غذائی تحفظ کے چیلنج سے نبردآزما ہمارے پھیلتے شہر
پاکستان کی شہری آبادی میں یہ اضافہ اگر چہ تمام شہروں پر محیط ہے لیکن وطن عزیز کے 10 بڑے شہر اس کی زیادہ لپیٹ میں ہیں۔
PESHAWAR:
''خبردار! ہمارے تیزی سے پھیلتے شہر زرعی زمینوں کو نگل رہے ہیں جس سے مستقبل میں شہری آبادی کو فوڈ اِن سکیورٹی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے''۔
یہ بات کچھ عرصہ قبل رانا ریاض محمود اسسٹنٹ ہارٹیکلچر آفیسر لاہور نے مجھے بتا کر چونکا دیا۔ رانا صاحب کے اس انتباہ سے یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم سب نے کس قدر بے حسی سے اس اہم موضوع کو فراموش کر رکھا ہے۔ میڈیا ہو یا پالیسی ساز سب کے سب مستقبل قریب میں پیش آسکنے والے اس انسانی بحران کی سنگینی کا ادراک نہیں کر رہے۔ جس کی بنیاد شاید ہم نے غیر شعوری طور پر اُس روز ہی رکھ دی تھی جب تقسیم پاک و ہند کے بعد مہاجرین کی اکثریت نے ملک کے صرف چند شہروں کو ہی اپنا مسکن بنایا۔
مثلاً کراچی کی آبادی میں1941 سے1951 کے دوران 176 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی عرصہ کے دوران فیصل آبادکے رہائشیوں کی تعداد میں 156 فیصد اور حیدرآباد کے نفوس کی تعداد میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔آنے والے وقتوں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کا پاکستان کے شہروں میں سکونت پذیر ہونا بھی شہری آبادی میں اضافہ کا محرک بنا۔ جبکہ شہروں اور دیہات میں دستیاب سہولیات کے مابین وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی خلیج نے دیہی آبادی کو شہروں کی راہ دکھائی۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہم تیزی سے دیہی آبادی کے مالک ملک سے شہری آبادی کے حامل ملک میں تبدیل ہو تے جا رہے ہیں ۔
جس کا اندازہ ملک کی پانچویں اور چھٹی خانہ و مردم شماری کے ان نتائج سے ہوتا ہے کہ 1998 میں ملک کی 32.5 فیصد آبادی شہروں میں مقیم تھی جبکہ2017 میں یہ تناسب بڑھ کر 36.4 فیصد ہو چکا ہے۔اس عرصہ کے دوران ملک کی شہری آبادی میں مجموعی طور پر 75.6 فیصد اورکل ملکی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ یعنی ہماری شہری آبادی کے بڑھنے کی رفتار ملکی آبادی میں اضافہ کی رفتار سے زائد ہے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل آفیرز کے ورلڈ اربنائزیشن پراسپیکٹ دی2018 رویژن کے اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ 1998 میں پاکستان اپنی شہری آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 12 ویں نمبر پر تھا اب (2019) میں وہ 10 ویں نمبر پر آچکا ہے اور اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ شہری آبادی میں عددی اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 9 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی شہری آبادی میں یہ اضافہ اگر چہ تمام شہروں پر محیط ہے لیکن وطن عزیز کے 10 بڑے شہر اس کی زیادہ لپیٹ میں ہیں۔ کیونکہ1998 اور2017 کے دوران خانہ و مردم شماری رپورٹس کے مطابق ہماری شہری آبادی کی تعداد میں3 کروڑ 25 لاکھ48 ہزار سے زائد نفوس کا اضافہ ہوا۔ جس کا 53 فیصد ملک کے 10 بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ میں ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ لاہور شہر کی آبادی میں ہوا جو104 فیصد بڑھی ہے۔
اس کے بعد پشاور ہے جہاں یہ اضافہ100 فیصد ہوا ۔ اسلام آباد میں92 ، گوجرنوالہ میں 79 ، کوئٹہ میں 77 فیصد ہوا۔ جس کے بعد کراچی کا نمبر ہے جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران آبادی میں60 فیصداضافہ ہوا۔ 55.7 فیصد کے ساتھ فیصل آباد ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کے بعد ملتان 56 فیصد، راولپنڈی49 فیصد اور حیدرآباد کی آبادی میں 48.5 فیصد اضافہ ہوا۔ 1998 میں پاکستان کی کل آبادی کا 7.1 فیصد کراچی میں مقیم تھا یہ تناسب2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 7.2 فیصد رہا ۔ جبکہ لاہور میں پچھلی مردم شماری کے لحاظ سے ملک کی 4.1 فیصد آبادی موجود تھی جو حالیہ مردم شماری تک بڑھ کے 5.4 فیصد ہو چکی ہے۔ فیصل آباد میں یہ تناسب دونوں مردم شماریوں کے مطابق برابر یعنی1.5 فیصد رہا ۔ اسی طرح2017 میں ملک کی مجموعی شہری آبادی کا 19.7 فیصد کراچی میں آباد ہے یہ تناسب 1998 میں 21.7 فیصد تھا ۔ لاہور میںیہ12.6 فیصد سے بڑھ کر 14.7 فیصد پر آچکا ہے جبکہ فیصل آباد میں اس تناسب میں معمولی کمی آئی ہے اور یہ 4.7 فیصد سے کم ہوکر4.2 فیصد پر آگیا ہے۔
ہمارے شہر جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اُس کا ایک اندازہ اقوام متحدہ کے ان اعدادوشمار سے بھی ہوتا ہے کہ 1998 میں کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 3 لاکھ اور اس سے زائد آبادی کے حامل شہروں کی درجہ بندی میں 20 ویں نمبر پر تھا۔ 2019 میں وہ 12 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اسی طرح لاہور42 ویں نمبر سے ترقی کر کے 25 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ فیصل آباد مذکورہ عرصہ کے دوران 156 ویں نمبر سے135 ویں پر آچکا ہے۔
ہمارے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ پیش خیمہ بن رہا ہے ان کے پھیلنے کا، جو بے ہنگم انداز میں پھیلتے ہوئے اپنے اندر اور قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کرتے جا رہے ہیں۔ اس پھیلاؤ کی ذرا ایک جھلک ملاحظہ ہو ۔ دی اٹلس آف اربن ایکسٹینشن 2016 نامی بین الاقوامی دستاویز کے مطابق کراچی شہر جو فروری1991 میں 22335.21 ہیکٹر رقبہ پر آباد تھا اکتوبر2000 تک بڑھ کر34126.74 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا ۔ اور اکتوبر2013 تک اس میں مزید وسعت آ چکی تھی اور یہ 45326.52 ہیکٹر رقبہ پر پھیل چکا تھا۔ 10 سالوں میں کراچی کے رقبہ میں 52.8 فیصد اور اگلے13 سالوں میںاس میں مزید 32.8 فیصد اضافہ ہوا۔
جبکہ 1991 سے2013 تک کراچی کے رقبہ میں 103 فیصد اضافہ ہوا۔ لاہور شہر جو نومبر1991 تک 17750.52 ہیکٹر پر محیط تھا اکتوبر2000 تک وسیع ہوکر23155.56 ہیکٹر اور اکتوبر2013 تک 37142.01 ہیکٹر تک وسعت اختیار کر چکا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے9 سال کے دوران لاہور شہر کے رقبہ میں 30.5 اور موجودہ صدی کے پہلے 13سال کے دوران 60.4 فیصد بڑھااور مجموعی طور اس کے رقبے میں 110 فیصد اضافہ ہوا ۔ اسی طرح سیالکوٹ جو نومبر92 تک 2038.05 ہیکٹر پر آباد تھا۔ اکتوبر 2000 تک بڑھ کر 8168.58 ہیکٹر تک آگیا اوراکتوبر2014 تک اس میں مزید توسیع ہوئی اور یہ 9620.28 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا۔ 1991-2000 کے دوران سیالکوٹ شہر کے رقبہ میں 301 فیصد اور 2000-14 تک 18 فیصد اور مجموعی طور پر 372 فیصد اضافہ ہوا ۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان تینوں شہروں میں سے رواں صدی کے تقریباً پہلے ڈیڑھ عشرے کے دوران سب سے زیادہ رقبہ کی وسعت لاہور نے حاصل کی ۔ اسی امر کی تائید پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے دی اربن یونٹ کی پنجاب سٹیز گروتھ اٹلس 1995-2015 نامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ جس کے مطابق 1995 سے2015 تک پنجاب میںسب سے زیادہ لاہور شہر کے رقبہ میں اضافہ ہو ا جو445 مربع کلومیٹر ہے۔ اور2015 تک لاہور 665 مربع کلومیٹر تک پھیل چکا تھا۔
دوسرا نمایاں اضافہ350 مربع کلومیٹر رقبہ کا راولپنڈی اسلام آباد میں ہوا اور2015 تک یہ جڑواں شہر494 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو چکے تھے۔ تیسرا اضافہ گوجرانوالہ میں ہوا جہاں شہری حدود 123 مربع کلومیٹر مزید بڑھ کر2015 تک 150 کلومیٹر ہو چکی ہے۔ چوتھے نمبر پر ملتان رہا جس کے رقبہ میں مذکورہ عرصہ کے دوران 110 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ 2015 تک 187 مربع کلومیٹر تک وسعت اختیار کر چکا ہے۔ پانچواں اضافہ فیصل آباد کے رقبہ میں ہوا جو99 مربع کلومیٹر تھا، یوں 2015 تک فیصل آباد کا کل رقبہ 183 کلومیٹر تھا۔
جبکہ 2025 تک لاہور 1320 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو جائے گا اور 2015 سے2040 ء تک سب سے زیادہ شہری رقبہ میں اضافہ کے حوالے سے لاہور ہی کے پنجاب بھرمیں سر فہرست رہنے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے ۔ دوسرے نمبر پر اس عرصہ کے دوران راولپنڈی، اسلام آباد اور تیسرے نمبر پر گوجرنوالہ ہوگا۔اسی طرح اگر ہم فیصد اضافہ کے پیمانے سے پنجاب کے شہروں کی صورتحال دیکھیں تو تصویر کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے جس کے مطابق 1995 سے2015 تک محیط 20 سالوں کے دوران سب سے زیادہ شہری رقبہ کے حوالے سے فیصد اضافہ چکوال میں ہوا جو1300 فیصد ہے جس کا رقبہ ایک مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 14 مربع کلومیٹر ہوگیا۔دوسرا نمایاں اضافہ مریدکے میں ہوا جس کے رقبہ میں 650 فیصد اضافہ ہوا۔ 600 مربع کلومیٹر کے ساتھ اٹک اس کے بعد ہے۔
گوجرانوالہ کے رقبہ میں 456 فیصد اضافہ ہوا جبکہ حافظ آباد اور کامونکی کے رقبہ میں 400 فیصد فی کس اضافہ ہوا۔ اور اگر ہم موجودہ صدی کے 2005 سے2015 تک کی دہائی کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ فیصد اضافہ نارووال کے رقبہ میں ہوا جو 215 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر صادق آباد رہا جہاں 183 فیصد اضافہ ہوا ۔ تیسری پوزیشن پر مریدکے موجود ہے جس کے رقبہ میں 145 فیصد اضافہ ہوا۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر مظفر گڑھ اور جڑانوالہ رہے جہاں بالترتیب 131 اور126 فیصد اضافہ ہوا ۔
پنجاب کے50 شہر جوکہ1995 میں 893 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل تھے ۔ اس میں2005 تک 606 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ رقبہ مجموعی طور پر 1499مربع کلومیٹر ہوگیا ۔ اس کے بعدآنے والے دس سالوں میں اس رقبہ میں1089 مربع کلومیٹر مزید اضافہ ہوا اور یہ2015 تک بڑھ کر 2588 مربع کلومیٹر ہوگیا جوکہ پنجاب کے 1.26 فیصد رقبہ کے برابر ہے۔ ان 20 سالوں میں پنجاب کے 50 شہروں کے مجموعی رقبہ میں 1695 مربع کلومیٹر یعنی 190 فیصد اضافہ ہوا ۔
پہلے دس سالوں میں 68 فیصد اور اگلے 10 برسوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ پنجاب کے50 شہروں کے رقبہ میں ہونے والے اضافے کا 76 فیصد یعنی 1284 مربع کلومیٹر صرف 10 شہروں میں ہوا جبکہ دیگر40 شہروں کا 411 مربع کلومیٹر رقبہ بڑھا ۔ اگر شہروں کے پھیلنے کی یہی صورتحال رہی تو 2025 تک پنجاب کے پچاس شہروں کا رقبہ مزید بڑھ کر4626 مربع کلومیٹر اور 2040 تک بڑھ کر 11736 مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ یعنی دس سالوں میں اس میں 79 فیصد اور اگلے15 سالوں میں 154 فیصد اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اور مجموعی طور پر25 برسوں کے دوران اس میں 9148 مربع کلومیٹر یعنی 354 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
شہری حدود کا یہ تمام تر پھیلاؤ اس امر کا شاہد ہے کہ شہروں خصوصاً بڑے شہروں نے کچی آبادیوں اور شہر کے مضافات میں رسمی اور غیر رسمی آبادیوں کی صورت میں بے پناہ وسعت اختیار کی ہے۔ جس سے شہروں کے مضافات میں موجود زمین خصوصاً زرعی اراضی کے استعمال میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور زرعی زمینیں تیزی سے اربنائزیشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ لاہور ہی کی مثال کولے لیں پاکستان کی وزارت برائے کلائیمیٹ چینج کی نیشنل رپورٹ آف پاکستان فار ہیبیٹاٹIII کے مطابق گزشتہ40 سال کے دوران لاہور میں 114630 ہیکٹر قابلِ کاشت زمین کو شہری استعمال میں تبدیل کیا گیا۔
جس کے18 فیصد پر 252 مضافاتی ہاؤسنگ اسکیمیں (Sprawling Houing Schemes ) بنائی گئیں ۔اسی طرح پنجاب کے لینڈ یوز اسٹیٹسٹکس یہ بھی بتاتے ہیں کہ ضلع لاہور کا زیر کاشت رقبہ (Cropped Area) جس پر فصل اور پھل دونوں کاشت کئے جاتے ہیں۔ 2008-09 میں ایک لاکھ83 ہزار ہیکٹر تھاجو 2015-16 تک کم ہوکر ایک لاکھ 63 ہزار ہیکٹر ہو چکا ہے ۔ یعنی7 سالوں کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ کے زیر کاشت رقبہ میں 10.9 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ جس کی بڑی وجہ ان زمینوں کے استعمال میں تبدیلی ہے جس کا سب سے بڑا محرک رہائشی مقاصد کے لئے زمینوں کا تصرف ہے۔ یوں ہمارے بڑے اور درمیانے شہر پھیلتے پھیلتے دیہی علاقوں اور زرخیز زمینوں کو جو شہر کے اندر آچکی ہیں یا ابھی شہر سے ملحقہ ہیں کوہضم کر رہے ہیں ۔
ان زمینوں کو نگلنے کی وجوہات میں سے شہروں کی آبادی میں اضافہ جو قدرتی اور انسانی ہجرت دونوں وجہ سے ہے نمایاں ہے۔ دیہات سے شہروں میں لوگوں کی منتقلی زیادہ دباؤ کا باعث بن رہی ہے جس کی بڑی وجہ کلائیمٹ چینج ہے جو ملک کے اکثر حصوں میں پانی کے وسائل میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے اوقات کار بھی بدل رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے منفی اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہو رہے ہیں ۔
جبکہ زراعت کے شعبے میں اخراجات اور آمدن کے درمیان فرق بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقہ اور شہری علاقوں کے درمیان سہولیات اور روزگار کے مواقع کی بڑھتی ہوئی تفریق، روزگار کے دیگر ذرائع کا محدود ہونا اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل دیہی لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
اس امر کی تائید اکنامک سروے آف پاکستان کے یہ اعدادوشمار بخوبی کر رہے ہیں جن کے مطابق ملک کے دیہی علاقوںمیں سب سے زیادہ زرعی شعبے کو خداحافظ کہنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جہاں 1994-95 سے2014-15 تک باروزگار دیہی افراد کا زراعت کے شعبے سے وابستگی کا تناسب 57.46 فیصد سے کم ہوکر 41.15 فیصدپر آگیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب 1998 اور2017 کی مردم شماری کی رپورٹس اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہیں کہ ان دونوں مردم شماریوں کے دوران ملک بھر میں صوبائی سطح پر شہری آبادی میں دوسرا زیادہ اضافہ خیبر پختونخوا میں ہوا جو 92 فیصد ہے۔ اسی طرح دیہات میں زراعت کا پیشہ ترک کرنے کے حوالے سے دوسری نمایا ں کمی بلوچستان میں دیکھنے میں آئی ہے جہاںیہ تناسب 63.10 فیصد سے کم ہوکر 52.83 فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ گزشتہ اور حالیہ مردم شماری کے دوران ملک میں سب سے زیادہ شہری آبادی میں اضافہ بلوچستان میں ہوا جو 117 فیصد ہے۔
دیہی آبادی کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ہنر مندنہ ہونے کی وجہ سے شہروں میں نقل مکانی کرنے کے بعدایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سے وہ صرف اتنی ہی آمدن کما پاتے ہیں جو اُن کی روح اور جسم کے رشتے کو بمشکل قائم رکھ سکے۔یو ںوہ غربت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیںاور کم آمدن کی وجہ سے ایسے علاقوں میںرہائش اختیار کرتے ہیں جنہیں ہم سادہ الفاظ میں کچی آبادی کہتے ہیں یہ آبادیاں شہروں کے اندر یا اس سے ملحقہ زمینوں پر قائم کر لی جاتی ہیں۔ یوں اس کے ہماری فوڈ سیکورٹی خصوصاً شہری تناظر میں خوراک کے تحفظ پر دو طرح سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ زراعت کے پیشہ کو ترک کرنے کے باعث دیہی علاقوں میں زراعت کے لئے درکار افرادی قوت میں کمی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
جس کے اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہوتے ہیں۔ شہر چونکہ دیہات کی زرعی پیداور پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے اس میں کسی طرح کی کمی شہری خوراک کے تحفظ کو متاثر کرتی ہے۔ دوم دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کے پاس بہت کم وسائل ہوتے ہیں ۔چنانچہ وہ یا توایسی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں جو غیر محفوظ ہوں( جہاں آباد ہونے سے اُن کی زندگیاںخطرے کا شکار رہتی ہیں) یا پھروہ ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو شہر سے قریب ہوتے ہیں اوراُنھیں وہاں سستی زمین رہائش کے لئے مل جاتی ہے۔ یوں زرعی زمینیںرہائش کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لاہور میں راوی کے پار ایسی کئی ایک غیر منظم بستیاں موجود ہیں جن کی زمین پر پہلے کاشت کاری کی جاتی تھی۔ یوں شہر کے مضافات سے حاصل ہونے والی خوراک میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
جب پہلے سے ہی زیادہ آبادی کے دباؤ کے شکار شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں زمین کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ مانگ شہر کے اندر موجود زمینوں کے ساتھ ساتھ کے قرب وجوار میں موجود زمینوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
اورشہروں کے ارد گرد کا کسان جو پہلے ہی ایک طرف کلائیمیٹ چینج کے اثرات سے نبردآزماہے تو دوسری جانب زرعی مداخل کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فصل پر آنے والے اخراجات اور اُس سے حاصل ہونے والی آمدن کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کا شکار ہے۔ بلا آخر زمین کے اچھے پیسے ملنے کی لالچ میں اسے فروخت کر دیتا ہے۔ جس سے زمین کے استعمال کے رجحان میں تبدیلی آتی ہے ۔ اور وہ نئے رہائشی علاقوں/ کالونیوں/ اسکیموں اور انڈسٹری کے استعمال میں آجاتی ہے۔ یوں شہر بڑھتے اور زرعی زمینیں سکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور رجحان بھی زمنیوں کے استعمال میں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے وہ شہر کے گنجان آباد علاقوں سے شہر کے مضافات میں موجود کم گنجان دیہی علاقوں میں لوگوں کی منتقلی ہے۔ جسے Urban Sprawl کہتے ہیں۔ فارم ہاؤسزاور ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیزجو شہر کے اردگرد موجود چھوٹے گاؤں اور اُن کی زرعی زمینوں کو خرید کربنائی گئی ہوتی ہیں لوگ اپنی شہری املاک بیچ کر وہاں منتقل ہوجاتے ہیں اس کی واضح صورتیں ہیں۔یوں بھی شہر پھیل رہے ہیں۔
اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو ملکی حالات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات مدنظر رکھنا لازم ہے کہ شہر ی صارف90 فیصدتک خریدی ہوئی خوراک پر انحصار کرتا ہے۔ جو دیہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے یا پھر ملک میں درآمد کی جاتی ہے۔ اس لئے سال بھر تسلسل کے ساتھ خوراک کی شہروں میں دستیابی شہروں کی فوڈ سکیورٹی کا بنیادی نقطہ ہے۔ لیکن کوئی بھی واقعہ، حادثہ یا آفت اس دستیابی کو متاثر کر سکتی ہے۔ مثلاً 2010 کے سیلاب نے جہاں ہماری زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا وہیں خوراک کی نقل و حمل کو بھی جامد کر دیا۔
اِمسال ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری نے بھی ہماری فصلوں خصوصاً گندم کی فصل کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا ایک وسیع رقبہ اکثرخشک سالی کی لپیٹ میں رہتا ہے جو ہماری زرعی پیداوار کے لئے مسلسل خطرہ ہے۔ اس لئے ہمیں گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈکس 2019 کے ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو1998 سے2017 کے دوران سب سے زیادہ قدرتی آفات سے متاثر ہوئے۔ قدرتی آفات اپنی جگہ لیکن انسان کی پیدا کردہ ڈیزاسٹر نما صورت حال بھی بعض اوقات فوڈ سکیورٹی کو متاثر کرتی ہے۔ مثلاً ٹرانسپورٹرزکی ہڑتال شہروں میں خوراک کی قلت کا باعث بن جاتی ہے۔ یوں قدرتی یا انسانی عمل دونوںشہروں میںغذائی اجناس کی کمی اور اُن کی قیمتوں میںاضافہ کا موجب بن جاتے ہیں ۔
اس لئے ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے ہاں مستقبل میں قدرتی آفات یا انسانی عمل خوراک کی پیداوار اور شہروں میں اُس کی دستیابی و ترسیل میں کمی یا اسے مفلوج کر کے کسی بڑے انسانی بحران کا باعث بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ عام حالات میں دیہی علاقوں سے آنے والی خوراک کی ترسیل، پیکجنگ، سٹوریج اور مڈل مین یہ سارے عوامل مل کر اُس کی قیمتوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ دیہی علاقوں سے صارفین تک روایتی طریقہ کار کے ذریعے تازہ پیداوار کو پہنچانے میںعموماً 3 سے6 دن لگ جاتے ہیں جس سے پیداوار کے وزن اور غذائیت میں 30 سے50 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔
اس سے کسان اور صارف دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ 30 فیصد تازہ پیداوار سپلائی کے نظام میں نقائص کی وجہ سے صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہروں اور اس کے نواح میں موجود اراضی کو اربنائز کرنے کی وجہ سے ان کی ماحولیاتی نظام کے حوالے سے خدمات جیسا کہ پانی کی کشید اور بارش کے پانی کا زیرزمین ری چارج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اور ہمارے کئی ایک شہروں میں آبادی کے بڑھنے سے زیر زمین پانی کے ذخائر کا استعمال بڑھ گیا ہے اور مناسب ری چارج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ اس کی واضح مثال کوئٹہ کی ہے۔
جہاں کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار میں برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا ۔ لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا تو شہر کے اردگرد موجود کاریزوں، باغات، کھیت اور کچی زمین کو کنکریٹ نے ڈھانپ لیا تو ہوا پھر کچھ یوں کہ آج کوئٹہ اور اس کے قرب وجوار میں ہونے والی کبھی کبھار کی بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اور یہ سارا برساتی پانی بیکار بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو ری چارج کیاکرتا تھا۔ پانی کی یہ کمی کوئٹہ شہر کے قریب باقی رہ جانے والی کافی زرعی اراضی کے لئے موت کا باعث بنی اور اکثر ہرے بھرے باغ اور لہلہاتے کھیت لق ودق چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو گئے جن کاآخر کار حل رہائشی بستیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی اور انسانی عوامل کی وجہ سے زمین کی فرسودگی(ڈیزرٹیفیکیشن) دنیا میں بھر میں خوراک کی پیداوار کے لئے سنگین خطرہ اور غربت کے بڑھنے کا پیش خیمہ اور اس کا نتیجہ بھی بن رہی ہے۔کیونکہ زیادہ آمدن کے لالچ میں اور کم قیمت ادا کرنے کی وجہ سے لوگ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔
تاکہ معیار زندگی کو بہتر کیا جا سکے۔ ایسی صورتحال میں زمین کا استعمال اُس کی گنجائش سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر بنجر ہو جاتی ہے۔ یوں اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کی آمدن میں طویل المدتی اضافہ کے برعکس غربت انہیں اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے اور جب زمین اور حالاتِ کاشت کاری زرعی مقاصد کے لئے موزوں نہ رہیں تو اس پر منحصر آبادی کے روزگار کا وسیلہ ان سے چھن جاتا ہے اور وہ مستقل غربت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔
اور اگر غربت آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے تو تنزلی کا شکار قدرتی وسائل کا استعمال اور زیادہ بڑھ جاتا ہے نتیجتاً جو کل ہونا ہوتا ہے وہ آج ہی ہو جاتا ہے۔ اس لئے زمین کی فر سودگی اور غربت کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور یہ ایک دوسرے کی کیفیت میں اضافہ کے بنیادی محرکات ہیں ۔ یوں دیہی علاقوں میں بڑھتی ڈیزرٹیفیکیشن انسانی اور معاشی بحران کو آواز دے رہی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس حوالے سے صورتحال بہت تشویشناک ہے کیونکہ وزارتِ ماحولیات حکومت پاکستان کے سیسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پروجیکٹ کی ایک دستاویز کے مطابق ملک کا51 فیصد علاقہ زمین کی فر سودگی (ڈیزرٹیفیکیشن) کا شکار ہے۔
یہ تمام صورت حال عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی تعریف کردہ فوڈ سکیورٹی کی تعریف سے مکمل مطابقت نہیں رکھتی جس کے مطابق'' فوڈ سکیورٹی ایک ایسی صورتحال ہے جس میں فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے واسطے کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تمام افراد کے لئے ہر وقت جسمانی اور معاشی طور پر پہنچ میں ہونی چاہیئے۔'' یہ تعریف فوڈ سکیورٹی کے چار پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ دستیابی، استحکام، محفوظ استعمال اور رسائی۔ فوڈ سکیورٹی کے ان چار پہلوؤں کا فرداً فرداً شہری ماحول کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ اربنائزیشن خوراک کی دستیابی کے لئے ایک چیلنج ہے خاص کر خوراک کی پیداوار، اُس کے استعمال کے حوالے سے فروغ پاتے رجحانات کے تناظر میں۔ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن اور شہروں کا پھیلاؤ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ خوراک تسلسل کے ساتھ دستیاب ہو اس کے لئے خوراک کی پیداوار میں اضافہ اور استحکام ناگزیر ہے۔ خوراک کی فراہمی اور ترسیل میں استحکام شہری آبادی کے لئے ایک سنجیدہ پہلو ہے۔ ترقی یافتہ ممالک زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ وہاں ڈیزاسٹر سے نمٹنے کی تیاری زیادہ کی جاتی ہے ۔
جبکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب شہری شدید موسمی حالات، قدرتی آفات اور کئی ایک انسانی عوامل کی وجہ سے خوراک کی تواترکے ساتھ دستیابی اور استحکام کے حوالے سے اکثر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر خوراک تک رسائی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خوراک کا دسترس میں ہونا بھی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔ اس حوالے سے شہری مکین اور شہروں کے مضافاتی علاقوں کے باسی دیہی افراد کی نسبت زیادہ غیرسود مند صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اکثر اپنی خوراک خریدنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انھیں فوڈ مارکیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ قیمتوں میں اضافہ کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں خوراک کی قیمتیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ خوراک کیسی اور کتنی حاصل اور استعمال کی جائے۔خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے یا تو صارف اپنی خوراک کی مقدارکم کر دیتے ہیں اور کم خوراکی سے اُن کی صحت کو خطرات لاحق رہتے ہیں یا پھر وہ غیر معیاری خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو اُن کی صحت کے لئے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ایسے میں پاکستان جس کے52 فیصد شہری گھرانے جو نیشنل نیوٹریشن سروے2011 کے مطابق خوراک کے حوالے سے پہلے ہی غیر محفوظ ہیں ۔
ان کے لئے ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اور خاص کر شہری علاقوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی32 فیصد آبادی ( ماخذ:سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی دستاویز پاورٹی اینڈ ویلنربیلٹی اسٹیمیٹس پاکستان2016 ) جو اپنی آمدن کا پہلے ہی 50 سے 80 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خوراک تک رسائی اور اس کا کافی مقدار میں محفوظ استعمال مزید بے معنی ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل ہنگر انڈکس2018 میں پاکستان دنیا کے 119 ممالک میں سے106 نمبر پر رہے اور اسے 32.6 اسکور کے ساتھ سیریس صورتحال کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔
اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے شہر اور اس کے مضافات میں ہونے والی زراعت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہری اور مضافاتی زراعت (Urban and peri-urban agriculture)جو آمدن کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک کی پیداوار، تازہ صحت مند، سستی خوراک کی دستیابی میں اضافہ کرتی ہے اور شہری صارفین کو تازہ سبزیاں، پھل،انڈے، گوشت (پولٹری، لائیوسٹاک اور مچھلی) اور ڈیری کی مصنوعات فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ کسان کی اپنی گھریلو اور شہر کی فوڈ سکیورٹی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کیونکہ مقامی طور پر تیار کردہ خوراک کو نقل و حمل، پیکنگ اور ریفریجریشن کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی فروخت کے لئے کوئی مڈل مین بھی درکار نہیں ہوتا۔ یوں انھیں قریبی مارکیٹ میں سپلائی یا براہ راست تازگی اور غذائیت کے ساتھ مسابقتی قیمتوں پر فوڈ اسٹینڈز یا مارکیٹ اسٹالز کی مدد سے فروخت کیا جاتا ہے جس سے صارفین خاص طور پر کم آمدن والے افراد کو تازہ پیداوار تک آسان اور سستی رسائی ملتی ہے اور انھیں انتخاب کا بہتر موقع ملتا ہے اور کاشت کار کو بھی اپنی پیداوار کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ یہ موسمیاتی اور دیگر عارضی رکاوٹوں کے خلاف غذا کی گھریلو/ شہری کھپت کے استحکام کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہروں میں پیدا ہونے والے ویسٹ واٹر کی کشید شدہ صورت کو خوراک کی پیداوار میں استعمال کر کے شہروں کے ویسٹ واٹر کے استعمال کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔
یوں یہ فوڈ سکیورٹی کے چاروں پہلوؤں کو کسی نہ کسی صورت پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے گول نمبر1 غربت کا خاتمہ، گول نمبر 2 بھوک کا خاتمہ، گول نمبر12 پیداوار اور استعمال کے پائیدار رجحانات اور گول نمبر 15 پائیدار ایکو سسٹم کی حفاظت، بحالی اور پھیلاؤ کے اہداف پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بیرونی دنیا میںاس کی اہمیت کا اندازہ ان حقائق سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا میں شہروں کے مضافات میں ہونے والی زراعت جو کہ ملک بھر میں زراعت کے لئے استعمال ہونے والی زمین کے صر ف تین فیصد رقبہ پر مشتمل ہے ملک کی زرعی آوٹ پٹ کا ایک چوتھائی فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح چین کا شہر شنگھائی اپنی سبزیوں کا 60 فیصد مقامی طور پر پیدا کرتا ہے۔ چین کے شہری مضافات میں ہونے والی زراعت نے خوب ترقی ہے۔ اس تمام تر پیش رفت سے قبل بیجنگ کی ضرورت کی 70 فیصد سے زائد سبزیاں باہر سے آتی تھیں ۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ امریکہ کے تمام شہر اگر اوسطً 10 فیصد رقبہ شہری کاشت کاری کے لئے وقف کردیں تو اس سے تمام امریکیوں کو اتنی سبزی حاصل ہو سکتی ہے جس کی بطور غذا ماہرین سفارش کرتے ہیں ۔ کیونکہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق شہروں کے باغیچہ نما پلاٹ دیہات کے اس جتنے قطعہ کی نسبت15 گنا زیادہ پیداوار دیتا ہے۔ شہروں میں ایک مربع میٹر کا ٹکڑا 20 کلو تک خوراک فراہم کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد انجم علی بٹر،ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع ) پنجاب کویہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنھوں نے پنجاب میں کچن گارڈننگ کے تصور کو محکمانہ سطح پر متعارف کرایا اور محکمہ زراعت میں کچن گارڈننگ کے حوالے سے ایک خصوصی پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد صوبے میں سبزیوں کی کاشت کو دیہی اور خصوصاً شہری سطح پر فروغ دینا ہے تاکہ اربنائزیشن کے شہری فوڈ سکیورٹی پر مرتب والے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے اور گھریلو سطح پر تازہ اور نامیاتی سبزیوں کی کاشت کو فروغ مل سکے۔ یہ پراجیکٹ آج بھی جاری ہے جس کے تحت موسمِ گرما اور سرما کی مختلف سبزیوں کے بیج کے پیکٹس رعایتی نرخ پر کاشت کاروں اور گھریلو صارفین کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔
فروخت ہونے والے بیج کے پیکٹس کی تعداد 5 ہزار سے بڑھ کر 5 لاکھ سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے پراجیکٹ کے تحت ٹریننگ پروگرامزکا بھی باقاعدگی سے اہتمام ہوتا ہے ۔اُ ن کے مطابق دنیا میں اربن ایگریکلچر ایک مسلّمہ حقیقت ہے اورادارے اس پر کام کر رہے ہیں ۔ بیرونِ ممالک کے شہروں میں لوگ چھتوں پر،گملوں کیاریوں میں، پرانے ٹائروں میں، جالیوں میں، شاپر بیگوں میں، کھلے منہ کے برتنوں میں، بالکونی میں، باغیچوں میںاور زمین کے خالی قطعات/ پلاٹس وغیرہ میں کاشت کاری کر کے اپنی خوراک کے وسائل خود پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن گھریلو سطح پر اربن ایگریکلچر کی اہمیت اور اپنی تمام تر محکمانہ کوشش کے باوجود ڈی جی صاحب اس حقیقت کا بھی اعتراف کر تے ہیں کہ ہمارے شہری علاقوں میں گھریلو سطح پر خوراک پیدا کرنے کا ابھی اتنا شوق اور جستجو پیدا نہیں ہو سکی جتنی ہونی چاہیئے ۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اجتماعی ذمہ داری کے رویہ کے فقدان اور اس حوالے سے کوششوں کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ ہم گھروں کی آرائش اور زیبائش کے لئے پھولوں کی کاشت کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن سبزیوں کی پیداوار حاصل کرنے کی طرف کوئی قابلِ ذکر توجہ نہیں دیتے جو تازہ اورمعیاری خوراک کے حصول کے حوالے سے ہماری عملی سنجیدگی کی واضح مثال ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ اُن کے نزدیک ایک ٹیکنیکل کمی سبزیوں کی پنیریوں کا باآسانی دستیاب نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری کمرشل نرسریوں میں پھولوں اور دیگر دیدہ زیب پودوں کی پنیریوں کی طرح سبزیوں کی پنیریوں کا ملنا بھی ممکن ہونا چاہیئے۔ جس کے لئے نجی شعبہ کو آگے آنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اُن کا کہنا ہے کہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی اور میونسپلٹیز کے پاس چونکہ فلوریکلچر کی مہارت ہے اس لئے ان ایکسپرٹیز کا استعمال اربن زراعت کے حوالے سے زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے کیونکہ ہماری خوراک میں سبزی کا استعمال بہت کم ہے جو 30 سے40 گرام روزانہ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت فعال اور صحت مند زندگی کے لئے یومیہ 200 سے250 گرام سبزیوں کا استعمال تجویز کرتا ہے۔ اس لئے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دیہی اور شہری علاقوں میں سبزیوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔اور شہری باسیوں میں خصوصاً اس کا شوق پروان چڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ میڈیا کے کردار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا اپنے مندرجات میں پبلک براڈکاسٹنگ کے تناسب کو بڑھائے اور اس طرح کے موضوعات کو اپنی ایک سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پیش کرے ۔ شہروں کے قرب وجوار میں موجود زرعی زمینوں کے تحفظ کے سلسلے میں اپنے محکمہ کے کردار کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لینڈ یو ٹیلائزیشن ایکٹ اور لینڈ یو ٹیلائزیشن پالیسیز کی بات ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم نے شہروں کے قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کے رہائشی مقاصد یعنی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر پر پابندی لگا دی ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔کیونکہ محکمہ زراعت اور اُس کے کارکن یہ چاہتے ہیں کہ وہ زرخیز قطعات جو شہروں سے ملحقہ ہیں اور 15 سے20 ٹن تک سالانہ خوراک دیتے ہیں۔ قوم اُن کی پیداوار سے محروم نہ ہو۔ لیکن اس حوالے سے جو بڑا چیلنج ہے وہ کاشت کار کے منافع میں کمی کا آنا ہے۔ ہمیں کاشت کار ی کے اخراجات میں کمی لا کر کسان کے منافع کو بڑھانا ہے تاکہ وہ رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے جب اربنائزیشن کی وجہ سے بہت زیادہ زرخیز زمین خاص طور پر سبزیوں والی زمین کا استعمال تبدیل ہونا شروع ہوا تو محکمہ زراعت پنجاب نے فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ڈیو یلپمنٹ کی اسکیمیں شروع کیں ۔ 200 سے زائد جگہوں پر فارم فیلڈ اسکول منعقد کئے اور کاشت کاروں کو سبزیوں کی کاشت کی ٹریننگ دی ۔ کیونکہ سبزی اُگانا ایک آرٹ ہے اورآرٹسٹ بڑی مشکل سے بنتا ہے۔
اس کے علاوہ محکمہ نے 526 ملین کی ٹنل فارمنگ پر سبسڈی دی ۔ بیج پر سبسڈی دی ۔ معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ مشینری کے شعبہ میں کسان کی مدد کی اور پانی کے بہتر استعمال کے مختلف پروگرامزکے ذریعے اُس کی اعانت کی ۔ پیداوار کی بہتر مارکیٹنگ میں معاونت کی اور یہ تمام سلسلہ تا حال جاری ہے۔ موجودہ حکومت بھی زراعت کی ترقی میں بھرپور دلچسپی رکھتی ہے اور اُس نے جو نیشنل پروگرام دیئے ہیں۔ ان میںصرف کاشت کار کی سہولت کے لئے پنجاب میں 26 ارب روپے مشینری، بیج اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر خرچ کئے جا رہے ہیں اور اس حکومت کی زرعی پالیسی کا بنیادی مقصد کاشت کار کی زندگی میں بہتری لانا ہے۔
پاکستان جو پہلے ہی اپنے خوراک کے پیداواری وسائل پر آبادی کے شدید دباؤ اور کلائیمیٹ چینج کے اثرات کا شکار ہے۔ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزید زرعی زمین ( وہ بھی زرخیز) جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہیں انھیں کھوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی تعمیر پر جو پابندی لگا ئی گئی ہے وہ ایک نہایت احسن اقدام ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے خوراک اور غذائیت کی سکیورٹی کی حکمت عملی کے طور پر شہری زراعت/کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے اردگرد موجود زراعت کے نظام کی حفاظت اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لئے رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے اور کسی انسانی بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔
ایک کچن گارڈنر
ڈاکٹر محمد راشد خان جامعہ پنجاب کے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔گارڈننگ کا شوق اور عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ جامعہ میں واقع اپنے گھر میں سبزیوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے پھل دار درخت بھی لگا رکھے ہیںاور پولٹری بھی رکھی ہوئی ہے۔ اپنی فوڈ کا ایک نمایاں حصہ وہ خود پیدا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں'' یونیورسٹی نے مجھے جو رہائش فراہم کی ہوئی ہے اُس میں کافی جگہ موجود تھی جہاں کچھ کیا جا سکتا تھا۔ میں یہ اکثر سوچتا تھا کہ اس کو کس طرح استعمال میں لایا جائے۔
ایک روز میں نے یونیورسٹی میں ایک بہت خوب صورت درخت دیکھا جس پر ایک پیلی سی چڑیا اپنا گھر بنا رہی تھی۔ اور اُس پر کوئی پھل بھی لگ رہا تھا ۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ چیکو کا درخت ہے۔ دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایاکہ ایسا کوئی درخت میرے گھر بھی ہو ۔ سو میں نے ایک دوست کے توسط سے شروع میں اپنے گھر میں چیکو، انار اور انجیر کے پودے لگائے۔ یہ پودے مختصر عرصے میں پھل دار درخت بن گئے۔ اور خوب ڈھیر سا شاندار پھل دینے لگے۔ اس سے مجھے مزید شوق ہوا اور میں نے گریپ فروٹ پپیتہ، امرود اور لیموں کے پودے بھی لگا لئے۔ سبزیوں کی کاشت کاری کا آغاز میں نے اس وجہ سے کیا کہ میں ریڈیو پر زرعی پروگرام کرتا تھا جہاں ماہرین کی گفتگو سے مجھے پتا چلا کہ ہمارے شہروں میں سبزیوں کی کاشت کے لئے کافی جگہوں پر سیوریج کا پانی استعمال ہوتا ہے۔
اورسیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کے ایک مائیکروبیالوجسٹ سے بھی اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں میں بیکٹیریا آجاتا ہے جو جسم میں مختلف طرح کی درد اور گیس کا باعث بنتا ہے۔ اُس کے بعد میں جب بھی سبزی خریدتا تو اپنی بیگم سے کہتا کہ پتا نہیں یہ صاف پانی کی ہے بھی کہ نہیں۔ میری بیگم کو بھی اس حوالے سے تشویش تھی۔ چونکہ اُنھیں پھولوں کا شوق ہے تو ایک روز اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس جگہ بھی ہے تو کیوں نا ہم گھر پر ہی سبزیاں کاشت کر یں ۔ یوں میں نے اس مفید مشورے پر فوراً عمل درآمد کر ڈالا۔ ان دنوں اخبار میں محکمہ زراعت کی جانب سے گھروں میں سبزیوں کی کاشت کے حوالے بیج کے پیکٹس کے اشتہارات آرہے تھے۔
جس کی قیمت فی پیکٹ 50 روپے تھی۔ ایک پیکٹ خریدا اور جامعہ کے ایک مالی بابا کے توسط سے چند فٹ زمین پر ٹماٹر، گوبھی، براکلی، بند گوبھی، شلجم ، دھنیا اور سلاد کے پتے کاشت کئے۔ مالی بابا نے زمین تیارکی، کھیلیاں بنائیں اور بیج بوئے۔ میں نے ان پودوں کی خوب دیکھ بھال کی جس کا شاندار رزلٹ آیا۔اب میں ہر موسم میں آرگینک سبزیاں اُگاتا ہوں جو یوریا، ڈی اے پی، کیڑے مار زہریلی ادویات کے اسپرے سے پاک ہوتی ہیں جسے صرف گھر میں تیار پتوں اور گوبر والی کھاد دی جاتی ہے۔
اس سے اتنی مقدار میں سبزیاں حاصل ہو جاتی ہیں جو ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں۔ اور دوستوں اور احباب کو تحفتاً دینے کے بعد بھی بچ جاتی ہیں۔ میں شروع میں ساری سبزیاں ایک ہی روز کاشت کر لیتا تھا جس سے پیداوار ایک بار اکٹھی ملتی تھی ۔اب میں سبزیوں کو مختلف وقفوں کے بعد کاشت کر تا ہوں اس سے مجھے تواتر کے ساتھ سبزی ملتی رہتی ہے۔ سبزیوں کی اس فراوانی نے ہماری غذا میں اپنی کافی جگہ بنا لی ہے خصوصاً سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزیوں نے ۔ جن کا استعمال پہلے بھی تھا لیکن اکثر بازار سے لانے میں تساہل کی وجہ سے قدرے کم تھا ۔ اس کے علاوہ یہ سب سبزیاں مجھے 100 روپے سے بھی کم لاگت میں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اور جتنی ان کی پیداوار ہوتی ہے اُتنی سبزی بازار سے ہزاروں روپے میں آتی ہے۔
اس لئے ان کے کچن بجٹ پر بھی بڑے مثبت اثرا ت مرتب ہوئے ہیں۔'' ڈاکٹر راشد نے ایک بات خصوصی طور پر کہی کہ ہمارے شہر چونکہ افقی طور پر پھیل رہے ہیں اس لئے کافی گھروں میں اتنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ وہاںکچن گارڈننگ کی جا سکے۔ لیکن اگر کسی کے پاس جگہ نہیں ہے تو بھی گملوں یاکسی ایسی چیز یا برتن جس میں مٹی اکٹھی کی جا سکے اور اُس کا منہ کھلا ہو اُس میں سبزی کاشت کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ہمارے شہر وں میں خصوصاً جنوبی لاہور میں بڑے بڑے گھر موجود ہیں۔ جہاں صحت کے حوالے سے بہت فکر مند کلاس رہتی ہے۔ لیکن ان بڑے بڑے گھروں میںجہاں بڑی آسانی سے کچن گارڈننگ کے لئے جگہ میسر ہوسکتی ہے اس جانب توجہ نہیں دی جاتی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
''خبردار! ہمارے تیزی سے پھیلتے شہر زرعی زمینوں کو نگل رہے ہیں جس سے مستقبل میں شہری آبادی کو فوڈ اِن سکیورٹی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے''۔
یہ بات کچھ عرصہ قبل رانا ریاض محمود اسسٹنٹ ہارٹیکلچر آفیسر لاہور نے مجھے بتا کر چونکا دیا۔ رانا صاحب کے اس انتباہ سے یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم سب نے کس قدر بے حسی سے اس اہم موضوع کو فراموش کر رکھا ہے۔ میڈیا ہو یا پالیسی ساز سب کے سب مستقبل قریب میں پیش آسکنے والے اس انسانی بحران کی سنگینی کا ادراک نہیں کر رہے۔ جس کی بنیاد شاید ہم نے غیر شعوری طور پر اُس روز ہی رکھ دی تھی جب تقسیم پاک و ہند کے بعد مہاجرین کی اکثریت نے ملک کے صرف چند شہروں کو ہی اپنا مسکن بنایا۔
مثلاً کراچی کی آبادی میں1941 سے1951 کے دوران 176 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی عرصہ کے دوران فیصل آبادکے رہائشیوں کی تعداد میں 156 فیصد اور حیدرآباد کے نفوس کی تعداد میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔آنے والے وقتوں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کا پاکستان کے شہروں میں سکونت پذیر ہونا بھی شہری آبادی میں اضافہ کا محرک بنا۔ جبکہ شہروں اور دیہات میں دستیاب سہولیات کے مابین وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی خلیج نے دیہی آبادی کو شہروں کی راہ دکھائی۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہم تیزی سے دیہی آبادی کے مالک ملک سے شہری آبادی کے حامل ملک میں تبدیل ہو تے جا رہے ہیں ۔
جس کا اندازہ ملک کی پانچویں اور چھٹی خانہ و مردم شماری کے ان نتائج سے ہوتا ہے کہ 1998 میں ملک کی 32.5 فیصد آبادی شہروں میں مقیم تھی جبکہ2017 میں یہ تناسب بڑھ کر 36.4 فیصد ہو چکا ہے۔اس عرصہ کے دوران ملک کی شہری آبادی میں مجموعی طور پر 75.6 فیصد اورکل ملکی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ یعنی ہماری شہری آبادی کے بڑھنے کی رفتار ملکی آبادی میں اضافہ کی رفتار سے زائد ہے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل آفیرز کے ورلڈ اربنائزیشن پراسپیکٹ دی2018 رویژن کے اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ 1998 میں پاکستان اپنی شہری آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 12 ویں نمبر پر تھا اب (2019) میں وہ 10 ویں نمبر پر آچکا ہے اور اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ شہری آبادی میں عددی اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 9 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی شہری آبادی میں یہ اضافہ اگر چہ تمام شہروں پر محیط ہے لیکن وطن عزیز کے 10 بڑے شہر اس کی زیادہ لپیٹ میں ہیں۔ کیونکہ1998 اور2017 کے دوران خانہ و مردم شماری رپورٹس کے مطابق ہماری شہری آبادی کی تعداد میں3 کروڑ 25 لاکھ48 ہزار سے زائد نفوس کا اضافہ ہوا۔ جس کا 53 فیصد ملک کے 10 بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ میں ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ لاہور شہر کی آبادی میں ہوا جو104 فیصد بڑھی ہے۔
اس کے بعد پشاور ہے جہاں یہ اضافہ100 فیصد ہوا ۔ اسلام آباد میں92 ، گوجرنوالہ میں 79 ، کوئٹہ میں 77 فیصد ہوا۔ جس کے بعد کراچی کا نمبر ہے جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران آبادی میں60 فیصداضافہ ہوا۔ 55.7 فیصد کے ساتھ فیصل آباد ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کے بعد ملتان 56 فیصد، راولپنڈی49 فیصد اور حیدرآباد کی آبادی میں 48.5 فیصد اضافہ ہوا۔ 1998 میں پاکستان کی کل آبادی کا 7.1 فیصد کراچی میں مقیم تھا یہ تناسب2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 7.2 فیصد رہا ۔ جبکہ لاہور میں پچھلی مردم شماری کے لحاظ سے ملک کی 4.1 فیصد آبادی موجود تھی جو حالیہ مردم شماری تک بڑھ کے 5.4 فیصد ہو چکی ہے۔ فیصل آباد میں یہ تناسب دونوں مردم شماریوں کے مطابق برابر یعنی1.5 فیصد رہا ۔ اسی طرح2017 میں ملک کی مجموعی شہری آبادی کا 19.7 فیصد کراچی میں آباد ہے یہ تناسب 1998 میں 21.7 فیصد تھا ۔ لاہور میںیہ12.6 فیصد سے بڑھ کر 14.7 فیصد پر آچکا ہے جبکہ فیصل آباد میں اس تناسب میں معمولی کمی آئی ہے اور یہ 4.7 فیصد سے کم ہوکر4.2 فیصد پر آگیا ہے۔
ہمارے شہر جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اُس کا ایک اندازہ اقوام متحدہ کے ان اعدادوشمار سے بھی ہوتا ہے کہ 1998 میں کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 3 لاکھ اور اس سے زائد آبادی کے حامل شہروں کی درجہ بندی میں 20 ویں نمبر پر تھا۔ 2019 میں وہ 12 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اسی طرح لاہور42 ویں نمبر سے ترقی کر کے 25 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ فیصل آباد مذکورہ عرصہ کے دوران 156 ویں نمبر سے135 ویں پر آچکا ہے۔
ہمارے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ پیش خیمہ بن رہا ہے ان کے پھیلنے کا، جو بے ہنگم انداز میں پھیلتے ہوئے اپنے اندر اور قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کرتے جا رہے ہیں۔ اس پھیلاؤ کی ذرا ایک جھلک ملاحظہ ہو ۔ دی اٹلس آف اربن ایکسٹینشن 2016 نامی بین الاقوامی دستاویز کے مطابق کراچی شہر جو فروری1991 میں 22335.21 ہیکٹر رقبہ پر آباد تھا اکتوبر2000 تک بڑھ کر34126.74 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا ۔ اور اکتوبر2013 تک اس میں مزید وسعت آ چکی تھی اور یہ 45326.52 ہیکٹر رقبہ پر پھیل چکا تھا۔ 10 سالوں میں کراچی کے رقبہ میں 52.8 فیصد اور اگلے13 سالوں میںاس میں مزید 32.8 فیصد اضافہ ہوا۔
جبکہ 1991 سے2013 تک کراچی کے رقبہ میں 103 فیصد اضافہ ہوا۔ لاہور شہر جو نومبر1991 تک 17750.52 ہیکٹر پر محیط تھا اکتوبر2000 تک وسیع ہوکر23155.56 ہیکٹر اور اکتوبر2013 تک 37142.01 ہیکٹر تک وسعت اختیار کر چکا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے9 سال کے دوران لاہور شہر کے رقبہ میں 30.5 اور موجودہ صدی کے پہلے 13سال کے دوران 60.4 فیصد بڑھااور مجموعی طور اس کے رقبے میں 110 فیصد اضافہ ہوا ۔ اسی طرح سیالکوٹ جو نومبر92 تک 2038.05 ہیکٹر پر آباد تھا۔ اکتوبر 2000 تک بڑھ کر 8168.58 ہیکٹر تک آگیا اوراکتوبر2014 تک اس میں مزید توسیع ہوئی اور یہ 9620.28 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا۔ 1991-2000 کے دوران سیالکوٹ شہر کے رقبہ میں 301 فیصد اور 2000-14 تک 18 فیصد اور مجموعی طور پر 372 فیصد اضافہ ہوا ۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان تینوں شہروں میں سے رواں صدی کے تقریباً پہلے ڈیڑھ عشرے کے دوران سب سے زیادہ رقبہ کی وسعت لاہور نے حاصل کی ۔ اسی امر کی تائید پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے دی اربن یونٹ کی پنجاب سٹیز گروتھ اٹلس 1995-2015 نامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ جس کے مطابق 1995 سے2015 تک پنجاب میںسب سے زیادہ لاہور شہر کے رقبہ میں اضافہ ہو ا جو445 مربع کلومیٹر ہے۔ اور2015 تک لاہور 665 مربع کلومیٹر تک پھیل چکا تھا۔
دوسرا نمایاں اضافہ350 مربع کلومیٹر رقبہ کا راولپنڈی اسلام آباد میں ہوا اور2015 تک یہ جڑواں شہر494 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو چکے تھے۔ تیسرا اضافہ گوجرانوالہ میں ہوا جہاں شہری حدود 123 مربع کلومیٹر مزید بڑھ کر2015 تک 150 کلومیٹر ہو چکی ہے۔ چوتھے نمبر پر ملتان رہا جس کے رقبہ میں مذکورہ عرصہ کے دوران 110 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ 2015 تک 187 مربع کلومیٹر تک وسعت اختیار کر چکا ہے۔ پانچواں اضافہ فیصل آباد کے رقبہ میں ہوا جو99 مربع کلومیٹر تھا، یوں 2015 تک فیصل آباد کا کل رقبہ 183 کلومیٹر تھا۔
جبکہ 2025 تک لاہور 1320 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو جائے گا اور 2015 سے2040 ء تک سب سے زیادہ شہری رقبہ میں اضافہ کے حوالے سے لاہور ہی کے پنجاب بھرمیں سر فہرست رہنے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے ۔ دوسرے نمبر پر اس عرصہ کے دوران راولپنڈی، اسلام آباد اور تیسرے نمبر پر گوجرنوالہ ہوگا۔اسی طرح اگر ہم فیصد اضافہ کے پیمانے سے پنجاب کے شہروں کی صورتحال دیکھیں تو تصویر کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے جس کے مطابق 1995 سے2015 تک محیط 20 سالوں کے دوران سب سے زیادہ شہری رقبہ کے حوالے سے فیصد اضافہ چکوال میں ہوا جو1300 فیصد ہے جس کا رقبہ ایک مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 14 مربع کلومیٹر ہوگیا۔دوسرا نمایاں اضافہ مریدکے میں ہوا جس کے رقبہ میں 650 فیصد اضافہ ہوا۔ 600 مربع کلومیٹر کے ساتھ اٹک اس کے بعد ہے۔
گوجرانوالہ کے رقبہ میں 456 فیصد اضافہ ہوا جبکہ حافظ آباد اور کامونکی کے رقبہ میں 400 فیصد فی کس اضافہ ہوا۔ اور اگر ہم موجودہ صدی کے 2005 سے2015 تک کی دہائی کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ فیصد اضافہ نارووال کے رقبہ میں ہوا جو 215 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر صادق آباد رہا جہاں 183 فیصد اضافہ ہوا ۔ تیسری پوزیشن پر مریدکے موجود ہے جس کے رقبہ میں 145 فیصد اضافہ ہوا۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر مظفر گڑھ اور جڑانوالہ رہے جہاں بالترتیب 131 اور126 فیصد اضافہ ہوا ۔
پنجاب کے50 شہر جوکہ1995 میں 893 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل تھے ۔ اس میں2005 تک 606 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ رقبہ مجموعی طور پر 1499مربع کلومیٹر ہوگیا ۔ اس کے بعدآنے والے دس سالوں میں اس رقبہ میں1089 مربع کلومیٹر مزید اضافہ ہوا اور یہ2015 تک بڑھ کر 2588 مربع کلومیٹر ہوگیا جوکہ پنجاب کے 1.26 فیصد رقبہ کے برابر ہے۔ ان 20 سالوں میں پنجاب کے 50 شہروں کے مجموعی رقبہ میں 1695 مربع کلومیٹر یعنی 190 فیصد اضافہ ہوا ۔
پہلے دس سالوں میں 68 فیصد اور اگلے 10 برسوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ پنجاب کے50 شہروں کے رقبہ میں ہونے والے اضافے کا 76 فیصد یعنی 1284 مربع کلومیٹر صرف 10 شہروں میں ہوا جبکہ دیگر40 شہروں کا 411 مربع کلومیٹر رقبہ بڑھا ۔ اگر شہروں کے پھیلنے کی یہی صورتحال رہی تو 2025 تک پنجاب کے پچاس شہروں کا رقبہ مزید بڑھ کر4626 مربع کلومیٹر اور 2040 تک بڑھ کر 11736 مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ یعنی دس سالوں میں اس میں 79 فیصد اور اگلے15 سالوں میں 154 فیصد اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اور مجموعی طور پر25 برسوں کے دوران اس میں 9148 مربع کلومیٹر یعنی 354 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
شہری حدود کا یہ تمام تر پھیلاؤ اس امر کا شاہد ہے کہ شہروں خصوصاً بڑے شہروں نے کچی آبادیوں اور شہر کے مضافات میں رسمی اور غیر رسمی آبادیوں کی صورت میں بے پناہ وسعت اختیار کی ہے۔ جس سے شہروں کے مضافات میں موجود زمین خصوصاً زرعی اراضی کے استعمال میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور زرعی زمینیں تیزی سے اربنائزیشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ لاہور ہی کی مثال کولے لیں پاکستان کی وزارت برائے کلائیمیٹ چینج کی نیشنل رپورٹ آف پاکستان فار ہیبیٹاٹIII کے مطابق گزشتہ40 سال کے دوران لاہور میں 114630 ہیکٹر قابلِ کاشت زمین کو شہری استعمال میں تبدیل کیا گیا۔
جس کے18 فیصد پر 252 مضافاتی ہاؤسنگ اسکیمیں (Sprawling Houing Schemes ) بنائی گئیں ۔اسی طرح پنجاب کے لینڈ یوز اسٹیٹسٹکس یہ بھی بتاتے ہیں کہ ضلع لاہور کا زیر کاشت رقبہ (Cropped Area) جس پر فصل اور پھل دونوں کاشت کئے جاتے ہیں۔ 2008-09 میں ایک لاکھ83 ہزار ہیکٹر تھاجو 2015-16 تک کم ہوکر ایک لاکھ 63 ہزار ہیکٹر ہو چکا ہے ۔ یعنی7 سالوں کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ کے زیر کاشت رقبہ میں 10.9 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ جس کی بڑی وجہ ان زمینوں کے استعمال میں تبدیلی ہے جس کا سب سے بڑا محرک رہائشی مقاصد کے لئے زمینوں کا تصرف ہے۔ یوں ہمارے بڑے اور درمیانے شہر پھیلتے پھیلتے دیہی علاقوں اور زرخیز زمینوں کو جو شہر کے اندر آچکی ہیں یا ابھی شہر سے ملحقہ ہیں کوہضم کر رہے ہیں ۔
ان زمینوں کو نگلنے کی وجوہات میں سے شہروں کی آبادی میں اضافہ جو قدرتی اور انسانی ہجرت دونوں وجہ سے ہے نمایاں ہے۔ دیہات سے شہروں میں لوگوں کی منتقلی زیادہ دباؤ کا باعث بن رہی ہے جس کی بڑی وجہ کلائیمٹ چینج ہے جو ملک کے اکثر حصوں میں پانی کے وسائل میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے اوقات کار بھی بدل رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے منفی اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہو رہے ہیں ۔
جبکہ زراعت کے شعبے میں اخراجات اور آمدن کے درمیان فرق بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقہ اور شہری علاقوں کے درمیان سہولیات اور روزگار کے مواقع کی بڑھتی ہوئی تفریق، روزگار کے دیگر ذرائع کا محدود ہونا اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل دیہی لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
اس امر کی تائید اکنامک سروے آف پاکستان کے یہ اعدادوشمار بخوبی کر رہے ہیں جن کے مطابق ملک کے دیہی علاقوںمیں سب سے زیادہ زرعی شعبے کو خداحافظ کہنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جہاں 1994-95 سے2014-15 تک باروزگار دیہی افراد کا زراعت کے شعبے سے وابستگی کا تناسب 57.46 فیصد سے کم ہوکر 41.15 فیصدپر آگیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب 1998 اور2017 کی مردم شماری کی رپورٹس اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہیں کہ ان دونوں مردم شماریوں کے دوران ملک بھر میں صوبائی سطح پر شہری آبادی میں دوسرا زیادہ اضافہ خیبر پختونخوا میں ہوا جو 92 فیصد ہے۔ اسی طرح دیہات میں زراعت کا پیشہ ترک کرنے کے حوالے سے دوسری نمایا ں کمی بلوچستان میں دیکھنے میں آئی ہے جہاںیہ تناسب 63.10 فیصد سے کم ہوکر 52.83 فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ گزشتہ اور حالیہ مردم شماری کے دوران ملک میں سب سے زیادہ شہری آبادی میں اضافہ بلوچستان میں ہوا جو 117 فیصد ہے۔
دیہی آبادی کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ہنر مندنہ ہونے کی وجہ سے شہروں میں نقل مکانی کرنے کے بعدایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سے وہ صرف اتنی ہی آمدن کما پاتے ہیں جو اُن کی روح اور جسم کے رشتے کو بمشکل قائم رکھ سکے۔یو ںوہ غربت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیںاور کم آمدن کی وجہ سے ایسے علاقوں میںرہائش اختیار کرتے ہیں جنہیں ہم سادہ الفاظ میں کچی آبادی کہتے ہیں یہ آبادیاں شہروں کے اندر یا اس سے ملحقہ زمینوں پر قائم کر لی جاتی ہیں۔ یوں اس کے ہماری فوڈ سیکورٹی خصوصاً شہری تناظر میں خوراک کے تحفظ پر دو طرح سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ زراعت کے پیشہ کو ترک کرنے کے باعث دیہی علاقوں میں زراعت کے لئے درکار افرادی قوت میں کمی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
جس کے اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہوتے ہیں۔ شہر چونکہ دیہات کی زرعی پیداور پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے اس میں کسی طرح کی کمی شہری خوراک کے تحفظ کو متاثر کرتی ہے۔ دوم دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کے پاس بہت کم وسائل ہوتے ہیں ۔چنانچہ وہ یا توایسی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں جو غیر محفوظ ہوں( جہاں آباد ہونے سے اُن کی زندگیاںخطرے کا شکار رہتی ہیں) یا پھروہ ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو شہر سے قریب ہوتے ہیں اوراُنھیں وہاں سستی زمین رہائش کے لئے مل جاتی ہے۔ یوں زرعی زمینیںرہائش کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لاہور میں راوی کے پار ایسی کئی ایک غیر منظم بستیاں موجود ہیں جن کی زمین پر پہلے کاشت کاری کی جاتی تھی۔ یوں شہر کے مضافات سے حاصل ہونے والی خوراک میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
جب پہلے سے ہی زیادہ آبادی کے دباؤ کے شکار شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں زمین کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ مانگ شہر کے اندر موجود زمینوں کے ساتھ ساتھ کے قرب وجوار میں موجود زمینوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
اورشہروں کے ارد گرد کا کسان جو پہلے ہی ایک طرف کلائیمیٹ چینج کے اثرات سے نبردآزماہے تو دوسری جانب زرعی مداخل کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فصل پر آنے والے اخراجات اور اُس سے حاصل ہونے والی آمدن کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کا شکار ہے۔ بلا آخر زمین کے اچھے پیسے ملنے کی لالچ میں اسے فروخت کر دیتا ہے۔ جس سے زمین کے استعمال کے رجحان میں تبدیلی آتی ہے ۔ اور وہ نئے رہائشی علاقوں/ کالونیوں/ اسکیموں اور انڈسٹری کے استعمال میں آجاتی ہے۔ یوں شہر بڑھتے اور زرعی زمینیں سکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور رجحان بھی زمنیوں کے استعمال میں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے وہ شہر کے گنجان آباد علاقوں سے شہر کے مضافات میں موجود کم گنجان دیہی علاقوں میں لوگوں کی منتقلی ہے۔ جسے Urban Sprawl کہتے ہیں۔ فارم ہاؤسزاور ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیزجو شہر کے اردگرد موجود چھوٹے گاؤں اور اُن کی زرعی زمینوں کو خرید کربنائی گئی ہوتی ہیں لوگ اپنی شہری املاک بیچ کر وہاں منتقل ہوجاتے ہیں اس کی واضح صورتیں ہیں۔یوں بھی شہر پھیل رہے ہیں۔
اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو ملکی حالات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات مدنظر رکھنا لازم ہے کہ شہر ی صارف90 فیصدتک خریدی ہوئی خوراک پر انحصار کرتا ہے۔ جو دیہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے یا پھر ملک میں درآمد کی جاتی ہے۔ اس لئے سال بھر تسلسل کے ساتھ خوراک کی شہروں میں دستیابی شہروں کی فوڈ سکیورٹی کا بنیادی نقطہ ہے۔ لیکن کوئی بھی واقعہ، حادثہ یا آفت اس دستیابی کو متاثر کر سکتی ہے۔ مثلاً 2010 کے سیلاب نے جہاں ہماری زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا وہیں خوراک کی نقل و حمل کو بھی جامد کر دیا۔
اِمسال ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری نے بھی ہماری فصلوں خصوصاً گندم کی فصل کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا ایک وسیع رقبہ اکثرخشک سالی کی لپیٹ میں رہتا ہے جو ہماری زرعی پیداوار کے لئے مسلسل خطرہ ہے۔ اس لئے ہمیں گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈکس 2019 کے ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو1998 سے2017 کے دوران سب سے زیادہ قدرتی آفات سے متاثر ہوئے۔ قدرتی آفات اپنی جگہ لیکن انسان کی پیدا کردہ ڈیزاسٹر نما صورت حال بھی بعض اوقات فوڈ سکیورٹی کو متاثر کرتی ہے۔ مثلاً ٹرانسپورٹرزکی ہڑتال شہروں میں خوراک کی قلت کا باعث بن جاتی ہے۔ یوں قدرتی یا انسانی عمل دونوںشہروں میںغذائی اجناس کی کمی اور اُن کی قیمتوں میںاضافہ کا موجب بن جاتے ہیں ۔
اس لئے ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے ہاں مستقبل میں قدرتی آفات یا انسانی عمل خوراک کی پیداوار اور شہروں میں اُس کی دستیابی و ترسیل میں کمی یا اسے مفلوج کر کے کسی بڑے انسانی بحران کا باعث بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ عام حالات میں دیہی علاقوں سے آنے والی خوراک کی ترسیل، پیکجنگ، سٹوریج اور مڈل مین یہ سارے عوامل مل کر اُس کی قیمتوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ دیہی علاقوں سے صارفین تک روایتی طریقہ کار کے ذریعے تازہ پیداوار کو پہنچانے میںعموماً 3 سے6 دن لگ جاتے ہیں جس سے پیداوار کے وزن اور غذائیت میں 30 سے50 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔
اس سے کسان اور صارف دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ 30 فیصد تازہ پیداوار سپلائی کے نظام میں نقائص کی وجہ سے صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہروں اور اس کے نواح میں موجود اراضی کو اربنائز کرنے کی وجہ سے ان کی ماحولیاتی نظام کے حوالے سے خدمات جیسا کہ پانی کی کشید اور بارش کے پانی کا زیرزمین ری چارج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اور ہمارے کئی ایک شہروں میں آبادی کے بڑھنے سے زیر زمین پانی کے ذخائر کا استعمال بڑھ گیا ہے اور مناسب ری چارج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ اس کی واضح مثال کوئٹہ کی ہے۔
جہاں کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار میں برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا ۔ لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا تو شہر کے اردگرد موجود کاریزوں، باغات، کھیت اور کچی زمین کو کنکریٹ نے ڈھانپ لیا تو ہوا پھر کچھ یوں کہ آج کوئٹہ اور اس کے قرب وجوار میں ہونے والی کبھی کبھار کی بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اور یہ سارا برساتی پانی بیکار بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو ری چارج کیاکرتا تھا۔ پانی کی یہ کمی کوئٹہ شہر کے قریب باقی رہ جانے والی کافی زرعی اراضی کے لئے موت کا باعث بنی اور اکثر ہرے بھرے باغ اور لہلہاتے کھیت لق ودق چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو گئے جن کاآخر کار حل رہائشی بستیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی اور انسانی عوامل کی وجہ سے زمین کی فرسودگی(ڈیزرٹیفیکیشن) دنیا میں بھر میں خوراک کی پیداوار کے لئے سنگین خطرہ اور غربت کے بڑھنے کا پیش خیمہ اور اس کا نتیجہ بھی بن رہی ہے۔کیونکہ زیادہ آمدن کے لالچ میں اور کم قیمت ادا کرنے کی وجہ سے لوگ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔
تاکہ معیار زندگی کو بہتر کیا جا سکے۔ ایسی صورتحال میں زمین کا استعمال اُس کی گنجائش سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر بنجر ہو جاتی ہے۔ یوں اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کی آمدن میں طویل المدتی اضافہ کے برعکس غربت انہیں اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے اور جب زمین اور حالاتِ کاشت کاری زرعی مقاصد کے لئے موزوں نہ رہیں تو اس پر منحصر آبادی کے روزگار کا وسیلہ ان سے چھن جاتا ہے اور وہ مستقل غربت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔
اور اگر غربت آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے تو تنزلی کا شکار قدرتی وسائل کا استعمال اور زیادہ بڑھ جاتا ہے نتیجتاً جو کل ہونا ہوتا ہے وہ آج ہی ہو جاتا ہے۔ اس لئے زمین کی فر سودگی اور غربت کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور یہ ایک دوسرے کی کیفیت میں اضافہ کے بنیادی محرکات ہیں ۔ یوں دیہی علاقوں میں بڑھتی ڈیزرٹیفیکیشن انسانی اور معاشی بحران کو آواز دے رہی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس حوالے سے صورتحال بہت تشویشناک ہے کیونکہ وزارتِ ماحولیات حکومت پاکستان کے سیسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پروجیکٹ کی ایک دستاویز کے مطابق ملک کا51 فیصد علاقہ زمین کی فر سودگی (ڈیزرٹیفیکیشن) کا شکار ہے۔
یہ تمام صورت حال عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی تعریف کردہ فوڈ سکیورٹی کی تعریف سے مکمل مطابقت نہیں رکھتی جس کے مطابق'' فوڈ سکیورٹی ایک ایسی صورتحال ہے جس میں فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے واسطے کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تمام افراد کے لئے ہر وقت جسمانی اور معاشی طور پر پہنچ میں ہونی چاہیئے۔'' یہ تعریف فوڈ سکیورٹی کے چار پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ دستیابی، استحکام، محفوظ استعمال اور رسائی۔ فوڈ سکیورٹی کے ان چار پہلوؤں کا فرداً فرداً شہری ماحول کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ اربنائزیشن خوراک کی دستیابی کے لئے ایک چیلنج ہے خاص کر خوراک کی پیداوار، اُس کے استعمال کے حوالے سے فروغ پاتے رجحانات کے تناظر میں۔ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن اور شہروں کا پھیلاؤ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ خوراک تسلسل کے ساتھ دستیاب ہو اس کے لئے خوراک کی پیداوار میں اضافہ اور استحکام ناگزیر ہے۔ خوراک کی فراہمی اور ترسیل میں استحکام شہری آبادی کے لئے ایک سنجیدہ پہلو ہے۔ ترقی یافتہ ممالک زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ وہاں ڈیزاسٹر سے نمٹنے کی تیاری زیادہ کی جاتی ہے ۔
جبکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب شہری شدید موسمی حالات، قدرتی آفات اور کئی ایک انسانی عوامل کی وجہ سے خوراک کی تواترکے ساتھ دستیابی اور استحکام کے حوالے سے اکثر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر خوراک تک رسائی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خوراک کا دسترس میں ہونا بھی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔ اس حوالے سے شہری مکین اور شہروں کے مضافاتی علاقوں کے باسی دیہی افراد کی نسبت زیادہ غیرسود مند صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اکثر اپنی خوراک خریدنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انھیں فوڈ مارکیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ قیمتوں میں اضافہ کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں خوراک کی قیمتیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ خوراک کیسی اور کتنی حاصل اور استعمال کی جائے۔خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے یا تو صارف اپنی خوراک کی مقدارکم کر دیتے ہیں اور کم خوراکی سے اُن کی صحت کو خطرات لاحق رہتے ہیں یا پھر وہ غیر معیاری خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو اُن کی صحت کے لئے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ایسے میں پاکستان جس کے52 فیصد شہری گھرانے جو نیشنل نیوٹریشن سروے2011 کے مطابق خوراک کے حوالے سے پہلے ہی غیر محفوظ ہیں ۔
ان کے لئے ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اور خاص کر شہری علاقوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی32 فیصد آبادی ( ماخذ:سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی دستاویز پاورٹی اینڈ ویلنربیلٹی اسٹیمیٹس پاکستان2016 ) جو اپنی آمدن کا پہلے ہی 50 سے 80 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خوراک تک رسائی اور اس کا کافی مقدار میں محفوظ استعمال مزید بے معنی ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل ہنگر انڈکس2018 میں پاکستان دنیا کے 119 ممالک میں سے106 نمبر پر رہے اور اسے 32.6 اسکور کے ساتھ سیریس صورتحال کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔
اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے شہر اور اس کے مضافات میں ہونے والی زراعت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہری اور مضافاتی زراعت (Urban and peri-urban agriculture)جو آمدن کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک کی پیداوار، تازہ صحت مند، سستی خوراک کی دستیابی میں اضافہ کرتی ہے اور شہری صارفین کو تازہ سبزیاں، پھل،انڈے، گوشت (پولٹری، لائیوسٹاک اور مچھلی) اور ڈیری کی مصنوعات فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ کسان کی اپنی گھریلو اور شہر کی فوڈ سکیورٹی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کیونکہ مقامی طور پر تیار کردہ خوراک کو نقل و حمل، پیکنگ اور ریفریجریشن کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی فروخت کے لئے کوئی مڈل مین بھی درکار نہیں ہوتا۔ یوں انھیں قریبی مارکیٹ میں سپلائی یا براہ راست تازگی اور غذائیت کے ساتھ مسابقتی قیمتوں پر فوڈ اسٹینڈز یا مارکیٹ اسٹالز کی مدد سے فروخت کیا جاتا ہے جس سے صارفین خاص طور پر کم آمدن والے افراد کو تازہ پیداوار تک آسان اور سستی رسائی ملتی ہے اور انھیں انتخاب کا بہتر موقع ملتا ہے اور کاشت کار کو بھی اپنی پیداوار کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ یہ موسمیاتی اور دیگر عارضی رکاوٹوں کے خلاف غذا کی گھریلو/ شہری کھپت کے استحکام کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہروں میں پیدا ہونے والے ویسٹ واٹر کی کشید شدہ صورت کو خوراک کی پیداوار میں استعمال کر کے شہروں کے ویسٹ واٹر کے استعمال کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔
یوں یہ فوڈ سکیورٹی کے چاروں پہلوؤں کو کسی نہ کسی صورت پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے گول نمبر1 غربت کا خاتمہ، گول نمبر 2 بھوک کا خاتمہ، گول نمبر12 پیداوار اور استعمال کے پائیدار رجحانات اور گول نمبر 15 پائیدار ایکو سسٹم کی حفاظت، بحالی اور پھیلاؤ کے اہداف پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بیرونی دنیا میںاس کی اہمیت کا اندازہ ان حقائق سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا میں شہروں کے مضافات میں ہونے والی زراعت جو کہ ملک بھر میں زراعت کے لئے استعمال ہونے والی زمین کے صر ف تین فیصد رقبہ پر مشتمل ہے ملک کی زرعی آوٹ پٹ کا ایک چوتھائی فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح چین کا شہر شنگھائی اپنی سبزیوں کا 60 فیصد مقامی طور پر پیدا کرتا ہے۔ چین کے شہری مضافات میں ہونے والی زراعت نے خوب ترقی ہے۔ اس تمام تر پیش رفت سے قبل بیجنگ کی ضرورت کی 70 فیصد سے زائد سبزیاں باہر سے آتی تھیں ۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ امریکہ کے تمام شہر اگر اوسطً 10 فیصد رقبہ شہری کاشت کاری کے لئے وقف کردیں تو اس سے تمام امریکیوں کو اتنی سبزی حاصل ہو سکتی ہے جس کی بطور غذا ماہرین سفارش کرتے ہیں ۔ کیونکہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق شہروں کے باغیچہ نما پلاٹ دیہات کے اس جتنے قطعہ کی نسبت15 گنا زیادہ پیداوار دیتا ہے۔ شہروں میں ایک مربع میٹر کا ٹکڑا 20 کلو تک خوراک فراہم کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد انجم علی بٹر،ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع ) پنجاب کویہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنھوں نے پنجاب میں کچن گارڈننگ کے تصور کو محکمانہ سطح پر متعارف کرایا اور محکمہ زراعت میں کچن گارڈننگ کے حوالے سے ایک خصوصی پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد صوبے میں سبزیوں کی کاشت کو دیہی اور خصوصاً شہری سطح پر فروغ دینا ہے تاکہ اربنائزیشن کے شہری فوڈ سکیورٹی پر مرتب والے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے اور گھریلو سطح پر تازہ اور نامیاتی سبزیوں کی کاشت کو فروغ مل سکے۔ یہ پراجیکٹ آج بھی جاری ہے جس کے تحت موسمِ گرما اور سرما کی مختلف سبزیوں کے بیج کے پیکٹس رعایتی نرخ پر کاشت کاروں اور گھریلو صارفین کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔
فروخت ہونے والے بیج کے پیکٹس کی تعداد 5 ہزار سے بڑھ کر 5 لاکھ سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے پراجیکٹ کے تحت ٹریننگ پروگرامزکا بھی باقاعدگی سے اہتمام ہوتا ہے ۔اُ ن کے مطابق دنیا میں اربن ایگریکلچر ایک مسلّمہ حقیقت ہے اورادارے اس پر کام کر رہے ہیں ۔ بیرونِ ممالک کے شہروں میں لوگ چھتوں پر،گملوں کیاریوں میں، پرانے ٹائروں میں، جالیوں میں، شاپر بیگوں میں، کھلے منہ کے برتنوں میں، بالکونی میں، باغیچوں میںاور زمین کے خالی قطعات/ پلاٹس وغیرہ میں کاشت کاری کر کے اپنی خوراک کے وسائل خود پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن گھریلو سطح پر اربن ایگریکلچر کی اہمیت اور اپنی تمام تر محکمانہ کوشش کے باوجود ڈی جی صاحب اس حقیقت کا بھی اعتراف کر تے ہیں کہ ہمارے شہری علاقوں میں گھریلو سطح پر خوراک پیدا کرنے کا ابھی اتنا شوق اور جستجو پیدا نہیں ہو سکی جتنی ہونی چاہیئے ۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اجتماعی ذمہ داری کے رویہ کے فقدان اور اس حوالے سے کوششوں کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ ہم گھروں کی آرائش اور زیبائش کے لئے پھولوں کی کاشت کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن سبزیوں کی پیداوار حاصل کرنے کی طرف کوئی قابلِ ذکر توجہ نہیں دیتے جو تازہ اورمعیاری خوراک کے حصول کے حوالے سے ہماری عملی سنجیدگی کی واضح مثال ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ اُن کے نزدیک ایک ٹیکنیکل کمی سبزیوں کی پنیریوں کا باآسانی دستیاب نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری کمرشل نرسریوں میں پھولوں اور دیگر دیدہ زیب پودوں کی پنیریوں کی طرح سبزیوں کی پنیریوں کا ملنا بھی ممکن ہونا چاہیئے۔ جس کے لئے نجی شعبہ کو آگے آنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اُن کا کہنا ہے کہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی اور میونسپلٹیز کے پاس چونکہ فلوریکلچر کی مہارت ہے اس لئے ان ایکسپرٹیز کا استعمال اربن زراعت کے حوالے سے زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے کیونکہ ہماری خوراک میں سبزی کا استعمال بہت کم ہے جو 30 سے40 گرام روزانہ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت فعال اور صحت مند زندگی کے لئے یومیہ 200 سے250 گرام سبزیوں کا استعمال تجویز کرتا ہے۔ اس لئے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دیہی اور شہری علاقوں میں سبزیوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔اور شہری باسیوں میں خصوصاً اس کا شوق پروان چڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ میڈیا کے کردار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا اپنے مندرجات میں پبلک براڈکاسٹنگ کے تناسب کو بڑھائے اور اس طرح کے موضوعات کو اپنی ایک سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پیش کرے ۔ شہروں کے قرب وجوار میں موجود زرعی زمینوں کے تحفظ کے سلسلے میں اپنے محکمہ کے کردار کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لینڈ یو ٹیلائزیشن ایکٹ اور لینڈ یو ٹیلائزیشن پالیسیز کی بات ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم نے شہروں کے قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کے رہائشی مقاصد یعنی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر پر پابندی لگا دی ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔کیونکہ محکمہ زراعت اور اُس کے کارکن یہ چاہتے ہیں کہ وہ زرخیز قطعات جو شہروں سے ملحقہ ہیں اور 15 سے20 ٹن تک سالانہ خوراک دیتے ہیں۔ قوم اُن کی پیداوار سے محروم نہ ہو۔ لیکن اس حوالے سے جو بڑا چیلنج ہے وہ کاشت کار کے منافع میں کمی کا آنا ہے۔ ہمیں کاشت کار ی کے اخراجات میں کمی لا کر کسان کے منافع کو بڑھانا ہے تاکہ وہ رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے جب اربنائزیشن کی وجہ سے بہت زیادہ زرخیز زمین خاص طور پر سبزیوں والی زمین کا استعمال تبدیل ہونا شروع ہوا تو محکمہ زراعت پنجاب نے فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ڈیو یلپمنٹ کی اسکیمیں شروع کیں ۔ 200 سے زائد جگہوں پر فارم فیلڈ اسکول منعقد کئے اور کاشت کاروں کو سبزیوں کی کاشت کی ٹریننگ دی ۔ کیونکہ سبزی اُگانا ایک آرٹ ہے اورآرٹسٹ بڑی مشکل سے بنتا ہے۔
اس کے علاوہ محکمہ نے 526 ملین کی ٹنل فارمنگ پر سبسڈی دی ۔ بیج پر سبسڈی دی ۔ معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ مشینری کے شعبہ میں کسان کی مدد کی اور پانی کے بہتر استعمال کے مختلف پروگرامزکے ذریعے اُس کی اعانت کی ۔ پیداوار کی بہتر مارکیٹنگ میں معاونت کی اور یہ تمام سلسلہ تا حال جاری ہے۔ موجودہ حکومت بھی زراعت کی ترقی میں بھرپور دلچسپی رکھتی ہے اور اُس نے جو نیشنل پروگرام دیئے ہیں۔ ان میںصرف کاشت کار کی سہولت کے لئے پنجاب میں 26 ارب روپے مشینری، بیج اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر خرچ کئے جا رہے ہیں اور اس حکومت کی زرعی پالیسی کا بنیادی مقصد کاشت کار کی زندگی میں بہتری لانا ہے۔
پاکستان جو پہلے ہی اپنے خوراک کے پیداواری وسائل پر آبادی کے شدید دباؤ اور کلائیمیٹ چینج کے اثرات کا شکار ہے۔ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزید زرعی زمین ( وہ بھی زرخیز) جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہیں انھیں کھوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی تعمیر پر جو پابندی لگا ئی گئی ہے وہ ایک نہایت احسن اقدام ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے خوراک اور غذائیت کی سکیورٹی کی حکمت عملی کے طور پر شہری زراعت/کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے اردگرد موجود زراعت کے نظام کی حفاظت اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لئے رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے اور کسی انسانی بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔
ایک کچن گارڈنر
ڈاکٹر محمد راشد خان جامعہ پنجاب کے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔گارڈننگ کا شوق اور عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ جامعہ میں واقع اپنے گھر میں سبزیوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے پھل دار درخت بھی لگا رکھے ہیںاور پولٹری بھی رکھی ہوئی ہے۔ اپنی فوڈ کا ایک نمایاں حصہ وہ خود پیدا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں'' یونیورسٹی نے مجھے جو رہائش فراہم کی ہوئی ہے اُس میں کافی جگہ موجود تھی جہاں کچھ کیا جا سکتا تھا۔ میں یہ اکثر سوچتا تھا کہ اس کو کس طرح استعمال میں لایا جائے۔
ایک روز میں نے یونیورسٹی میں ایک بہت خوب صورت درخت دیکھا جس پر ایک پیلی سی چڑیا اپنا گھر بنا رہی تھی۔ اور اُس پر کوئی پھل بھی لگ رہا تھا ۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ چیکو کا درخت ہے۔ دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایاکہ ایسا کوئی درخت میرے گھر بھی ہو ۔ سو میں نے ایک دوست کے توسط سے شروع میں اپنے گھر میں چیکو، انار اور انجیر کے پودے لگائے۔ یہ پودے مختصر عرصے میں پھل دار درخت بن گئے۔ اور خوب ڈھیر سا شاندار پھل دینے لگے۔ اس سے مجھے مزید شوق ہوا اور میں نے گریپ فروٹ پپیتہ، امرود اور لیموں کے پودے بھی لگا لئے۔ سبزیوں کی کاشت کاری کا آغاز میں نے اس وجہ سے کیا کہ میں ریڈیو پر زرعی پروگرام کرتا تھا جہاں ماہرین کی گفتگو سے مجھے پتا چلا کہ ہمارے شہروں میں سبزیوں کی کاشت کے لئے کافی جگہوں پر سیوریج کا پانی استعمال ہوتا ہے۔
اورسیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کے ایک مائیکروبیالوجسٹ سے بھی اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں میں بیکٹیریا آجاتا ہے جو جسم میں مختلف طرح کی درد اور گیس کا باعث بنتا ہے۔ اُس کے بعد میں جب بھی سبزی خریدتا تو اپنی بیگم سے کہتا کہ پتا نہیں یہ صاف پانی کی ہے بھی کہ نہیں۔ میری بیگم کو بھی اس حوالے سے تشویش تھی۔ چونکہ اُنھیں پھولوں کا شوق ہے تو ایک روز اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس جگہ بھی ہے تو کیوں نا ہم گھر پر ہی سبزیاں کاشت کر یں ۔ یوں میں نے اس مفید مشورے پر فوراً عمل درآمد کر ڈالا۔ ان دنوں اخبار میں محکمہ زراعت کی جانب سے گھروں میں سبزیوں کی کاشت کے حوالے بیج کے پیکٹس کے اشتہارات آرہے تھے۔
جس کی قیمت فی پیکٹ 50 روپے تھی۔ ایک پیکٹ خریدا اور جامعہ کے ایک مالی بابا کے توسط سے چند فٹ زمین پر ٹماٹر، گوبھی، براکلی، بند گوبھی، شلجم ، دھنیا اور سلاد کے پتے کاشت کئے۔ مالی بابا نے زمین تیارکی، کھیلیاں بنائیں اور بیج بوئے۔ میں نے ان پودوں کی خوب دیکھ بھال کی جس کا شاندار رزلٹ آیا۔اب میں ہر موسم میں آرگینک سبزیاں اُگاتا ہوں جو یوریا، ڈی اے پی، کیڑے مار زہریلی ادویات کے اسپرے سے پاک ہوتی ہیں جسے صرف گھر میں تیار پتوں اور گوبر والی کھاد دی جاتی ہے۔
اس سے اتنی مقدار میں سبزیاں حاصل ہو جاتی ہیں جو ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں۔ اور دوستوں اور احباب کو تحفتاً دینے کے بعد بھی بچ جاتی ہیں۔ میں شروع میں ساری سبزیاں ایک ہی روز کاشت کر لیتا تھا جس سے پیداوار ایک بار اکٹھی ملتی تھی ۔اب میں سبزیوں کو مختلف وقفوں کے بعد کاشت کر تا ہوں اس سے مجھے تواتر کے ساتھ سبزی ملتی رہتی ہے۔ سبزیوں کی اس فراوانی نے ہماری غذا میں اپنی کافی جگہ بنا لی ہے خصوصاً سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزیوں نے ۔ جن کا استعمال پہلے بھی تھا لیکن اکثر بازار سے لانے میں تساہل کی وجہ سے قدرے کم تھا ۔ اس کے علاوہ یہ سب سبزیاں مجھے 100 روپے سے بھی کم لاگت میں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اور جتنی ان کی پیداوار ہوتی ہے اُتنی سبزی بازار سے ہزاروں روپے میں آتی ہے۔
اس لئے ان کے کچن بجٹ پر بھی بڑے مثبت اثرا ت مرتب ہوئے ہیں۔'' ڈاکٹر راشد نے ایک بات خصوصی طور پر کہی کہ ہمارے شہر چونکہ افقی طور پر پھیل رہے ہیں اس لئے کافی گھروں میں اتنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ وہاںکچن گارڈننگ کی جا سکے۔ لیکن اگر کسی کے پاس جگہ نہیں ہے تو بھی گملوں یاکسی ایسی چیز یا برتن جس میں مٹی اکٹھی کی جا سکے اور اُس کا منہ کھلا ہو اُس میں سبزی کاشت کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ہمارے شہر وں میں خصوصاً جنوبی لاہور میں بڑے بڑے گھر موجود ہیں۔ جہاں صحت کے حوالے سے بہت فکر مند کلاس رہتی ہے۔ لیکن ان بڑے بڑے گھروں میںجہاں بڑی آسانی سے کچن گارڈننگ کے لئے جگہ میسر ہوسکتی ہے اس جانب توجہ نہیں دی جاتی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔