جہاں گشت میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا مایوسی کفر ہے اور امید زندگی
بیٹا میں آگیا ہوں! اُن کی آواز سُن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے
RAHIM YAR KHAN:
قسط 57
عجیب ہوں ناں میں! ناروا تجسُس نے گھیرا ہُوا ہے مجھے اور سِر کو نہاں کرنے چلا ہوں میں۔ کتنا نادان و بے عقل و فہم ہوں میں، سامنے کی شے تو مجھے دکھائی نہیں دے رہی اور دُور کا بھید پانے کا آززو مند ہوں میں، عجیب ہوں میں ۔ فقیر اپنی بات کر رہا ہے، آپ تو دانا و بینا ہیں اور دُور اندیش بھی، افسوس خود پر! پَل کی فرصت ملے تو اپنے جیون پر ہی غور کروں۔ یہ اپنا دشمن جاں کس وقت یاد آیا، لوگ جسے اجمل سراج کے نام سے جانتے ہیں، لیکن جانتے ہی کب ہیں اسے۔
گرہ میں دام تو رکھتے ہیں زہر کھانے کو
یہ اور بات کہ فرصت نہیں ہے مرنے کی
ہم ایسے ہوگئے ہیں کہ ''فرصت نہیں'' کا راگ الاپتے چلے جاتے ہیں، تکرار اور مکرّر۔ دوسروں کی تو جانے دیں، خود پر بھی کبھی غور کرنے کا سمے نہیں ہے ہمارے پاس اور ایسے میں وہ تشریف لے آتے ہیں اور کہتے ہیں: چلیے! اپنی راحت بھری مسہری چھوڑیے، اپنا زرق برق پہناوا اتاریے، کفن اوڑھیے اور داخل ہوجائیے زمین کے پیٹ میں اور بتائیے کیا ہیں آپ؟ بہت مصروف تھے ناں آپ۔ افسوس! پھر کفِ افسوس مَلنے کا وقت بھی نہیں رہتا اور پھر لاد چلتا ہے بنجارا۔ ہم ناداں خود کو مقیم سمجھتے ہیں ناں، دھوکے اور فریب میں ہیں، سراسر خودفریبی میں گرفتار، بل کہ گرفتارِ بلا۔ مقیم یہاں کون رہا ہے، سبھی خانہ بہ دوش مسافر ہیں، اجل جسے ڈھونڈتی نہیں، ہر پل ساتھ چلتی ہے، جہاں سمے ہوا بس دبوچ لیتی ہے۔
فقیر پھر راہ کو گُم کرنے چلا ہے، خود کو روکنا ہوگا، واپس پلٹنا ہوگا، ورنہ مشکل ہوجائے گی سانس کی آمد و رفت، رہے نام اللہ کا۔ تو زندگی بھی کتنی پُراسرار ہے، بھید بھری زندگی۔ کتنے رنگ ہیں، ہزار نہیں، لاکھ رنگ ہیں اس کے اور اس سے بھی کہیں زیادہ، ہر سانس کا نیا رنگ و رُوپ۔ ہاں جیون بہت بھید بھرا ہے۔ ایک عجب کہانی ہے زندگی۔ دُکھ سُکھ، مایوسی اور امید کے درمیان پگڈنڈی۔ ڈوبتے، ابھرتے، بکھرتے اور پھر سنورتے، دل کش، حسین اور سہانے رنگ۔ جس طرح مصوّر کے بَرش کی ذرا سی بھی چُوک تصویر کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح انسان کے لمحے بھر کی غفلت بھی جیون کے حسین عکس کو بھدّا بنا دیتی ہے۔ لیکن پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ اپنی کسی بھی غلطی سے ہم نے اگر کچھ سیکھا ہے تو پھر تو وہ غلطی رحمت ہوئی ناں جی، بس ذرا غور کیجیے۔
جیون کا بھید مجھ جیسے کم نگاہ پر تو کبھی کُھلنے کا نہیں، شاید آپ جیسا زیرک، دانا و بینا اسے پالے۔ بس رنگ ہی رنگ، بے رنگی کہاں ہے یہاں ۔۔۔۔۔ ! زندگی کی گیلری میں آویزاں فریمز میں سجی ہوئی قسم ہا قسم کی تصویریں، مسکراتی ہوئی، رجائیت سے بھری ہوئی اور مایوسیوں، دُکھوں کی بپتا بیان کرتی ہوئی۔
زندگی بھی ایک گیلری ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ و رُوپ ہیں اس کے، نرالے ڈھنگ ہیں۔ کیسے کیسے روگ ہیں اس میں، سوگ ہیں اس میں۔ لیکن اسے بھی تو دیکھیے کہ ہر دکھ کے ساتھ ہی ایک سُکھ بندھا ہوا ہے اور اسے بھی یاد رکھیے کہ ہر سُکھ کے پلو میں اک دُکھ چھپا ہوا ہے۔ امید کے ساتھ ناامیدی اور ناامیدی کے ساتھ امید، اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کا کہا گیا ہے، اور کہا بھی اس نے ہے جو ماؤں سے زیادہ شفیق و مہربان ہے، جو سب کا پالنے والا بے نیاز ہے، اُس نے کہا ہے: بالکل نہیں، بالکل بھی نہیں، کبھی ایسا سوچنا بھی نہیں کہ میں تمہیں فراموش کرچکا ہوں، تم لاکھ نافرمان ہو، حکم عدولی کے مرتکب ہو، گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہو، تم احسان فراموش، سنگ دل و بے مہر ہو، تم خود کو بھی کیا جان پاؤ گے، ہاں میں نے تمہیں خَلق کیا ہے تو بس میں ہی تو تمہیں جانتا ہوں، یاد رکھو! بالکل بھی، قطعاً مایوس و ناامید مت ہونا، میں ہوں ناں تمہارے سنگ، بس ذرا سا تمہیں پرکھنا ہے کہ تم کتنا مجھ پر بھروسا کرتے ہو۔ عجیب رنگ ہیں سوہنے رب کے، تُو ویکھی جا مولا دے رنگ ۔۔۔۔۔۔ !
ہم نوجوانوں کی بات ہی کر رہے تھے ناں! اکثر نوجوانوں کے لیے والدین ہلکان ہیں کہ کیا بنے گا اس کا، جتنا بھی خراب ہو وہ ان کی آنکھ کا تارا اور سامان راحت تو ہوتا ہی ہے، کچھ لمحے روٹھ کر چلا جائے تو والدین کی سانس اکھڑنے لگتی ہے، ایسے مناظر تو اب عام ہیں۔ لیکن اس نوجوان سے جب فقیر ملا تو اسے اپنے والد کے لیے ہلکان پایا، ہلکان غلط کہہ گیا، جاں بہ لب۔ چلیے سنتے ہیں اسے۔ اس کے چہرے پر اس کا دُکھ لکھا ہوا ہے۔ پچاس برس سے اوپر کا لگتا ہے وہ، اور ہے بس تیس کا۔ اُس کی ویران آنکھیں اُس کا دُکھ بیان کرتی ہیں۔ بہت اصرار پر وہ آمادہ ہوا اور برسا اور ایسا کہ مت پوچھیں، بہت ہی بکھرا اور پھر بہت مشکل سے سنبھلا۔
بس یہی ہے زندگی، کیا ہے زندگی۔
اک طرف وحشتِ دل، ایک طرف غازۂ غم
کس کو ہے شہرِ رنگ و ناز میں اندازۂ غم
جی اس نے مجھے بتایا تھا: ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میرے والد صاحب کا نام عبدالحکیم ہے، وہ ٹیکسٹائل مل میں وارپنگ یعنی دھاگے کو کون پر لپیٹنے کا کام کرتے تھے۔ مزدور کی زندگی سدا سے اجیرن رہی ہے۔ بس ایسی ہی تھی ہماری زندگی، لیکن مطمئن اور سادہ۔ آسودگی راحت ہے لیکن اطمینان تو بڑی نعمت ہے ناں۔ تو بس ہماری زندگی ایسی ہی تھی۔ کھانے کو ملا تو خدا کا شُکر ادا کیا، نہیں ملا تو شکوہ نہیں کیا۔ یہی سکھایا ہمارے ماں باپ نے ہمیں۔ محنت کرو، حق حلال کی کھاؤ، لالچ نہ کرو، رشک نہ کرو، حسد کے قریب بھی نہ پھٹکو کہ زندگی میں خوشیوں کو پانے کا اصل راز یہی ہے۔
میں نے ہوش سنبھالا تو عسرت ہی دیکھی، لیکن مجھے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ جیسے تیسے میں نے آٹھویں پاس کی، پھر گھر کے حالات مزید خراب ہونے لگے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا، اور میں نے اچھا فیصلہ کیا تھا۔ میں گارمینٹس فیکٹری میں ہیلپر بھرتی ہوگیا۔ کچھ عرصے میں سلائی مشین چلانا سیکھ لی اور وہاں کام کرنے لگا۔ گارمنٹس فیکٹری میں چین سسٹم پر کام ہوتا ہے یعنی اگر کوئی کف بنا رہا ہے تو بس کف ہی بنا رہا ہے، کوئی کالر تو کوئی بٹن پٹی۔ تو بس اس طرح کا لگا بندھا کام ہوتا ہے۔ پھر معاوضہ بھی کوئی خاص نہیں ہوتا۔ تین سال میں نے وہاں کام کیا۔ پھر سوچا کہ ایسے کام نہیں چلے گا، کوئی ہنر سیکھنا چاہیے۔ میرے والد کی حالت بھی ابتر ہوتی جارہی تھی وہ بیمار رہنے لگے تھے۔
لیکن بہت جفاکش انسان تھے وہ اور بہت خوددار بھی۔ میں نے ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشن کا کام سیکھنے کا تہیہ کیا اور پھر ایک استاد سے بات کی اور اللہ کا نام لے کر کام سیکھنا شروع کیا۔ ظاہر ہے وہاں پیسے تو کم ملتے تھے کہ میں کام سیکھ رہا تھا۔ میں بہت محنت، توجہ اور دل جمعی سے کام سیکھ رہا تھا کہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے والد کو سکون پہنچاؤں اور انہیں گھر پر آرام سے رکھوں۔ اس لیے کہ انہوں نے ساری زندگی محنت کی تھی وہ راتوں میں بھی ہماری راحت کے لیے اپنی نیند قربان کرکے اوور ٹائم کرتے تھے کہ ان کی اولاد سُکھی رہے۔ اب ان کے کام کے دن تو نہیں تھے۔ میری خواہش تھی اور کوشش بھی کہ انہیں ساری خوشیاں فراہم کروں، اس لیے میں نے دن رات نہیں دیکھا، بس کام کرتا رہا۔ اس لیے بھی کہ میں بھائیوں سے بڑا تھا۔ پھر اچانک ابّا کے ہاتھ اور پاؤں پر کوئی جِلدی بیماری ہوگئی۔ زخم ہوگئے تھے ان کے ہاتھوں اور پیروں پر، کام نہیں کرسکتے تھے، وہ بہت رنجیدہ تھے۔ ہم نے ان کا علاج کرایا۔ خاصے دن تک وہ اسپتال میں داخل بھی رہے۔ اللہ نے شفا دی اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ میں نے انہیں کام سے منع کیا، لیکن وہ بہت سمجھ دار اور دُوراندیش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ابھی میں گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔
کاش! اس وقت تک کام سیکھ چکا ہوتا۔ کاش! میں ان کے لیے کچھ تو کرسکتا۔ کاش! میں انہیں اس دن کام پر جانے سے روک سکتا۔ اُس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے اسے دلاسا دیا، آخر ہُوا کیا ؟ تم کیوں ہو اتنے اداس ؟ پھر کیا ہوا بتاؤ؟
کیا ہونا تھا بھائی! جیون بھر کا روک لگ گیا ہے ہمیں۔ اس دن بھی وہ حسب معمول اپنے کام کے لیے نکلے۔ وہ باہر بالکل بھی نہیں رہتے تھے۔ جیسے ہی چُھٹی ہوتی وہ گھر آجاتے تھے، اس دن وہ وقت پر گھر نہیں پہنچے۔ ہم سمجھے بس میں آتے ہیں تو دیر ہوگئی ہوگی۔ پھر سوچا اوور ٹائم کے لیے رک گئے ہوں گے، لیکن جس دن وہ اوور ٹائم لگاتے اس دن تو خود بتاکر جاتے تھے کہ دیر سے آؤں گا۔ مجھے بہت بے چینی ہونے لگی اور پھر میں ان کی فیکٹری پہنچ گیا۔ فیکٹری والوں نے بتایا کہ وہ تو اپنے وقت پر چلے گئے تھے۔
میں نے ان کے دوستوں سے معلوم کیا، سب ہی کہہ رہے تھے وہ ہمارے سامنے بس میں بیٹھے تھے۔ جس راستے سے وہ گھر آتے تھے میں نے وہ پورا راستہ چھان مارا۔ کوئی حادثہ بھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی نتیجے پر پہنچتا۔ پھر بھی میں نے اسپتال چھان مارے، ساری رات میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ہر جگہ گیا وہ کہیں نہیں تھے۔ پورا گھر پریشان تھا۔ میری والدہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ ابّا کو درگاہوں پر جانے کا بھی بہت شوق تھا۔ لیکن وہ بتائے بنا کبھی بھی نہیں گئے تھے۔ لیکن میں نے پھر بھی کراچی کی ہر درگاہ، ہر مزار پر جاکر دیکھا۔ گھر میں بھی کوئی رنجش نہیں تھی۔ ان کا کسی جماعت سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کھانے کو بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں اغواء کرتا۔ ہمارے پاس کوئی جائے داد بھی نہیں تھی۔ آخر وہ گئے کہاں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ پھر میں نے پوسٹر چھپوائے، ہینڈ بلز تقسیم کیے۔ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کیا۔ پورے پاکستان کے مزار چھان مارے، مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔
مجھے کمانا بھی تھا، گھر والوں کو حوصلہ بھی دینا تھا اور اپنے والد کو تلاش بھی کرنا تھا۔ انسان مرجائے تو رو دھو کر صبر آجاتا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو قرار نہیں آتا۔ زندگی جہنّم بن جاتی ہے، میری حالت عجیب تھی۔ میں ہر وقت جیب میں ان کی تصویر رکھتا، بس میں بیٹھتا یا کہیں بھی جاتا لوگوں کو ان کی تصویر دکھا کر معلوم کرتا کہ انہیں کہیں دیکھا ہے؟ کچھ رشتے داروں نے تھوڑے دن تو ساتھ دیا۔ پھر کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بس نصیحت رہ گئی کہ ایسا کرلو، ویسا کرلو۔ میں نے عاملوں سے پوچھا، نذر نیاز کی، دعائیں مانگیں اب بھی کرتا ہوں، بل کہ ہم سب گھر والے ان کی راہ تکتے ہیں۔ زندگی تو جیسے بھی حالات ہوں جینا پڑتی ہے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی میں چند دن تھے کہ کسی نے بتایا کہ ہم نے انہیں میرپورخاص میں دیکھا ہے۔
میں اور میرا ہونے والا بہنوئی وہاں گئے، لیکن نہیں ملے وہ۔ آج تک یہ معما حل نہیں ہوا کہ وہ آخر کہاں گئے۔ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ بہنیں اپنے گھر کی ہوگئیں تو امی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا۔ چار سال پہلے میں نے شادی کی کہ امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے حیدرآباد میں ایک کمپنی میں کام مل گیا تھا۔ سب بہن بھائی کراچی میں اور میں حیدرآباد میں کام کر رہا تھا۔ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی پڑتا ہے۔ چند دن پہلے میرے دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے تو میں نے حیدرآباد سے کام چھوڑ کر کراچی میں اپنا کام شروع کیا ہے۔ ابھی ابتداء ہے اللہ نے پہلے بھی پالا ہے اب بھی پالے گا۔ ہم سب بھائی ساتھ رہتے ہیں۔ اتفاق میں برکت ہے۔ یہی ہمارے ابا نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں۔ ہمیں اب بھی ان کا انتظار ہے۔
ہم سب انہیں اب بھی تلاش کرتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے، لیکن بس یہ روگ ہے ہمارا۔ ہم اچھا کھانا پکائیں تو یاد آتے ہیں، میں بڑا ہوں مجھے زیادہ ہمت دکھانا پڑتی ہے۔ میرا کھانا پینا ختم ہوگیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری صحت تباہ ہو رہی ہے، لیکن میں کیا کروں؟ اپنے والد کو نہیں بھول سکتا۔ میں مرتے دم تک انہیں تلاش کروں گا۔ عید، شب برأت پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم روتے دھوتے ہیں، کبھی کسی بہن بھائی یا والدہ کے خواب میں آجاتے ہیں تو ہم اور بھی اداس ہوتے ہیں۔
ہماری خوشیاں ہمارے والد کے دم سے تھیں۔ میری یہ آرزو خاک میں مل گئی کہ میں انہیں سُکھ اور آرام پہنچاؤں گا۔ انہوں نے ہمارے لیے اتنی محنت کی۔ خود کو ختم کرلیا تھا، ان کی صحت برباد ہوگئی تھی اور جب اُن کی خوشیوں کے دن آئے تو وہ نہیں ہیں۔ بھائی صاحب! آٹھ برس ہوگئے ہیں، بولنے میں بہت آسان لگتا ہے ناں آٹھ سال۔ لیکن ہر پل ایک صدی بن گیا ہے۔ کوئی خوشی نہیں ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے ہر وقت بس ایک ہی دعا کرتا ہوں، مجھے میرا باپ لوٹا دے۔ میں تھک گیا ہوں۔ یہ روگ لگ گیا ہے مجھے۔ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاک پروردگار نے کہا ہے مایوسی کفر ہے اور امید پر زندگی قائم ہے۔ یہی مجھے والد نے سکھایا تھا۔ مجھے یقین ہے ایک دن وہ واپس آجائیں گے اور ہمیں سینے سے لگاکر کہیں گے: ''بیٹا میں آگیا ہوں۔'' بس ان کی آواز سن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا، ضرور ہوگا۔
ہاں انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ فقیر بس اتنا ہی کہہ سکا اور پورے یقین کے ساتھ۔
جو زخم جس جگہ تھا، اب تک وہیں ہَرا ہے
مرہم نہیں ہے دل پر، بوسہ نہیں جبیں پر
لیکن یہ بھی تو ہے:
ہم اپنی ساری شکایات بھول جائیں گے
ہمارے سامنے آکے ، وہ مسکرائے تو
فقیر نے اس کا دُکھ سُنا ہی نہیں دیکھا بھی اور بہ چشم نم، وہ تو خود مجسم دُکھ اور کَرب ہے، کوئی کیسے روک سکتا ہے اپنی آنکھوں کو برسنے سے، ہاں کوئی سنگ دل ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط 57
عجیب ہوں ناں میں! ناروا تجسُس نے گھیرا ہُوا ہے مجھے اور سِر کو نہاں کرنے چلا ہوں میں۔ کتنا نادان و بے عقل و فہم ہوں میں، سامنے کی شے تو مجھے دکھائی نہیں دے رہی اور دُور کا بھید پانے کا آززو مند ہوں میں، عجیب ہوں میں ۔ فقیر اپنی بات کر رہا ہے، آپ تو دانا و بینا ہیں اور دُور اندیش بھی، افسوس خود پر! پَل کی فرصت ملے تو اپنے جیون پر ہی غور کروں۔ یہ اپنا دشمن جاں کس وقت یاد آیا، لوگ جسے اجمل سراج کے نام سے جانتے ہیں، لیکن جانتے ہی کب ہیں اسے۔
گرہ میں دام تو رکھتے ہیں زہر کھانے کو
یہ اور بات کہ فرصت نہیں ہے مرنے کی
ہم ایسے ہوگئے ہیں کہ ''فرصت نہیں'' کا راگ الاپتے چلے جاتے ہیں، تکرار اور مکرّر۔ دوسروں کی تو جانے دیں، خود پر بھی کبھی غور کرنے کا سمے نہیں ہے ہمارے پاس اور ایسے میں وہ تشریف لے آتے ہیں اور کہتے ہیں: چلیے! اپنی راحت بھری مسہری چھوڑیے، اپنا زرق برق پہناوا اتاریے، کفن اوڑھیے اور داخل ہوجائیے زمین کے پیٹ میں اور بتائیے کیا ہیں آپ؟ بہت مصروف تھے ناں آپ۔ افسوس! پھر کفِ افسوس مَلنے کا وقت بھی نہیں رہتا اور پھر لاد چلتا ہے بنجارا۔ ہم ناداں خود کو مقیم سمجھتے ہیں ناں، دھوکے اور فریب میں ہیں، سراسر خودفریبی میں گرفتار، بل کہ گرفتارِ بلا۔ مقیم یہاں کون رہا ہے، سبھی خانہ بہ دوش مسافر ہیں، اجل جسے ڈھونڈتی نہیں، ہر پل ساتھ چلتی ہے، جہاں سمے ہوا بس دبوچ لیتی ہے۔
فقیر پھر راہ کو گُم کرنے چلا ہے، خود کو روکنا ہوگا، واپس پلٹنا ہوگا، ورنہ مشکل ہوجائے گی سانس کی آمد و رفت، رہے نام اللہ کا۔ تو زندگی بھی کتنی پُراسرار ہے، بھید بھری زندگی۔ کتنے رنگ ہیں، ہزار نہیں، لاکھ رنگ ہیں اس کے اور اس سے بھی کہیں زیادہ، ہر سانس کا نیا رنگ و رُوپ۔ ہاں جیون بہت بھید بھرا ہے۔ ایک عجب کہانی ہے زندگی۔ دُکھ سُکھ، مایوسی اور امید کے درمیان پگڈنڈی۔ ڈوبتے، ابھرتے، بکھرتے اور پھر سنورتے، دل کش، حسین اور سہانے رنگ۔ جس طرح مصوّر کے بَرش کی ذرا سی بھی چُوک تصویر کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح انسان کے لمحے بھر کی غفلت بھی جیون کے حسین عکس کو بھدّا بنا دیتی ہے۔ لیکن پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ اپنی کسی بھی غلطی سے ہم نے اگر کچھ سیکھا ہے تو پھر تو وہ غلطی رحمت ہوئی ناں جی، بس ذرا غور کیجیے۔
جیون کا بھید مجھ جیسے کم نگاہ پر تو کبھی کُھلنے کا نہیں، شاید آپ جیسا زیرک، دانا و بینا اسے پالے۔ بس رنگ ہی رنگ، بے رنگی کہاں ہے یہاں ۔۔۔۔۔ ! زندگی کی گیلری میں آویزاں فریمز میں سجی ہوئی قسم ہا قسم کی تصویریں، مسکراتی ہوئی، رجائیت سے بھری ہوئی اور مایوسیوں، دُکھوں کی بپتا بیان کرتی ہوئی۔
زندگی بھی ایک گیلری ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ و رُوپ ہیں اس کے، نرالے ڈھنگ ہیں۔ کیسے کیسے روگ ہیں اس میں، سوگ ہیں اس میں۔ لیکن اسے بھی تو دیکھیے کہ ہر دکھ کے ساتھ ہی ایک سُکھ بندھا ہوا ہے اور اسے بھی یاد رکھیے کہ ہر سُکھ کے پلو میں اک دُکھ چھپا ہوا ہے۔ امید کے ساتھ ناامیدی اور ناامیدی کے ساتھ امید، اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کا کہا گیا ہے، اور کہا بھی اس نے ہے جو ماؤں سے زیادہ شفیق و مہربان ہے، جو سب کا پالنے والا بے نیاز ہے، اُس نے کہا ہے: بالکل نہیں، بالکل بھی نہیں، کبھی ایسا سوچنا بھی نہیں کہ میں تمہیں فراموش کرچکا ہوں، تم لاکھ نافرمان ہو، حکم عدولی کے مرتکب ہو، گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہو، تم احسان فراموش، سنگ دل و بے مہر ہو، تم خود کو بھی کیا جان پاؤ گے، ہاں میں نے تمہیں خَلق کیا ہے تو بس میں ہی تو تمہیں جانتا ہوں، یاد رکھو! بالکل بھی، قطعاً مایوس و ناامید مت ہونا، میں ہوں ناں تمہارے سنگ، بس ذرا سا تمہیں پرکھنا ہے کہ تم کتنا مجھ پر بھروسا کرتے ہو۔ عجیب رنگ ہیں سوہنے رب کے، تُو ویکھی جا مولا دے رنگ ۔۔۔۔۔۔ !
ہم نوجوانوں کی بات ہی کر رہے تھے ناں! اکثر نوجوانوں کے لیے والدین ہلکان ہیں کہ کیا بنے گا اس کا، جتنا بھی خراب ہو وہ ان کی آنکھ کا تارا اور سامان راحت تو ہوتا ہی ہے، کچھ لمحے روٹھ کر چلا جائے تو والدین کی سانس اکھڑنے لگتی ہے، ایسے مناظر تو اب عام ہیں۔ لیکن اس نوجوان سے جب فقیر ملا تو اسے اپنے والد کے لیے ہلکان پایا، ہلکان غلط کہہ گیا، جاں بہ لب۔ چلیے سنتے ہیں اسے۔ اس کے چہرے پر اس کا دُکھ لکھا ہوا ہے۔ پچاس برس سے اوپر کا لگتا ہے وہ، اور ہے بس تیس کا۔ اُس کی ویران آنکھیں اُس کا دُکھ بیان کرتی ہیں۔ بہت اصرار پر وہ آمادہ ہوا اور برسا اور ایسا کہ مت پوچھیں، بہت ہی بکھرا اور پھر بہت مشکل سے سنبھلا۔
بس یہی ہے زندگی، کیا ہے زندگی۔
اک طرف وحشتِ دل، ایک طرف غازۂ غم
کس کو ہے شہرِ رنگ و ناز میں اندازۂ غم
جی اس نے مجھے بتایا تھا: ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میرے والد صاحب کا نام عبدالحکیم ہے، وہ ٹیکسٹائل مل میں وارپنگ یعنی دھاگے کو کون پر لپیٹنے کا کام کرتے تھے۔ مزدور کی زندگی سدا سے اجیرن رہی ہے۔ بس ایسی ہی تھی ہماری زندگی، لیکن مطمئن اور سادہ۔ آسودگی راحت ہے لیکن اطمینان تو بڑی نعمت ہے ناں۔ تو بس ہماری زندگی ایسی ہی تھی۔ کھانے کو ملا تو خدا کا شُکر ادا کیا، نہیں ملا تو شکوہ نہیں کیا۔ یہی سکھایا ہمارے ماں باپ نے ہمیں۔ محنت کرو، حق حلال کی کھاؤ، لالچ نہ کرو، رشک نہ کرو، حسد کے قریب بھی نہ پھٹکو کہ زندگی میں خوشیوں کو پانے کا اصل راز یہی ہے۔
میں نے ہوش سنبھالا تو عسرت ہی دیکھی، لیکن مجھے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ جیسے تیسے میں نے آٹھویں پاس کی، پھر گھر کے حالات مزید خراب ہونے لگے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا، اور میں نے اچھا فیصلہ کیا تھا۔ میں گارمینٹس فیکٹری میں ہیلپر بھرتی ہوگیا۔ کچھ عرصے میں سلائی مشین چلانا سیکھ لی اور وہاں کام کرنے لگا۔ گارمنٹس فیکٹری میں چین سسٹم پر کام ہوتا ہے یعنی اگر کوئی کف بنا رہا ہے تو بس کف ہی بنا رہا ہے، کوئی کالر تو کوئی بٹن پٹی۔ تو بس اس طرح کا لگا بندھا کام ہوتا ہے۔ پھر معاوضہ بھی کوئی خاص نہیں ہوتا۔ تین سال میں نے وہاں کام کیا۔ پھر سوچا کہ ایسے کام نہیں چلے گا، کوئی ہنر سیکھنا چاہیے۔ میرے والد کی حالت بھی ابتر ہوتی جارہی تھی وہ بیمار رہنے لگے تھے۔
لیکن بہت جفاکش انسان تھے وہ اور بہت خوددار بھی۔ میں نے ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشن کا کام سیکھنے کا تہیہ کیا اور پھر ایک استاد سے بات کی اور اللہ کا نام لے کر کام سیکھنا شروع کیا۔ ظاہر ہے وہاں پیسے تو کم ملتے تھے کہ میں کام سیکھ رہا تھا۔ میں بہت محنت، توجہ اور دل جمعی سے کام سیکھ رہا تھا کہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے والد کو سکون پہنچاؤں اور انہیں گھر پر آرام سے رکھوں۔ اس لیے کہ انہوں نے ساری زندگی محنت کی تھی وہ راتوں میں بھی ہماری راحت کے لیے اپنی نیند قربان کرکے اوور ٹائم کرتے تھے کہ ان کی اولاد سُکھی رہے۔ اب ان کے کام کے دن تو نہیں تھے۔ میری خواہش تھی اور کوشش بھی کہ انہیں ساری خوشیاں فراہم کروں، اس لیے میں نے دن رات نہیں دیکھا، بس کام کرتا رہا۔ اس لیے بھی کہ میں بھائیوں سے بڑا تھا۔ پھر اچانک ابّا کے ہاتھ اور پاؤں پر کوئی جِلدی بیماری ہوگئی۔ زخم ہوگئے تھے ان کے ہاتھوں اور پیروں پر، کام نہیں کرسکتے تھے، وہ بہت رنجیدہ تھے۔ ہم نے ان کا علاج کرایا۔ خاصے دن تک وہ اسپتال میں داخل بھی رہے۔ اللہ نے شفا دی اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ میں نے انہیں کام سے منع کیا، لیکن وہ بہت سمجھ دار اور دُوراندیش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ابھی میں گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔
کاش! اس وقت تک کام سیکھ چکا ہوتا۔ کاش! میں ان کے لیے کچھ تو کرسکتا۔ کاش! میں انہیں اس دن کام پر جانے سے روک سکتا۔ اُس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے اسے دلاسا دیا، آخر ہُوا کیا ؟ تم کیوں ہو اتنے اداس ؟ پھر کیا ہوا بتاؤ؟
کیا ہونا تھا بھائی! جیون بھر کا روک لگ گیا ہے ہمیں۔ اس دن بھی وہ حسب معمول اپنے کام کے لیے نکلے۔ وہ باہر بالکل بھی نہیں رہتے تھے۔ جیسے ہی چُھٹی ہوتی وہ گھر آجاتے تھے، اس دن وہ وقت پر گھر نہیں پہنچے۔ ہم سمجھے بس میں آتے ہیں تو دیر ہوگئی ہوگی۔ پھر سوچا اوور ٹائم کے لیے رک گئے ہوں گے، لیکن جس دن وہ اوور ٹائم لگاتے اس دن تو خود بتاکر جاتے تھے کہ دیر سے آؤں گا۔ مجھے بہت بے چینی ہونے لگی اور پھر میں ان کی فیکٹری پہنچ گیا۔ فیکٹری والوں نے بتایا کہ وہ تو اپنے وقت پر چلے گئے تھے۔
میں نے ان کے دوستوں سے معلوم کیا، سب ہی کہہ رہے تھے وہ ہمارے سامنے بس میں بیٹھے تھے۔ جس راستے سے وہ گھر آتے تھے میں نے وہ پورا راستہ چھان مارا۔ کوئی حادثہ بھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی نتیجے پر پہنچتا۔ پھر بھی میں نے اسپتال چھان مارے، ساری رات میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ہر جگہ گیا وہ کہیں نہیں تھے۔ پورا گھر پریشان تھا۔ میری والدہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ ابّا کو درگاہوں پر جانے کا بھی بہت شوق تھا۔ لیکن وہ بتائے بنا کبھی بھی نہیں گئے تھے۔ لیکن میں نے پھر بھی کراچی کی ہر درگاہ، ہر مزار پر جاکر دیکھا۔ گھر میں بھی کوئی رنجش نہیں تھی۔ ان کا کسی جماعت سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کھانے کو بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں اغواء کرتا۔ ہمارے پاس کوئی جائے داد بھی نہیں تھی۔ آخر وہ گئے کہاں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ پھر میں نے پوسٹر چھپوائے، ہینڈ بلز تقسیم کیے۔ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کیا۔ پورے پاکستان کے مزار چھان مارے، مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔
مجھے کمانا بھی تھا، گھر والوں کو حوصلہ بھی دینا تھا اور اپنے والد کو تلاش بھی کرنا تھا۔ انسان مرجائے تو رو دھو کر صبر آجاتا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو قرار نہیں آتا۔ زندگی جہنّم بن جاتی ہے، میری حالت عجیب تھی۔ میں ہر وقت جیب میں ان کی تصویر رکھتا، بس میں بیٹھتا یا کہیں بھی جاتا لوگوں کو ان کی تصویر دکھا کر معلوم کرتا کہ انہیں کہیں دیکھا ہے؟ کچھ رشتے داروں نے تھوڑے دن تو ساتھ دیا۔ پھر کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بس نصیحت رہ گئی کہ ایسا کرلو، ویسا کرلو۔ میں نے عاملوں سے پوچھا، نذر نیاز کی، دعائیں مانگیں اب بھی کرتا ہوں، بل کہ ہم سب گھر والے ان کی راہ تکتے ہیں۔ زندگی تو جیسے بھی حالات ہوں جینا پڑتی ہے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی میں چند دن تھے کہ کسی نے بتایا کہ ہم نے انہیں میرپورخاص میں دیکھا ہے۔
میں اور میرا ہونے والا بہنوئی وہاں گئے، لیکن نہیں ملے وہ۔ آج تک یہ معما حل نہیں ہوا کہ وہ آخر کہاں گئے۔ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ بہنیں اپنے گھر کی ہوگئیں تو امی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا۔ چار سال پہلے میں نے شادی کی کہ امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے حیدرآباد میں ایک کمپنی میں کام مل گیا تھا۔ سب بہن بھائی کراچی میں اور میں حیدرآباد میں کام کر رہا تھا۔ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی پڑتا ہے۔ چند دن پہلے میرے دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے تو میں نے حیدرآباد سے کام چھوڑ کر کراچی میں اپنا کام شروع کیا ہے۔ ابھی ابتداء ہے اللہ نے پہلے بھی پالا ہے اب بھی پالے گا۔ ہم سب بھائی ساتھ رہتے ہیں۔ اتفاق میں برکت ہے۔ یہی ہمارے ابا نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں۔ ہمیں اب بھی ان کا انتظار ہے۔
ہم سب انہیں اب بھی تلاش کرتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے، لیکن بس یہ روگ ہے ہمارا۔ ہم اچھا کھانا پکائیں تو یاد آتے ہیں، میں بڑا ہوں مجھے زیادہ ہمت دکھانا پڑتی ہے۔ میرا کھانا پینا ختم ہوگیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری صحت تباہ ہو رہی ہے، لیکن میں کیا کروں؟ اپنے والد کو نہیں بھول سکتا۔ میں مرتے دم تک انہیں تلاش کروں گا۔ عید، شب برأت پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم روتے دھوتے ہیں، کبھی کسی بہن بھائی یا والدہ کے خواب میں آجاتے ہیں تو ہم اور بھی اداس ہوتے ہیں۔
ہماری خوشیاں ہمارے والد کے دم سے تھیں۔ میری یہ آرزو خاک میں مل گئی کہ میں انہیں سُکھ اور آرام پہنچاؤں گا۔ انہوں نے ہمارے لیے اتنی محنت کی۔ خود کو ختم کرلیا تھا، ان کی صحت برباد ہوگئی تھی اور جب اُن کی خوشیوں کے دن آئے تو وہ نہیں ہیں۔ بھائی صاحب! آٹھ برس ہوگئے ہیں، بولنے میں بہت آسان لگتا ہے ناں آٹھ سال۔ لیکن ہر پل ایک صدی بن گیا ہے۔ کوئی خوشی نہیں ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے ہر وقت بس ایک ہی دعا کرتا ہوں، مجھے میرا باپ لوٹا دے۔ میں تھک گیا ہوں۔ یہ روگ لگ گیا ہے مجھے۔ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاک پروردگار نے کہا ہے مایوسی کفر ہے اور امید پر زندگی قائم ہے۔ یہی مجھے والد نے سکھایا تھا۔ مجھے یقین ہے ایک دن وہ واپس آجائیں گے اور ہمیں سینے سے لگاکر کہیں گے: ''بیٹا میں آگیا ہوں۔'' بس ان کی آواز سن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا، ضرور ہوگا۔
ہاں انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ فقیر بس اتنا ہی کہہ سکا اور پورے یقین کے ساتھ۔
جو زخم جس جگہ تھا، اب تک وہیں ہَرا ہے
مرہم نہیں ہے دل پر، بوسہ نہیں جبیں پر
لیکن یہ بھی تو ہے:
ہم اپنی ساری شکایات بھول جائیں گے
ہمارے سامنے آکے ، وہ مسکرائے تو
فقیر نے اس کا دُکھ سُنا ہی نہیں دیکھا بھی اور بہ چشم نم، وہ تو خود مجسم دُکھ اور کَرب ہے، کوئی کیسے روک سکتا ہے اپنی آنکھوں کو برسنے سے، ہاں کوئی سنگ دل ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔