بُک شیلف

سینیر قلم کار، رئیس فاطمہ کی کہانیوں کے تین مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔


Iqbal Khursheed September 21, 2013
کالم نگاری اور افسانہ نویسی رئیس فاطمہ کے بنیادی حوالے ہیں۔فوٹو : فائل

بے چہرہ لوگ (افسانے)
افسانہ نگار: رئیس فاطمہ
ناشر: نوبہار پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:191
قیمت:300



سینیر قلم کار، رئیس فاطمہ علمی و ادبی حلقوں میں جانی مانی شخصیت ہیں۔ کالم نگاری اور افسانہ نویسی اُن کے بنیادی حوالے ہیں۔ اُن کی کہانیوں کے تین مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔ ناولٹ اور سفرنامے اِس کے علاوہ ہیں۔ بچوں کے لیے بھی لکھا۔ تنقیدی شعور بھی رکھتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے افسانوں پر اُن کی کتاب کو قارئین میں بہت پسند کیا گیا۔ اب ان کا نیا افسانوی مجموعہ ''بے چہرہ لوگ'' لوگ شایع ہوا ہے، جو نو افسانوں پر مشتمل ہے۔

رئیس فاطمہ ماجرا بیان کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ اُن کی زبان شستہ، جملے چست اور مناظر حقیقی ہیں۔ کہیں کوئی ابہام، کوئی پیچیدگی جنم نہیں لیتی۔ اُن کا بنیادی موضوع عورت اور سماج کا رشتہ ہے، جس کی وہ مہارت سے منظرکشی کرتی ہیں۔ اُن کے کرداروں کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔ معروف ادیب اور کالم نویس، حمید اختر کے بہ قول، پڑھنے والے کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی زندگی کی تصویر دیکھ رہا ہے کہ اُن کے کردار، ان کی کہانیاں حقیقی زندگی کے گرد گھومتی ہیں۔ ہاں، کہیں کہیں وہ اشاروں میں بھی بات کرتی ہیں، جس کی بڑی مثال اُن کا افسانہ ''بے چہرہ لوگ'' ہے، جو مجموعے میں شامل مضبوط ترین افسانہ ہے۔

کتاب کا پہلا حصہ اُن کے افسانوں، جب کہ دوسرا اہل قلم کی، رئیس فاطمہ کے فن سے متعلق آرا پر مشتمل ہے، جس میں گیارہ مضامین شامل ہیں۔ کتاب اشاعت کے معیارات پر پوری اترتی ہے۔

بے طلب قرضِ دوستاں (نظمیں)
شاعر: عمر قاضی
ناشر: سندھ بکس
صفحات:191
قیمت:200 روپے



زیر تبصرہ کتاب عمر قاضی کی 41 نظمیں پر مشتمل ہے۔ غالباً یہ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ ماضی میں وہ کالم اور کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ ترجمے کا بھی تجربہ کیا۔ کتاب کا انتساب، معروف کالم نگار، اعجاز منگی کے نام ہے۔ اندرونی صفحات پر عمر قاضی کے فن سے متعلق اعجاز منگی، مناہل اور محمود عالم خالد کی آرا شامل ہیں۔ ایک مضمون شاعر کے قلم سے نکلا ہے۔

اعجاز منگی کے نزدیک، کتاب میں موجود نظمیں، محبت کی نظمیں ہیں۔ مناہل صاحبہ نے اِس مجموعے کو اردو کے شعری ادب میں گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔ محمود عالم خالد کے بہ قول، قاضی عمر کی شاعری جدید عہد کے جذبوں کی عکاسی کرتی ہے، اور وہ جدید شاعری کے کام یاب شاعر ہیں۔ مصنف کے اپنے الفاظ میں:''بے طلب قرضِ دوستاں اپنے دل کی کیفیتوں کو بیان کرنے کی کوشش ہے!''

شاعری پر حتمی فیصلہ صادر کرنا ناقدین اور قارئین کا کام ہے۔ اِس لمحے یہ ہی کہنا مناسب ہے کہ صاحب کتاب نے زبان کو آزادی کے ساتھ، نئے پیرائے میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ اب وقت ہی تعین کرے گا کہ یہ کوشش کتنی کام یاب ہے۔

کتاب کا سرورق اچھا ہے۔ اسے ''ڈسٹ کور'' کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔ البتہ کاغذ کے معیار میں بہتری کا امکان تھا۔ مجموعے میں پروف ریڈنگ کی خاصی غلطیاں ہیں۔ امید ہے اگلے ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔

انٹرنیشنل کھانے
اہتمام: سید فرید حسین/ سید عبدالمنعم فرید
ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
صفحات:1050
قیمت:999 روپے



یہ ضخیم کتاب کھانے پکانے کی تراکیب پر مشتمل ہے، جسے پبلشر کی جانب سے ''دنیا بھر کے تمام ممالک کے مختلف اقسام کے کھانوں کی پہلی مکمل کتاب'' قرار دیا گیا ہے۔ مولفین کے طور پر بیگم سید، سعیدہ بیگم، شائستہ فرید، درخشاں تسلیم، ارم ذاکر اور صدف عارف کا نام دیا گیا ہے۔ اندرونی صفحات پر کتاب سے متعلق فاطمہ ثریا بجیا کا مضمون شامل ہے۔

کتاب مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلا حصہ انڈین پاکستانی (نمکین پکوان) کے زیر عنوان ہے، جس میں 250 تراکیب ہیں۔ دوسرا حصہ اوون میں پکے کھانوں کی 60 تراکیب کا احاطہ کرتا ہے۔ آگے میٹھے پکوانوں کے 150 نسخے ہیں۔ ''اچار، چٹنی، مربے'' کے زیر عنوان 90 تراکیب ہیں۔ اب انٹرنیشنل کھانوں کا حصہ ہے، جس کا آغاز چائینز پکوان سے ہوتا ہے۔ آگے سوپ، آئس کریم، مشروبات کی تیاری کی تراکیب ہیں، جس کے آخر میں انگلش کھانوں کا حصہ ہے، جو 208 تراکیب پر مشتمل ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں کھانوں کی تراکیب پر مبنی کتابوں کی اشاعت میں تیزی آئی ہے۔ عام طور پر یہ باتصویر کتابیں کسی ایک قسم کے پکوان تک محدود ہوتی ہیں، قیمت بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے، اِس زاویے سے یہ کتاب اس شعبے میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خاصی سودمند ہے کہ پکوانوں کی فہرست طویل ہے، اور ضخامت کو دیکھتے ہوئے قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔

خودمختاری: کیسے؟
مصنف: یوسف حسین شیرازی
ناشر: فیروزسنز پرائیویٹ لمیٹڈ
صفحات: 398
قیمت: 795 روپے



زیرتبصرہ کتاب میں خودمختاری پر متعدد تجاویز پیش کرتے ہوئے صنعت و حرفت اور اقتصادیات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مصنف کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ بیرونی قرضے اور آمریت ملکی خودمختاری پر اثرانداز ہوتے ہیں، یہ ریاست وسائل سے مالامال ہے، جن پر انحصار بے روزگاری کے خاتمے اور خودمختاری کے حصول میں معاون ثابت ہوگا۔ کتاب میں اِن وسائل کے استعمال اور اُن کے فوائد پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ مصنف کی جانب سے خودمختاری کے لیے سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافے پر روشنی ڈالتے ہوئے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، جمہوریت مستحکم ہو۔ اُنھوں نے افسر شاہی کو تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد پر مشتمل سودمند گروہ قرار دیا ہے، جس کا بڑا حصہ متوسط طبقے سے آتا ہے۔ کتاب میں کاروباری افراد، پروفیشنلز اور محنت کشوں کی تعریف کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اُنھیں صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع دیے جائیں۔

کتاب کے مصنف معروف صنعت کار ہیں۔ ایک بڑے بزنس گروپ کے وہ بانی اور چیئرمین ہیں۔ چھے کتاب لکھ چکے ہیں، جنھیں مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا گیا۔ ایک کتاب ''ایڈ آرٹریڈ'' (بیرونی مدد یا تجارت) رائٹر گلڈ کا ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔ ان کے مضامین ملک کے موقر اخبارات و رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔ مذکورہ کتاب سیاسیات، سماجیات اور بزنس کے طلبا کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتی ہے۔

کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ کاغذ اور چھپائی مناسب ہے۔ سرورق بھی بامعنی ہے۔

تحت اللفظ خوانی (ایک فنّی مطالعہ)
مصنف: فرحان رضا
ملنے کا پتا: محفوظ بک ایجینسی، مارٹن روڈ، احمد بک ڈپو، انچولی
صفحات: 250
قیمت: 278 روپے



تحت اللفظ مرثیہ پڑھنا ایک قدیم روایت ہے۔ واقعۂ کربلا سے نسبت کے سبب مرثیہ محض صنف ادب نہیں، بلکہ ہماری تہذیبی روایات کا جزو ہے۔ اس کے ہر پہلو پر ہونے والی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں ہمارے ادبی سرمائے میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔

فرحان رضا تحت اللفظ مرثیہ خواں ہیں۔ اُن کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ اُنھوں نے اپنے تعارف کے حوالے کو کتاب کا موضوع بنایا۔

کتاب کے مختلف ابواب میں انھوں نے مرثیے کی تاریخ، اس صنف کے اساتذہ اور ان کے تلامذہ، فن اور تکنیک کے اعتبار سے مختلف مکاتیب، مرثیہ خوانی کی روایت پر جستہ جستہ نکات جمع کیے ہیں۔ آخری ابواب میں مرثیہ خوانی ، ادائی، نشست کے آداب اور سب سے اہم رثائی لفظیات کے حوالے سے مختصر ابواب قلم بند کیے ہیں۔

ادائی یا پیش کش کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ کسی مکالمے یا نثر کو ادا کرنے والا صرف متن پڑھنا ہی نہ جانتا ہو، بلکہ سامعین تک الفاظ کی تاثیر پہنچانے کے لیے وہ اُس نثر پارے یا شاعری کے معنی و خیال اور پس منظر سے پوری طرح واقف ہو۔

فرحان رضا نے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے لیے اسی بنیادی تقاضے کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے، کتاب میں شامل صاحبان علم کی تقاریظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اس کاوش کو سراہا گیا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اِس تحقیقی سلسلے کو جاری رکھیں گے۔

الّم غلّم (تحریروں کا مجموعہ )
مصنف: مبشر زیدی
ناشر: شہرزاد، کراچی
صفحات:184
قیمت:250



مطالعے کے گھٹتے رجحان کا گریہ اپنی جگہ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔ البتہ ایسی کتابیں کم ہی ہوتی ہیں، جو شایع ہوتے ہی قارئین کی توجہ کا مرکز بن جائیں۔

مبشر زیدی ان معنوں میں خوش نصیب ہیں۔ ان کی پہلی کتاب نے، جس کی اشاعت کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، پڑھنے والوں کی بھرپور توجہ حاصل کی تھی۔ قارئین اور ناقدین دونوں نے اِسے سراہا، جس کا بنیادی سبب کتاب میں موجود دل چسپ کہانیاں تھیں، جو الفاظ گن کر لکھی گئی ہیں۔ ہر کہانی کم نہ زیادہ، پورے سو الفاظ پر مشتمل تھی۔

''نمک پارے'' نامی مبشر زیدی کی پہلی کتاب پر ابھی بحث جاری تھی کہ اُن کی دوسری کتاب بھی مارکیٹ میں آگئی، جس کا نام ہے الّم غلّم! اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب کچھ کھٹی، کچھ میٹھی، تھوڑی پھیکی، تھوڑی کڑوی تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں مبشر زیدی کا قلم ادبی چاشنی پیدا کرنے میں کام یاب رہا۔ حقیقی کرداروں اور واقعات کو پختگی کے ساتھ فکشن کے پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔

''جواز'' کے زیرعنوان تحریر کردہ مضمون میں مصنف نے اِس کتاب کی اشاعت کے اسباب بیان کیے ہیں۔ کتاب سینتالیس تحریروں پر مشتمل ہے، جن میں بیش تر مختصر ہیں۔ اور یہ قابل فہم ہے کہ مبشر کا تعلق صحافت ہے، جہاں اختصار شرط ہے۔ اور وہ اختصار میں بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ آخری حصے میں ان کی پہلی کتاب پر شایع ہونے والے تبصرے شامل کیے گئے ہیں، جن کی موجودی فلیپ کی کمی کو کچھ حد تک پورا کر دیتی ہے۔

بہ ظاہر تو کتاب میں شامل مضامین میں کوئی ترتیب نظر نہیں آتی۔ کچھ کہانیاں ہیں، چند کالمز ہیں، اور چند بلاگز، مگر یہ مبشر کا قلم اِن بکھری ہوئی تحریروں میں ندرت پیدا کرنے میں کام یاب رہا۔ کتاب کو فکشن کی کس صنف میں رکھا جائے؟ اس کا فیصلہ ناقدین کریں گے۔

کتاب کا سرورق شان دار ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مبشر مستقبل میں بھی پڑھنے والوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

کولاژ ( ادبی جریدہ )
مدیران: اقبال نظر، شاہدہ تبسم
ناشر: کولاژ پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:568
قیمت: 300 روپے



عام طور سے ادبی جراید افسانوں، غزلوں، مضامین اور تراجم تک محدود ہوتے ہیں، مگر ''کولاژ'' ایک ایسا جریدہ ہے، جو ادب کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی دیگر اصناف کا بھی بڑی خوبی سے احاطہ کر رہا ہے۔

زیرتبصرہ شمارہ اِس کتابی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ یوں تو پرچے کے کئی قابل ذکر پہلو ہیں، مگر سب سے پہلے جو شے آپ کو متوجہ کرتی ہے، وہ ہے جمالیاتی تقاضوں پر پورا اترنے والا اس کا سرورق۔ جو معروف مجسمہ ساز، انجم ایاز کی تخلیق ہے۔ سرورق کے مانند اندرونی صفحات بھی متاثر کن ہیں۔ مضامین کی کُل تعداد انیس ہے، جس میں ڈاکٹر منظور احمد، شمس الرحمان فاروقی، انورسدید اور ظفر اقبال جیسے نام شامل ہیں۔

سلسلہ ''خصوصی مطالعہ'' معروف شاعر، ساقی فاروقی سے متعلق ہے، اور ان کے نام لکھے جانے والے، مختلف ادبی شخصیات کے خطوط پر مشتمل ہے۔ غزلوں کے لیے مختص حصہ بھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا، جس میں سینیر شعرا اور نئے لکھنے والوں کی تخلیقات میں توازن دِکھائی دیتا ہے۔ میکسیکو سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز ادیب کارلوس فیونٹس کے ناولٹ کو معروف کہانی کار، سید راشد اشرف نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ افسانوں کی تعداد اٹھارہ ہے، جس میں تراجم بھی شامل ہیں۔ منٹو سے متعلق طاہرہ اقبال کا مقالہ پرچے میں شامل ہے۔ نظموں کا حصہ بھی خاصا زرخیز ہے۔

ایک پورا حصہ آرٹ کے لیے مخصوص ہے، جس میں مصوری، مصوروں اور فن پاروں سے متعلق مضامین ہیں۔ یہ حصہ اِس پرچے کی انفرادیت ہے۔ ''درویش نامہ'' اقبال نظر کے قلم سے نکلا دل چسپ سلسلہ ہے۔ کچھ آگے بڑھیں، تو امجد اسلام امجد کے تحریر کردہ ڈرامے سے سامنا ہوتا ہے، جو دوستوفسکی کی ایک تخلیق سے ماخوذ ہے۔ اگلا حصہ اسٹریٹ تھیٹر ہے، جو دل چسپ بھی ہے، اور انوکھا بھی۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ کولاژ حقیقی معنوں میں ''کولاژ'' ہے کہ یہ ادب کے ساتھ مصوری اور تھیٹر کا بھی بھرپور انداز میں احاطہ کر رہا ہے۔ اقبال نظر اور شاہدہ تبسم کی یہ کاوش قابل ستایش ہے۔ قارئین توقع کرتے ہیں کہ یہ سودمند سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں