دو یا تین حاضریاں
مجھے ناز تھا کہ مجھے جب اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے پیر سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا تھا۔
اسکول کے زمانے کی ایک یاد، جس پر میں ہمیشہ اتراتا رہا وہ آج غارت ہوگئی۔ مجھے ناز تھا کہ مجھے جب اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے پیر سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا تھا تو میں اوروں کی طرح اسے جھک کے نہیں ملا تھا۔ یوں، تنی ہوئی گردن کے ساتھ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تھا۔ تب اس نے ذرا رک کے کن انکھیوں سے میری طرف دیکھا تھا اور خود تھوڑا سا جھک گیا تھا تاکہ میرے جھکنے کا تاثر پیدا ہوسکے۔ میرے رب کا کرم ہے کہ اس نے میرا یہ بھرم آج بھی رکھا ہوا ہے۔
وہ ایوب خان کا زمانہ تھا اور پیر صاحب قومی اسمبلی کے ممبر۔ وہ یہ بات بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ انھوں نے اسمبلی کی پوری مدت میں فقط ایک بار اس کا اجلاس اٹینڈ کیا ہے۔ یعنی صرف حلف اٹھانے کے موقع پر۔ اس کے بعد انھوں نے کبھی ''کمی کاروں'' والا یہ کام کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہی وہ یاد ہے جو آج برباد ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ اطلاع ہے کہ اب تو ہماری اسمبلی ایسے ''پیروں'' سے بھری ہوئی ہے۔ اس ہجوم میں میرے والا بڑا پیر تو کہیں گم ہوگیا اور اس کی اکڑ بھی کہیں کھو گئی۔ اب ہمارے عوامی پیر اور انقلابی وڈیرے بھی کمیوں والے اس کام سے پرہیز کرتے ہیں۔ حاکم اعلیٰ سمیت بہت سے وزراء اور ممبران ایسے ہیں جنھوں نے شاذونادر ہی ایوان میں قدم رنجہ فرمایا ہے۔ کسی نے دو بار اور کسی نے تین بار۔ وہ بس خرچے وصول کرتے ہیں۔
جہاں تک خرچوں کا تعلق ہے تو وہاں بھی اگلا پچھلا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ کوئی اور یہ بات کہتا تو کوئی شک ہوتا لیکن یہاں تو گورنر اسٹیٹ بینک تڑپ اٹھا ہے۔ صرف تین مہینے اور پورے چھ سو ارب روپے۔ کانوں کو ہاتھ لگا کے توبہ توبہ نہ کریں تو اور کیا کریں۔ چھ سو ارب روپے کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی۔ اس ادھار کے اثرات جب پوری طرح ظاہر ہوں گے تو حکومت اور عوام کو بڑی تکلیف ہوگی۔ اور مجھے تو یہ تکلیف آسانی سے رفع ہوتی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ جب تک حکومت سمجھ کی بجائے سمدھی سے کام لیتی رہے گی حالت درست نہ ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ ''پیسہ بولتا ہے'' لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہماری حکومت کے پاس جو بھی پیسہ آتا ہے اسے بس دو ہی لفظ بولنا آتے ہیں۔۔۔ ''خدا حافظ''۔
جس خوبی سے بہت کم عرصے میں اس حکومت نے گردشی قرضوں والا معاملہ نپٹایا تھا وہ قابل تعریف تھا۔ اس کے مثبت اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں اور اب گردشی قرض جمع ہونے کی رفتار پہلے سے کہیں کم ہے۔ حب پاور سمیت کچھ دیگر پاور پلانٹس نے نئے معاہدوں کے مطابق اپنے پلانٹ کو تیل سے کوئلے میں بدلنے کے عملی اقدامات بھی شروع کردیے ہیں۔ لیکن اس کام کے بعد سے حکومت کا دھیان کہیں اور دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوا کرتا ہے جب کچھ لوگ ایسے کاموں پر لگا دیے جائیں جن کے وہ اہل نہیں یا پھر اتنی ذمے داریاں سنبھال لیں جو ان کے بس سے باہر ہوں۔ مسائل کے سیلاب کے آگے بے دلی سے ریت کے بند باندھے جائیں گے تو جا بجا سوراخ ہوتے رہیں گے۔ کبھی یہ معاملہ چوپٹ تو کبھی اس طرف گڑبڑ۔ تلاش کریں کہ خرابی کہاں ہے۔ بیخود دہلوی ہوتے تو کہتے:
میکدے میں روح زاہد کی کہیں آئی نہ ہو
کل تو اک ساغر تھا غائب آج اک بوتل گئی
سرحد کے اس پار کے معاملات بھی ہم سے ملتے جلتے ہیں کہ دونوں جانب ایک ہی قماش کے لوگ بستے ہیں۔ وہاں سادگی کی مہم چلانے کا اعلان ہوا ہے۔ ان کے وزیر خزانہ چدم برم نے نوکر شاہی کے شاہانہ اخراجات پر پابندی عائد کردی ہے ۔انھوں نے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اجلاس منعقد کرنے، ایگزیکٹیو کلاس میں فضائی سفر کرنے، نئی گاڑیاں خریدنے، نئی اسامیاں پیدا کرنے کی سختی سے ممانعت کردی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ غیر ملکی دوروں پر جانے والے وفود میں کم سے کم لوگوں کو شامل کیا جائے۔ ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ ان کی ساٹھ ستر سالہ جمہوریت نے سیاسی اقدار کو مستحکم کردیا ہے اور اب وہاں سادگی کا بول بالا ہے۔ کیا سرکاری اور کیا سیاسی، تمام رہنما روکھی سوکھی کھاتے ہیں، کرتا پاجامہ اور دھوتیاں پہنتے ہیں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں یہ بات یہاں کے اللوں تللوں کے دفاع میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ بس مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ سادگی، کفایت شعاری اور دیانتداری کا سفر آسان نہیں ہے۔ بھارت میں کل ایم پی اے اور ایم ایل اے 4835 ہیں۔ ان میں سے 1448 پر کریمنل چارجز ہیں اور ان میں سے 641 پر تو انتہائی سنگین قسم کے الزامات ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر جمہوریت کا یہ عالم ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ نیت اور لگن درست ہو تو کچھوا بھی دوڑ جیت جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دوڑ جاری رہے۔ درمیان میں روکی نہ جائے۔
ادھر سادگی کی طرف ایک اچھا قدم سندھ حکومت نے بھی اٹھایا ہے۔ گزشتہ روز اس نے بہت سے بل پاس کیے تو ان میں سے ایک ون ڈش کا بھی تھا۔ یعنی شادی کی تقریب میں اب ون ڈش کا قانون نافذ ہوگا۔ اس کا حقیقی نفاذ ہوگیا تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ پنجاب میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومتی ہوتی ہے اس قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہے اور عوام اس کی وجہ سے ذرا آرام میں ہیں۔ یہ آرام سندھ میں نصیب ہوتا ہے یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔ مجھے شک اس لیے ہے کہ جن لوگوں نے عملی طور پر اس کا نفاذ کرنا ہے وہ خود اپنی سہولتیں چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، مثلاً ایک خبر کے مطابق جن سرکاری ملازمین کو عدالتی احکام کے تحت واپس اپنے اپنے محکموں میں بھیج دیا گیا تھا انھوں نے سابقہ عہدوں والی مراعات ترک کرنے سے انکار کردیا ہے۔
مکان، گاڑیاں، پروٹوکول سب کچھ اسی طرح جاری و ساری ہے۔مراعات سے فیضیاب ہونے والا یہ کام سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ سیاسی قائدین بھی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ کرتے ہیں۔ آپ کو وہ وقت تو یاد ہی ہوگا جب مراعات میں اضافے کا بل پاس ہوا تھا۔ ہر طرف مسرت ہی مسرت اور شادمانی ہی شادمانی۔ ایسا بل جب بھی پیش ہوتا ہے متفقہ طور پر منظور ہوتا ہے اور بھائی چارے کی ایسی فضا ہوتی ہے کہ دنیا دیکھے تو رشک کرے۔ گویا مال جہاں سے بھی ملے، جتنا بھی ملے بٹور لینا ہے لیکن اسمبلی میں بیٹھنا گوارا نہیں۔ ان کے لیے شاید یہ دو یا تین حاضریاں بھی تہمت ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ لکھنے کا کیا فائدہ! نہ کسی نے پڑھنا ہے، نہ سننا ہے اور نہ سمجھنا ہے۔ ایک اتمام حجت ہے جو کردیا ہے۔ باقی وہ جانیں اور ان کا کام۔ آپ کسی کو اٹھا کے چاند پر تو بھیج سکتے ہیں لیکن ٹوائلٹ کرنے تو اسے خود ہی جانا ہوگا۔