نئی حکومت کے پہلے سو روز۔۔۔۔

کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے معیشت کی کشتی کو بچانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے ہی قرض لیا۔

محمد نواز شریف گزشتہ 5 سال ملک کی ابتر صورتحال پر کڑتے نظر آئے۔فوٹو: فائل

کسی بھی جمہوری ملک کی نئی حکومت کے پہلے سو دن نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ انہی دنوں میں وہ رہنما اصول مرتب کئے جاتے ہیں جن کی روشنی میں سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں رواں برس 11مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ پارٹی کے سربراہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ 5 سال ملک کی ابتر صورتحال پر کڑتے نظر آئے۔ انہوں نے بارہا عوامی اجتماعات سے خطاب میں ملکی مسائل پر رنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے حل کیلئے اپنی پارٹی کے برسراقتدار آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہاں تک کے عام انتخابات کی رات کو بھی انہوں نے اپنے گھر کی بالکونی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا '' ملکی مسائل جس قدر گھمبیر ہے، ان کے حل کیلئے دعا کریں کہ ن لیگ کو واضح برتری حاصل ہو جائے تاکہ ہمیں فیصلے کرنے میں آسانی ہو'' یہ دعا قبول ہوئی اور آج ملک میں ن لیگ کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔



نئی حکومت نے آتے ہی سو دنوں کے لئے قوم کے سامنے 10 نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جس میں امن و امان کا قیام، افراط زر میں کمی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت کی بحالی کے ساتھ ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات کے قیام جیسے نکات شامل تھے۔ نواز حکومت اس ایجنڈے پر کس حد تک عمل پیرا ہوئی اور ابھی تک کتنی کامیابی سمیٹ سکی ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

معیشت اور مہنگائی
نئے حکمرانوں نے مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہی معیشت کی تباہی کا واویلا مچانا شروع کیا اور اس میں اصلاحات لانے کے نعرے لگائے۔ لیکن افسوس پنجاب کے بعد پاکستان کو بدلنے اور کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے ڈگر پرانی ہی رکھی اور معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو بچانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی کوششیں شروع کر دیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قرضوں کی منظوری کو اپنی بہترین حکمت عملی قرار دیا لیکن کُھل کر یہ نہیں بتایا کہ عوام کو اس قرض کا بوجھ کن کن صورتوں میں اٹھانا پڑے گا۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں پر مزید بوجھ بڑھا دیا گیا۔ معیشت کے استحکام کے لئے روایتی ناقص پالیسیوں نے گرتے کو ایک اور دھکا دے دیا، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کی دلدل میں دھنسے عوام کو مزید ڈبو دیا گیا۔ یہاں تک کہ آئی ایم ایف اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہہ رہا ہے کہ ''پاکستان کی معاشی شرح نمو 6.7 ارب ڈالر قرضے کے باوجود کم رہے گی''۔ یکم جون، یکم جولائی، یکم اگست اور اب یکم ستمبر کو معاشی مینجرز نے ڈیزل، پٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو نئی حکومت کے آنے کا ثبوت فراہم کیا۔ نئی حکومت جب آئی تو اس وقت پٹرول 98 روپے تھا جو اب 110روپے لٹر ہو چکا ہے، سی این جی میں فی کلو11روپے تک اضافہ ہوا۔



ایل پی جی 115سے 145 روپے کی ہوگئی۔ ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث روپے کی قدر میں کمی ہوتی چلی گئی اور یوں صرف سو روز قبل جو ڈالر 98 روپے کا تھا، وہ اب 105روپے تک پہنچ گیا ہے۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتوں اور جی ایس ٹی میں اضافہ سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 10سے 15فیصد تک اضافہ ہوا، آٹے کا 20کلو کا تھیلا 115روپے مہنگا ہو کر 785 روپے کا ہو گیا، فی کلو قیمت 37سے یکبار 46 پر آئی اور اب 40 پر ٹھہری ہوئی ہے، 5 روپے والی روٹی 7روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔

چینی 2 روپے مہنگی ہو کر 58 روپے کلو ہو گئی جس میں رواں ماہ کے آخر تک مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چاول کی فی کلو قیمت 30 روپے اضافہ سے 150روپے تک پہنچ گئی۔ خشک دودھ 40 روپے اضافے سے 600 روپے کلو ہو گیا، بسکٹ ہاف رول 15 سے 17 روپے کا ہو گیا۔ آلو 20، پیاز 10، ادرک اور لہسن کی قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا۔ 15روپے والی نوٹ بک 20، 3 روپے کی کچی پنسل 5، بال پوائنٹ 5کے بجائے7 اور 60 روپے والی کتاب 85 روپے کی ہو گئی۔ موبائل لوڈ ٹیکس 17سے بڑھا کر 25 فیصد اور ٹیلی ویژن فیس 35 سے60 کر دی گئی۔

قومی اداروں کی تشکیل نو اور حکومت سازی
مسلم لیگ ن اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں قومی اداروں کی تباہ حالی کا تذکرہ کرتے تھکتے نہیں تھے اور بارہا کہا گیا کہ وہ اداروں کی بحالی کے لئے ان کی تشکیل نو کریں گے، لیکن افسوس 100روز کے دوران کوئی ایک بھی کارپوریشن ایسی نہیں، جس میں آزاد طریقے سے میرٹ پر شفافیت کے ساتھ نئی انتظامیہ آئی ہو۔ سرکاری اداروں کی جو حالت پہلے چل رہی تھی، وہ آج بھی ہے۔ اسی لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز ہر روز بیل آؤٹ پیکج مانگتی ہے۔

سٹیل ملز کی پیداوار دس سے گیارہ فیصد تک رہ گئی ہے، ان کے پاس تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں اور حکومت تنخواہیں دے رہی ہے۔ یہی حال واپڈا اور دیگر کارپوریشنوں کا بھی ہے۔ چیئرمین نیب کی نامزدگی میں سیاسی مصلحت پر مبنی غیر معمولی تاخیر کی جا رہی ہے۔ سو دن گزر گئے مگر بلوچستان کی کابینہ نہیں بن سکی۔ کیا یہ رویہ بلوچستان کے عوام کی توہین نہیں؟ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اس تاخیر کی ذمے داری مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر عائد کی ہے کیوں کہ ان کی طرف سے صوبائی کابینہ کے لئے تاحال نام ہی نہیں بھجوائے گئے۔



چیئرمین پی ٹی اے کا عہدہ خالی پڑا ہے جس وجہ سے تھری جی لائسنس کی نیلامی بھی رکی ہوئی ہے۔ حکومت ابھی تک امریکہ، برطانیہ اور یو این او میں سفیر تعینات نہیں کرسکی۔ قومی اسمبلی کو کام شروع کئے سو روز گزر چکے ہیں مگر اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں تاحال اپنا کام شروع نہیں کر سکیں اور نہ ہی اس حوالے سے مطلوبہ قانون سازی کی جا سکی ہے۔ کیا یہ غیر معمولی تاخیر حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق ہے؟


بدامنی اور ڈرون حملے
کراچی سے خیبر تک ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنانے کے دعوے کرنے والی نئی حکومت بظاہر سیاسی مصلحت کا شکار نظر آرہی ہے، اور انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کے اعلان میں تاخیر اس شک کو مزید تقویت پہنچا رہی ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی رہائش گاہ پردھماکے، جس کے نتیجے میں زیارت ریزیڈینسی کا تباہ ہونا،کوئٹہ دھماکے اور فائرنگ میں 14طالبات سمیت 25 ہلاکتیں، پشاور خود کش دھماکہ میں 14 افراد کی ہلاکت، مردان میںخودکش دھماکے سے 28 اموات، 60 سے زائد افراد کا زخمی ہونا، گلگت بلتستان میں 10 غیر ملکیوں سمیت 11 سیاحوں کی ہلاکت اور کراچی میں روزانہ 8سے10افراد کی ٹارگٹ کلنگ نے مسلم لیگ (ن)کی تیسری مرتبہ آنے والی حکومت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں اس ارض پاک نے ایک ایک روز میں 50 نعشوں کا بوجھ بھی برداشت کیا ہے۔ پاکستانی شہری آئے روز سڑکوں اور گھروں میں لٹ رہے ہیں اور مر رہے ہیں لیکن حکومت مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا راگ الاپے جا رہی ہے۔ دوسری طرف ڈرونز کے ذریعے ملک پر حملوں کا سلسلہ بھی تھمنے کو نہیں۔ نواز حکومت کی طرف سے ''ڈرون اٹیک ہماری خودمختاری پر حملہ تصور'' کرنے کا شور مچانے کے باوجود موجودہ دور حکومت میں 7 ڈرون حملے کئے گئے جن میں تقریباً 51افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

توانائی بحران اور ڈیم
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے گزشتہ 8 سال سے قوم کو ذہنی مریض بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن نے لوڈشیڈنگ کو اپنے منشور میں اولیت دیتے ہوئے اسے اپنی الیکشن مہم میں خوب استعمال کیا۔ بہرحال حکومت بنانے کے بعد اس ضمن میں ن لیگ کی طرف سے کچھ مثبت اقدامات بھی کئے گئے، جس میں 5 سو ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کا خاتمہ اور توانائی بحران میں کمی کے لئے چند منصوبوں کا افتتاح بھی شامل ہے۔۔۔لیکن اس شعبہ میں عوام نے حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہیں، جس کا اظہار وزیراعظم اور وزیر پانی و بجلی بارہا خود بھی کر چکے ہیں کہ لوڈشیڈنگ مکمل ختم کرنے کے لئے سالوں درکار ہیں۔

حکومتی اقدامات سے آج کل عوام کو لوڈشیڈنگ سے کچھ ریلیف ضرور ملا ہے لیکن شارٹ فال ابھی بھی 36 سو میگاواٹ کے ارد گرد گھوم رہا ہے اور ملک کے بعض حصوں میں عوام 8سے10گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سرکلر ڈیٹ نے پھر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ 5.75روپے فی یونٹ والی بجلی 12روپے فی یونٹ تک پہنچا دی گئی ہے جس نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حکومت 2 سو یونٹ تک صارفین کو سبسڈی دینے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ سبسڈی بھی جلد ختم کر دی جائے گی کیوں کہ قرض دینے والوں کی یہ اولین شرائط میں شامل ہے۔



دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ڈیم بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیںدی جارہی، دیامیر بھاشا اور داسو ڈیم جیسے منصوبے مکمل ہونے سے جہاں توانائی بحران پر قابو پانے جیسے فوائد حاصل ہوں گے وہاں ہر سال آنے والے سیلاب سے چھٹکارا ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان میں ہر سال سیلاب سے سینکڑوں جانوں اور اربوں روپے کا ضیاع ہو رہا ہے لیکن مقتدر حلقے نئے ڈیم بنانے کے بجائے تاحال بندر بانٹ میں ہی مصروف ہیں۔ رواں برس حال ہی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 193 افراد ہلاک جبکہ متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

5615 دیہات متاثر ہوئے، پنجاب میں 760353 ایکڑ، سندھ میں 203,593 ایکڑ، بلوچستان میں 63969 اور خیبر پختونخوا میں 4,279 ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہو گئیں جبکہ 4 ہزار555 مویشی ہلاک ہوئے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ حکومت نے مجموعی طور پر صرف 55334 خیمے اور 123350خوراک کے تھیلے تقسیم کیے جبکہ باقی کام ڈونرز ایجنسیاں انجام دینے میں مصروف عمل ہیں۔

بین الاقوامی برادری سے تعلقات
نئی حکومت کے ایجنڈا میں ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات کے قیام کو خاص اہمیت دی گئی۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے تو عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی فتح کو بھی بھارت کے ساتھ امن کا مینڈیٹ قرار دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ نواز حکومت اس ایجنڈے پر کس حد تک عمل پیرا ہے اور کامیاب ہو سکی ہے۔

برابری کی سطح پر بھارت اور امریکہ سمیت ہر ملک سے تعلقات استوار کرنے کا کوئی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے کو دوستی کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ ناقص حکمت عملی کے باعث بھارت نے پاکستان کی امن کی خواہش کو شائد کمزوری سمجھ لیا ہے، اسی لئے گزشتہ ماہ بھارت کی طرف سے متعدد بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی جس میں 8 فوجیوں سمیت ہمارے 12 لوگ شہید ہوئے۔

کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی خلاف ورزیوں اور بلااشتعال فائرنگ کے پے درپے واقعات نے بھارت اور پاکستان کی تعلقات کو بے پناہ نقصان پہنچایا جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، تاہم میاں نواز شریف نے بھارتی جارحیت پر چپ سادھے رکھی۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں حکومت کے لئے ایک متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دینا کسی چیلنج سے کم نہیں تاہم پہلے سو دن خارجہ پالیسی کے حوالے سے معنی خیز رہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ کا دورہ پاکستان، وزیر اعظم نوازشریف کا چین کا سرکاری دورہ اور سعودی عرب کا نجی دورہ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور افغان صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

نواز حکومت کے پہلے سو روز میں ملکی بہتری کے نام پر عوام کو سخت فیصلے جھیلنے کے سوا ایسا کچھ نہیں دیا گیا جس پر عش عش کیا جا سکے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ حکومت کو مزید وقت نہ دیا جائے۔ حکومت نے پہلے سو دنوں کے اندر دہشتگردی اور سلامتی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی تشکیل دی، دہشتگردی اور انتہاپسندی کے راستے پر چلنے والوں کیساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانے کیلئے آل پارٹیزکانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا جو ایک اہم پیشرفت ہے۔

حکومت نے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹائے جانے کی کوشش بھی ناکام بنادی، لوڈشیڈنگ میں کچھ کمی ہوئی، کراچی میں جاری بدامنی کے خاتمے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن، نیکٹا کی تنظیم نو اورکوئیک ریسپانس فورس بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔ لہٰذا مایوسیوں کے اندھیروں میں گھری قوم نے موجودہ حکمرانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ان کا اتنی جلدی ٹوٹنا (خدانخواستہ) بہت بڑی تباہی لا سکتا ہے۔

سو روز قبل اور آج اشیائے ضروریہ کا موازنہ

Load Next Story