کیا موبائل فون ٹاورز صحت کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں
کچھ موبائل فون کمپنیاں اپنے مینوئل میں ہدایت کرتی ہیں کہ فون استعمال کرتے وقت اسے کان سے ایک انچ کے فاصلہ پر رکھیں
KUNDUZ:
دنیا میں جس رفتار سے موبائل فون کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس سے منسلک خدشات اور خطرات بھی اسی طرح واضح ہورہے ہیں۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جب آپ اپنے موبائل فون سے کوئی کال ملاتے ہیں، توآپ کا فون اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے منتقل کرتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آپ سیل فون پر کوئی نمبر ملاتے ہیں تو ریڈیو فریکونسی کے ذریعے آپ کا فون اس کا سگنل، موبائل فون کے قریبی ٹاور تک پہنچادیتا ہے۔ وہاں سے وہ دوسرے ٹاور کو منتقل ہوتا ہے اور پھر اس سے اگلے ٹاور پر، حتی کہ کال سفر کرتی ہوئی آپ کے مطلوبہ فون تک پہنچ جاتی ہے۔
اگر آپ کا فون سی وی ایم ٹیکنالوجی کا ہے تو آپ کا بھیجا ہوا سگنل آپ کی موبائل فون کمپنی کے مقامی نیٹ ورک تک پہنچتا ہے اور پھر وہ نیٹ ورک اسے دوسرے فون تک پہنچادیتا ہے۔ اگرچہ یہ سننے میں آسان لگتا ہے لیکن تکینکی لحاظ سے یہ خاصا مشکل کام ہے اور یہ سارا عمل اتنی تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں 2020ء تک مجموعی سرمایہ کاری 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور ٹیلی کام سیکٹرکا ریونیو 620 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ ''ویژن 2020'' دستاویزکے مطابق موبائل فون کنکشنز کی تعداد 161 ملین یعنی کل آبادی کا89 فیصد ہونے کی توقع ہے۔ موبائل فون کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر، فکسڈ لائن صارفین کی تعداد 2020ء تک کم و بیش 50 لاکھ کی اوسط برقرار رہے گی جبکہ براڈ بینڈ صارفین 19.5 ملین ہونے کی توقع ہے اور انٹر نیٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھے گا جس کے تحت مقامی اور بین الاقوامی مواد کا حصول ممکن ہو گا۔
بعض ماہرین متعدد بار خبردار کرچکے ہیں کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقی لہروں سے کینسر سمیت کئی موذی امراض میں مبتلا ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ برقی مقناطیسی لہریں ہماری صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔ یہ لہریں جتنی طاقتور ہوں گی اور انسان جتنی زیادہ دیر تک ان کی زد میں رہے گا، صحت پر پڑنے والے مضر اثرات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل ریڈیو کے ہائی پاور ٹرانسمیٹر آبادیوں سے میلوں دور ویران علاقوں میں لگائے جاتے تھے۔
ہر موبائل فون کے اندر ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر موجود ہوتا ہے جو آواز کو برقی لہروں میں بدل کر فضا میں پھیلا دیتا ہے، جسے قریب واقع موبائل فون کمپنی کا ٹاور وصول کرکے اسے اپنے سسٹم میں ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح موبائل فون میں ریسور بھی ہوتا ہے جو آپ کے نمبر پر بھیجی جانے والی برقی مقناطیسی لہروں کو وصول کرکے انہیں آواز میں بدل دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسے افراد جو دن میں 4گھنٹے تک موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے دماغ میں سرطان زدہ رسولی پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
بہت سے سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت کے اِس بیان کی تائید کی ہے۔ محققین کے مطابق موبائل فون سے جوشعائیں نکلتی ہیں انہیں ہمارا دماغ برداشت نہیں کرسکتا۔ اِن ویوز سے نہ صرف سرطان کے خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ اِس کے اثرات انسان کے تمام خلیوں پر ہوتے ہیں۔ محققین موبائل فون ٹاورز اسکولوں کے قریب نصب ہونے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ اْن کے بقول سائنسداں موبائل فون سے پیدا ہونے والی لہروں کی وجہ سے صحت پرمضر اثرات سے مکمل اتفاق تو نہیں کرتے، تاہم اِس بارے میں اْن میں یہ ضرور اتفاق پایا جاتا ہے کہ بچوں کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
کچھ ماہرین صحت کاخیال ہے کہ اِس کے اثرات بڑے پیمانے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ سیل فون سے نکلنے والی لہروں کے بارے میں بہت حساس ہے،خاص طور پر جب اس کو سر کے قریب رکھا جائے۔ موبائل فون کے استعمال کے بارے میں والدین کو مشورہ دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ موبائل فون کو سر کے قریب نہ لائیں، بلکہ سپیکر یا پھر ہیڈ فون کا استعمال کریں اور موبائل کو تکیے کے نیچے نہ رکھیں۔
مشینوں کے دور جدید میں ایسے موبائل فونز کثرت سے آرہے ہیں جو صرف ٹیلی فون ہی نہیں ہیں، بلکہ انٹرنیٹ سے منسلک ایک آلے کے طور پر بھی کام کرتے ہیں اور ان میں لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی کئی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ ان کے ٹرانسمیٹر زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں اور وہ انسانی صحت کے لئے زیادہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ماہرین اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ صحت کیلئے خطرے کے امکان کے باوجود، موبائل فون آج کے ترقی کرتے ہوئے عہد کی اہم ضرورت ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے استعمال میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے صحت کیلئے خطرے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
موبائل فون تیار کرنے والی کئی کمپنیاں صحت سے متعلق بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ ہیں اور ان دنوں اکثر موبائل فونز کے مینوئل میں مضر صحت برقی لہروں سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بھی درج کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے مینوئل میں لکھا ہے کہ فون سنتے وقت یا انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت اسے اپنے جسم سے کم ازکم 15 سینٹی میٹر یعنی تقریباً پونے انچ کے فاصلے پر رکھیں۔ اسی طرح ایک اور کے مینوئل میں درج ہے کہ ریڈیو فریکونسی کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے فون کو اپنے جسم سے تقریباً ایک انچ کے فاصلے پر رکھیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں مارکیٹ کا زیادہ تر حصہ رکھنے والی کمپنیوں نے اپنے موبائل فونز کیساتھ مینوئل میں ایسی کوئی وارننگ جاری نہیں کی اور اگر کسی کمپنی نے ایسی وارننگ جاری بھی کی ہے تو بیشتر صارفین اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
موبائل فون سے خارج ہونے والی مضر صحت لہروں سے بچاؤ کے لیے امریکہ نے 2001ء میں موبائل فون کمپنیوں کیلئے رہنما اصول مرتب کئے تھے، جن کے تحت امریکی مارکیٹ میں ایسے کسی بھی موبائل فون کی فروخت ممنوع کردی گئی تھی جو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قوت سے زیادہ ریڈیو فریکونسی خارج کرتا ہو۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے سمارٹ فونز آنے سے یہ پابندی زیادہ مؤثر نہیں رہی کیونکہ ان میں ریڈیو فریکونسی، بلیوٹوتھ اور وائی فائی ٹرانسمیٹر نصب ہوتے ہیں اور جب تینوں ایک ساتھ کام کررہے ہوں تو ان سے خارج ہونے والی برقی قوت مقررکردہ حد سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا استعمال ترک کئے بغیر آپ اس کے مضر صحت اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جس کیلئے صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسے استعمال کرتے وقت اپنے جسم سے کم ازکم ایک انچ کے فاصلے پر رکھیں اور جب فون استعمال میں نہ ہوتو اسے کسی کور میں رکھیں تاکہ وہ آپ کے جسم کو براہ راست نہ چھو سکے مگر خیال رہے کہ موبائل فون کا کور کسی دھات کا نہیں ہونا چاہیے۔
ایک طرف موبائل فون کمپنی کے ٹاوروں پر اکثر و بیشتر پرندے پھنسے موت کے منتظر نظر آتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریسکیو اہلکار پرندوں کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن کئی بد قسمت پرندے 220 فٹ بلند ٹاورز پر ہی موت کا جھولا جھولتے نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز پر رات کو لائٹیں روشن نہ ہونے سے کسی بھی وقت حادثے کا خدشہ رہتا ہے۔ ملک بھر میں شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں کے حساب سے نصب موبائل فون ٹاورز میں سے متعدد پر لائٹس یا تو نصب نہیں یا خراب ہو چکی ہیں جو اکثر رات کے وقت روشن نہیں ہوتیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تقریباً 20 ہزار موبائل فون ٹاورز میں سے 16 ہزار ٹاورز محکمہ ماحولیات اور ٹاؤن انتظامیہ کی اجازت کے بغیر نصب کئے گئے ہیں جن کا ریکارڈ تک متعلقہ اداروں کے پاس موجود نہیں ہے۔ پنجاب لینڈ رولز 2009ء کے تحت موبائل کمپنیاں صرف کمرشل مقامات پر ٹاورز نصب کر سکتی ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس قانون کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسی طرح وفاقی حکومت کے ماحولیات ایکٹ کے مطابق دن کے وقت فون ٹاورز کے جرنیٹرز کا شور ''65 ڈیسیبل'' اور رات کے وقت ''50 ڈیسیبل'' سے ذیادہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ موبائل کمپنیوں کے جرنیٹرز کم ازکم ''70 ڈیسیبل'' شور پیدا کرتے ہیں۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ نے ماحولیات ایکٹ کو نظرانداز کر کے موبائل کمپنیوں کی سہولت کیلئے شور کی حد ''65 ڈیسیبل'' سے بڑھا کر ''75 ڈیسیبل'' کردی ہے۔ ٹیلی فون کمپنیوں کے ٹاورز کی تعداد میں اضافے سے لوگوں کو مختلف بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ عمارتوں کی چھتوں پر نصب ٹاورز سے تابکاری اثرات خارج ہورہے ہیں جس سے شہری جسمانی مسائل کا شکار ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ہینڈ سیٹ سے خارج ہونے والی ریڈیو لہروں کو جسم جذب کر رہا ہے۔ ایک جی ایس ایم ہینڈ سیٹ سے خارج ہونے والی ریڈیو لہروں کی طاقت 2 واٹ ہو سکتی ہے اور ایک امریکی اینالاگ فون 3.6 واٹ کی لہریں خارج کر سکتا ہے۔ مائیکروویو تابکاری کے اثرات سے جسم کے مخصوص حصوں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا براہ راست اثر دماغ میں خون کی گردش میں اضافہ ہے۔
اور آنکھ کی بینائی متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ لنڈ یونیورسٹی سویڈن کے محققین نے چوہے کے دماغ پر مائکروویو تابکاری کے اثرات کا مطالعہ کیا جس کے نتائج میں دماغ میں خون کی رکاوٹ سامنے آئی جبکہ 2006ء میں 420.000 ڈینش شہریوں پر موبائل فون کے استعمال اور کینسر کے واقعات کے درمیان تعلق کے بارے میں تحقیق کی گئی جس میں یہ دیکھنے میں آیا کہ موبائل فون استعمال کرنے والوں میں کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ برین ٹومر کی بڑی وجہ موبائل فون کا بے جا استعمال قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ بچوں کو جتنا ممکن ہو موبائل فون سے دور رکھیں کیونکہ تابکاری اثرات ان پر جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں سر درد، تھکاوٹ، نیند میں کمی، چکر آنا، ذہنی انتشار، یاداشت میںکمی کی بیماریاں عام دیکھی گئی ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ٹاورز موبائل فون کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تابکاری خارج کر رہے ہیں جبکہ یہ تابکاری مسلسل اور زیادہ طاقتور ہے جس کی وجہ سے براہ راست متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ جو موبائل فون استعمال نہیں بھی کرتا وہ بھی ان تابکاری شاعوں سے بچ نہیں سکتا۔
موبائل ٹاورز کے ڈیزائن بھی تابکاری کے اثرات میں اضافہ اور کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ تاہم کئی یورپی ممالک میں محکمہ صحت موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز لگانے کیلئے جگہ کی نشاندہی کرتا ہے مگر اس کے برعکس پاکستان میں ہر گلی' کوچے میں خستہ حال مکانوں کی چھتوں، خالی پلاٹوں، عالیشان پلازوں اور کھیتوں تک میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور نصب ہیں جن کی تنصیب میں محکمہ صحت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، کیونکہ موبائل فون کمپنیاں ٹاور لگانے کیلئے کرایہ کی مد میں معقول ادائیگی کرتی ہیں اور ان ٹاورز کو مسلسل بجلی کی فراہمی کیلئے لگائے جانے والے جنریٹرز سے بھی کئی مالکان مستفید ہو رہے ہیں چند سال قبل تک ٹھیکیدار کمپنیوں کے ٹاورز نصب کرنے سے قبل مالکان سے معقول کمشن بھی وصول کرتے رہے جبکہ کئی نوسر بازوں نے ٹاور لگانے کے نام پر کئی سادہ لوح افراد کو لوٹا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں متعلقہ ادارے اس مسئلہ کی نوعیت کو محسوس کرتے ہوئے موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لئے ضابطہ تیار کریں، جس میں شہریوں کی صحت کو اولین ترجیح دی جائے۔ گلی، محلوں میں نصب ہونے والے موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے اور انہیں آبادی سے دور منتقل کیا جائے۔ سادہ لوح شہری چند ٹکوں کے لالچ میں اپنے اور اپنے اطراف میں رہنے والوں کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں اور حکومت ایسا میکنیزم تیار کرے جس میں رہائشی علاقوں میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور نصب کرنے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ان سے ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
دنیا میں جس رفتار سے موبائل فون کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس سے منسلک خدشات اور خطرات بھی اسی طرح واضح ہورہے ہیں۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جب آپ اپنے موبائل فون سے کوئی کال ملاتے ہیں، توآپ کا فون اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے منتقل کرتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آپ سیل فون پر کوئی نمبر ملاتے ہیں تو ریڈیو فریکونسی کے ذریعے آپ کا فون اس کا سگنل، موبائل فون کے قریبی ٹاور تک پہنچادیتا ہے۔ وہاں سے وہ دوسرے ٹاور کو منتقل ہوتا ہے اور پھر اس سے اگلے ٹاور پر، حتی کہ کال سفر کرتی ہوئی آپ کے مطلوبہ فون تک پہنچ جاتی ہے۔
اگر آپ کا فون سی وی ایم ٹیکنالوجی کا ہے تو آپ کا بھیجا ہوا سگنل آپ کی موبائل فون کمپنی کے مقامی نیٹ ورک تک پہنچتا ہے اور پھر وہ نیٹ ورک اسے دوسرے فون تک پہنچادیتا ہے۔ اگرچہ یہ سننے میں آسان لگتا ہے لیکن تکینکی لحاظ سے یہ خاصا مشکل کام ہے اور یہ سارا عمل اتنی تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں 2020ء تک مجموعی سرمایہ کاری 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور ٹیلی کام سیکٹرکا ریونیو 620 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ ''ویژن 2020'' دستاویزکے مطابق موبائل فون کنکشنز کی تعداد 161 ملین یعنی کل آبادی کا89 فیصد ہونے کی توقع ہے۔ موبائل فون کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر، فکسڈ لائن صارفین کی تعداد 2020ء تک کم و بیش 50 لاکھ کی اوسط برقرار رہے گی جبکہ براڈ بینڈ صارفین 19.5 ملین ہونے کی توقع ہے اور انٹر نیٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھے گا جس کے تحت مقامی اور بین الاقوامی مواد کا حصول ممکن ہو گا۔
بعض ماہرین متعدد بار خبردار کرچکے ہیں کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقی لہروں سے کینسر سمیت کئی موذی امراض میں مبتلا ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ برقی مقناطیسی لہریں ہماری صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔ یہ لہریں جتنی طاقتور ہوں گی اور انسان جتنی زیادہ دیر تک ان کی زد میں رہے گا، صحت پر پڑنے والے مضر اثرات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل ریڈیو کے ہائی پاور ٹرانسمیٹر آبادیوں سے میلوں دور ویران علاقوں میں لگائے جاتے تھے۔
ہر موبائل فون کے اندر ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر موجود ہوتا ہے جو آواز کو برقی لہروں میں بدل کر فضا میں پھیلا دیتا ہے، جسے قریب واقع موبائل فون کمپنی کا ٹاور وصول کرکے اسے اپنے سسٹم میں ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح موبائل فون میں ریسور بھی ہوتا ہے جو آپ کے نمبر پر بھیجی جانے والی برقی مقناطیسی لہروں کو وصول کرکے انہیں آواز میں بدل دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسے افراد جو دن میں 4گھنٹے تک موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے دماغ میں سرطان زدہ رسولی پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
بہت سے سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت کے اِس بیان کی تائید کی ہے۔ محققین کے مطابق موبائل فون سے جوشعائیں نکلتی ہیں انہیں ہمارا دماغ برداشت نہیں کرسکتا۔ اِن ویوز سے نہ صرف سرطان کے خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ اِس کے اثرات انسان کے تمام خلیوں پر ہوتے ہیں۔ محققین موبائل فون ٹاورز اسکولوں کے قریب نصب ہونے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ اْن کے بقول سائنسداں موبائل فون سے پیدا ہونے والی لہروں کی وجہ سے صحت پرمضر اثرات سے مکمل اتفاق تو نہیں کرتے، تاہم اِس بارے میں اْن میں یہ ضرور اتفاق پایا جاتا ہے کہ بچوں کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
کچھ ماہرین صحت کاخیال ہے کہ اِس کے اثرات بڑے پیمانے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ سیل فون سے نکلنے والی لہروں کے بارے میں بہت حساس ہے،خاص طور پر جب اس کو سر کے قریب رکھا جائے۔ موبائل فون کے استعمال کے بارے میں والدین کو مشورہ دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ موبائل فون کو سر کے قریب نہ لائیں، بلکہ سپیکر یا پھر ہیڈ فون کا استعمال کریں اور موبائل کو تکیے کے نیچے نہ رکھیں۔
مشینوں کے دور جدید میں ایسے موبائل فونز کثرت سے آرہے ہیں جو صرف ٹیلی فون ہی نہیں ہیں، بلکہ انٹرنیٹ سے منسلک ایک آلے کے طور پر بھی کام کرتے ہیں اور ان میں لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی کئی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ ان کے ٹرانسمیٹر زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں اور وہ انسانی صحت کے لئے زیادہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ماہرین اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ صحت کیلئے خطرے کے امکان کے باوجود، موبائل فون آج کے ترقی کرتے ہوئے عہد کی اہم ضرورت ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے استعمال میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے صحت کیلئے خطرے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
موبائل فون تیار کرنے والی کئی کمپنیاں صحت سے متعلق بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ ہیں اور ان دنوں اکثر موبائل فونز کے مینوئل میں مضر صحت برقی لہروں سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بھی درج کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے مینوئل میں لکھا ہے کہ فون سنتے وقت یا انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت اسے اپنے جسم سے کم ازکم 15 سینٹی میٹر یعنی تقریباً پونے انچ کے فاصلے پر رکھیں۔ اسی طرح ایک اور کے مینوئل میں درج ہے کہ ریڈیو فریکونسی کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے فون کو اپنے جسم سے تقریباً ایک انچ کے فاصلے پر رکھیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں مارکیٹ کا زیادہ تر حصہ رکھنے والی کمپنیوں نے اپنے موبائل فونز کیساتھ مینوئل میں ایسی کوئی وارننگ جاری نہیں کی اور اگر کسی کمپنی نے ایسی وارننگ جاری بھی کی ہے تو بیشتر صارفین اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
موبائل فون سے خارج ہونے والی مضر صحت لہروں سے بچاؤ کے لیے امریکہ نے 2001ء میں موبائل فون کمپنیوں کیلئے رہنما اصول مرتب کئے تھے، جن کے تحت امریکی مارکیٹ میں ایسے کسی بھی موبائل فون کی فروخت ممنوع کردی گئی تھی جو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قوت سے زیادہ ریڈیو فریکونسی خارج کرتا ہو۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے سمارٹ فونز آنے سے یہ پابندی زیادہ مؤثر نہیں رہی کیونکہ ان میں ریڈیو فریکونسی، بلیوٹوتھ اور وائی فائی ٹرانسمیٹر نصب ہوتے ہیں اور جب تینوں ایک ساتھ کام کررہے ہوں تو ان سے خارج ہونے والی برقی قوت مقررکردہ حد سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا استعمال ترک کئے بغیر آپ اس کے مضر صحت اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جس کیلئے صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسے استعمال کرتے وقت اپنے جسم سے کم ازکم ایک انچ کے فاصلے پر رکھیں اور جب فون استعمال میں نہ ہوتو اسے کسی کور میں رکھیں تاکہ وہ آپ کے جسم کو براہ راست نہ چھو سکے مگر خیال رہے کہ موبائل فون کا کور کسی دھات کا نہیں ہونا چاہیے۔
ایک طرف موبائل فون کمپنی کے ٹاوروں پر اکثر و بیشتر پرندے پھنسے موت کے منتظر نظر آتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریسکیو اہلکار پرندوں کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن کئی بد قسمت پرندے 220 فٹ بلند ٹاورز پر ہی موت کا جھولا جھولتے نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز پر رات کو لائٹیں روشن نہ ہونے سے کسی بھی وقت حادثے کا خدشہ رہتا ہے۔ ملک بھر میں شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں کے حساب سے نصب موبائل فون ٹاورز میں سے متعدد پر لائٹس یا تو نصب نہیں یا خراب ہو چکی ہیں جو اکثر رات کے وقت روشن نہیں ہوتیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تقریباً 20 ہزار موبائل فون ٹاورز میں سے 16 ہزار ٹاورز محکمہ ماحولیات اور ٹاؤن انتظامیہ کی اجازت کے بغیر نصب کئے گئے ہیں جن کا ریکارڈ تک متعلقہ اداروں کے پاس موجود نہیں ہے۔ پنجاب لینڈ رولز 2009ء کے تحت موبائل کمپنیاں صرف کمرشل مقامات پر ٹاورز نصب کر سکتی ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس قانون کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسی طرح وفاقی حکومت کے ماحولیات ایکٹ کے مطابق دن کے وقت فون ٹاورز کے جرنیٹرز کا شور ''65 ڈیسیبل'' اور رات کے وقت ''50 ڈیسیبل'' سے ذیادہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ موبائل کمپنیوں کے جرنیٹرز کم ازکم ''70 ڈیسیبل'' شور پیدا کرتے ہیں۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ نے ماحولیات ایکٹ کو نظرانداز کر کے موبائل کمپنیوں کی سہولت کیلئے شور کی حد ''65 ڈیسیبل'' سے بڑھا کر ''75 ڈیسیبل'' کردی ہے۔ ٹیلی فون کمپنیوں کے ٹاورز کی تعداد میں اضافے سے لوگوں کو مختلف بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ عمارتوں کی چھتوں پر نصب ٹاورز سے تابکاری اثرات خارج ہورہے ہیں جس سے شہری جسمانی مسائل کا شکار ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ہینڈ سیٹ سے خارج ہونے والی ریڈیو لہروں کو جسم جذب کر رہا ہے۔ ایک جی ایس ایم ہینڈ سیٹ سے خارج ہونے والی ریڈیو لہروں کی طاقت 2 واٹ ہو سکتی ہے اور ایک امریکی اینالاگ فون 3.6 واٹ کی لہریں خارج کر سکتا ہے۔ مائیکروویو تابکاری کے اثرات سے جسم کے مخصوص حصوں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا براہ راست اثر دماغ میں خون کی گردش میں اضافہ ہے۔
اور آنکھ کی بینائی متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ لنڈ یونیورسٹی سویڈن کے محققین نے چوہے کے دماغ پر مائکروویو تابکاری کے اثرات کا مطالعہ کیا جس کے نتائج میں دماغ میں خون کی رکاوٹ سامنے آئی جبکہ 2006ء میں 420.000 ڈینش شہریوں پر موبائل فون کے استعمال اور کینسر کے واقعات کے درمیان تعلق کے بارے میں تحقیق کی گئی جس میں یہ دیکھنے میں آیا کہ موبائل فون استعمال کرنے والوں میں کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ برین ٹومر کی بڑی وجہ موبائل فون کا بے جا استعمال قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ بچوں کو جتنا ممکن ہو موبائل فون سے دور رکھیں کیونکہ تابکاری اثرات ان پر جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں سر درد، تھکاوٹ، نیند میں کمی، چکر آنا، ذہنی انتشار، یاداشت میںکمی کی بیماریاں عام دیکھی گئی ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ٹاورز موبائل فون کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تابکاری خارج کر رہے ہیں جبکہ یہ تابکاری مسلسل اور زیادہ طاقتور ہے جس کی وجہ سے براہ راست متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ جو موبائل فون استعمال نہیں بھی کرتا وہ بھی ان تابکاری شاعوں سے بچ نہیں سکتا۔
موبائل ٹاورز کے ڈیزائن بھی تابکاری کے اثرات میں اضافہ اور کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ تاہم کئی یورپی ممالک میں محکمہ صحت موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز لگانے کیلئے جگہ کی نشاندہی کرتا ہے مگر اس کے برعکس پاکستان میں ہر گلی' کوچے میں خستہ حال مکانوں کی چھتوں، خالی پلاٹوں، عالیشان پلازوں اور کھیتوں تک میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور نصب ہیں جن کی تنصیب میں محکمہ صحت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، کیونکہ موبائل فون کمپنیاں ٹاور لگانے کیلئے کرایہ کی مد میں معقول ادائیگی کرتی ہیں اور ان ٹاورز کو مسلسل بجلی کی فراہمی کیلئے لگائے جانے والے جنریٹرز سے بھی کئی مالکان مستفید ہو رہے ہیں چند سال قبل تک ٹھیکیدار کمپنیوں کے ٹاورز نصب کرنے سے قبل مالکان سے معقول کمشن بھی وصول کرتے رہے جبکہ کئی نوسر بازوں نے ٹاور لگانے کے نام پر کئی سادہ لوح افراد کو لوٹا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں متعلقہ ادارے اس مسئلہ کی نوعیت کو محسوس کرتے ہوئے موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لئے ضابطہ تیار کریں، جس میں شہریوں کی صحت کو اولین ترجیح دی جائے۔ گلی، محلوں میں نصب ہونے والے موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے اور انہیں آبادی سے دور منتقل کیا جائے۔ سادہ لوح شہری چند ٹکوں کے لالچ میں اپنے اور اپنے اطراف میں رہنے والوں کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں اور حکومت ایسا میکنیزم تیار کرے جس میں رہائشی علاقوں میں موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور نصب کرنے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ان سے ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔