انڈیا کی ٹوٹ پھوٹ کا وقت

یہ بات اب ہندوستانی مسلمان سمجھ چکے ہیں کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جاچکا ہے

مودی کے حالیہ اقدام نے ہندوستانی جمہوریت سے عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہندوستانی مسلمان جانتے ہیں کہ کس طرح کشمیر میں ان کی مرضی اور خواہش کے خلاف حکومتی عمل جاری ہے۔ ان کے عزم کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عرصہ دراز سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کشمیر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی وہ خو کو کشمیر سے وابستہ کرتے ہیں۔ لیکن مودی نے آکر سب کچھ الٹ پلٹ کردیا۔

کشمیر کی خاص حیثیت کو تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد وہاں کرفیو اور پابندیوں کا گھناؤنا عمل جاری ہے۔ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی وجہ سے کشمیر میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوچکی ہے۔ خود ہندوستان کے اندر اس مسئلے پر عوام، سیاستدان اور ہر دوسرا طبقہ اپنے اپنے تحفظات کا اظہارکر رہا ہے۔ وہاں اسے کوئی سیاسی تقسیم، غلط یا صحیح کی جنگ یا مودی مخالف کے طور پر نہیں لیا جارہا بلکہ اسے مسلمان بمقابلہ باقی سب سمجھا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر ہندوستانی جانتا تو ہے مگر کہنا نہیں چاہتا۔

یہ بات اب ہندوستانی مسلمان سمجھ چکے ہیں کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جاچکا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں کیا کیا جارہا ہے اور کیا ہورہا ہے۔ اس طرح کے بیانات کہ 'کشمیر ہمارا ہے' فضا ہموار کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اور انہیں اتنے تواتر اور بہتات سے پیش کیا جارہا ہے جیسے بارش کی بوچھاڑ ہو۔ یہ سب دائیں بازو کی کارروائی ہے۔

کشمیر کی خودمختاری سلب کرکے اتنی خوشی منائی جارہی ہے کہ اس میں کشمیر اور کشمیر میں رہنے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ہندوستان صرف کشمیر غصب کرنے کے چکر میں کشمیریوں کو یکسر نظرانداز کر بیٹھا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انڈیا کو صرف کشمیر سے غرض ہے، اس میں رہنے والوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کشمیریوں کی سرزمین پر ظالمانہ قبضہ کرنے کی سازش کچھ یوں تیار کی گئی ہے کہ غیر کشمیری وہاں جاکر آباد ہوں اور کشمیریوں کو ہی اقلیت میں تبدیل کردیں۔

ہندوستانی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ ہندوستانیوں کے ذہنوں میں یہ غلط نظریہ ٹھونس دیا جائے کہ کشمیر میں تحریک صرف چند لوگوں کی وجہ سے ہے، جو اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اور ان فتوے دینے والے اور شریعت سے پیار کرنے والوں کے بہکاوے میں آکر کشمیری بس پتھر پھینک کر اپنا احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ ہندوستانی تحریک آزادی کشمیر کو اسلامو فوبیا سے منسلک کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہیں۔


ہندوستانیوں کا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو پانچ اگست سے گھروں میں محصور کردیا گیا ہے۔ وہ روزمرہ ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں۔ چھوٹے بڑے سب بے حال ہیں۔ یہاں تک کہ ادویہ اور بچوں کےلیے دودھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ پورے کشمیر کو ایک جیل بنادیا گیا ہے۔ جیل بھی ایسی، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عالمی میڈیا کو بھی حالات جاننے کی اجازت نہیں۔ اور کچھ وہ جانتے ہوئے بھی بتانا نہیں چاہتے۔ کمیونیکیشن کے تمام ذرائع معطل ہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ بھارتی فوج وہاں کتنے مظالم ڈھا رہی ہے اور کتنے کشمیریوں کو شہید کررہی ہے، کتنے گھر مسمار کر رہی ہے۔ کتنی عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر رہی ہے۔ تاحال کوئی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی مدد کرنے کو نہیں پہنچا۔ ریڈ کراس، اقوام متحدہ کے ادارے، بین الاقوامی ادارے سب انڈیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

ہندوستانی مسلمان جو کبھی مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی کیا کرتے تھے آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی نے کشمیر کا حق غصب کیا ہے۔ وہ اپنا مقدر بھی مودی کے اس فیصلے سے جوڑ رہے ہیں کہ جیسے مسلم اکثریت والے کشمیر کو زبردستی اپنے اندر شامل کرنا چاہتا ہے، اسی طرح باقی سارے ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا جائے گا۔ اگرچہ اس وقت بھی انڈیا میں مسلم کش پالیسی پر ہی عمل کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں ہندوسان میں انہیں کچھ بھی نہیں سمجھا جائے گا۔

یہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ زبانی اور جسمانی تشدد کے مترادف ہے۔ زبانی اس طرح کہ مسلمانوں نے اب سوشل میڈیا پر وندے ماترم، جے شری رام یا جے ہند کہنے سے انکار کردیا ہے۔ اور شدت پسند بدتہذیب ہندو انہیں گالم گلوچ کررہے ہیں۔ ایک کمپین چلا رہے ہیں کہ مسلمان کو ہی ہر برائی کی جڑ سمجھا جائے۔ اور جسمانی تشدد کی بے شمار مثالیں ہیں کہ غیر ہندوؤں پر کتنا بدترین تشدد روا رکھا جارہا ہے۔

جس بات کو قطعی نظر انداز کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ مودی کے اس عمل نے ہندوستانی جمہوریت سے عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ اس سے سخت کرفیو کشمیری دیکھ بھی چکے ہیں اور سہہ بھی چکے ہیں، مگر یہ اس لیے ان سب سے ظالمانہ ہے کہ ان سے ان کی زمین چھینی جارہی ہے۔ ان کی کشمیری شناخت چھینی جارہی ہے، جس سے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اور اپنی اس شناخت کی بقا اور اس کے تحفظ کےلیے اپنی جان بھی قربان کرنے کےلیے تیار ہیں۔ مودی کا یہ غلط فیصلہ کشمیری تو کیا ہندوستانی مسلمان بھی برداشت نہیں کر پا رہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مودی نہ صرف کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ دوسری بہت سی ریاستیں بھی بددلی کا شکار ہوکر ہندوستان یونین سے علیحدگی کی راہ اپنائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story