سندھ تاحال ایک بھی واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری نہیں بناسکا منصوبہ التوا کا شکار

منصوبے کے تحت صوبے کے 17اضلاع میں واٹرٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کرنا تھیں، پراجیکٹ کی مجموعی لاگت 10 کروڑ 55 لاکھ روپے تھی


عبدالرزاق ابڑو August 15, 2019
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے واٹر کمیشن کو جون تک کم از کم 9 اضلاع میں واٹرٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود حکومت سندھ صوبے میں واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کے قیام کے منصوبے کو مقررہ وقت میں مکمل نہ کرسکی جب کہ اس منصوبے کے تحت صوبے کے 17 اضلاع میں واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کرنا تھیں۔

محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے حکام نے سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ واٹر کمیشن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ صوبے کے کم از کم9اضلاع میں گزشتہ مالی سال کے اختتام یعنی جون 2019 تک واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کردی جائیں گی جبکہ بقیہ 8 اضلاع میں آئندہ سال 2020 تک لیبارٹریز کا قیام مکمل ہوجائے گا لیکن جون 2019 گزرجانے کے باوجود کسی ضلع میں کوئی لیبارٹری قائم نہ کی جاسکی۔

اس منصوبے کی کل لاگت 10 کروڑ 55 لاکھ روپے تھی، حکومت سندھ نے گزشتہ مالی سال میں اس منصوبے کے لیے درکار رقم مختص کردی تھی، اس منصو بے پر عملدرآمد میں تاخیر کی وجوہات میں انتظا می اور ٹیکنیکل وجوہات شامل ہیں، محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ سندھ کے سیکریٹری روشن شیخ کے مطابق مذکورہ منصوبے میں تاخیر کی بڑی وجہ وقت پر فنڈز کی عدم فراہمی ہے۔

روزنامہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے صوبہ سندھ کو کم پیسے ملنے کی وجہ سے دیگر منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی متاثر ہوا، انہوں نے تسلیم کیا کہ مذکورہ منصوبے کے تحت کم از کم 9 اضلاع میں جون 2019 تک واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی جانی تھیں لیکن درکار فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔

روشن شیخ کے مطابق منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ متعلقہ اضلاع میں لیبارٹریز کے قیام کے لیے درکار جگہ کا وقت پر دستیاب نہ ہونا بھی تھی، انھوں نے بتایا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی اب کوشش ہے کہ مذکورہ منصوبے کو رواں سال دسمبر تک مکمل کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ اب اس منصوبے کو دو حصوں کی بجائے ایک ساتھ مکمل کیا جائے گا اور تمام 17 اضلاع میں لیبارٹریوں کے قیام کا کام ایک ساتھ مکمل کیا جائے گا۔

ان کے مطابق ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ایک ہی منصوبے کا ٹھیکہ دو حصوں میں نہ دینا پڑے، واضح رہے کہ منصوبے تحت پہلے مرحلے میں صوبے کے 9 اضلاع میں لیبارٹریز قائم کرنا تھیں ان میں مٹیاری، میرپورخاص، سانگھڑ، ٹنڈو الہیار، مٹھی، خیرپور، جیکب آباد، شکارپور اور دادو شامل تھے، جبکہ دوسرے مرحلے میں جن اضلاع میں لیبارٹریز قائم کرنا تھیں ان میں گھوٹکی، لاڑکانہ، کشمور، نوشہروفیروز، قمبر شہدادکوٹ، ٹنڈو محمد خان اور ضلع سجاول شامل تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے واٹر کمیشن نے صوبے بھر میں واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ صوبہ سندھ میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، اس سلسلے میں واٹر کمیشن نے مختلف شہروں اور علاقوں سے پینے کے پانی کے نمونے حاصل کرکے ان کے ٹیسٹ بھی کرائے تھے جن میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، واٹر کمیشن کی ہدایت پر سکھر کے مختلف علاقوں سے پانی کے 12 نمونے حاصل کرکے جب ان کا ٹیسٹ کرایا گیا تو تمام نمونے پینے کے قابل نہیں تھے۔

اسی طرح ضلع بدین کے مختلف علاقوں سے پانی کے 62 نمونے حاصل کرکے ٹیسٹ کرائے گئے تو وہ بھی غیر محفوظ ثابت ہوئے، واضح رہے کہ صوبے کے 6 شہروں میں واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز پہلے سے موجود ہیں جو وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے قائم کیے تھے۔

یہ لیبارٹریز کراچی، سکھر، نوابشاہ، حیدرآباد، بدین اور ٹنڈو جام میں قائم کی گئی تھیں، کونسل نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کیں جن میں 10 لیبارٹریز صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں، 3 خیبر پختونخوا میں، دو بلوچستان، دو گلگت بلتستان اور ایک آزاد جموں کشمیر میں قائم کی گئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔