ٹریفک یا Terrific

میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ سڑک پر نظر آنے والے نصف سے زیادہ آٹو موبائل ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا


Hameed Ahmed Sethi September 21, 2013
[email protected]

میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن اس شخص نے جو ٹریفک کے پچھلے اشارے سے میری تاک میں تھا اپنی گاڑی میرے برابر لا کر مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ کار میں سے اتر کر میرے پاس آیا اور پھر جیب میں سے کچھ نکالنے لگا تو میرا پہلا اندازہ یہی تھا کہ شاید مجھے اپنے بٹوے اور موبائل فون سے آج ہاتھ دھونے پڑیں گے لیکن اس نے اپنی جیب میں سے موبائل فون نکالا اور بولا میں آپ کی دلچسپی کی چند تصاویر دکھانا چاہتا ہوں، اس تصویر میں آپ کو پانچ ٹریفک وارڈن آپس میں ہنسی مخول کرتے نظر آئیں گے، یہ دوسری تصویر دیکھیے لبرٹی چوک لاہور میں جوس کی ایک دکان پر تین وارڈن جوس پی رہے ہیں۔ اس شخص نے تیسری تصویر نکالی تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ میں خود بھی ایسے کئی مناظر کا شاہد ہوں لیکن میں اس موضوع پر کچھ نہیں لکھوں گا۔ مجھے اب تک اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مجھے پہچان کر میری طرف آیا تھا۔

بات ٹریفک کنٹرول کرنے کے ذمے دار افسروں سے چلی ہے تو بڑے شہروں کے اسکولوں اور کالجوں کی صبح سات بجے سے 8 بجے تک اور بعد دوپہر 2 بجے سے 3 بجے کے دوران بچوں کو لانے لیجانے والی ٹرانسپورٹ یعنی موٹر سائیکلوں، رکشوں، ویگنوں، بسوں اور کاروں کی منظر کشی ہو جائے، ان دو اوقات میں خصوصاً 2 سے 3 بجے بعد دوپہر اسکولوں اور کالجوں کے گرد و نواح میں حشر کا منظر ہوتا ہے۔ نفسانفسی کا عالم ہوتا ہے، مذکورہ ٹرانسپورٹ وہیکلز نے تعلیمی اداروں اور نزدیکی رہائشی علاقے کا اس طرح گھیرائو کیا ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گاڑیاں ہیلی کاپٹروں سے اس مہارت سے وہاں اتاری گئی ہیں کوئی پیدل چلنے والا بھی ان کے درمیان میں نکل کر باہر نہیں آ سکتا اور گاڑیوں کے قریباً ایک گھنٹہ تک بجتے قسم قسم کے ہارنوں نے قیامت صغریٰ بپا کی ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنے لاڈلے یا لاڈلی کو سب سے پہلے اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے بعد آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ کاش ان کی گاڑی اڑن کھٹولہ بن جائے کیونکہ اس کے چارو طرف دوسروں کی گاڑیاں پیک ہوئی ہوتی ہیں۔

کبھی کبھی آپ نے ٹریفک سگنل سرخ پا کر رُکے ہوئے یہ منظر بھی دیکھا ہو گا کہ ایک پولیس وین رستہ بنا کر تمام رکی ہوئی گاڑیوں کے بیچ میں سے اشارہ توڑ کر بڑے آرام سے گزر جاتی ہے۔ اس کی رفتار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ٹریفک کی خلاف ورزی کسی مفرور ملزم کا پیچھا کرتے ہوئے نہیں کی بلکہ سرخ اشارے پر کھڑے لوگوں کو پیغام دینے کے لیے کی ہے کہ قانون کی اطاعت صرف عوام پر فرض کی گئی ہے۔ ایسے ہی ایک موقعے پر مدت ہوئی سرخ سگنل پر رُکے ایک اسسٹنٹ کمشنر ٹریفک نے اس پولیس وین کا پیچھا کیا تھا اور اس وین کے ڈرائیور کو معطل کروانے کے علاوہ جرمانہ بھی کیا تھا۔ اب اگر ایسا واقع بار بار ہوتا ہے تو وہ دراصل قانون کا احترام کرنے والوں کو لاقانونیت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ترغیب ان دنوں چھوٹے اہلکاروں کی بجائے صوبائی اور مرکزی حکومت کے بہت اوپر کے لیول کے حکمران دیتے ہیں۔ پروٹوکول کے نام پر شہریوں کو خلاف قانون سڑکوں پر روکے رکھنا یا اچانک ٹریفک کو Divert کر دینا شہری حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ ٹریفک رولز کی بے حرمتی کہلائے گی۔

میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ سڑک پر نظر آنے والے نصف سے زیادہ آٹو موبائل ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا اور جن کے پاس ہوتا ہے ان کی اکثریت کا ڈرائیونگ ٹیسٹ نہیں لیا گیا ہوتا۔ موجودہ ٹریفک کو دیکھتے ہوئے ضلعی سطح پر ڈرائیونگ ٹریننگ اسکولز کی اشد ضرورت ہے۔ ڈرائیونگ کی اہلیت جانچنے کے لیے صرف ڈرائیونگ کر لینا کافی نہیں۔ اس میں مہارت کے علاوہ اخلاقیات کا بھی کافی دخل ہے۔ راستہ لینے کا حق اور راستہ روکنے کا جرم دو ایسے اصول ہیں جن کے بارے میں اکثریت لا علم ہے۔ اور پھر سڑکوں پر بے لگام خطرناک ڈرائیونگ دیکھ کر تو لوگ کلمہ طیبہ پڑھ کر چلتے ہیں۔

پرانے دور میں سائیکل پر ڈبل سواری جرم تھا اب موٹر سائیکل پر پانچ سواریاں بٹھانے والے کو ٹریفک وارڈن یا ڈیوٹی اہلکار دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے۔ اب موٹر سائیکل اور رکشہ لوڈر کا کام بھی کرتا ہے۔ اگر یہ مجبوری سمجھ کر درگزر کر دیا جائے تو پھر ٹریفک رولز کی بے حرمتی ہوتے چلے جانے پر ان رولز کو قائم رکھ کر انھیں مذاق کیوں بنایا جائے۔

ڈرائیونگ لائسنس کی عدم موجودگی سے ڈرائیور کو دوسرے جرائم کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ دوسری طرف گورنمنٹ ریونیو سے محروم ہوتی ہے۔

بے تحاشہ ٹریفک کو ریگولیٹ کرنے کا ایک حل پبلک ٹرانسپورٹ ہے اگر آرام دہ تیز رفتار اور وافر پبلک ٹرانسپورٹ ہو تو موجودہ ون مین ون موٹر کم ہونے سے آلودگی رش اور پٹرول کی بچت تو ہو گی ہی عوام کو سستی ٹرانسپورٹ ملنے سے ان کے اخراجات میں بھی کمی ہو گی لیکن اس کے لیے ماہر ڈرائیور با اعتماد پبلک ٹرانسپورٹ اور عوام کی تربیت لازمی امور ہیں۔ بات دور نکل جاتی ہے، وہ یہ کہ آبادی پر کنٹرول اور بڑے شہروں کی طرف آبادی کا رجحان رکنے کے لیے دیہات میں ذرائع آمدنی یعنی روزگار کی فراہمی بنیادی عناصر ہیں اور یہ ایک ایسی حکومت ہی کر سکتی ہے جو عزم و ہمت خلوص اور وسائل کی صحیح تقسیم کا شعور اور ویژن بھی رکھتی ہو۔

یہ لاقانونیت ''بدنظمی'' بد انتظامی، ٹیکس دہندگان کی چوری حکومتی اداروں میں لوٹ مار اور کرپشن، انرجی کا فقدان، دہشت گردی سب اپنی جگہ موجود ہیں شاید اسی لیے ٹریفک کی بدنظمی پر خاطر خواہ توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اس مسائلستان میں جہاں نفسانفسی کا عالم ہو کبھی تو ٹریفک کا نظام درست کرنے پر توجہ کی باری آئے گی۔ مجھے یہاں باہر سے آئے ہوئے ایک مہمان کو اپنی کار میں چند روز شہر میں گھمانے کا موقع ملا، آخری دن گاڑی سے اتر کر اس نے بوقت رخصت کہا کہ بہت کچھ دیکھا لیکن آپ کے ہاں کی Traffic کو Terrific کا نام دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں