کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ۔۔۔

اسلامی اخوّت اور بھائی چارے کا درس بھی اسی باہمی تعاون کی ایک کڑی ہے۔


اسلامی اخوّت اور بھائی چارے کا درس بھی اسی باہمی تعاون کی ایک کڑی ہے۔ فوٹو : فائل

BOGOTA: اسلام محض پوجا پاٹ کا مذہب نہیں بل کہ مکمل نظام حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس نے واضح ہدایات و تعلیمات دی ہیں اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے اب اس کی پیروی کریں۔

اسلام سراپا نور ہے، دنیا میں جس قدر اندھیرا پھیل جائے، اسلام کی روشنی موجود رہے گی۔ مصیبت اور تکالیف کے وقت میں بھی اسلامی تعلیمات راہ نمائی کے لیے موجود ہیں اور ان پر عمل کرنے سے یقینا قلب و روح کو سکون نصیب ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات زخم کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہیں۔ ورنہ بعض اوقات اندھیری رات میں انسان گھبرا اٹھتا ہے اور بسا اوقات مصائب و ابتلاء کی یلغار کے سامنے ہمت ہار کر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہذا اس ضمن میں قضا و قدر کی حقیقت کو پالینا ضروری ہوجاتا ہے۔ شیطان انسان کی گھات میں لگا رہتا ہے، کوئی مصیبت آجائے تو دل میں مختلف نوعیت کے وسوسے ڈالتا ہے۔

روئے زمین پر کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جسے دنیا میں مصائب اور تکالیف کا سامنا نہ ہو، ہر ا نسان خواہ و ہ کتنا بھی صاحب دولت اور بے نیاز ہو، کسی نہ کسی وقت اس پر ایسی افتاد آن پڑتی ہے کہ اسے دوسروں کی مدد لینا پڑتی ہے۔ چوں کہ افراد کے مابین تعاون، ہم دردی اور باہمی محبت و خیر خواہی کا جذبہ معاشرے میں امن و سکون کا ضامن ہے اسی لیے اسلام نے باہمی ہم دردی و تعاون کو اعلی انسانی اوصاف کا حصہ قرار دیا۔ چناں چہ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : '' نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ و سرکشی میں ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو۔'' (المائدہ)

آپؐ نے فرمایا، مفہوم: '' جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں کوشاں رہا تو خدا تعالیٰ اُس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا، اور جو کسی مسلمان کی ایک مصیبت دور کرے گا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی مصیبت دور کر دے گا۔،،

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' جو شخص کسی پریشان حال انسان کی مدد کرے اللہ تعالی اس کے لیے تہتّر مرتبہ مغفرت لکھے گا، جن میں سے ایک مغفرت تو اس کے تمام کاموں کی اصلاح کے لیے کافی ہے اور بہتّر مغفرتیں قیامت کے دن اس کے لیے درجات بن جائیں گی۔''

حضرت واثلہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' تُو اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کر، ورنہ اللہ اُس پر رحم فرمائے گا اور تجھے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔''

اسلامی اخوّت اور بھائی چارے کا درس بھی اسی باہمی تعاون کی ایک کڑی ہے۔ باری تعالی فرماتے ہیں، مفہوم: '' درحقیقت تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔،، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: '' مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔،،

آپؐ کی ان تعلیمات نے عربوں کی فطرت بدل دی، یہاں تک کہ انصار مہاجرین کو اپنے گھر لے گئے کہ اس گھر میں جو کچھ ہے، آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا۔ انسانیت کو آج اسی اسوۂ حسنہ کی تقلید کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ ہماری دست رس میں اگر دو روٹیاں ہیں تو ایک یا ادھی اس شخص کو دیں جو اس سے بھی محروم ہے۔ حاجت مندوں کی حاجت پوری کرنا انبیائے کرامؑ کے اوصاف ہیں۔ مصیبت زدہ کے ساتھ ہم دردی اور تعزیت کرنا مکارم اخلاق میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ خود بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت اور ترغیب دیتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لیے مصیبت زدہ ہی کی طرح اجر ہے۔'' میّت کے گھر والے صدمے کی وجہ سے ایسے حال میں نہیں ہوتے کہ کھانے وغیرہ کا اہتمام کرسکیں اس لیے ان کے ساتھ ہم دردی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اس دن ان کے کھانے کا اہتمام دوسرے اعزہ اور احباب کریں۔

آپؐ نے فرمایا: '' بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور قیدیوں کو چھڑاؤ۔،، آپؐ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔'' اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیر خواہی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زریں اصول عطا فرمایا: '' بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔'' اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ترقی و کمال کی معراج یہ ہے کہ اس کا وجود معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو، اس کی ذات سے خیر و خوبی کے سوتے پھوٹتے ہوں، اس کی جسمانی قوت ہر وقت کم زور اور بے سہارا لوگوں کی امداد و اعانت پر صرف ہو رہے ہوں۔

آپؐ نے فرمایا: ''مخلوق خدا کا کنبہ ہے، پس بہترین شخص وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ احسان کرے۔،، اسوۂ رسول اللہ ﷺ کے مطالعے سے بہ خوبی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بالخصوص دکھی، مصیبت زدہ، مفلوک الحال اور مفلس و محتاج لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا آپؐ کی بعثت کے اعلی مقاصد میں شامل تھا۔ آپؐ کا فرمان ہے : ''بیواؤں اور مسکینوں کی مصیبت کو دور کرنے میں کوشاں شخص اجر و ثواب میں اس شخص کے برابر ہے جو ہمیشہ نماز میں مصروف رہتا ہے اور اس میں وقفہ نہیں کرتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہے، افطار نہیں کرتا۔'' آپؐ نے فرمایا: ''جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں، رحمٰن ان پر رحم کرتا ہے۔ اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کرنا اور رفاہی کاموں میں حصہ لینا پیغمبرانہ اوصاف میں سے ہے۔ بل کہ آفات اور ہلاکت سے بچنے کا بہترین ہتھیار بھی ہے۔ بخاری کی کتاب الوحی میں مذکور ہے، مفہوم : جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو وحی کے بوجھ اور عظمت کی وجہ سے آپؐ پریشان ہوگئے۔ گھر آتے ہی آپؐ نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا کہ مجھے گھبراہٹ محسوس ہورہی ہے مجھے کمبل اوڑھا دو اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔،،

حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ہرگز نہیں ! خدا کی قسم، اللہ آپؐ کو ضایع نہیں فرمائیں گے، کیوں کہ آپؐ عاجز اور مجبوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تعلقات جوڑتے ہیں، جو چیز دوسروں کے پاس نہیں آپؐ انہیں کما کردیتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔'' تو دیکھیے کہ حضرت خدیجہ ؓ نے اپنی حکمت و دانائی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حاجت مندوں کی مدد کرنا، انسانی تعلقات کو استوار کرنا عالم گیر رفاہی اصول ہیں۔ انسانیت کی فلاح اور معاشرت و تمدن کی فلاح و بہبود کا انحصار ان ہی پر مبنی ہے۔

اسلام دین رحمت اور روشنی کا وہ منبع ہے جس نے کرہ ارض کو منور کیا۔ انسانیت کو خیر و بھلائی اور برکات و انعامات سے نوازا۔ جن و انس، حیوانات و نباتات اور جمادات سب کے حق میں یہ دین رحمت ہے۔ پاکیزگی، محبت اور پاک دامنی اس کے ثمرات ہیں، شر اور برائی کا خاتمہ نیکی کی نشوونما اس دین کا طرہ امتیاز ہے، یہ دینِ حق زندگی کے روحانی اور جسمانی دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اسلام انسانیت کو روشنی فراہم کرتا ہے اور دنیا کی زینت اور لطف کو حرام قرار نہیں دیتا، تاہم اس کے لیے حدود متعین کرتا ہے تاکہ ہر شخص کی آزادی اور حقوق کی حفاظت ہوسکے۔ یہ وہ دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو محرومی اور انتہا پسندی اور اندھیروں میں نہیں دھکیلتا، بل کہ انہیں پروقار اور پرلطف انداز سے اپنے رب سے ملاتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دین کی قدر پہچانیں، اس پر فخر کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں