پشاور میں بدترین دہشت گردی
دھماکا اس وقت ہوا جب مسیحی برادری کے افراد دعائیہ تقریب کے بعد چرچ سے باہر آ رہے تھے۔
خیبر پختونخوا میں پشاور کے معروف علاقے کوہاٹی گیٹ کے سامنے تاریخی گھرجا گھر میں دو خود کش دھماکوں میں ان سطور کے لکھے جانے تک ہلاکتوں کی تعداد 78ہو گئی ہے جب کہ150 سے زائد زخمی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب مسیحی برادری کے افراد دعائیہ تقریب کے بعد چرچ سے باہر آ رہے تھے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پیپلز پارٹی' تحریک انصاف اور مینارٹی الائنس نے ملک بھر میں سوگ کا اعلان کیا ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین' وزیراعظم میاں نواز شریف' تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان' پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
دہشت گردوں کا ٹارگٹ بننے والا یہ چرچ اس شہر کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔ اتوار کو بڑی تعداد میں مسیحی برادری عبادت کے لیے گرجا گھر آتی ہے' جب یہاں خود کش دھماکے ہوئے' اس وقت سیکڑوں افراد گرجا گھر میں موجود تھے۔اسی وجہ سے ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اب کوئی نئی بات نہیں رہے ہیں' ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا ہے' اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقتدر حلقے اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دہشت گرد اپنی کارروائیاں کرتے رہے اور ان کے بعد پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی برسراقتدار آئے' تب بھی دہشت گرد خود کش حملے کرتے رہے' اب موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے تقریباً 3 ماہ ہونے والے ہیں' اس دوران بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر حکومتی سطح پر پالیسیوں کا یہ عالم رہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سوائے سوات اور جنوبی وزیرستان کے کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی' دہشت گرد نہ صرف غیر مسلم اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے لیے بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ افراد پر حملے کیے گئے جن میں سیکڑوں افرادجاں بحق ہوئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہ میں بھی قتل و غارت کی گئی تھی'اس سازش کو تیار کرنے والے بے نقاب نہیں ہو سکے۔دہشت گردوں نے سیکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنایا اور فوج کے ساتھ بھی برسرپیکار ہیں' ماضی کی حکومت بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کرتی رہی اور اب موجودہ حکومت بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ ادھر ملک کی سیاسی قیادت بھی اس معاملے میں دو عملی اور خوف کا شکار ہے۔ حالت یہ ہے کہ پشاور میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا لیکن صوبائی حکومت کا کوئی وزیر یا وزیراعلیٰ جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے۔چندروز پہلے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کے صوبے میں امن و امان کی حالت بہتر ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کمزوری اور سیاسی قیادت کی نااہلی اور بے بصیرتی نے دہشت گردوں کو اتنا طاقتور کر دیا ہے کہ وہ آئے روز بے گناہوں کی جانیں لیتے رہتے ہیں اور حکومت مذمتی بیان جاری کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اکثر سیاسی جماعتوں کو ڈرون حملوں پر احتجاج کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ مسیحی برادری پاکستان کی پسماندہ اور کمزورترین اقلیت ہے۔ ان کے پاس اعلیٰ ملازمتیں ہیں نہ روز گار ہے' اس پسماندہ اقلیت پر دہشت گردانہ حملے بزدلی اور پرلے درجے کی کمینگی ہے' اس قسم کے واقعات سے دین اسلام بھی بدنام ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں' سابق دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا' وہ عالمی سطح پر جانے جانے والی شخصیت تھے۔
عالمی سطح پر اب بھی اس بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں' چند روز بیشتر بہارہ کہو سے القاعدہ کے مبینہ کارکن گرفتار ہوئے تھے' ان میں سے ایک نے شہباز بھٹی کے قتل کا اعتراف بھی کیا ہے' یہ ایسے معاملات ہیں'جن پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں پر حملے دہشت گردوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ سانحہ پشاور کے ردعمل میں پورے ملک میں مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے' سول سوسائٹی بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ اس سانحے نے عالمی برادری میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ارباب اختیار مصلحت کوشی کو خیر باد کہہ کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی پالیسی اختیار کریں۔ دہشت گردوں اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں یا ان کے ہمدردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔پاکستان کے اہل علم' دانشوروں اور سول سوسائٹی کا فرض ہے کہ وہ انتہا پسندی کی حمایت کرنے والی سیاسی قیادت کا بائیکاٹ کرے تاکہ انھیں احساس ہوکہ ملک کے عوام اور باشعور طبقہ انھیں پسند نہیں کرتا۔ اس طریقے سے ہی دہشت گردی سے نجات پائی جا سکتی ہے۔
دہشت گردوں کا ٹارگٹ بننے والا یہ چرچ اس شہر کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔ اتوار کو بڑی تعداد میں مسیحی برادری عبادت کے لیے گرجا گھر آتی ہے' جب یہاں خود کش دھماکے ہوئے' اس وقت سیکڑوں افراد گرجا گھر میں موجود تھے۔اسی وجہ سے ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اب کوئی نئی بات نہیں رہے ہیں' ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا ہے' اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقتدر حلقے اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دہشت گرد اپنی کارروائیاں کرتے رہے اور ان کے بعد پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی برسراقتدار آئے' تب بھی دہشت گرد خود کش حملے کرتے رہے' اب موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے تقریباً 3 ماہ ہونے والے ہیں' اس دوران بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر حکومتی سطح پر پالیسیوں کا یہ عالم رہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سوائے سوات اور جنوبی وزیرستان کے کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی' دہشت گرد نہ صرف غیر مسلم اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کے لیے بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ افراد پر حملے کیے گئے جن میں سیکڑوں افرادجاں بحق ہوئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہ میں بھی قتل و غارت کی گئی تھی'اس سازش کو تیار کرنے والے بے نقاب نہیں ہو سکے۔دہشت گردوں نے سیکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنایا اور فوج کے ساتھ بھی برسرپیکار ہیں' ماضی کی حکومت بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کرتی رہی اور اب موجودہ حکومت بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ ادھر ملک کی سیاسی قیادت بھی اس معاملے میں دو عملی اور خوف کا شکار ہے۔ حالت یہ ہے کہ پشاور میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا لیکن صوبائی حکومت کا کوئی وزیر یا وزیراعلیٰ جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے۔چندروز پہلے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کے صوبے میں امن و امان کی حالت بہتر ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کمزوری اور سیاسی قیادت کی نااہلی اور بے بصیرتی نے دہشت گردوں کو اتنا طاقتور کر دیا ہے کہ وہ آئے روز بے گناہوں کی جانیں لیتے رہتے ہیں اور حکومت مذمتی بیان جاری کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اکثر سیاسی جماعتوں کو ڈرون حملوں پر احتجاج کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ مسیحی برادری پاکستان کی پسماندہ اور کمزورترین اقلیت ہے۔ ان کے پاس اعلیٰ ملازمتیں ہیں نہ روز گار ہے' اس پسماندہ اقلیت پر دہشت گردانہ حملے بزدلی اور پرلے درجے کی کمینگی ہے' اس قسم کے واقعات سے دین اسلام بھی بدنام ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں' سابق دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا' وہ عالمی سطح پر جانے جانے والی شخصیت تھے۔
عالمی سطح پر اب بھی اس بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں' چند روز بیشتر بہارہ کہو سے القاعدہ کے مبینہ کارکن گرفتار ہوئے تھے' ان میں سے ایک نے شہباز بھٹی کے قتل کا اعتراف بھی کیا ہے' یہ ایسے معاملات ہیں'جن پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں پر حملے دہشت گردوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ سانحہ پشاور کے ردعمل میں پورے ملک میں مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے' سول سوسائٹی بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ اس سانحے نے عالمی برادری میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ارباب اختیار مصلحت کوشی کو خیر باد کہہ کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی پالیسی اختیار کریں۔ دہشت گردوں اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں یا ان کے ہمدردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔پاکستان کے اہل علم' دانشوروں اور سول سوسائٹی کا فرض ہے کہ وہ انتہا پسندی کی حمایت کرنے والی سیاسی قیادت کا بائیکاٹ کرے تاکہ انھیں احساس ہوکہ ملک کے عوام اور باشعور طبقہ انھیں پسند نہیں کرتا۔ اس طریقے سے ہی دہشت گردی سے نجات پائی جا سکتی ہے۔