اسرائیل اور بھارت کی چیرہ دستیوں پر اُنکی سر زنش کرنے کی بجائے اِس ایک اہم فریضہ کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے کہ کہیں سے کوئی سر پھرا اسلامی ملک اسرائیل اور بھارت کو سبق سکھانے کے لیے دیوانہ وار میدان میں کود نہ پڑے۔خود ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی امریکا کی مخالفت اور ناراضی کا خطرہ مول نہیں سکتے۔
ستر بہتر سال میں ہمارے جس کسی رہنما نے اِن زریں اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے خود داری اور عزت نفس کاکوئی معمولی سا مظاہرہ بھی کرنا چاہا تو فوراً سے پیشتر اُسکا کام تمام کردیا گیا۔ نواز شریف نے 1998ء میں اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی فون کالزکو کوئی اہمیت نہ دی اور منع کرنے کے باوجود ایک دو نہیں یکمشت چھ ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ نتیجتاً محروم اقتدار ہوئے اور عمر قید کے حقدار بھی قرار پائے۔ انھیں بعد ازاں دس سالہ جلا وطنی کی شکل میں بھی بھگتنا پڑا۔
فطرت سے مجبور اِس محب وطن شخص نے اپنے تیسرے دور اقتدار میں ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی اور وطن عزیزکو خود کفیل اور خود انحصار بنانے کی جستجو میں پاک چائنہ کوریڈور کی بنیاد رکھ ڈالی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ملک وقوم کو دہشتگردی کے عذاب سے باہر نکالا بلکہ آئی ایم ایف کی ہشت پالی گرفت اور آہنی چنگل سے بھی چھٹکارا دلا دیا لہٰذا اب وہ استعمار پسند استحصالی قوتوں کے عتاب سے بھلا کیسے بچ سکتے تھے۔ شاید اِسی لیے وہ آج ایک غلط کار اور ہزیمت خوردہ وزیر اعظم کی شکل میں اپنے آپ کو کوس رہے ہیں۔
انھیں معلوم بھی تھا کہ پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا خواب رکھنے والا کوئی بھی سویلین وزیراعظم کبھی سرخرو اورکامیاب نہیں ہو پایا۔ اُس کے پر ہمیشہ اُسکی پرواز سے پہلے ہی کتر دیے جاتے ہیں۔ میاں صاحب نے جوکچھ کیا وہ بہت سے تجزیہ نگاروں کی نظر میں صریح حماقت تھی۔ طاقتور حلقوں کے خلاف مزاحمت دکھانے اور مادر وطن سے بلاوجہ محبت کا اظہار کرنیوالے کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔
آج ہماری نئی حکومت نے قوم کو ایک بار پھر قرضوں اور امداد کے دلدل میں ڈالتے ہوئے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ اور تواور اُس نے مبینہ طور پر سی پیک منصوبے کی دستاویزات بھی اِس عالمی مالیاتی ادارے کے سپرد کر دی ہیں۔ میاں صاحب بھی اگر یہی کچھ کرتے تو آج نہ صرف برسر اقتدار رہتے بلکہ یوں کوٹ لکھپت جیل میںاپنی عمر عزیز بھی ضایع نہ کرتے۔
دیکھا جائے تو1971ء جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار پھینک کر بڑی حکمت اوردانائی والا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے ہتھیار ڈال کر اپنے ساتھ اُن 93 ہزار دیگرسویلین اور فوجی افراد کو بھی غیر ضروری ہلاکت سے بچا لیا تھا جو مزاحمت کی صورت میںیقینا شہید کردیے جاتے۔ اُنکے اِس فیصلے سے کتنی ماؤں کی گود اُجڑنے سے بچ گئی۔ کتنی سہاگنیں جواں عمری میں بیوہ ہونے سے رہ گئیں اور کتنے بچے یتیم ہونے سے بچ گئے۔ ''جسکی لاٹھی اُسکی بھینس'' والا محاورہ کوئی یونہی اختراع نہیں کیا گیا ہے۔ یہ زمانے سے اِس دنیا میں رائج ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔
میاں صاحب کو بھی اِسی نظریہ اور اُصول کے تحت خود کو اِس کا پابند اور پاسدار بنانا ہوگا۔کاسہ لیسی اور دریوزہ گری سے نجات کو اپنا مطمع نظر بنانے کی بجائے خودکو عالمی طاقتوں کے تابع اور فرمانبردار بنانا ہوگا۔ سارے عالم اسلام میں آج تک کوئی بھی حکمراں ایسا باقی نہیں بچا جس نے اِن سامراجی اور استعماری قوتوں کے آگے کوئی مزاحمت دکھائی ہو۔ صدام حسین ، یاسرعرفات اور معمر قذافی سمیت سارے نام نہاد انقلابی فتح یابی کی سر خروئی پانے کی بجائے شکست و رسوائی کے اندھیروں میں جاگرے۔ افغانستان میں ملا عمرکی قیادت میں طالبان حکومت نے بھی ایسی ہی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے ساتھ بہت سوں کو بھی لے ڈوبے۔
حال ہی میں ہلاک ہونیوالے اخوان المسلمین کے منتخب صدر جناب محمد مرسی کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ بھی عہد کے فرعونوں سے ٹکرانے کے شوق میں نکلے تھے اور ایک سال کے اندر ہی پاش پاش ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے ہمارے یہاں ایسے حالات نہیں ہیں۔ یہاں عالمی قوتوں کے احکام پرعملدرآمد کے لیے ایک مکمل اتھارٹی پہلے سے قائم و دائم ہے جو گھی نکالنے کے لیے انگلیاں ٹیڑھی کرنے سے پیشتر ہی حالات کو کنٹرول کر لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صیہونی قوتوں کو آج تک ہمارے خلاف وہ تگ ودو اور پلاننگ نہیں کرنا پڑی ہے جو وہ دوسری قوموں کے خلاف کرتی آئی ہیں ۔
ہمیں کبھی پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلا کے اور کبھی بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ کا ہوا کھڑا کر کے وہ سارے مقاصد حاصل کر لیے جاتے ہیں جنکاحصول کسی غیرت مند انا پرست اور خود دار شخص کی حکومت میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی مفر نہیں کہ پاکستان آج سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ قومی افق پر مایوسی، خوف اور بے یقینی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پورا معاشرہ اجتماعی حماقتوں ، ملی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے۔کوئی منزل متعین اور مقرر نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے بحیثیت قوم ہم زمانہ قدیم کے ایک محتاج اور پسماندہ قوم کے طور پر مگن رہنے اور عہد رفتہ کی خوبصورت یاد میں زندگی گذارنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ طاقتوروں سے الجھنے کا نتیجہ گھر پھونک تماشے کی صورت میں ہی نکلاکرتا ہے۔ یہ ملک وقوم کی خود کفالت اور خود انحصاری کی باتیں افسانوی اورکتابی ہوا کرتی ہیں۔ حقیقت سے اِنکا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارا اصل مقصد حالات کو اُن قوتوں کی خواہشوں کے قالب میں ڈھالنا ہونا چاہیے، جس دن میاں صاحب نے یہ سبق اچھی طرح یاد کرلیا اُسی دن جیل سے رہا بھی ہو جائینگے اور شاید دوبارہ مسند اقتدار پر بھی برا جمان ہو جائینگے۔
اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ہم نے ایک سبق اچھی طرح نہ صرف پڑھ اور سمجھ لیا ہے بلکہ اپنے ذہن کے نہا خانوں میں محفوظ اور حفظ بھی کر لیا ہے کہ ہم جیسی قوموں کی زندگی میں ملکی مفادات کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے، ہماری اولین ترجیح صرف اور صرف اپنے آقا کی خوشنودی ہونا چاہیے لیکن پریکٹیکل لائف میں اِن کا استعمال اب متروک ہو چکا ہے۔
اِن سنہری الفاظ کی جگہ اب جھوٹ ، مکرو منافقت اور مصلحت کوشی نے لے لی ہے اور ہم مظلوموں اور بیکسوں کی بجائے ظالموں اور غاصبوں کے ہم نوالہ اور ہم رکاب بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں ہمیں کوئی ایک ملک بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جسکے حکمراں حق و باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ دیتے۔
34 ممالک پر مبنی اسلامی افواج کا اتحاد کسی اسلامی ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے صرف اور صرف امریکی مفادات کا محافظ اور نگہبان بنا ہوا ہے۔ وہ اسرائیل اور بھارت کی چیرہ دستیوں پر اُنکی سر زنش کرنے کی بجائے اِس ایک اہم فریضہ کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے کہ کہیں سے کوئی سر پھرا اسلامی ملک اسرائیل اور بھارت کو سبق سکھانے کے لیے دیوانہ وار میدان میں کود نہ پڑے۔خود ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی امریکا کی مخالفت اور ناراضی کا خطرہ مول نہیں سکتے۔
ستر بہتر سال میں ہمارے جس کسی رہنما نے اِن زریں اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے خود داری اور عزت نفس کاکوئی معمولی سا مظاہرہ بھی کرنا چاہا تو فوراً سے پیشتر اُسکا کام تمام کردیا گیا۔ نواز شریف نے 1998ء میں اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی فون کالزکو کوئی اہمیت نہ دی اور منع کرنے کے باوجود ایک دو نہیں یکمشت چھ ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ نتیجتاً محروم اقتدار ہوئے اور عمر قید کے حقدار بھی قرار پائے۔ انھیں بعد ازاں دس سالہ جلا وطنی کی شکل میں بھی بھگتنا پڑا۔
فطرت سے مجبور اِس محب وطن شخص نے اپنے تیسرے دور اقتدار میں ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی اور وطن عزیزکو خود کفیل اور خود انحصار بنانے کی جستجو میں پاک چائنہ کوریڈور کی بنیاد رکھ ڈالی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ملک وقوم کو دہشتگردی کے عذاب سے باہر نکالا بلکہ آئی ایم ایف کی ہشت پالی گرفت اور آہنی چنگل سے بھی چھٹکارا دلا دیا لہٰذا اب وہ استعمار پسند استحصالی قوتوں کے عتاب سے بھلا کیسے بچ سکتے تھے۔ شاید اِسی لیے وہ آج ایک غلط کار اور ہزیمت خوردہ وزیر اعظم کی شکل میں اپنے آپ کو کوس رہے ہیں۔
انھیں معلوم بھی تھا کہ پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا خواب رکھنے والا کوئی بھی سویلین وزیراعظم کبھی سرخرو اورکامیاب نہیں ہو پایا۔ اُس کے پر ہمیشہ اُسکی پرواز سے پہلے ہی کتر دیے جاتے ہیں۔ میاں صاحب نے جوکچھ کیا وہ بہت سے تجزیہ نگاروں کی نظر میں صریح حماقت تھی۔ طاقتور حلقوں کے خلاف مزاحمت دکھانے اور مادر وطن سے بلاوجہ محبت کا اظہار کرنیوالے کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔
آج ہماری نئی حکومت نے قوم کو ایک بار پھر قرضوں اور امداد کے دلدل میں ڈالتے ہوئے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ اور تواور اُس نے مبینہ طور پر سی پیک منصوبے کی دستاویزات بھی اِس عالمی مالیاتی ادارے کے سپرد کر دی ہیں۔ میاں صاحب بھی اگر یہی کچھ کرتے تو آج نہ صرف برسر اقتدار رہتے بلکہ یوں کوٹ لکھپت جیل میںاپنی عمر عزیز بھی ضایع نہ کرتے۔
دیکھا جائے تو1971ء جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار پھینک کر بڑی حکمت اوردانائی والا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے ہتھیار ڈال کر اپنے ساتھ اُن 93 ہزار دیگرسویلین اور فوجی افراد کو بھی غیر ضروری ہلاکت سے بچا لیا تھا جو مزاحمت کی صورت میںیقینا شہید کردیے جاتے۔ اُنکے اِس فیصلے سے کتنی ماؤں کی گود اُجڑنے سے بچ گئی۔ کتنی سہاگنیں جواں عمری میں بیوہ ہونے سے رہ گئیں اور کتنے بچے یتیم ہونے سے بچ گئے۔ ''جسکی لاٹھی اُسکی بھینس'' والا محاورہ کوئی یونہی اختراع نہیں کیا گیا ہے۔ یہ زمانے سے اِس دنیا میں رائج ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔
میاں صاحب کو بھی اِسی نظریہ اور اُصول کے تحت خود کو اِس کا پابند اور پاسدار بنانا ہوگا۔کاسہ لیسی اور دریوزہ گری سے نجات کو اپنا مطمع نظر بنانے کی بجائے خودکو عالمی طاقتوں کے تابع اور فرمانبردار بنانا ہوگا۔ سارے عالم اسلام میں آج تک کوئی بھی حکمراں ایسا باقی نہیں بچا جس نے اِن سامراجی اور استعماری قوتوں کے آگے کوئی مزاحمت دکھائی ہو۔ صدام حسین ، یاسرعرفات اور معمر قذافی سمیت سارے نام نہاد انقلابی فتح یابی کی سر خروئی پانے کی بجائے شکست و رسوائی کے اندھیروں میں جاگرے۔ افغانستان میں ملا عمرکی قیادت میں طالبان حکومت نے بھی ایسی ہی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے ساتھ بہت سوں کو بھی لے ڈوبے۔
حال ہی میں ہلاک ہونیوالے اخوان المسلمین کے منتخب صدر جناب محمد مرسی کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ بھی عہد کے فرعونوں سے ٹکرانے کے شوق میں نکلے تھے اور ایک سال کے اندر ہی پاش پاش ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے ہمارے یہاں ایسے حالات نہیں ہیں۔ یہاں عالمی قوتوں کے احکام پرعملدرآمد کے لیے ایک مکمل اتھارٹی پہلے سے قائم و دائم ہے جو گھی نکالنے کے لیے انگلیاں ٹیڑھی کرنے سے پیشتر ہی حالات کو کنٹرول کر لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صیہونی قوتوں کو آج تک ہمارے خلاف وہ تگ ودو اور پلاننگ نہیں کرنا پڑی ہے جو وہ دوسری قوموں کے خلاف کرتی آئی ہیں ۔
ہمیں کبھی پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلا کے اور کبھی بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ کا ہوا کھڑا کر کے وہ سارے مقاصد حاصل کر لیے جاتے ہیں جنکاحصول کسی غیرت مند انا پرست اور خود دار شخص کی حکومت میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی مفر نہیں کہ پاکستان آج سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ قومی افق پر مایوسی، خوف اور بے یقینی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پورا معاشرہ اجتماعی حماقتوں ، ملی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے۔کوئی منزل متعین اور مقرر نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے بحیثیت قوم ہم زمانہ قدیم کے ایک محتاج اور پسماندہ قوم کے طور پر مگن رہنے اور عہد رفتہ کی خوبصورت یاد میں زندگی گذارنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ طاقتوروں سے الجھنے کا نتیجہ گھر پھونک تماشے کی صورت میں ہی نکلاکرتا ہے۔ یہ ملک وقوم کی خود کفالت اور خود انحصاری کی باتیں افسانوی اورکتابی ہوا کرتی ہیں۔ حقیقت سے اِنکا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارا اصل مقصد حالات کو اُن قوتوں کی خواہشوں کے قالب میں ڈھالنا ہونا چاہیے، جس دن میاں صاحب نے یہ سبق اچھی طرح یاد کرلیا اُسی دن جیل سے رہا بھی ہو جائینگے اور شاید دوبارہ مسند اقتدار پر بھی برا جمان ہو جائینگے۔