ولادیمیرپوتن روس کو عالمی سطح پر نئی زندگی دینے والا لیڈر

شام کے تنازعے نے یہ حقیقت عیاں کردی کہ اب امریکا کی من مانیوں، خودساختہ بادشاہت اور عالمی چوہدراہٹ کے دن چلے گئے۔


آصف زیدی September 22, 2013
قومی معیشت کی بحالی کے ساتھ اب پوتن کا اہم کردار عالمی سطح پر امریکی چوہدراہٹ کا راستہ روکنا ہے۔ فوٹو : فائل

قوموں کی زندگی پر ایک مشکل وقت تو وہ ہوتا ہے جب وہ انتہائی مشکلات میں گھر جاتی ہیں اور دشمنوں کی سازشیں، اپنوں کی رنجشیں، عالمی سطح پر تنہائی اور قومی و معاشی مسائل ان کی زندگیوں کو آلام و مصائب سے دوچار کردیتے ہیں۔

ایسے میں خاک وخون کی بارش اور بارود کی بو مسائل کا حل نہیں دیتی، بل کہ مسائل کو مزید بڑھادیتی ہے۔ ایسی اقوام طویل عرصے تک مشکل حالات کا عذاب سہنے پر مجبور ہوتی ہیں لیکن پھر وقت پلٹتا ہے اور تقدیر سب کی طرح اس مسائل میں گھری قوم کو بھی دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے اور خود کو منوانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اب یہ اس قوم کے لیڈروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنی نشاۃ ثانیہ کے لیے ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا مسائل میں گھرے گھرے ہی زندگیاں گزاردیتے ہیں۔

روس کے موجودہ صدر 61سالہ ولادیمیر پوتن کا شمار بھی ان قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے مشکل حالات کا سامنا ضرور کیا، لیکن مسائل کو اپنے اوپر حاوی کرنے کی بجائے مسائل اور مشکلات کا حل نکالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر روس عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے جس کی آواز سننا لازمی اور جسے نظرانداز کرنا امریکا تک کے لیے انتہائی مشکل ہے۔



امریکا سے سردجنگ کے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ دنیا بھر کے ممالک اپنی سلامتی اور تحفظ کے لیے امریکا یا روس میں سے کسی ایک سپر پاور کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے تھے، لیکن پھر دنیا بھر کے ساتھ روسی باشندوں نے بھی اپنے ملک کا زوال دیکھا۔ معاشی تباہی اور مختلف تنازعات نے great Russia کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور امریکی استعمار کو طویل عرصے تک دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا موقع ملا۔ عمومی تاثر اب بھی یہی ہے کہ امریکا ہی دنیا کی واحد سپر پاور ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔

شام کے تنازعے نے یہ حقیقت دنیا بھر پر عیاں کردی ہے کہ اب امریکا بہادرکی من مانیوں، خودساختہ بادشاہت اور عالمی چوہدراہٹ دکھانے کے دن چلے گئے۔ عراق اور افغانستان میں مہلک ہتھیاروں کی تلاش، ان کے خاتمے کی آڑ اور دہشت گردوں کو سبق سکھانے کے لیے اپنی ''دہشت گردی'' دکھانے کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے شام کو سبق سکھانے کا تہیہ کرلیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے ''ہم جولیوں '' کے ساتھ شام کی موجودہ حکومت کے خلاف جو چاہے اقدام کرے گا، لیکن اس بار جیسے سب کچھ ہی بدل گیا۔

امریکا کو شام پر حملے سے روکنے کے لیے ایران نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا اور ایرانی حکومت کے اس بیان نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کیا تو واشنگٹن کو بھی اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ امریکا کی ایران سے مخاصمت کسی ڈھکی چھپی نہیں، ایٹمی پروگرام کو بہانہ بناکر امریکا اب تک ایران کے خلاف معاشی پابندیاں تو لگاتا ہی رہا ہے لیکن امریکی حکم راں کئی برسوں سے ایران پر بھی جارحیت کے خواب سجائے ہوئے ہیں۔ شام پر حملہ کرکے وہاں قبضہ کرنے کا امریکی منصوبہ بھی ایران دشمنی ہی کا ایک سلسلہ ہے کیونکہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کو تہران کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری طرف جب شام کے افق پر جنگ کے بادل گہرے ہونے لگے تو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے صاف الفاظ میں ''امریکا بہادر'' کو اس ایڈونچر سے منع کیا اور یہ بھی وارننگ دی کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کیا تو ہم امریکا کے اتحادی ملکوں بشمول سعودی عرب کو نشانہ بنائیں گے۔ یہ ایسی دھمکی تھی جس نے دنیا بھر سمیت وہائٹ ہاؤس اور پنٹاگان میں بھی کھلبلی مچادی۔ امریکی حکام کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا؟ پوتن کے اقدام ہی کا ہی نتیجہ ہے کہ شام پر امریکی جارحیت کا خطرہ فی الوقت ٹل گیا ہے اور تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کی جارہی ہے۔



امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاؤروف سے 3دن بات کی، پہلے تو جان کیری نے کوشش کی کہ روس کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کی امریکی خواہش قبول کرنے پر راضی کیا جائے، لیکن روسی حکام ڈٹے رہے اور بالآخر شام کا تنازع طے کرنے کے لیے جنگ کے بجائے مذاکرات سے معاملہ حل کرنے کا سمجھوتا ہوگیا۔ اس سمجھوتے کے تحت شامی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ جلد ازجلد کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کردے یا عالمی کنٹرول میں دے۔ اس کے علاوہ اسے عالمی ماہرین سے اپنے ملک میں موجود تنصیبات کا معائنہ بھی کرانا ہوگا۔ عالمی سطح پر شام کے حوالے سے کیے گئے اس سمجھوتے کا خیر مقدم کیا گیا ہے کیوںکہ اب یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں آہستہ آہستہ آنے لگی ہے کہ

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک بڑے عالمی لیڈر ہونے کے ساتھ خود کو ایک دوراندیش اور سمجھ بوجھ رکھنے والا لیڈر ثابت کیا ہے۔ روس نے فرانس، برطانیہ اور ان جیسے دیگر ممالک کو، جو اپنی مرضی کے بجائے امریکا کی پسند و ناپسند پر چلنا فرض سمجھتے ہیں، واضح سبق دیا ہے کہ ذاتی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کا بھی احترام کرنا چاہیے، طاقت کا مطلب اپنی مرضی کرنا نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی اور بغیر وجہ جنگ و جدل سے بچنا ہے۔

پوتن کی اپنی زندگی مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آگے بڑھی ہے، انھوں نے کسی تقریب میں ایک بات کہی تھی جو بالخصوص ولادیمیر پوتن اور بالعموم بہت سے لوگوں کی زندگی کا نچوڑ ہے۔ پوتن نے کہا تھا کہ ''ایک آزاد معاشرے کی تشکیل کا راستہ بہت سادہ نہیں، تاریخ میں اس حوالے سے بہت خوبصورت اور انتہائی دردناک صفحات موجود ہیں۔''

ولادیمیر پوتن کا مکمل نام ولادیمیر ولادیمروچ Vladimir Vladimirovich Putin ہے، سینٹ پیٹرزبرگ سے تعلق رکھنے والے پوتن اکتوبر کی 7 تاریخ کو سال گرہ منائیں گے، 1952 میں لینن گراڈ جنم لینے والے پوتن کی زندگی میں 7 تاریخ کافی اہم ہے کیوںکہ اسی تاریخ کو وہ پیدا ہوئے اور پھر 7 مئی 2012 کو انھوں نے دوسری بار روس کے صدر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالیں۔ اس سے قبل وہ 2000 سے 2008 تک بھی روسی صدر رہ چکے ہیں۔

پوتن کو بچپن سے ہی مشکل کاموں کا شوق تھا، بہت چھوٹی ہی عمر میں انھوں نے جوڈوکراٹے سیکھنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ پوتن کی والدہ ماریہ شیلومووا (Maria Shelomova) اس فیصلے سے خوش نہیں تھیں، وہ بار بار پوتن کو جوڈو کراٹے کھیلنے سے منع کرتی رہیں، تاہم ایک دن پوتن کے کوچ نے گھر آکر ان کے والدین کو بتایا کہ پوتن بہت باصلاحیت بچہ ہے اور اس نے کراٹے کی تربیت کے دوران کافی نمایاں پوزیشن لی ہے، کوچ کی جانب سے پوتن کی تعریف کے بعد گھر والوں نے بھی انھیں منع نہیں کیا۔ پوتن کے والد کا نام بھی ولادیمیر پوتن تھا۔ انھوں نے 1950 کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور ہر باپ کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا زندگی میں بہت آگے جائے۔

اگر آئینی پابندی نہ ہوتی تو یقینی طور پر پوتن 2008 میں مسلسل تیسری بار صدر کا عہدہ سنبھال لیتے۔ پوتن نے روسی وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی 2 بار خدمات انجام دیں۔ پہلی بار 1999 سے 2000 کے عرصے کے لیے انھیں وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب کیا گیا۔ دوسری بار 2008 تا 2012 وہ ملک کو مختلف چیلینجوں اور مسائل سے نکالنے کے لیے بطور وزیراعظم کوششیں کرتے رہے۔ ان کے سیاسی سفر کا ایک اور اہم عہدہ یونائیٹڈ رشیا پولیٹیکل پارٹی کی چیئرمین شپ بھی تھی۔ باقاعدہ سیاست میں آنے سے قبل پوتن نے تقریباً 16 سال سابق سوویت یونین کی سب سے اہم سیکیوریٹی ایجنسی ''کے جی بی'' میں کام کیا اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔

سابق روسی صدور بورس یلسن کے عہدہ صدارت کے دوران پوتن نے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت سے اعلیٰ حکام کو بیحد متاثر کیا، ان کی اہلیت کا اعتراف 31دسمبر 1999 کو اس وقت ہوا جب یلسن کے مستعفی ہونے کے بعد انھیں قائم مقام صدر کی ذمے داری سونپی گئی۔ جب 2012 میں روسی آئین میں ترمیم کے ذریعے صدارتی عہدے کی میعاد 4 سال سے بڑھاکر6سال کی گئی تو پوتن نے تیسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور دوبارہ صدر کا منصب سنبھال لیا۔



ان کی تیسری بار صدارت کے خلاف ملک میں مظاہرے بھی ہوئے، روس میں موجود ان کے مخالفین اور عالمی ماہرین پوتن کے بہت سے فیصلوں اور پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے دیکھا کہ اس بار پوتن کی قیادت میں روس تبدیلی کی طرف جارہا ہے اور یہ تبدیلی عالمی سطح پر طاقت کے توازن کے مترادف ہے۔ بہت سے غیر ملکی سفارت کاروں کی یہ رائے ہے کہ ولادیمیر پوتن نے روس کو 90 کی دہائی کے معاشی بحران اور دیگر مسائل سے نکلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

قومی معیشت کی بحالی کے ساتھ اب پوتن کا اہم کردار عالمی سطح پر امریکی چوہدراہٹ کا راستہ روکنا ہے، وہ پہلے بھی کئی بار متعدد امریکی فیصلوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں جب کہ شام کے تنازع کے تناظر میں تو روس نے اتنا آگے بڑھ کر امریکا کو للکارا جس کی واشنگٹن انتظامیہ کو توقع بھی نہیں تھی۔ یہ بھی ایک تاریخی موقع تھا جب شام پر چڑھائی کے لیے امریکا نے اپنے طیارہ بردار جنگی بحری جہاز کو شام کے ساحلوں کے پاس بھیجا تو دوسری جانب سے ولادیمیر پوتن کے حکم پر روسی بحری بیڑہ بھی وہاں پہنچ گیا۔

روسی صدر نے نہ صرف اپنے بیانات بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اور کیا کرسکتے ہیں؟ روسی صدر کے سخت ردعمل اور تنازعے کو بات چیت کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرنے کی اصولی بات پر ڈٹے رہنے کا ہی نتیجہ تھا کہ امریکا شام پر حملہ نہیں کرسکا۔

ولادیمیر پوتن نے تعلیمی میدان میں قانون کی ڈگری حاصل کی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عالمی معاملات میں واشنگٹن انتظامیہ کی طرح غیرقانونی طریقوں کو اپنانے اور اپنی مرضی کے قانون دنیا پر مسلط کرنے کے بجائے قانون پر مکمل عمل کرنے کی روش اپنائی ہے۔ 1975 میں کے جی بی سے منسلک ہونے کے بعد پوتن نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ قومی سیکیوریٹی ایجنسی میں گزارا اور 1991 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ اس کے بعد سینٹ پیٹرزبرگ میں پوتن کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوا اور وہاں بھی وہ ہر مرحلے میں سب سے نمایاں اور کام یاب رہے۔



1997 میں اس وقت کے روسی صدر بورس یلسن نے پوتن کو صدارتی عملے کا ڈپٹی چیف مقرر کیا۔ اس کے بعد پوتن کی ترقی کی منازل تیزی سے طے ہونے لگیں، وہ کے جی بی کی طرح کے ہی ایک اور ادارے (ایف ایس بی) کے بھی سربراہ مقرر کیے گئے۔ ان انتظامی ترقیوں، معاملہ فہمی کی صلاحیت اور قائدانہ حکمت عملیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ ماہرین کہنے لگے تھے کہ ولادیمیر پوتن بہت آگے جائیں گے۔ اور یہ اندازے غلط ثابت نہیں ہوئے۔ ولادیمیر پوتن نے ملک کی صدارت اور وزارت عظمیٰ سنبھال کر ثابت کیا کہ ان میں وہ صلاحیت ہے جو ایک ملکی قیادت کرنے والے لیڈر میں ہونی چاہیے۔ ایسا سربراہ جو اپنے ملک کو معاشی مشکلات اور دیگر چیلینجوں سے نکال کر عالمی سطح پر نمایاں مقام دے۔ پوتن نے روس میں جو کیا وہ سب کے سامنے ہے، بے پناہ مخالفتوں، پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر شدید تنقید اور ایوان اقتدار کی سازشوں کے باوجود پوتن کا تیسری بار ملک صدارت سنبھال لینا ثابت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کے دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں کہ انھوں نے روس کو دوبارہ عالمی سطح پر نمایاں پوزیشن دی بلکہ ان کے اقدامات نے امریکا کو بھی کئی بار پیچھے پٹنے پر مجبور کیا ہے۔

ولادیمیر پوتن نے ابھی کئی سال روس میں صدر کی حیثیت سے ذمے داریاں انجام دینی ہیں، عالمی سیاسی بساط پر ہر گھڑی چالیں بدلتی رہتی ہیں اور مہرے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پوتن کی اصول پسندی، صحیح موقف کے لیے ڈٹ جانے کی عادت اور امریکا کو من مانیوں سے روکنے کا سلسلہ کتنا آگے بڑھتا ہے۔ شام کی صورت حال کے تناظر میں روس کے کردار نے دنیا کے متعدد ممالک خاص طور پر شام کے خلاف کسی بھی قسم کی امریکی جارحیت پر احتجاج کرنے والے ملکوں کو بہت حوصلہ دیا ہے۔ ولادیمیر پوتن کی صورت میں روس بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط طاقت کی حیثیت میں دوبارہ ابھررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی اجارہ داری کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں