ماہی گیر ویسل مانیٹرنگ سسٹم لگانے پر آمادہ نہیں ریئر ایڈمرل ذکا الرحمن
اس سسٹم کی تنصیب سے ہنگامی حالات میں پھنس جانیوالی لانچ کی بروقت نشاندہی ممکن ہے، ڈی جی میری ٹائم
ڈائریکٹر جنرل میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ریئر ایڈمرل ذکا الرحمن کا کہنا ہے کہ سمندرمیں ماہی گیری کے لیے استعمال ہونیوالی لانچوں کے مالکان ویسل مانیٹرنگ سسٹم(وی ایم ایس )نصب کرنیکی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
وی ایم ایس کی تنصیب کے بعدسمندر میں کسی بھی ہنگامی حالات میں پھنس جانے والی لانچ کی بروقت نشاندہی ممکن ہے۔ 2کروڑروپے مالیت کی لانچ رکھنے و الے2لاکھ روپے کے وی ایم ایس آلات لگوانے سے گریزاں ہیں، سمندر میں نقصان دہ اور ممنوعہ جالوں کی تقسیم غیرقانونی جیٹیوں سے ہورہی ہے، رات کے اندھیرے میں غیرقانونی جیٹی سے بھیجی جانیوالی لانچ کا عملہ گہرے سمندرمیں دیگر لانچوں کو جال تقسیم کرتے ہیں، نقصان دہ جالوں کی وجہ سے بڑی مچھلی کے ساتھ بچہ مچھلی جبکہ انڈوں کا بھی صفایا کردیا جاتاہے۔
ڈی جی میری ٹائم ریئر ایڈمرل ذکا الرحمن کے مطابق ماہی گیرویسل مانیٹرنگ سسٹم (وی ایم ایس) کو لگانے پر آمادہ نہیں اور اس کے راستے میں روڑے اٹکارہے ہیں حالانکہ قانون یہ کہتاہے کہ15میٹر سے بڑی ویسل اس سسٹم کے بغیر گہرے سمندر میں نہیں جاسکتی، ویسل مانیٹرنگ سسٹم کے اندرسہولت یہ ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں صرف ایک بٹن کو دبانا ہوگا جس کو ایم ایس اے ہیڈکواٹرمیں مسلسل مانیٹرکیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام تر بے حسی ماہی گیری میں استعمال ہونے والی لانچوں کے مالکان کی ہے جو کسی بھی قانون پر عمل درآمد کے وقت غریب ماہی گیروں کو آگے کردیتے ہیں کہ اور احتجاج شروع کردیتے ہیں کہ غریب ماہی گیروں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور اس بات کا واویلا شروع کردیتے ہیں کہ ایم ایس اے والے ظلم کررہے ہیں حالانکہ یہ لانچیں خریدنے کی ان ماہی گیروں کی استطاعت نہیں ہے۔
بظاہر انتہائی خستہ حال دکھائی دینے والی اس ایک لانچ کی مالیت دوکروڑ روپے کے لگ بھگ ہے مگرلانچ مالکان اس پر سوار عملے کی حفاظت کے نقطہ نظر سے 2لاکھ روپے کا وی ایم ایس نہیں لگوارہے۔
ڈی جی میری ٹائم کے مطابق وی ایم ایس سسٹم کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس بات کی بھی مانیٹرنگ ممکن ہوسکے گی کہ کوئی پاکستانی لانچ سمندری حدود کو عبورکرکے بھارت، ایران یا پھر عمان سمیت کسی ملک میں تو داخل نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان نے اسی صورتحال میں بھارت کی سیکڑوں بوٹیں جبکہ ہزاروں ماہی گیرپکڑے جو سزائیں ختم ہونے کے بعدرہا بھی ہوجاتے ہیں، میری ٹائم سیکیورٹی کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستانی ماہی گیر کم تعداد میں پکڑے جاتے ہیں جبکہ وی
وی ایم ایس کی تنصیب کے بعدسمندر میں کسی بھی ہنگامی حالات میں پھنس جانے والی لانچ کی بروقت نشاندہی ممکن ہے۔ 2کروڑروپے مالیت کی لانچ رکھنے و الے2لاکھ روپے کے وی ایم ایس آلات لگوانے سے گریزاں ہیں، سمندر میں نقصان دہ اور ممنوعہ جالوں کی تقسیم غیرقانونی جیٹیوں سے ہورہی ہے، رات کے اندھیرے میں غیرقانونی جیٹی سے بھیجی جانیوالی لانچ کا عملہ گہرے سمندرمیں دیگر لانچوں کو جال تقسیم کرتے ہیں، نقصان دہ جالوں کی وجہ سے بڑی مچھلی کے ساتھ بچہ مچھلی جبکہ انڈوں کا بھی صفایا کردیا جاتاہے۔
ڈی جی میری ٹائم ریئر ایڈمرل ذکا الرحمن کے مطابق ماہی گیرویسل مانیٹرنگ سسٹم (وی ایم ایس) کو لگانے پر آمادہ نہیں اور اس کے راستے میں روڑے اٹکارہے ہیں حالانکہ قانون یہ کہتاہے کہ15میٹر سے بڑی ویسل اس سسٹم کے بغیر گہرے سمندر میں نہیں جاسکتی، ویسل مانیٹرنگ سسٹم کے اندرسہولت یہ ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں صرف ایک بٹن کو دبانا ہوگا جس کو ایم ایس اے ہیڈکواٹرمیں مسلسل مانیٹرکیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام تر بے حسی ماہی گیری میں استعمال ہونے والی لانچوں کے مالکان کی ہے جو کسی بھی قانون پر عمل درآمد کے وقت غریب ماہی گیروں کو آگے کردیتے ہیں کہ اور احتجاج شروع کردیتے ہیں کہ غریب ماہی گیروں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور اس بات کا واویلا شروع کردیتے ہیں کہ ایم ایس اے والے ظلم کررہے ہیں حالانکہ یہ لانچیں خریدنے کی ان ماہی گیروں کی استطاعت نہیں ہے۔
بظاہر انتہائی خستہ حال دکھائی دینے والی اس ایک لانچ کی مالیت دوکروڑ روپے کے لگ بھگ ہے مگرلانچ مالکان اس پر سوار عملے کی حفاظت کے نقطہ نظر سے 2لاکھ روپے کا وی ایم ایس نہیں لگوارہے۔
ڈی جی میری ٹائم کے مطابق وی ایم ایس سسٹم کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس بات کی بھی مانیٹرنگ ممکن ہوسکے گی کہ کوئی پاکستانی لانچ سمندری حدود کو عبورکرکے بھارت، ایران یا پھر عمان سمیت کسی ملک میں تو داخل نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان نے اسی صورتحال میں بھارت کی سیکڑوں بوٹیں جبکہ ہزاروں ماہی گیرپکڑے جو سزائیں ختم ہونے کے بعدرہا بھی ہوجاتے ہیں، میری ٹائم سیکیورٹی کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستانی ماہی گیر کم تعداد میں پکڑے جاتے ہیں جبکہ وی