شام جنسی جرائم میں ملوث افراد کو سزا دی جائے
شام میں خواتین، بچوں اور مردوں کو دہشت زدہ کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کی جا رہی ہے
ملک شام میں کیے جانے والے ہولناک جرائم کی داستانیں روزانہ بیرونی دنیا تک پہنچ رہی ہیں اور اب اقوامِ متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ خواتین، بچوں اور مردوں کو دہشت زدہ کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کی جا رہی ہے۔ یہ عمل گھر گھر تلاشی اور تفتیش کے دوران کیے جانے کے علاوہ ملک بھر میں چوکیوں، حراستی مراکز اور جیلوں میں کیا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انکوائری کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ماں کو اس کے بچوں کے قتل کی دھمکی دے کر اس کی عصمت دری کی گئی اور اسے اپنے اغواکاروں کے لیے کھانا پکانے اور دیگر امور کی انجام دہی پر مجبور کیا گیا۔ اس رپورٹ میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کی عصمت دری کی وجہ اس کے بھائی کا حکومت کو مطلوب ہونا تھا۔ یہ سب ظلم کی بہت ساری داستانوں میں سے چند مثالیں ہیں۔ متاثرین میں سے اکثر شرمندگی، خوف یا زندہ رہنے کی کوشش کے باعث منظرِ عام پر آ کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔
ہماری زندگیوں کے دوران پیش آنے والے تقریباً تمام تنازعات کے دوران ، چاہے وہ بوسنیا ہو یا روانڈا، جنسی تشدد اور جرائم ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول، سیاسی مخالفین کی تضحیک، نسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف گروپ کو سرنگوں یا علاقہ بدر کرنا، یا کسی برادری کو دہشت زدہ کر کے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عصمت دری کو جان بوجھ کر ایک عسکری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ تنازعات کے دوران خواتین کی عصمت دری کر کے انھیں ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار بنا کر یا انھیں انتہائی زخمی کر کے ماں بننے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیا گیا۔
عصمت دری کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ اس جرم کو آسانی سے چھپایا جا سکتا ہے اور یہ قبیح عمل خطرے سے دوچار لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ہم عوامی جمہوریہ کانگو کے دورے کے دوران ایک ایسی ماں سے ملے جس کی پانچ سالہ بیٹی اس کا نشانہ بنی۔ یہ بچی کم عمری کے باعث اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں آواز بلند کرنے کے قابل نہیں لیکن اس بچی اور دنیا بھر کے لاکھوں متاثرین کی تکالیف اس جرم کے خلاف کاروائی کو ضروری بناتے ہیں۔
بارودی سرنگوں اور کلسٹر بموں کے عالمی استعمال کو غیر قانونی قرار دینے یا غیر قانونی اسلحہ کی تجارت کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں معاہدے وضع کیے گئے ہیں۔ اس نوعیت کے معاہدے کبھی ناممکن تصور کیے جاتے تھے۔ اخلاقی ناپسندیدگی اور غم و غصہ اس کی شروعات کا باعث بنے اور عالمی بنیادوں پر ان عوامل کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوا۔ اب وقت ہے کہ یہی کارروائی جنگ کے دوران کی جانے والی عصمت دری اور جنسی تشدد کے خلاف بھی عمل میں لائی جائے۔ اس جرم کے ذمے دار کو سزا کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اور یہی یقین اس مسئلے کی جڑ ہے۔ صرف ایک ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے والے جنسی جرائم کے بعد اگر صرف چند واقعات قانون کی گرفت تک آئیں گے تو واقعی مجرم کو اس سنگین جرم کے بعد سزا کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔ شام میں ایک حراستی مرکز میں قیدیوں کی عصمت دری کے ذمے دار افراد سمجھتے ہیں کہ وہ ان جرائم کی سزا سے بچ نکلیں گے کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
اس کی ایک اور وجہ متاثرین کو طویل المدت تعاون کی فراہمی کا فقدان ہے جنھیں ساری زندگی مسترد کیے جانے، بیماریوں اور اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کے ذمے داروں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں اور صدموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم دونوں نے مشاہدہ کیا کہ جنسی تشدد کس طرح متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو تباہ کر دیتا ہے اور اسی لیے ہم اس معاملے پر مہم چلانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہم فوری کارروائی کی ضرورت کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے ہم دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنگی علاقوں سے جنسی جرائم کے خاتمے کو ایک اہم ترجیح سمجھتے ہوئے متحد ہو جائیں۔ ہم نے اپنی مہم کا آغاز پچھلے سال کیا تھا اور کئی ممالک نے جس طرح ہمارا ساتھ دیا ، ہم ان کے شکرگذار ہیں۔ ماہ اپریل کے دوران لندن میں جی ایٹ اور ہمارے دونوں ممالک نے اس مسئلے کے حل سے وابستگی کا تاریخی اظہار کیا۔
ماہ جون میں یونائیٹڈ نیشن سیکیورٹی کونسل نے اقوامِ متحدہ کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایک متفقہ قرارداد اپنائی۔ اقوامِ متحدہ کے پینتالیس ممبران نے تعاون میں شریک ہو کر اس قرارداد کی حمایت کا اظہار کیا جو کہ حالیہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔اگلے ہفتے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی ایک سال کے دوران سربراہانِ مملکت کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اس اجلاس کے دوران 24 ستمبر کو ایک نئی قرارداد 'Declaration of commitment to end sexual violence in conflict' پیش کی جائے گی۔ یہ قرارداد سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے جنسی جرائم اور مشرقِ وسطٰی، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کوئی درجن بھر ممالک اور وہ رہنما جنھوں نے اس مقصد میں ہمارا ساتھ دینے پر رضامندی کا جرات مندانہ اظہار کیا ہے، کے ساتھ مل کر تیار کی گئی ہے۔
اس قرارداد کے ذریعے دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلے پر اپنے کردار کا اظہار کرنے کا موقع ملے گا۔اس قرارداد کی توثیق کرنے والے ممالک پہلی دفعہ متفق ہونگے کہ جنگی علاقوں میں سنگین نوعیت کے جنسی جرائم جنیوا کنوینشن اور اس کے اولین پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشتبہ افراد دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں پکڑے جائینگے۔اس قرارداد میں ایک عہد یہ ہے کہ جنسی جرائم کے ذمے داروں کو امن معاہدوں کے دوران عام معافی نہیں دی جائے گی، تا کہ ان جرائم پر پردہ نہ ڈالا جا سکے اور عسکری قائدین جان لیں کہ وہ احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔ یہ قرارداد 2014 ء کے وسط تک ایک نئے بین الاقوامی پروٹوکول کی یقین دہانی کرائے گی: یقینی بنایا جائے کہ فراہم کردہ ثبوت عدالت میں کارآمد ہوں اور زیادہ سے زیادہ متاثرین کو انصاف مل سکے، اور دورانِ تفتیش متنازعہ علاقوں میں عصمت دری اور دیگر جنسی جرائم کے متاثرین کی سلامتی اور وقار کی یقین دہانی کی جائے۔
قرارداد میں خواتین کی شرکت، مہاجرین کا تحفظ، اور پولیس و مسلح قومی افواج کی تربیت کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس قرارداد پر دستخط کرنے والے، جنسی جرائم سے تحفظ کو اپنے تمام تنازعات اور انسانی خدمات سے بالاتر رکھنے کا عہد کرینگے، اور اس تشدد کے شکار ممالک کو ان جرائم پر قابو پانے کی صلاحیتوں کی مضبوطی کے لیے بھی مدد فراہم کرینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کے ہر رکن کو ان اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے۔ ہم پُر امید ہیں کہ عالمی حکومتوں میں سے اکثریت اس معاہدے پر دستخط کر دے گی، اور پھر ہم اپنے ان عزائم پر عمل کرینگے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو یہ عصمت دری اور جنسی جرائم کے لیے بین الاقوامی رویوں میں ایک تبدیلی کا سبب بن جائے گا اور مجرم کے لیے سزا سے بے خوفی اور چھٹکارے کے احساس کے خاتمے کا آغاز ہو گا۔ دنیا کو ایسی اور بھی کئی ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ لیکن لاکھوں خواتین، مردوں اور بچوں کی عصمت دری اور بدسلوکی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔
(اس مضمون کے مصنف ولیم ہیگ، انجلینا جولی مشترکہ طور پر ہیں)
اقوامِ متحدہ کے انکوائری کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ماں کو اس کے بچوں کے قتل کی دھمکی دے کر اس کی عصمت دری کی گئی اور اسے اپنے اغواکاروں کے لیے کھانا پکانے اور دیگر امور کی انجام دہی پر مجبور کیا گیا۔ اس رپورٹ میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کی عصمت دری کی وجہ اس کے بھائی کا حکومت کو مطلوب ہونا تھا۔ یہ سب ظلم کی بہت ساری داستانوں میں سے چند مثالیں ہیں۔ متاثرین میں سے اکثر شرمندگی، خوف یا زندہ رہنے کی کوشش کے باعث منظرِ عام پر آ کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔
ہماری زندگیوں کے دوران پیش آنے والے تقریباً تمام تنازعات کے دوران ، چاہے وہ بوسنیا ہو یا روانڈا، جنسی تشدد اور جرائم ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول، سیاسی مخالفین کی تضحیک، نسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف گروپ کو سرنگوں یا علاقہ بدر کرنا، یا کسی برادری کو دہشت زدہ کر کے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عصمت دری کو جان بوجھ کر ایک عسکری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ تنازعات کے دوران خواتین کی عصمت دری کر کے انھیں ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار بنا کر یا انھیں انتہائی زخمی کر کے ماں بننے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیا گیا۔
عصمت دری کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ اس جرم کو آسانی سے چھپایا جا سکتا ہے اور یہ قبیح عمل خطرے سے دوچار لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ہم عوامی جمہوریہ کانگو کے دورے کے دوران ایک ایسی ماں سے ملے جس کی پانچ سالہ بیٹی اس کا نشانہ بنی۔ یہ بچی کم عمری کے باعث اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں آواز بلند کرنے کے قابل نہیں لیکن اس بچی اور دنیا بھر کے لاکھوں متاثرین کی تکالیف اس جرم کے خلاف کاروائی کو ضروری بناتے ہیں۔
بارودی سرنگوں اور کلسٹر بموں کے عالمی استعمال کو غیر قانونی قرار دینے یا غیر قانونی اسلحہ کی تجارت کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں معاہدے وضع کیے گئے ہیں۔ اس نوعیت کے معاہدے کبھی ناممکن تصور کیے جاتے تھے۔ اخلاقی ناپسندیدگی اور غم و غصہ اس کی شروعات کا باعث بنے اور عالمی بنیادوں پر ان عوامل کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوا۔ اب وقت ہے کہ یہی کارروائی جنگ کے دوران کی جانے والی عصمت دری اور جنسی تشدد کے خلاف بھی عمل میں لائی جائے۔ اس جرم کے ذمے دار کو سزا کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اور یہی یقین اس مسئلے کی جڑ ہے۔ صرف ایک ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے والے جنسی جرائم کے بعد اگر صرف چند واقعات قانون کی گرفت تک آئیں گے تو واقعی مجرم کو اس سنگین جرم کے بعد سزا کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔ شام میں ایک حراستی مرکز میں قیدیوں کی عصمت دری کے ذمے دار افراد سمجھتے ہیں کہ وہ ان جرائم کی سزا سے بچ نکلیں گے کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
اس کی ایک اور وجہ متاثرین کو طویل المدت تعاون کی فراہمی کا فقدان ہے جنھیں ساری زندگی مسترد کیے جانے، بیماریوں اور اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کے ذمے داروں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں اور صدموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم دونوں نے مشاہدہ کیا کہ جنسی تشدد کس طرح متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو تباہ کر دیتا ہے اور اسی لیے ہم اس معاملے پر مہم چلانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہم فوری کارروائی کی ضرورت کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے ہم دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنگی علاقوں سے جنسی جرائم کے خاتمے کو ایک اہم ترجیح سمجھتے ہوئے متحد ہو جائیں۔ ہم نے اپنی مہم کا آغاز پچھلے سال کیا تھا اور کئی ممالک نے جس طرح ہمارا ساتھ دیا ، ہم ان کے شکرگذار ہیں۔ ماہ اپریل کے دوران لندن میں جی ایٹ اور ہمارے دونوں ممالک نے اس مسئلے کے حل سے وابستگی کا تاریخی اظہار کیا۔
ماہ جون میں یونائیٹڈ نیشن سیکیورٹی کونسل نے اقوامِ متحدہ کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایک متفقہ قرارداد اپنائی۔ اقوامِ متحدہ کے پینتالیس ممبران نے تعاون میں شریک ہو کر اس قرارداد کی حمایت کا اظہار کیا جو کہ حالیہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔اگلے ہفتے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی ایک سال کے دوران سربراہانِ مملکت کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اس اجلاس کے دوران 24 ستمبر کو ایک نئی قرارداد 'Declaration of commitment to end sexual violence in conflict' پیش کی جائے گی۔ یہ قرارداد سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے جنسی جرائم اور مشرقِ وسطٰی، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کوئی درجن بھر ممالک اور وہ رہنما جنھوں نے اس مقصد میں ہمارا ساتھ دینے پر رضامندی کا جرات مندانہ اظہار کیا ہے، کے ساتھ مل کر تیار کی گئی ہے۔
اس قرارداد کے ذریعے دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلے پر اپنے کردار کا اظہار کرنے کا موقع ملے گا۔اس قرارداد کی توثیق کرنے والے ممالک پہلی دفعہ متفق ہونگے کہ جنگی علاقوں میں سنگین نوعیت کے جنسی جرائم جنیوا کنوینشن اور اس کے اولین پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشتبہ افراد دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں پکڑے جائینگے۔اس قرارداد میں ایک عہد یہ ہے کہ جنسی جرائم کے ذمے داروں کو امن معاہدوں کے دوران عام معافی نہیں دی جائے گی، تا کہ ان جرائم پر پردہ نہ ڈالا جا سکے اور عسکری قائدین جان لیں کہ وہ احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔ یہ قرارداد 2014 ء کے وسط تک ایک نئے بین الاقوامی پروٹوکول کی یقین دہانی کرائے گی: یقینی بنایا جائے کہ فراہم کردہ ثبوت عدالت میں کارآمد ہوں اور زیادہ سے زیادہ متاثرین کو انصاف مل سکے، اور دورانِ تفتیش متنازعہ علاقوں میں عصمت دری اور دیگر جنسی جرائم کے متاثرین کی سلامتی اور وقار کی یقین دہانی کی جائے۔
قرارداد میں خواتین کی شرکت، مہاجرین کا تحفظ، اور پولیس و مسلح قومی افواج کی تربیت کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس قرارداد پر دستخط کرنے والے، جنسی جرائم سے تحفظ کو اپنے تمام تنازعات اور انسانی خدمات سے بالاتر رکھنے کا عہد کرینگے، اور اس تشدد کے شکار ممالک کو ان جرائم پر قابو پانے کی صلاحیتوں کی مضبوطی کے لیے بھی مدد فراہم کرینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کے ہر رکن کو ان اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے۔ ہم پُر امید ہیں کہ عالمی حکومتوں میں سے اکثریت اس معاہدے پر دستخط کر دے گی، اور پھر ہم اپنے ان عزائم پر عمل کرینگے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو یہ عصمت دری اور جنسی جرائم کے لیے بین الاقوامی رویوں میں ایک تبدیلی کا سبب بن جائے گا اور مجرم کے لیے سزا سے بے خوفی اور چھٹکارے کے احساس کے خاتمے کا آغاز ہو گا۔ دنیا کو ایسی اور بھی کئی ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ لیکن لاکھوں خواتین، مردوں اور بچوں کی عصمت دری اور بدسلوکی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔
(اس مضمون کے مصنف ولیم ہیگ، انجلینا جولی مشترکہ طور پر ہیں)