کس نے ہنسی چھین لی…
میرے سامنے ڈالی پر ایک ننھی کلی پتوں میں سرچھپائے سو رہی ہے،شاید اپنے کھلنے کے انتظار میں
میرے سامنے ڈالی پر ایک ننھی کلی پتوں میں سرچھپائے سو رہی ہے،شاید اپنے کھلنے کے انتظار میں، مگر اب اس کی پرنور آنکھوں میں کوئی خوبصورت خواب رقص نہیں کرے گا کہ وہ تو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا چکی ہے یوں بھی اب میرے شہروں کی سفاک ہوائیں نوخیز پھولوں کی تاک میں ہوا کے کسی جنونی جھونکے کی طرح منڈلاتی پھررہی ہیں کیا سورج اندھا ہوگیا یا چاند سے اس کی چاندنی چھن گئی ہے یوں محسوس ہوتا ہے گویا:
ہے گھروں میں قبر جیسی وحشتوں کا سلسلہ
ہیں مکیں چپ چاپ اور درودیوار ہیں سہمے ہوئے
یہ انجانا خوف ہر اس گھر میں آسیب بن کر چمٹ رہا ہے جہاں ننھی معصوم بچیاں ہیں کہ سنبل کے ساتھ درندگی نے تو ماؤں کا کلیجہ چھلنی کردیا ہے، اب شاید اس بات پر یقین کرنا پڑے گا کہ درندوں نے انسانوں کا پیراہن بدل لیا ہے، اورگزاری نہ جانے والی زندگی گزاری جارہی ہے کہ جتنی سانسیں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہیں وہی ہمارا ایمان ہیں مگر موت اس زندگی سے زیادہ مہربان ہے جو لمحہ لمحہ اکھڑتی ہوئی سانسوں کی طرح ہمارے وجود کو جھلسا رہی ہے۔
کون سوچ سکتا تھا کہ کبھی بچے کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے خود ہی ان بھیڑیوں کے شکار ہوجائیں گے جسے اشرف المخلوقات کا درجہ ملا ہے۔
وہ بچی آج تک یہ سمجھ ہی نہیں سکی ہوگی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاںاگر وہ ایک صحت مند زندگی گزار کر بڑی ہوئی اور اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوئی تو شاید وہ آئینے سے بھی اپنے خدوخال مٹانے کی کوشش کرے گی یا پھر آئینے پر سیاہ مارکر سے اپنے خدوخال دوبارہ بنائے گی تاکہ ایک نئی سنبل بن سکے۔ آپ بھارت کو لاکھ برا بھلا کہیں مگر جب بریکنگ نیوز سے یہ اطلاع ملی کہ وہاں بھی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے پانچ ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی ہے تو بھارت کی حکومت اور عدلیہ کو بے اختیار سلام کرنے کو جی چاہا کہ اس غیر اسلامی ملک میں انصاف ہر گھر کی دہلیز پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے عدلیہ سرخرو ہے اور حکومت مطمئن کہ وہاں مجرموں کو رہا کروانے کے لیے نہ کسی وڈیرے کا وجود ہے نہ کسی جاگیردار یا سردار کا کہ بھارت میں یہ نظام ہی کب کا ختم ہوچکا ہے جب کہ یہاں ان دولت کے نشے میں چور حیوانوں کے چنگل میں بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کہیں کسی کی فصل کاٹنے پر اس پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں تو کہیں منہ کالا کرکے گدھے کی سیر کروائی جاتی ہے جہاں پسند کی شادی گناہ سے بدتر ہے اور اس کا ازالہ صرف سزائے موت ہے ان کی اونچی اونچی حویلیوں میں جنگل سے بدتر قانون ہے مگر اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج نہ عزتیں محفوظ ہیں نہ جان و مال، یوں لگتا ہے کہ ہم ایسے جہاز میں سوار ہیں جسے آگ لگ رہی ہے اور پیرا شوٹ ٹوٹ گئے ہیں ایسے میں مجھے عارف کی ایک نظم یاد آرہی ہے:
کیسے شام سویرے تھے
ایک جگہ سب رہتے تھے
گلیوں اور چوراہوں پر
سانجھے سکھ کے ڈیرے تھے
گھر سے باہر شام ڈھلے
مل کر بیٹھا کرتے تھے
بازاروں میں رونق تھی
تہواروں کے میلے تھے
خوف و ہراس کی وہ فضا ہے کہ گھر کے آنگنوں میں لوگ سونا بھول گئے ہیں کہ جانے کہاں سے انسانی لہو کی تلاش میں کوئی آوارہ گولی جسموں کے آر پار ہوجائے سو جب عدم تحفظ کا یہ عالم ہو تو ایسے میں کس سے فریاد کریں کہ منصف وقت خود شکوہ بلب ہے کہ اس کے فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا ہے میڈیا کا اعزاز ہے یا کمال کہ معاشرے کے وہ پہلو جو اب سے پہلے ایک سربستہ راز رہے منکشف ہوتے جارہے ہیں بلاشبہ اس سے قوت بصارت کو زک پہنچتی ہے مگر حقائق سے روگردانی کون کرسکتا ہے۔ مجھے تو ایک سفاک شخص کی گود میں بیٹھی اس معصوم بچی کا خیال آتا ہے جسے ایک پاکستانی درندہ منڈیر بٹھاکر گیا اور دوسرا نیم بے ہوشی کے عالم میں اسے پھینک گیا اس تمام عرصے میں اس پر کیا گزری اس کی چیخیں اس کی فریادیں اس کا زخم سے رستا ہوا خون، کیا اس لمحے آسمان نہ لرز اٹھا ہوگا، کیا زمین میں شگاف نہ پڑا ہوگا، کیا انسانیت نے برہنہ پا ماتم نہ کیا ہوگا یہ کون سا سفاک موسم تھا جو ایک نوخیز کلی کی حفاظت بھی نہ کرسکا، میرا تو خیال ہے کہ عین ان ہی لمحوں میں جب اس کے ساتھ سفاکانہ سلوک کیا جارہا ہوگا اس کے کھلونے تمام گڑیاں رو پڑی ہوں گی اور پھر شکر بھی ادا کر رہی ہوں گی کہ اللہ نے اس کے جسموں میں جان نہیں ڈالی ورنہ وہ بھی سنبل کی طرح ان خونخوار درندوں کی ہوس کا شکار ہوجاتیں۔
سنبل کی تصویر ایک عبرتناک اختتام لے کر معاشرے کے کینویس پر نمودار ہوئی ہے جس کے اردگرد بے شمار سوالیہ نشان ہیں مگر جواب کہیں نظر نہیں آتا۔ مجرموں کو ''کیفر کردار'' تک پہنچانے کا نعرہ محض رسمی ہے، ملزمان اگر پکڑے بھی گئے تو انھیں موت کی سزا ہوگی نہ سر عام کوڑے پڑیں گے چند دن تک اخباری صفحات اور ٹی وی کی اسکرین پر سنبل کی کہانی دہرائی جائے گی اور پھر قصہ پارینہ بن جائے گی۔
اب صحنوں میں، گلیوں میں باغوں میں بچیاں محفوظ نہیں رہیں سو ماؤں کو چاہیے کہ سنبل کا قصہ خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہوجائے وہ اپنی بچیوں کو اپنی نظر میں رکھیں اور یہ بات طے کرلیں کہ جس سرزمین پر وہ رہ رہی ہیں وہاں سر سے ان کی ردا کھینچی جارہی ہے پیروں سے زمین، ایوانوں میں قراردادیں پاس ہوں یا انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کریں مگر اس ملک کا قانون نہیں بدلے گا، مجرموں کی پشت پناہی ہوگی اور فاتح وہی ٹھہرایا جائے گا جس کے پاس مال و زر ہوگا، جو اپنی اولاد کے قاتلوں کو بھی معاف کردے گا اور قاتل اپنی رہائی پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کسی پراڈو یا لینڈ کروزر میں کوئی دوسرا جرم کرنے کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
یہاں کسی معصوم بچی کی زندگی کو تاراج کرنے والے کو بھارت کے قانون کے مطابق پھانسی نہیں ہوگی کیونکہ جب جرم معاف ہوتا ہے تو پھانسی بھی معاف ہوجاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہر کی اداسی دلوں میں یوں اترتی ہے کہ پھول سے چہروں پہ بھی اب ہنسی ملتی نہیں۔
ہے گھروں میں قبر جیسی وحشتوں کا سلسلہ
ہیں مکیں چپ چاپ اور درودیوار ہیں سہمے ہوئے
یہ انجانا خوف ہر اس گھر میں آسیب بن کر چمٹ رہا ہے جہاں ننھی معصوم بچیاں ہیں کہ سنبل کے ساتھ درندگی نے تو ماؤں کا کلیجہ چھلنی کردیا ہے، اب شاید اس بات پر یقین کرنا پڑے گا کہ درندوں نے انسانوں کا پیراہن بدل لیا ہے، اورگزاری نہ جانے والی زندگی گزاری جارہی ہے کہ جتنی سانسیں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہیں وہی ہمارا ایمان ہیں مگر موت اس زندگی سے زیادہ مہربان ہے جو لمحہ لمحہ اکھڑتی ہوئی سانسوں کی طرح ہمارے وجود کو جھلسا رہی ہے۔
کون سوچ سکتا تھا کہ کبھی بچے کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے خود ہی ان بھیڑیوں کے شکار ہوجائیں گے جسے اشرف المخلوقات کا درجہ ملا ہے۔
وہ بچی آج تک یہ سمجھ ہی نہیں سکی ہوگی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاںاگر وہ ایک صحت مند زندگی گزار کر بڑی ہوئی اور اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوئی تو شاید وہ آئینے سے بھی اپنے خدوخال مٹانے کی کوشش کرے گی یا پھر آئینے پر سیاہ مارکر سے اپنے خدوخال دوبارہ بنائے گی تاکہ ایک نئی سنبل بن سکے۔ آپ بھارت کو لاکھ برا بھلا کہیں مگر جب بریکنگ نیوز سے یہ اطلاع ملی کہ وہاں بھی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے پانچ ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی ہے تو بھارت کی حکومت اور عدلیہ کو بے اختیار سلام کرنے کو جی چاہا کہ اس غیر اسلامی ملک میں انصاف ہر گھر کی دہلیز پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے عدلیہ سرخرو ہے اور حکومت مطمئن کہ وہاں مجرموں کو رہا کروانے کے لیے نہ کسی وڈیرے کا وجود ہے نہ کسی جاگیردار یا سردار کا کہ بھارت میں یہ نظام ہی کب کا ختم ہوچکا ہے جب کہ یہاں ان دولت کے نشے میں چور حیوانوں کے چنگل میں بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کہیں کسی کی فصل کاٹنے پر اس پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں تو کہیں منہ کالا کرکے گدھے کی سیر کروائی جاتی ہے جہاں پسند کی شادی گناہ سے بدتر ہے اور اس کا ازالہ صرف سزائے موت ہے ان کی اونچی اونچی حویلیوں میں جنگل سے بدتر قانون ہے مگر اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج نہ عزتیں محفوظ ہیں نہ جان و مال، یوں لگتا ہے کہ ہم ایسے جہاز میں سوار ہیں جسے آگ لگ رہی ہے اور پیرا شوٹ ٹوٹ گئے ہیں ایسے میں مجھے عارف کی ایک نظم یاد آرہی ہے:
کیسے شام سویرے تھے
ایک جگہ سب رہتے تھے
گلیوں اور چوراہوں پر
سانجھے سکھ کے ڈیرے تھے
گھر سے باہر شام ڈھلے
مل کر بیٹھا کرتے تھے
بازاروں میں رونق تھی
تہواروں کے میلے تھے
خوف و ہراس کی وہ فضا ہے کہ گھر کے آنگنوں میں لوگ سونا بھول گئے ہیں کہ جانے کہاں سے انسانی لہو کی تلاش میں کوئی آوارہ گولی جسموں کے آر پار ہوجائے سو جب عدم تحفظ کا یہ عالم ہو تو ایسے میں کس سے فریاد کریں کہ منصف وقت خود شکوہ بلب ہے کہ اس کے فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا ہے میڈیا کا اعزاز ہے یا کمال کہ معاشرے کے وہ پہلو جو اب سے پہلے ایک سربستہ راز رہے منکشف ہوتے جارہے ہیں بلاشبہ اس سے قوت بصارت کو زک پہنچتی ہے مگر حقائق سے روگردانی کون کرسکتا ہے۔ مجھے تو ایک سفاک شخص کی گود میں بیٹھی اس معصوم بچی کا خیال آتا ہے جسے ایک پاکستانی درندہ منڈیر بٹھاکر گیا اور دوسرا نیم بے ہوشی کے عالم میں اسے پھینک گیا اس تمام عرصے میں اس پر کیا گزری اس کی چیخیں اس کی فریادیں اس کا زخم سے رستا ہوا خون، کیا اس لمحے آسمان نہ لرز اٹھا ہوگا، کیا زمین میں شگاف نہ پڑا ہوگا، کیا انسانیت نے برہنہ پا ماتم نہ کیا ہوگا یہ کون سا سفاک موسم تھا جو ایک نوخیز کلی کی حفاظت بھی نہ کرسکا، میرا تو خیال ہے کہ عین ان ہی لمحوں میں جب اس کے ساتھ سفاکانہ سلوک کیا جارہا ہوگا اس کے کھلونے تمام گڑیاں رو پڑی ہوں گی اور پھر شکر بھی ادا کر رہی ہوں گی کہ اللہ نے اس کے جسموں میں جان نہیں ڈالی ورنہ وہ بھی سنبل کی طرح ان خونخوار درندوں کی ہوس کا شکار ہوجاتیں۔
سنبل کی تصویر ایک عبرتناک اختتام لے کر معاشرے کے کینویس پر نمودار ہوئی ہے جس کے اردگرد بے شمار سوالیہ نشان ہیں مگر جواب کہیں نظر نہیں آتا۔ مجرموں کو ''کیفر کردار'' تک پہنچانے کا نعرہ محض رسمی ہے، ملزمان اگر پکڑے بھی گئے تو انھیں موت کی سزا ہوگی نہ سر عام کوڑے پڑیں گے چند دن تک اخباری صفحات اور ٹی وی کی اسکرین پر سنبل کی کہانی دہرائی جائے گی اور پھر قصہ پارینہ بن جائے گی۔
اب صحنوں میں، گلیوں میں باغوں میں بچیاں محفوظ نہیں رہیں سو ماؤں کو چاہیے کہ سنبل کا قصہ خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہوجائے وہ اپنی بچیوں کو اپنی نظر میں رکھیں اور یہ بات طے کرلیں کہ جس سرزمین پر وہ رہ رہی ہیں وہاں سر سے ان کی ردا کھینچی جارہی ہے پیروں سے زمین، ایوانوں میں قراردادیں پاس ہوں یا انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کریں مگر اس ملک کا قانون نہیں بدلے گا، مجرموں کی پشت پناہی ہوگی اور فاتح وہی ٹھہرایا جائے گا جس کے پاس مال و زر ہوگا، جو اپنی اولاد کے قاتلوں کو بھی معاف کردے گا اور قاتل اپنی رہائی پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کسی پراڈو یا لینڈ کروزر میں کوئی دوسرا جرم کرنے کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
یہاں کسی معصوم بچی کی زندگی کو تاراج کرنے والے کو بھارت کے قانون کے مطابق پھانسی نہیں ہوگی کیونکہ جب جرم معاف ہوتا ہے تو پھانسی بھی معاف ہوجاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہر کی اداسی دلوں میں یوں اترتی ہے کہ پھول سے چہروں پہ بھی اب ہنسی ملتی نہیں۔